ہوائی حملے کا سائرن ہو رہا تھا۔سڑک پر چلنے والے اوٹ میں ہونے لگے۔ گاڑیاں رُکنے لگیں اور پل بھر میں ساری سڑک سنسان دکھائی دینے لگی۔ میں بھی ایک محرابی دروازے کے نیچے پناہ لے کر کھڑا ہوگیا۔ صرف مظفر خان اطمینان سے سڑک کے درمیان چل رہا تھا۔ ’’خان‘‘ اس کے نام کا حصہ تھا‘ وہ جہلم کا رہائشی تھا۔ اس کے ہاتھ میں اپنے پانچ سالہ بچے کا بازو تھا‘ دونوں پاؤں سے ننگے تھے۔ وہ اطمینان سے یوں چل رہے تھے جیسے صبح کی سیر کرتے ہوئے بعض لوگ گھاس پر ننگے پاؤں چلتے ہیں۔
میں نے مظفر خان کو آواز دے کر کہا: ’’خان صاحب شیلٹر میں ہو جائیں ہوائی حملے کا خطرہ ہے۔‘‘ وہ اسی رفتار سے ٹہلتے ہوئے بولا: ’’جو لخی(لکھی) گئی ہے‘ وہ لخی گئی ہے۔ ڈرنا کس بات کا ۔۔۔‘‘ رُک کر بولا ’’ڈریں وہ جنہوں نے تجوریاں بھررکھی ہیں‘ حرام کا مال اکٹھا کیا ہے۔ ہمارے پاس حلال کا نوالہ ہے اور بس۔‘‘
میں نے زور سے کہا: مظفر خان تجوری تمہارے ہاتھ میں ہے۔تمہارا بچہ تمہاری دولت بھی ہے تمہارا مستقبل بھی بلکہ اس وطن کا مستقبل بھی۔‘‘ وہ رکا اور مڑ کر محرابی دروازے کو لمحہ بھر دیکھا جہاں اب اٹھارہ بیس لوگوں نے پناہ لے رکھی تھی مظفر بولا:’’ بس بس بس ۔ وطن ہے تو میں ہوں۔ ہم سب ہیں۔ حفاظت وطن کی ہونی چاہئے اور وہ میں نے خبروں میں سنا تھا۔ شکیل احمد نے خبروں میں بتایا تھا کہ ہماری افواج نے دشمن کے چھکے چھڑا دیئے ہیں۔‘‘ وہ اپنی انگریزی ملی اُردو میں کہنے لگا۔ ’’ ویسے بائی دا وے ۔۔۔ یہ گدھے کے پتر دشمن کے چھکے ہوتے کیا ہیں باؤ؟‘ اسی لمحے سائرن کلیئر ہو گیا۔ لوگ پناہ گاہوں سے ہنستے کھیلتے نکلنے لگے۔ لمحوں میں سڑک ہجوم سے اَٹ گئی۔ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹ کر لوگ اسی ہوائی حملے کی تفصیلات ایک دوسرے سے شیئر کرنے لگے۔ مظفر خان واپس مڑ آیا اور محرابی دروازے سے برآمد ہونے والے ٹولے میں گھل مل گیا۔۔۔۔ یہ آٹھ ستمبر1965 کی سہ پہر تھی۔
چودھری محمدحسن کی چھت سب سے بلند تھی۔ چودھری صاحب پکارے: ’’مظفر۔۔۔ پیرا شوٹ سے سولجر اُترنے کا خطرہ ہے‘ تم ڈنڈا لے کر ٹہل رہے ہو۔۔۔‘‘ مظفر نے پورا زور لگا کر جواب دیا: ’’چودھری صاحب جو میری چھت پر اُترے گا‘ وہ لاش بن کر جائے گا۔ رب سچے کی سونہہ۔۔۔ میرا تو ارمان یہ ہے کہ میری چھت اُن کی لاشوں سے بھر جائے۔‘‘ پھر اس نے نعرہ لگایا : نعرۂ تکبیر۔۔۔ نعرۂ تکبیر۔۔۔ نعرۂ تکبیر۔۔۔‘‘ پہلے کوئی نہ بولا تیسرے نعرے پرہر چھت سے آوازیں ابھرنے لگیں ’’اﷲ اکبر۔۔۔ اﷲ اکبر۔۔۔ اﷲ اکبر۔۔۔‘‘ پھر تو ہر چھت پر سر ہی سر تھے۔ کوئی خوف تھا نہ ڈر۔۔۔ نہ بھاگ دوڑ تھی۔ جنگ تھی یا تماشا۔۔۔؟ یہاں تک کہ یہ تماشا اُس وقت ختم ہوا جب تاریخ بدل گئی اور صبح کی اذانیں ہونے لگیں۔
مظفر خان واقعی ایک نڈر شخص تھا۔ اسی سڑک پر اس کی چھوٹی سی دکان تھی۔ اسی سے گزر اوقات کرتا تھا اور مطمئن تھا۔ 4 ستمبر کی رات لگ بھگ پونے بارہ بجے جب مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے اعلان کیا گیا کہ’’ کھیم کرن سے دشمن کے جہاز اڑان بھر چکے ہیں‘ شاید پیرا ٹروپس اُتریں۔ سب لوگ ہوشیار ہو جائیں۔‘‘ اس دن ایسے میں اندر پناہ لینے کے بجائے مظفر خان اپنی چھت پر چڑھ گیا۔ میں بھی اوپر چھت پر آگیا۔ گھر والے پکارتے رہے مگر میں نے مظفر خان کی طرح کسی کی نہ سنی۔ اوپر پہنچا‘ سامنے والی چھت مظفر خان کی تھی۔ مظفر خان سر پر دوسری جنگِ عظیم کے بچے کھچے سامان میں سے بکنے والا ہیلمٹ پہنے اور کندھے پر گینتی کا ڈنڈا جمائے بالکل سپاہیوں کی طرح لیفٹ رائٹ کرتا ہوا ٹہل رہا تھا۔
چودھری محمدحسن کی چھت سب سے بلند تھی۔ چودھری صاحب پکارے: ’’مظفر۔۔۔ پیرا شوٹ سے سولجر اُترنے کا خطرہ ہے‘ تم ڈنڈا لے کر ٹہل رہے ہو۔۔۔‘‘ مظفر نے پورا زور لگا کر جواب دیا: ’’چودھری صاحب جو میری چھت پر اُترے گا‘ وہ لاش بن کر جائے گا۔ رب سچے کی سونہہ۔۔۔ میرا تو ارمان یہ ہے کہ میری چھت اُن کی لاشوں سے بھر جائے۔‘‘ پھر اس نے نعرہ لگایا : نعرۂ تکبیر۔۔۔ نعرۂ تکبیر۔۔۔ نعرۂ تکبیر۔۔۔‘‘ پہلے کوئی نہ بولا تیسرے نعرے پرہر چھت سے آوازیں ابھرنے لگیں ’’اﷲ اکبر۔۔۔ اﷲ اکبر۔۔۔ اﷲ اکبر۔۔۔‘‘ پھر تو ہر چھت پر سر ہی سر تھے۔ کوئی خوف تھا نہ ڈر۔۔۔ نہ بھاگ دوڑ تھی۔ جنگ تھی یا تماشا۔۔۔؟ یہاں تک کہ یہ تماشا اُس وقت ختم ہوا جب تاریخ بدل گئی اور صبح کی اذانیں ہونے لگیں۔
رَن آف کچھ میں دشمن کو زبردست شکست ہونے کے بعد 4ستمبر کی سہ پہر کو مال روڈ کی کمر شل بلڈنگ کے کارنر پر سینڈو پان والے کی دکان سے ریڈیو پر میں نے لال بہادر شاستری کی تقریر کا یہ جملہ سنا تھا ’’اب ہم اپنی پسند کا محاذ کھولیں گے۔‘‘ تو سب لوگوں نے اُسے قہقہے میں اڑا دیا تھا۔ ’’بھلا کوئی انٹر نیشنل بارڈر کراس کرسکتا ہے؟