دن اور تاریخ تو اب ہمارے حافظے میں محفوظ نہیں، البتہ اس خوشگوار اور ناقابل فراموش ملاقات کی یادگارکے پھول کی خوشبو کی طرح ہمارے ذہن میں آج بھی تازہ ہیں۔ خو شگوار اور حسین یادیں بھی کسی حسین شے کی طرح دائمی مسرت کا سرچشمہ ہوتی ہیں، جس کے بارے میں انگریزی کے مشہور و معروف شاعر جون کیٹس نے کیا خوب کہا ہے:
“A thing of beauty is a joy forever”
احسان دانش لاہور سے کراچی تشریف لائے ہوئے تھے اور ہم اپنے دوست سراج منیر (مرحوم) کے ساتھ ایم اے جناح روڈ پر واقع ریڈیو پاکستان کی پرانی عمارت کے ایک کمرے میں ان کی آمد کے منتظر تھے۔ دراصل ہمیں ہندوستانی سامعین کے لیے نشر ہونے والے ایک پروگرام کے لیے ان کا خصوصی انٹرویو ریکارڈ کرنا تھا۔ ویسے بھی دانشؔ صاحب سے ملاقات کا شرف ہمارے لیے سرمایہ حیات سے کم نہ تھا، جس کا ہمیں مدت دراز سے بڑی شدت کے ساتھ انتظار تھا۔ ان کی شخصیت ایک انتہائی روشن مشعل راہ سے کم نہ تھی، وہ ان بڑے لوگوں میں سے تھے جو اپنے منہ میں سونے کا چمچہ لیے ہوئے پیدا نہیں ہوئے تھے بلکہ جنھوں نے اپنا جہان اپنی محنت و مشقت کے بل پر خود آباد کیا تھا۔
حسب وعدہ صبح کے ٹھیک دس بجے وقت مقررہ پر احسان دانشؔ نے ہمارے کمرے میں قدم رکھا تو ہمارے احساسات اور جذبات بیان سے باہر تھے۔ جی چاہتا تھا کہ وقت کا کیمرہ اس تاریخ ساز منظر کو اپنے اندر ہمیشہ کے لیے محفوظ کرکے رکھ لے کیوں کہ ایسے مواقعے زندگی میں بار بار میسر نہیں آتے۔ وہ سادگی اور عظمت کا ایک دل نشین پیکر تھے۔ ہم نے انھیں بچپن سے پڑھا بھی تھا اور ان کے بارے میں بہت کچھ سنا بھی تھا، سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک Self made عظیم انسان تھے جن کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی۔
ان کی زندگی کے ابتدائی ایام بے حد سخت اور کٹھن تھے، جب انھیں جسم و جان کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔ کبھی انھوں نے مزدوری کی تو کبھی کسی چھاپے خانے میں بطور Ink man کام کیا۔ کبھی باورچی گیری کی تو کبھی چپڑاسی گیری، کبھی راج مزدور کی حیثیت سے کام کیا تو کبھی چوکیداری کی۔ وہ مالی بھی رہے اور قالین بننے والے بھی۔ ایک زمانے میں انھوں نے کتابوں کی ایک دکان پر بطور ہیلپر بھی خدمات انجام دیں اور زندگی کے آخری حصے میں کتب فروشی کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ اس کج گلاہ نے سب کچھ کیا مگر ضمیر فروشی سے تادم آخر گریز کیا۔
ان کا اصل نام قاضی احسان الحق تھا، مگر علمی دنیا میں ان کی شہرت احسان دانش کے نام سے ہوئی۔ وہ قاضی احسان علی دانش کے فرزند تھے جن کا کل سرمایہ حیات زرعی زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا، جو خاندان کی گزر بسر کے لیے ناکافی تھا۔ ان کا آبائی وطن باغت، ضلع میرٹھ تھا لیکن ان کی جائے پیدائش قصبہ کاندھلہ ضلع مظفر نگر تھا۔ انٹرویو سے قبل جب گفتگو کے دوران ان کی جنم بھومی کا تذکرہ چھیڑا تو احسان دانش یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ حسن اتفاق سے ہماری جائے پیدائش بھی ضلع مظفر نگر کا ہی ایک قصبہ ہے جس کا نام بگھرہ ہے۔
کاندھلہ اور تھانہ بھون ضلع مظفر نگر (یوپی) کے وہ مشہور تاریخی قصبے ہیں جو مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا محمد ادریس کاندھلوی جیسے جید علمائے کرام کی وجہ سے پوری دنیا میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ احسان دانشؔ کی ابتدائی پرورش تو قصبہ باغت ہی میں ان کے نانا جان کے زیر سایہ ہوئی لیکن ان کی وفات کے بعد ان کے والد انھیں اپنے ساتھ لے کر کاندھلہ میں آکر مقیم ہوگئے۔
احسان دانشؔ کو پڑھنے لکھنے کا شوق بچپن سے ہی جنون کی حد تک تھا لیکن خاندانی غربت کی وجہ سے وہ چوتھی جماعت سے آگے اپنی پڑھائی جاری نہ رکھ سکے۔ اسی غربت نے انھیں لڑکپن میں ہی محنت مزدوری کرنے پر مجبور کردیا تاآنکہ انھوں نے لاہور کا رخ کیا اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔
