کسی کو پتہ ہو تو وہ مجھے بتا دے تاکہ میں قارئین کے علم میں اضافہ کرسکوں۔
معلومات کا اس قدر فقدان ا ور قحط ہے کہ سر کسی دیوار سے پٹخنے کو جی چاہتا ہے، وہ لوگ جواس مسئلے پر کام کرر ہے ہیں، وہ بھی ہاتھ نہیں آتے۔
ایک اعلی سطحی امریکی وفد پاکستان میں ہے، جی ایچ کیو میں ملاقاتیں کر چکاہے،اب سول قیادت سے ملا قاتیں طے ہیں،میڈیا کے لئے اس قدر مبہم خبر جاری کی جاتی ہے کہ اس پر مغز کھپائی سے بھی کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
اگر تو اچکزئی کاا ستدلال درست ہے کہ خیبر پی کے افغانوں کاہے ا ور انہیں وہاں سے کوئی نہیں نکال سکتا تو فوج کو بارڈر مینجمنٹ کاشوق کیوں چرایا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس اشو پر سول قیادت امریکی وفد سے کیا طے کرتی ہے، یاا س کالب و لہجہ بھی وہی ہو گا جو جی ایچ کیو کا تھا تو پھر اگلی جنگ افغانستان سے ہونے کا خدشہ یقینی شکل اختیار کر جائے گا۔
اس افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج بھی موجود ہیں، ہمارے انتہائی محترم دوست ترکی کی فوج بھی ان کا حصہ ہے تو کیا اب ہماری ٹکر ان سب سے ہو گی۔
میں اب قیافے سے کام لیتا ہوں۔جھگڑ ا یہ لگتا ہے کہ پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ فاٹا سے حقانی گروپ کو افغانستان میں حملوں سے روکے۔پاکستان جواب میں کہتا ہے کہ حملے تو افغانستان سے پاکستان میں ہو رہے ہیں اور یہ ملا فضل اللہ گروپ کر رہا ہے، اسے روکنے کے لئے افغانستان اپنا کردار ادا کرے۔ ساتھ ہی پاکستان تجویز پیش کرتا ہے کہ یہ جو ڈیورنڈ لائن ہے،ا سے کھلا اور بے خصمہ نہ چھوڑا جائے۔اس لائن کوماضی میں حملہ آور تو روندتے رہے ہیں۔اب کم از کم پاوندے تواس کو نہ روندیں تاکہ ان کے بھیس میں دہشت گرد آر پار، مار نہ کر سکیں۔اس پر افغانستان کہتا ہے کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد نہیں مانتا، نہ پاکستان کو اسے سیل کرنے دے گا، تو پھر حساب، الجبرے اور جیومیٹری اور منطق کے ہر فارمولے کی روسے آر پار دہشت گردی بند نہیں ہو سکتی اور اگر یہ بند نہیں ہو سکتی توپاکستان ا ور افغانستان کے فوجی تصادم کو بھی کوئی نہیں روک سکتا،یہ جنگ چھڑی تو افغانستان کی ڈھٹائی کی وجہ سے چھڑے گی اور امریکہ ا ور نیٹو افواج ا س جنگ میں کدھر ہوں گی، یہ اندازہ لگانا اس قدر مشکل بھی نہیں ہونا چاہئے۔
ڈیورنڈ لائن کے پار سے پاکستان پر اب تک کئی حملے ہو چکے ہیں۔ سلالہ چوکی ا س کی المناک مثال ہے اور ایبٹ آباد پر شب خون تو ہماری خود مختاری کے منہ پہ تھپڑ ہے۔ڈرون تو آئے روز حملے کرتے ہیں ، پاکستان نے تنگ آکر اقوم متحدہ سے بھی استدعا کی ہے کہ ڈرون حملے بند کروائے جائیں مگر تعجب کی بات یہ ہے کہ عمران ڈرون حملوں کی مخالفت میں بہت پر جوش تھا،ا س کا یہ سارا جوش کیوں ٹھنڈا پڑ گیا اور باقی پاکستان میں بھی تو غیرت مند ہی بستے ہیں ، ان کی غیرت کہاں مر گئی۔
پاکستان کی خود مختار حیثیت پر سوالیہ نشان تواسی روز اٹھ گیا تھا جب امریکہ نے ایف پاک کے لئے ایک نمائندہ نامزد کر دیا۔میر اماتھا تو اسی روز ٹھنکا تھاجب سارک میں افغانستان کو شامل کر دیا گیا، یہ ملک جنو ب مشرقی ایشیا کا حصہ کس اٹلس نے بنایا، ایسی کوئی اٹلس ابھی تک شائع نہیں ہوئی مگر ہمیں ذہنی طور پر اس نقشے کو قبول کرنے کے لئے مجبور کیا جارہا ہے۔