‘‘ ’’نہیں نہیں نہیں‘‘ لوگوں میں بلا کا اعتماد تھا۔ سینڈو پان والے کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ اہتمام سے پان لگاتا‘ سجاتا‘ گلوری بناتا۔۔۔ مگر یہ گلوری ہاتھ میں ہر گز نہ دیتا۔ آپ کو منہ کھولنا پڑتا تھا اور وہ محبت سے گلوری آپ کے منہ میں رکھ دیتا تھا۔ چار اور پانچ ستمبر کی شب گزرنے کے بعد میں نے سوچا۔۔۔ شاید ’’پسند کا محاذ‘‘ کھیم کرن کی اڑان ہی تھی۔۔۔ جو اڑتے ہی واپس چلی گئی تھی۔ پورا لاہور اور اس کے محافظ دشمن کے انتظار میں جاگتے رہے مگر ان کی ہمت بین الاقوامی سرحد پار کرتے ہی جواب دے گئی اور وہ واپس چلے گئے۔
چھ ستمبر کی صبح کو دشمن نے واہگہ بارڈر کراس کرکے بی آر بی سے بھی کچھ آگے نکل کر دیکھا کہ سخت سناٹا ہے۔ پاکستان کی طرف کوئی سپاہی ہے نہ توپ۔۔۔ نہ ٹینک۔۔۔ گہری خاموشی نے ان کی عقل سلب کرلی تھی اور گہرے تجسس نے ان کی نگاہ کو دھندلا دیا تھا۔ وہ اس گہرے سناٹے اور خاموشی کو بھی پاکستان آرمی کی کوئی حکمت عملی تصور کرکے ’’یرک‘‘ گئے۔ کبھی وہ انڈین آرمی کے کمانڈر انچیف کی تقریر یاد کرتے جس میں اس نے چھ ستمبر کی شام کو لاہور جم خانہ کلب میں جشنِ فتح کا اعلان کیا تھا اور کبھی اپنے سامنے کی حقیقت کو۔ پہلے تو انڈین آرمی بارڈر کے ایک میل اندر تک چلی آئی اور پھر ان کے اندر ایک بے نام خوف نے انہیں اس حد تک مفلوج کردیا کہ وہ سرپٹ واپس بھاگے ۔ البتہ واپس جاتے جاتے بجلی کے کچھ کھمبے اُکھاڑ کر اپنے ساتھ لے گئے تاکہ حکم ماننے کا ثبوت دے سکیں۔ میں نے کٹے ہوئے کھمبے خود اپنی آنکھوں سے جا کر دیکھے تھے۔مگر سترہ دنوں کی جنگ کے بعد۔۔۔ مجھے واہگہ بارڈر کی یادگاروں کو دیکھتے ہوئے یہ تجربہ ہوا کہ ہمت اور ہتھیار میں کیا فرق ہے۔ جذبے اور عقل میں کیا اونچ نیچ ہے اور جنون اور جواں مردی کیا شے ہے۔۔۔ اسی لئے علامہ اقبال نے کہا تھا
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے‘ منزل نہیں ہے
ہمارے جواں مردوں نے ہمیشہ جذبوں کو عشق کی معراج جانا۔ اس پہ کمند ڈالی اور فتح مند لوٹے۔۔۔ ان کا عشق ہی تھا جو اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کو دھول چٹوا رہا تھا۔ میجر شفقت بلوچ کی کمپنی نے لاہور کے بارڈر پر پانچ گنابڑے دشمن کوروکے رکھا۔ بی آر بی پار کرنے دی، نہ جم خانے میں بیٹھ کر مشروبات سے دل بہلانے دیا۔ یہ عشق کی وہ منزل ہے جسے اب تدبر کے خاص بندے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اسی عشق کی داستان اپنے ایک شعر میں پرو دی ہے۔