یہاں بھی انھیں جان توڑ محنت کرنا پڑی مگر انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ مطالعے کا شوق اور شاعری کا چسکا انھیں بچپن ہی سے تھا جس میں ہرگزرنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا، اس زمانے میں بعض شاعر اپنا کلام پمفلٹ کی صورت میں خود ہی چھپواکر گلیوں اور بازاروں میں گھوم پھر کر پڑھتے ہوئے فروخت کیا کرتے تھے۔ حضرت بومؔ میرٹھی جیسے بے مثل شاعر کو بھی اپنا پیٹ پالنے کے لیے مجبوراً یہی طریقہ اختیار کرنا پڑا تھا۔ پھر جب احسان دانش کو پنجاب یونیورسٹی کے ایک ٹھیکیدار کے یہاں کام کرنے والے ایک راج مستری کے ہیلپر کی جاب مل گئی تو انھوں نے یہ سلسلہ ترک کردیا۔ دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد جو وقت انھیں میسر آتا تھا اسے وہ لائبریری میں بیٹھ کر مطالعے میں صرف کردیا کرتے تھے۔
بے شک اﷲ تعالیٰ کسی کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ آخرکار وہ دن بھی آیا جب وہ پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے اردو کے پیپرز کے ممتحن بنے اور جب وہ چیف ایگزامنر کی حیثیت سے اپنے معاوضے کا چیک لینے کے لیے یونیورسٹی پہنچے تو ان کے پرانے ساتھی مزدور انھیں پہچان گئے اور ان کی اس عظیم الشان کامیابی پر خوشی سے پھولے نہ سمائے۔
احسان دانش نے ثابت کردیا کہ ’’ہمت مرداں مدد خدا‘‘ یہ کہاوت بڑی مشہور ہے کہ ’’خوش نصیبی انسان کے دروازے پر کبھی نہ کبھی دستک ضرور دیتی ہے‘‘۔ احسان دانش کے ساتھ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب انھیں لاہور کی مشہور شملہ پہاڑی کی چوکیداری کی ملازمت میسر آئی۔ اس ملازمت نے انھیں آرام سے پڑھنے لکھنے کی فراغت مہیا کردی جس کے نتیجے میں ان کی شاعری ادبی وسائل و جرائد میں شایع ہوکر عوام و خواص میں مقبول ہونا شروع ہوگئی اور پھر وہ مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے جس نے ان کی شہرت میں روز بہ روز اضافہ کردیا۔
ایک نعتیہ مشاعرے میں ان کی ملاقات گورنر ہاؤس کے ہیڈ مالی سے ہوگئی جس نے ان کی شاعری سے متاثر ہوکر انھیں گورنر ہاؤس میں مالی کی ملازمت دلوادی۔ کچھ عرصے کام کرنے کے بعد احسان دانش نے یہ ملازمت چھوڑدی اور محکمہ ریلوے میں چپراسی لگ گئے پھر انھوں نے اس نوکری کو بھی خیرباد کہہ دیا اور ایک بک اسٹال پر کام کرنے لگے۔
روزی روٹی کے چکر نے شاعر مزدور احسان دانش کو سرمایہ داروں اور ان کی ذہنیت سے بدظن کردیا۔ یہ ان کی زندگی کا انتہائی نازک موڑ تھا جس کے نتیجے میں وہ بعض دوسرے لوگوں کی طرح سرمایہ دارانہ نظام سے متنفر ہوکر مارکسزم کا رخ بھی اختیار کرسکتے تھے مگر ان کے دل و دماغ پر لگی ہوئی مذہب کی چھاپ اتنی گہری تھی کہ انھوں نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا۔ تاہم وہ مزدور اور اس کی عظمت کے ترانے لکھتے رہے اور گاتے رہے اور ’’شاعر مزدور‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نام نہاد شاعر مزدور نہیں بلکہ حقیقی شاعر مزدور کہلانے کے مستحق ہیں کیوں کہ ان کی زندگی کا بڑا حصہ مزدوری پر ہی محیط ہے۔
وہ محض شاعر ہی نہیں بلکہ ایک وسیع المطالعہ دانشور اور اسکالر بھی تھے، جنھوں نے اردو لسانیات اور لغات کے میدان میں بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں جو ’’حضرِ عروض‘‘، ’’تذکیر و تانیث‘‘ ’’لغت الاصلاح‘‘، ’’اردو مترادفات‘‘ اور ’’دستور اردو‘‘ جیسی لافانی کتابوں کی شکل میں ہمیشہ یاد رکھی جائیںگی۔ اس کے علاوہ انھوں نے بے شمار نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی بھی کی جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، ان کی خودنوشت ’’جہان دانش‘‘ بھی ان کا بہت بڑا ادبی کارنامہ ہے اس کے علاوہ ان کی اور بہت سی کتابیں بھی ہیں جن کی تعداد پچاس سے بھی زیادہ ہے، ان کی غیر مطبوعہ تحریریں اس کے علاوہ ہیں۔ اردو زبان اور ادب کے لیے ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انھیں ’’نشان امتیاز‘‘ اور ’’ستارۂ امتیاز‘‘ کے ایوارڈز بھی دیے گئے جو بلاشبہ ان کے شایان شان تھے۔ ہر سال 21 مارچ کی تاریخ جوکہ ان کی تاریخ وفات ہے ان کی یاد تازہ کردیتی ہے۔
کتنے درد جگادیتا ہے اک جھونکا پُروائی کا