ابو شوکت صفدر سلیمی از جمیل اطہر
جن صحافیوں، دانش وروں اور سیاست دانوں نے میرے دل و دماغ پر اپنے گہرے مطالعہ ، منفرد اندازِ بیان اور پُر شکوہ طرزِ خطابت کے اَن مِنٹ نقوش ثبت کئے ان میں ابو شوکت صفدر سلیمی کا نامِ نامی کبھی بُھلا یا نہ جاسکے گا۔ابو شوکت صفدر سلیمی ٹوبہ ٹیک سنگھ کے قریب کمالیہ کے ایک گاؤں کے رہنے والے تھے ۔وہ خاکسار رہنما علامہ عنایت اللہ خان المشرقی کے فکر و فلسفہ سے متاثر ہوئے اور پھر عمر بھر اسی فکر کے سحر میں گرفتار رہے ، میرا اُن سے غائبانہ تعارف اس وقت ہوا جب انہوں نے ایک اور خاکسار رہنما امیر حبیب اللہ خان سعدی کے تعاون کے ساتھ لائل پور سے روز نامہ ’’انصاف‘‘ کا اجراء کیا ۔ ’’انصاف‘‘ ہمارے گھر آتا تھا اور میرے والد صاحب پاکستان بننے کے بعد جب سرہند سے ہجرت کرکے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں آباد ہوئے تو انہوں نے کسی سیاسی جماعت میں تو باقاعدہ شمولیت اختیار نہیں کی مگر مشرقی پنجاب سے ترکِ سکونت کرکے پنجاب کے اس حصے میں آباد ہونے والوں کے مسائل اور مشکلات حل کرانے میں ان کی بہت دلچسپی رہی۔ وہ ’’انجمن مہاجرین‘‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے صدر رہے ۔’’انصاف‘‘ اور مدیر انصاف سے تعلق کی ابتدا بھی اسی وجہ سے ہوئی ۔’’ انصاف ‘‘ تو تھوڑا عرصہ ہی زندہ رہا اور حکومت کے جبر کا شکار ہوگیا ، اس کے ایڈیٹر جناب شمس الحق جو ’’شمی‘‘ کے نام سے مشہور تھے ، دن دھاڑے اغوا کرلئے گئے اور ان کا کوئی سراغ نہ مل سکا ۔ میں نے یہ کہانی شمس الحق صاحب کے تذکرہ میں زیادہ تفصیل سے بیان کی ہے ۔ جناب صفدر سلیمی کئی سیاسی نشیب و فراز سے گزرے ۔ ان کی صلاحیتوں کے اظہار کا کوئی موقع آتا تو وہ لائل پوریا لاہور چلے جاتے تھے اور اپنا بھر پورحصہ ڈالتے، ورنہ واپس آ کر گھر بیٹھ جاتے اور پھر کتابیں ہوتی تھیں اور وہ ! میری ان سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب خاکسار تحریک کے بعض رہنماؤں نے علا مہ مشرقی کی سیاسی حکمت عملی سے اختلاف کرتے ہوئے اپنا راستہ الگ کرلیا اور ڈاکٹر سید عبدالودود کی قیادت میں ’’ مجلس جمہورِ اسلام‘‘ کی بنیاد رکھی ۔ اس جماعت کا غالباً پہلا جلسہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی میں منعقد ہوا جہاں آغا اللہ دتہ اصفہانی خاکسار تحریک کے ایک پُرانے رہنما کی حیثیت سے اس جلسے کا انتظام و انصرام کررہے تھے ۔ میری شامیں جن اہلِ سیاست کے ساتھ گزرتی تھیں ان میں آغا اللہ دتہ بھی شامل تھے ۔ جن کی مرکزی جامع مسجد کے قریب حُقوں کی دکان تھی ۔ آغا صاحب کی دعوت پر میں بھی مجلس جمہورِ اسلام کے اس جلسے میں شریک ہوا جو اکبری مسجد کے سامنے والے پارک میں منعقد ہوا تھا ۔ یہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی واحد جلسہ گاہ تھی جہاں مجھے سید عطا اللہ شاہ بخاری ، چوہدری محمد علی ، کرنل سید عابد حسین ، میاں افتخار الدین ، چوہدری علی احمد خان ، سید اسعد گیلانی اور مولانا عبدالرحیم اشرف جیسے رہنماؤں کی تقریریں سننے کا موقع ملتا رہا تھا۔ صفدر سلیمی نے جب اپنی تقریر کا آغاز کیا تو ایسے لگتا تھا کہ ان کے پیکر میں مولانا ابو الکلام آزاد موجود ہیں اور مشکل سے مشکل اور دقیق سے دقیق الفاظ ان کے سامنے باندی بنے کھڑے تھے اور الفاظ کا ایک سیلاب تھا جو بہہ رہا تھا ۔ تقریر ختم ہونے کے بعد آغا اللہ دتہ نے صفدر سلیمی صاحب سے میرا تعارف کرایا اور یہ تعلق ساری عمر بر قرار رہا ۔ صفدر سلیمی کچھ عرصہ کے لئے غلام احمد پرویز کے طلسم میں بھی مبتلا ہوئے۔ یہی حال ان کے قائد ڈاکٹر سید عبدالودود کا بھی تھا ۔ صفدر سلیمی کچھ عرصہ پرویز صاحب کے ماہنامہ ’’ طلوع اسلام‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے ۔ ایک طرف صفدر سلیمی پر خاکسار تحریک کے اثرات کا غلبہ تھا ،دوسری طرف پرویز صاحب ایک جدید اسلام کا تصور پیش کررہے تھے جس میں ان کے نزدیک صرف قرآن ہی ہدایت کا مرکز و منبع تھا اور ان کے بقول حدیث و سُنت کو کوئی مقام حاصل نہ تھا ، اس لئے صفدر سلیمی جس طرح علامہ مشرقی سے الگ ہوگئے تھے ، اسی طرح انہوں نے غلام احمد پرویز سے بھی دُوری اختیار کرلی ، عمر کے آخری حصے میں انہیں خاکسار تحریک کو زندہ کرنے کا خیال آیا ۔ انہوں نے شاہ عالم مارکیٹ میں خاکسار تحریک کا مرکزی دفتر قائم کیا اور یہیں سے خاکسار تحریک کے ترجمان ہفت روزہ ’’الاصلاح‘‘ کا بھی احیا کیا ۔ بعد میں تحریک اور’’ الاصلاح‘‘ علامہ مشرقی کے بیٹے حمید الدین المشرقی کے انتظام میں آگئے وہ بھی تا مرگ اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں علامہ مشرقی کے مشن کو زندہ رکھنے کے لئے استعمال کرتے رہے ۔ میرے پاس جناب صفدر سلیمی کا یہ خط ان کی یاد گار کے طورپر محفوظ ہے جو انہوں نے 2 جنوری 1958ء کو ’’مجلس جمہورِ اسلام پاکستان‘‘ کے لیٹر پیڈ پر لکھا تھا ۔ اس خط میں وہ لکھتے ہیں۔
برادر عزیز! سلمہہ الرحمن
آپ کا گرامی نامہ اور ’’غریب ‘‘ کے وہ شمارے موصول ہوئے جن میں ہمارے جلسہ کی خبر شائع ہوئی ہے ۔ مجھے خود افسوس ہے کہ قیامِ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے مختصر دور ہ میں ایک ابھرتے ہوئے صحافی سے میری تفصیلی ملاقات نہ ہوسکی جب کہ آپ کے موصولہ ایک خط کے سلسلہ میں آپ سے ملنا ضروری تھا ۔ میں پھر شکر گزار ہوں کہ آپ نے ہمارے جلسۂ عام کی آواز کو اخبارات کے ذریعے عوام تک پہنچانے میں ہماری امداد کی ۔ ہمارے مخالفین جو کہتے ہیں کہنے دیجئے، میں بخوبی سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ایک دیانت دار صحافی کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ ان ذمہ داریوں کو کسی فرد یا جماعت کے ناروا پروپیگنڈے پر قربان نہیں ہونا چاہئے۔ میں آپ سے کہوں گا کہ ہماری جماعت ، اس کے کارکنوں ، حتیٰ کہ مجھے بھی کسی غلطی اور کمزوری پر معاف نہ کریں اور بلا جھجک یہ فریضہ انجام دیں لیکن دیانت دارا نہ تنقید کریں ، ہمیں اس پر قطعاً کوئی رنجش نہ ہوگی ۔ دیانت دارانہ صحافت ہی پاکستان کی جماعتوں اور اصحاب کا محاسبہ کرکے انہیں صحیح ڈگر پر چلاسکتی ہے اور اگر ایسا کڑا احتساب نہ ہو تو کارکن اور لیڈر بھی فرعون بن بیٹھتے ہیں۔ میں آپ کو مخلصانہ مشورہ دوں گا کہ دیانت داری کی راہ میں ہماری مجلس یا کارکنوں سے کسی رُورعایت کے روا دارنہ ہوں اور جو کچھ سمجھیں بلا جھجک کہیں اور لکھیں ۔ ہمارے لئے یہ سب کچھ موجب مسرت ہوگا ، اس لئے ہمیں اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کا جائزہ لینے کے مواقع حاصل ہوں گے ، میری دعا ہے کہ خدا آپ کو اس فریب خوردہ مملکت کے دیانت دار صحافی کی حیثیت سے ایک بلند اور قابلِ فخر مقام عطا فرمائے۔
واسلام
مخلص صفدر
جناب صفدر سلیمی کا یہ مختصر سا خط میرے لئے ایک منشور اور نصب العین کی حیثیت رکھتا ہے ۔ انہوں نے یہ سطور مجھے اس وقت لکھی تھیں جب میری عمر سترہ برس تھی اوروہ ساٹھ سال کی عمر میں سیاست و صحافت کے بے شمار اعلیٰ و ارفع مقامات طے کر چکے تھے ۔ میری نظر میں صفدر سلیمی کے بیان کردہ اس مشور کی اہمیت بیان کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ ان کا یہ خط میں نے 54 سال سے اپنے پاس محفوظ رکھا ہوا ہے۔