جگمگانے والا لاہور پندرہ دنوں میں میلا میلا سا لگ رہا تھا نوجوان اور زندہ دلانِ لاہور تو بارڈر تک پہنچ گئے اور آرمی آفیسرز کی منتیں کرتے کہ ہمیں محاذ پہ خدمت کرنے کا موقع دیا جائے۔ مگر مدبر آفیسرز نے انہیں شاباش کی تھپکی دے کر پیار سے واپس بھیج دیا۔ واپس آتے ہوئے اُن کے کندن چہرے اس لئے دھندلا رہے تھے کہ انہیں محاذ پہ اپنے کھولتے لہو کا مظاہرہ کرنے کی اجازت نہ دی گئی تھی۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
دشمن ہمارے وطن کی مقدس سرزمین پر اندر تک آکر بھی ناکام ہوگیا کہ وہ عقل مند زیادہ تھے۔ ’’وہ محوِ تماشائے لبِ بام‘‘ ہی رہے اور پھر بے نام خوف سے شکست کھا کر پلٹ گئے۔ مگر انہیں آسانی سے کہاں جانے دیاگیا۔ میجر شفقت بلوچ کی کمپنی کی تھوڑی سی نفری نے دشمن کو لاشیں اٹھانے پر ایسا مجبور کیا کہ وہ بوکھلا کر اپنے بعض زخمیوں کو بھلا بیٹھے۔ ہر چند کہ انڈین آرمی کے ہزاروں سپاہیوں کے مقابلے میں شفقت بلوچ کے پاس صرف 96 سپاہی تھے۔ جنہوں نے اپنے لہو کی دیوار سے دشمن کے دانتوں کو اس قدر کھٹا کردیا کہ اُن کے دانتوں سے پسینہ بہنے لگا۔ اس کمپنی کے96 جوانوں نے اپنے لہو سے نئی تاریخ رقم کردی تھی اور لاکھوں عورتوں‘ بچوں اور جوانوں کو دیر پا تحفظ فراہم کردیا تھا۔ اس تاریخ کو کسی نے محض ایک لفظ میں سمو کر لاہور والوں کو یاد دلایا تھا اور مجھے بھی آشنا کیا تھا۔ جنگ بندی کے بعد جب ہم ادیبوں کا قافلہ عزیز بھٹی شہید کی شہادت گاہ دیکھنے واہگہ بارڈر کی طرف جارہا تھا‘ میں نے دیکھا راستے میں ایک سنگِ میل سینہ تانے کھڑا ہے‘ جس پر لکھا تھا ’’لاہور سترہ میل‘‘ اور کسی گمنام سپاہی نے اس میں ایک لفظ کا اضافہ کرکے جنگِ ستمبر کی ساری روداد رقم کردی تھی۔ اس ابلتے لہو کے جوان نے ’’سترہ‘‘ کے بعد ’’خونی‘‘ کے لفظ کا اضافہ کیا تھا جو دور سے صاف پڑھا جارہا تھا۔ ’’لاہور سترہ خونی میل‘‘ اور خونی کا لفظ سرخ لہو سے لکھا تھا۔