اور یہ جارج مکین اور انکے ساتھی دو امریکی سینیٹروں کا ایف پاک سے کیا لینا دینا، وہ امریکی سینیٹ کی فوجی کمیٹی کے ممبر تو ہیں مگر امریکی سینیٹ کا دائرہ اختیار اسلام آباد اورا س سے آگے ہمارے جی ایچ کیو تک کیسے پھیل گیا۔ان وفود کو ہم ضرور سرآنکھوں پہ بٹھائیں جب یہ بر صغیر کے پیچیدہ، سنگین اور کئی جنگوں کا باعث بننے والے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے آئیں۔اس بات کی توفیق تو امریکیوں کو نہیں ہوئی، نہ برطانیہ کوہوتی ہے جس نے یہ مسئلہ پیدا کیا۔بلکہ ا س کے ریڈ کلف ایوارڈ نے اسے مستقل جھگڑے ا ور فساد کی شکل دی۔
خدا نہ کرے اب باردڑ مینجمنٹ میں بھی کوئی ریڈ کلف کود پڑے اور پاکستان اپنی مغربی سرحد پر ایک اور خطرے میں پھنس کر رہ جائے۔
سینٹر جان مکین کو ایک جہاندیدہ اور مؤثر امریکی شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے، وہ سابق فوجی ہیں اور اشوز کو ہر زاویئے سے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔میں جب یہ سطور لکھ رہاہوں تو امرکی سینٹرز کا یہ گروپ میران شاہ کا دورہ کرنے میں مصروف ہے، یہ امریکی لوگ تو پاکستان میں قدم رکھنے سے ڈرتے ہیں، کجا یہ کہ وہ فاٹا کے علاقہ غیر میں آزادانہ گھومیں پھریں۔ امریکی وفد کی آنکھیں ضرورتحیر میں ڈوب گئی ہوں گی جب انہوں نے دہشت گردی سے پاک علاقہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔اس نادر تجربے نے انہیں یہ بھی باور کرا دیا ہو گا کہ پاک فوج کی کامیابیاں صرف پروپیگنڈے تک محدود نہیں بلکہ زمینی حقائق اس کی تصدیق کرتے ہیں۔پاک فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا لوہا دنیا ایسے ہی نہیں مانتی۔
بارڈر مینجمنٹ کی ضرورت اس لئے ہے کہ پاک فوج اپنی قربانیاں ضائع نہیں جانے دے سکتی ، اگر یہ بارڈر کھلا رہے اور ہما شما بلا روک ٹوک آتے جاتے رہیں تو دہشت گرد پھر سے ان دشوار گزار پہاڑوں کی کمین گاہوں میں آن بیٹھیں گے جہاں سے نکالنے کے لئے پاک فوج نے بیش قیمت جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ جان مکین کے وفد نے میران شاہ میں ان شہدا کی یادگار پر بھی حاضری دی۔
جب پاکستان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو افغان حملہ آوروں کے اڈے کے طور پر استعمال نہ کرنے دے تو پاکستان یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ ڈیورنڈ لائن کو سیل کر دیا جائے، آمد ورفت کو سفری دستاویزات سے مشروط کر دیا جائے۔
پاکستان ا س مادر پدرآزاد سرحد سے کی وجہ سے کئی بارزخمی ہو چکا ہے۔ آرمی پبلک اسکول کے دہشت گرد بھی طورخم کے راستے بلا روک ٹوک پشاور پہنچے تھے ا ور چارسدہ یونیورسٹی میں خونریزی کرنے والوں نے بھی طورخم کے کھلے بارڈر کا غلط فائدہ اٹھایا تھا۔
پاکستان کے دلائل کا جواب کسی کے پاس نہیں اور اگر کوئی دلیل سے نہیں مانتا تو پھر ان بھوتوں کو لاتوں سے منوانے کا ہنر پاک فوج کو اچھی طرح ازبر ہے، جان مکین اورا س کے ساتھی دو سینیٹرز، پاک فوج کی اس صلاحیت کے عملی مظاہرے کا نظارہ کر چکے۔
یہاں میرے پاس بھارتی وزیراعظم مودی کے اس سوال کا جواب بھی ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ پاکستان میں طاقت کا مرکز کونسا ہے ا ور کس سے بات کی جائے۔ وہ امریکی سینیٹرز کے دورے کو دیکھ لے کہ وہ ہفتے کے روز ایئر پورٹ سے سیدھے آرمی ہاؤس کیوں پہنچے تھے ا ور ، یہاں بات چیت کے بعد کھانے میں بھی شریک ہوئے۔ مودی صاحب کو جان مکین سے پوچھ لینا چاہئے کہ پاکستان میں کس سے بات کی جائے۔