اختر سدیدی از جمیل اطہر
میں نے لکھنے لکھانے کے ابتدائی دور میں جن اصحاب سے فیض حاصل کیا ان میں جناب اختر سدیدی کا اسم گرامی بھی شامل ہے، مجھے اخبارات کے بچوں کے صفحات میں لکھنے کا شوق تھا، میں ہفت روزہ ’’صنعتی پاکستان‘‘ جھنگ ، روز نامہ’’ غریب‘‘ لائل پور، روز نامہ ’’سعادت‘‘ لائل پور اور روز نامہ’’ امروز‘‘ لاہور کے بچوں کے صفحات کے لئے کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا تھا ۔ میری دلچسپی کا سب سے اہم مرکز تو روز نامہ’’ غریب‘‘ رہا مگر روز نامہ’’ سعادت‘‘ اس معاملے میں دوسرا اخبار تھا۔ ’’غریب ‘‘کے بچوں کے صفحہ کے نگران ممتاز ترقی پسند شاعر جناب احمد ریاض تھے اور روز نامہ’’سعادت‘‘ کے بچوں کے صفحات جناب اختر سدیدی مرتب کرتے تھے۔ اختر سدیدی کا شمار لائل پور کے قابل احترام صحافیوں میں ہوتا تھا، وہ’’ سعادت ‘‘کے مدیر و مالک جناب ناسخ سیفی کے برادرِ نسبتی تھے اور اس وجہ سے سعادت میں دوسرے صحافیوں کا تو آنا جانا لگا رہتا تھا مگر اختر سدیدی کی ’’سعادت ‘‘سے وابستگی ازلی اور ابدی تھی ۔ انہوں نے اپناہفت روزہ’’ مزدور دُنیا‘‘ بھی نکالا تھا ، مگر جو شِ جوانی میں انہوں نے جماعت اسلامی سے وابستہ شاعر جناب نعیم صدیقی کی ایک نظم ’’مزدور دُنیا‘‘ میں شائع کردی جس پر حکومت نے ضمانت طلب کرلی اور ضمانت کی رقم میسر نہ ہونے کے باعث ’’مزدور دُنیا ‘‘کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ اختر سدیدی کلین شیوتھے اور شعر و شاعری سے بھی ان کو تعلقِ خاطر تھا ۔اللہ تعالیٰ نے انہیں آواز بھی بہت اچھی دی تھی، جب اپنا کلام ترنم سے سناتے تھے تو سننے والے جُھوم جُھوم جاتے تھے ۔ پھر اختر سدیدی صحافت سے رسمی تعلق بر قرار رکھتے ہوئے تصوف اور روحانیت کی دنیا کی طرف چلے گئے، در اصل ان کا اکلوتا جوان بیٹا انہیں داغِ مفارقت دے گیا اور اس حادثہ نے اختر سدیدی کی کایا ہی پلٹ دی۔ انہوں نے اپنے اشعار کو صرف نعت کے لئے وقف کردیا اور خود بھی اسی رنگ میں رنگے گئے جو اہلِ اللہ کا شیوہ ہوتا ہے، جن اختر سدیدی سے میرا واسطہ رہا اب وہ یہ اختر سدیدی نہیں تھے۔ ’’سعادت‘‘ ان کے داماد خلیق الرحمن سیفی کے انتظام و ادارت میں شائع ہونے لگا اور اختر سدیدی اپنے بڑے بھانجے عتیق الرحمن سیفی کے اخبار روز نامہ ’’تجارتی رہبر ‘‘ کے اداریے اور مقالات خصوصی لکھنے لگے ، مگر ان کی تمام علمی اور ادبی سر گرمیوں کا مرکز میلاد کی محفلیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی مجالس بن گئیں، ایسی تمام محفلوں میں جن کا دائرہ پُورے ملک میں پھیلا ہوا تھا اختر سدیدی نظامت کے فرائض انجام دیتے اور خود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت پر مبنی اپنا ایمان افروز کلام سُناکر سامعین کو بے خود کردیتے۔ اختر سدیدی کی شیریں زبانی کی اور کوئی مثال میرے ذہن میں نہیں آرہی ۔ عام گفتگو میں بھی ان کا انداز بہت رس بھرا ہوتا تھا، مجھے ایک صوفی کے رُوپ میں جناب اختر سدیدی کو ایک سفر میں دیکھنے کا موقع ملا۔ میں لائل پور سے چناب ایکسپریس کے ذریعے ٹوبہ ٹیک سنگھ جا رہا تھا، اسی ڈبے میں جناب اختر سدیدی بھی سوار ہوئے جو غالباً کسی محفلِ میلادکو رونق بخشنے کے لئے ملتان جارہے تھے ۔ وہ باریش ہوگئے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب لوگ ان کے ہاتھ چُومتے تھے اور قدم بوسی کے منتظر رہتے تھے مگر اس نئی وضع قطع کے باوجود اختر سدیدی صاحب نے مجھے ویسی ہی عزت دی جیسے ابتدائے صحافت میں مجھے میسر رہی، میری خواہش رہی کہ ہم ہرسال امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی ؒ کی یاد میں لاہور میں جو قومی کانفرنس منعقد کرتے ہیں اس میں نقیب کی حیثیت سے جناب اختر سدیدی کو مدعو کیا جائے۔ میں نے ایک دو مرتبہ جسارت بھی کی، انہوں نے وعدہ بھی کرلیا مگر کوئی نہ کوئی وجہ آڑے آتی رہی اور ہم اس کانفرنس میں ان کا رنگ ڈھنگ دیکھنے سے محروم رہے ۔ جناب اختر سدیدی کی صحت قابلِ رشک تھی مگروہ چیچہ وطنی میں ایک محفلِ ذکر میں اپنا روح پرور اور ایمان افروز کلام سنارہے تھے کہ اچانک سٹیج پر گر گئے اور موت نے ہمیں اعلیٰ و ارفع کردار کے مالک ایک صحافی ، شاعر ، نعت گو اور صوفی سے محروم کردیا۔ مجھے یقین ہے کہ جب قبر میں اتارے جانے پر سدیدی صاحب کی رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی ہوگی تو اللہ کے رسول ؐ نے اپنے اس عاشق صادق کو اپنی بانہوں میں لے لیا ہوگا۔