چھ ستمبر کی صبح بہاروں کی میٹھی ہلکورے بھرتی ٹھنڈی ٹھار ہوا۔۔۔ صبح سے شام تک کے تجربات‘ دفتر میں خبریں اور مباحث‘ دوپہر سے شام تک پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھ کر تجزیے اور جنگی ماہرین کے ٹھیک ٹھیک اندازے ۔ لگتا تھا انڈین آرمی نے حملہ نہیں کیا ‘کسی طلسماتی شہر کا دروازہ کھول دیا ہے۔ہر شخص نے اس جنگ کے پہلے دن سے ہی خود کو بھرپور اور دلچسپ واقعات اور داستانوں میں گھرا ہوا پایا۔ شام کو بلیک آؤٹ کے اوقات میں ایک جگہ جمع ہو کر ریڈیو پر کپڑا ڈال کر تمام تبصرے‘ داستانیں اور اگلے مورچوں کے حالات سنے جاتے اور آخری ترانہ سن کر بھی ہمارا جی چاہتا کہ ریڈیو بجتا رہے اور ہم واقعات اور ترانے سنتے رہیں۔ چھ ستمبر کی شام کو گھر لوٹا تو ماں جی نے مجھے گھر داخل ہوتے ہی پوچھا۔۔۔
’’اتنی دیر سے کیوں آئے ہو؟‘‘
’’روز اسی وقت آتا ہوں ماں جی‘‘
’’آج کی کچھ خبر بھی ہے تمہیں؟‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘ میں انجان بن گیا۔
’’ہندوستان ٹُٹ مرنے نے ہمارے وطن پر حملہ کردیا ہے‘‘
وہ مجھے یوں خبر سنا رہی تھیں جیسے مجھے کچھ خبر ہی نہیں۔
’’پر تو فکر مند نہ ہو۔۔۔‘‘ ماں نے تسلی دی اور کہا’’ تمہارے ماموں غلام حیدر خان نے کہا ہے فکر کی بالکل کوئی بات نہیں۔۔۔ ایسی منہ کی کھائے گا دشمن‘ کہ اس کی نسلیں یاد کریں گی‘‘ ’’ماموں غلام حیدر آیا تھا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’وہ پھر آئے گا‘ وہ تو پل پل کی خبر دیتا ہے مجھے اور حوصلہ بھی۔ آخر آرمی میں ہے۔۔۔ ہربنس پورہ ایمونیشن ڈپو میں اس کی ڈیوٹی ہے۔ جتنا اسے پتہ ہے کسی اور کو نہیں۔ بیٹا جی‘ تو کپڑے بدل کے کچھ کھالے۔۔۔ وہ آتا ہی ہوگا۔‘‘
اور واقعی میرے کپڑے بدلنے یا کچھ کھانے پینے سے پہلے ہی ماموں غلام حیدر خان اندر آگیا اور اندر آتے ہی بولا: ’’تمہارا چہرہ کیوں اترا اترا ہے۔ کوئی بات ہی نہیں۔۔۔ چار دنوں میں دفع ریٹ ہو جائے گا یہ چھچھورا دشمن۔‘‘ پھر امی سے کہنے لگا’’حلیمہ۔۔۔ تم سبز چائے بناؤ بڑے پتیلے میں۔ میں کلچے لے کر آتا ہوں۔ جمیل کی بیٹھک میں سب اکٹھے ہو کر پیئیں گے‘ کھائیں گے ‘ ریڈیو سنیں گے اور قہقہے لگائیں گے۔‘‘ ’’توبہ توبہ۔۔۔ یہ قہقہے لگانے کا وقت ہے؟ ٹُٹ پینے ہمارے سروں پربمب گرانے آرہے ہیں اور تمہیں قہقہوں کی پڑی ہے۔۔۔! میں پوچھتی ہوں فوجیوں کو ڈر کیوں نہیں لگتا؟‘‘
سیز فائر کا مقررکردہ وقت گزرے ساڑھے تین گھنٹے گزر چکے تھے۔ مگر بارود کی بو پھیلتی جارہی تھی۔ حتیٰ کہ صبح صادق ہوگئی۔۔۔ ہر مسلمان مومن جاگ رہا تھا۔ ہر طرف اذانیں شروع ہوگئیں اور دشمن کی گولہ باری نے پسپائی اختیار کرنا شروع کردی۔ دھماکوں کی آوازیں دور سے دور ہوتی جا رہی تھیں۔ ہم اور سب لوگ وضو کرکے قریبی مساجد میں جارہے تھے جیسے سرخرو ہونے کا شکرانہ ادا کرنے جارہے ہوں۔ نئی صبح کا سنہری سورج طلوع ہو رہا تھا۔ ماموں غلام حیدر ڈیوٹی سے لوٹا تھا۔
ماموں نے میری ماں جی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا ’’شہادت کے نشے نے انہیں آسمانوں تک اڑنا سکھا دیا ہے۔‘‘ ’’ڈر کس چڑیا کا نام ہے۔۔۔‘‘
پھر ماموں نے دوپہر کا واقعہ سنایا۔ ’’میں دوپہر کو لانس نائیک بشیر کو اس کے گھر ڈراپ کرنے گیا تھا۔سامنے اس کے صحن میں چھ سال کی اس کی بچی زلیخا جھاڑو لے کر صحن کی صفائی کررہی تھی۔ ہوائی حملے کا سائرن ابھی ابھی بجا تھا۔ بشیر نے زلیخا کو ڈانٹ کر کہا ’’سائرن نہیں سنا تم نے؟ اندر کیوں نہیں جاتی‘‘ زلیخا نے زور زور سے جھاڑو چلاتے ہوئے کہا ’’یہاں ۔۔۔ اس جگہ ابو۔۔۔ ادھر ہندوستانی جہاز آکر گرے گا ۔ میں اس کے لئے جگہ صاف کررہی ہوں۔۔۔‘‘ ماموں نے کہا ’’ڈر خوف ختم کردیا ہے اس جنگ نے بچوں تک میں۔‘‘ ***
جگمگانے والا لاہور پندرہ دنوں میں میلا میلا سا لگ رہا تھا نوجوان اور زندہ دلانِ لاہور تو بارڈر تک پہنچ گئے اور آرمی آفیسرز کی منتیں کرتے کہ ہمیں محاذ پہ خدمت کرنے کا موقع دیا جائے۔ مگر مدبر آفیسرز نے انہیں شاباش کی تھپکی دے کر پیار سے واپس بھیج دیا۔ واپس آتے ہوئے اُن کے کندن چہرے اس لئے دھندلا رہے تھے کہ انہیں محاذ پہ اپنے کھولتے لہو کا مظاہرہ کرنے کی اجازت نہ دی گئی تھی۔
لاہور کا دوسرا رخ یہ تھا کہ امیر کبیرخاندان اپنی گاڑیوں پہ مٹی تھوپ کر اور بتیوں پہ براؤن پیپر چسپاں کرکے خاندان اور ضروری سامان سمیت اپنے اپنے آبائی دیہات کی طرف مراجعت کررہے تھے۔ لہٰذا لاہور خالی خالی لگنے لگا۔ 22 اور23 ستمبر کی درمیانی رات جو کہ سیز فائر کی رات تھی‘ سیز فائر کا وقت گزر جانے کے باوجود دشمن کی توپیں مسلسل گولہ باری کرنے لگیں۔ ماموں غلام حیدر نے اس رات جمیل صاحب کی بیٹھک میں ہی سب کو بتا دیا تھا کہ آج رات دشمن پہ بہت بھاری ہے۔ انہیں آرڈر ملا ہوا ہے کہ جس قدر نفری‘ ایمونیشن اور ٹینک چاہیں لے جائیں مگر لاہور کی جتنی سرزمین پر قبضہ کرسکو ‘ کر لو۔ ماموں نے کہا : ’’میں تمہیں لکھ کر دیتا ہوں کہ مولوی حمید‘ جمیل‘ ذوالفقار خان اور مظفر خان‘ سب سن لو۔۔۔ لاہور کی سرزمین میں اﷲ کے پسندیدہ ترین بندے اور صوفیاء سو رہے ہیں‘ یہ دھرتی اﷲ کی منظورِ نظر ہے۔ ایک انچ پر بھی قبضہ نہیں ہوسکتا۔ مگر میں اور ابا جی صبح ساڑھے تین بجے تک اپنے گھر کے محرابی چوکھٹ کے نیچے پناہ لئے کھڑے جاگتے رہے کہ سائرن پہ سائرن بج رہا تھا۔ گولہ باری ہو رہی تھی۔ سیز فائر کا مقررکردہ وقت گزرے ساڑھے تین گھنٹے گزر چکے تھے۔ مگر بارود کی بو پھیلتی جارہی تھی۔ حتیٰ کہ صبح صادق ہوگئی۔۔۔ ہر مسلمان مومن جاگ رہا تھا۔ ہر طرف اذانیں شروع ہوگئیں اور دشمن کی گولہ باری نے پسپائی اختیار کرنا شروع کردی۔ دھماکوں کی آوازیں دور سے دور ہوتی جا رہی تھیں۔ ہم اور سب لوگ وضو کرکے قریبی مساجد میں جارہے تھے جیسے سرخرو ہونے کا شکرانہ ادا کرنے جارہے ہوں۔ نئی صبح کا سنہری سورج طلوع ہو رہا تھا۔ ماموں غلام حیدر ڈیوٹی سے لوٹا تھا۔ ماموں غلام حیدر نے کڑک کر بتایا ۔۔۔ ’’میں نے کہا تھا ناں۔۔۔ ایک انچ پہ بھی دشمن قبضہ نہیں کرسکتا۔ البتہ ہمارا صوبیدار خلاص خان آرڈر کے باوجود مورچہ نہیں چھوڑ رہا تھا‘ فائر بند ہی نہیں کررہا تھا۔‘‘ اس نے کہا ’’میں تب فائربند کروں گا جب میرا صاحب میجر کریم بخش مجھے آرڈر کرے گا۔ میجر کریم بخش خود اُسے آرڈر کرنے کے لئے مورچے تک آیا۔۔۔ اور جنگ بندی کا آرڈر کیا۔ تب خلاص خان نے پُرزور حسرت سے کہا: ’’صاحب جی آپ نے میرا ارمان پورا نہیں ہونے دیا۔۔۔ چلو خیرہے۔ پھر سہی۔۔
چھ ستمبر 1965
چھ ستمبر غازیانِ پاک کی صبحِ سعید
جس نے اپنے نُور سے ایماں درخشندہ کیا
کفر و ظلم و فسق کی افواج نے کھائی شکست
اہلِ حق نے بدر کی تاریخ کو زندہ کیا
بُُجھ نہیں سکتا چراغِ نُور پھونکوں سے کبھی
کفر کی آندھی نے اکثر آزمایا مکر سے
اہلِ ایماں نے بڑھائے ہیں قدم جنگ گاہ میں
جُرأتِ ایمان و استقلال و ضبط و صبر سے
چھ ستمبر نے حیاتِ تازہ بخشی قوم کو
مشرق و مغرب کو مستِ جامِ وحدت کر دیا
غالب و منصور ہو گے تم ہی ہر میدان میں
بہرِ حق خود کو اگر وقفِ اطاعت کر دیا
چھ ستمبر کی عظیم الشان نُصرت کے لئے
ہم پہ واجب ہے سپاسِ لُطفِ ربِّ ذوالجلال
پرچمِ اسلام و پاکستان پائندہ رہے
اے خدائے بے مثال و اے خدائے لم یزال
آبروئے عالمِ اسلام‘ فوجِ پاک ہے
خاک میں جس نے ملایا ہے شیاطیں کا غرور
کون دے سکتا ہے طاہرؔ ایسی اُمّت کو شکست
جس کے سر پر سایہ زن ہو رحمتِ ربِّ غفور