ارشاد احمد حقانی از جمیل اطہر
ارشاداحمد حقانی کی یادوں کا چمن میری نظروں کے سامنے کِھلا ہوا ہے‘ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس میں سے کون کون سا پُھول چُن کر صفحہ قرطاس پر منتقل کروں‘ یہ کم و بیش پچپن برس کی کہانی ہے جسے بیان کرنے کے لئے محض ایک مضمون کافی نہیں‘ یہ داستان کئی مضامین اور کم از کم ایک کتاب کی متقاضی ہے۔ ان سے میری پہلی ملاقات 1955ء میں ہوئی۔ میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں جماعت اسلامی کے ترجمان روزنامہ ’’تسنیم‘‘ کا نامہ نگار تھا اور نامہ نگار بھی اس طرح بنا تھا کہ میرے تایا قاضی نصیر الدین سرہندی مرحوم کو اس بات پر بہت تشویش تھی کہ میں میاں افتخار الدین مرحوم کی ’’آزاد پاکستان پارٹی ‘‘میں شامل ہوکر میاں صاحب کے اخبار ’’امروز‘‘ اور ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کا ٹوبہ ٹیک سنگھ میں نمائندہ بن چکا تھا۔ ایک روز میرے تایا جان نے کہا کہ وہ مجھے ایک ایسی بات کہنا چاہتے ہیں جس کے جواب میں وہ انکار نہیں سنیں گے‘ میرے اصرار پر انہوں نے کہا کہ وہ مجھے ’’تسنیم‘‘ کا نامہ نگار بنانا چاہتے ہیں۔ میں نے صاف انکار کرنے کے بجائے انہیں یاد دلایا کہ میں تو ’’امروز‘‘ کا نامہ نگار ہوں جو جماعت اسلامی کا مخالف اخبار ہے‘ میرے تایا جان نے جواب میں کہا کہ عدالتیں جو فیصلے کرتی ہیں‘ تھانوں میں جرائم کے جو مقدمات درج ہوتے ہیں اور معاشرے میں عمومی طور پر جو سرگرمیاں ہوتی ہیں کیا ان کا کسی جماعت سے تعلق ہوتا ہے‘ میں نے عرض کیا ’’نہیں ایسا تو نہیں‘‘ تب انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی والے اپنی سرگرمیوں کی رپورٹیں خود ’’تسنیم‘‘ کو ارسال کرتے رہیں گے‘ تمہارے ذمہ وہ خبریں ہیں جن کا جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ ان کی اس دلیل کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ چند روز بعد دفتر ’’تسنیم‘‘ سے میرا پریس کارڈ آگیا۔ شاہ عالم مارکیٹ میں ممتازمحل ہوٹل کے قریب ایک بلڈنگ میں واقع دفتر ’’تسنیم‘‘ میں ارشاد احمد حقانی سے میری ملاقات‘ ایک روزانہ اخبار کے ایڈیٹر سے ایک دور افتادہ قصبہ کے نوآموز نامہ نگار کی ملاقات تھی۔ ارشاد احمد صاحب (وہ ’’تسنیم‘‘ کے زمانہ ادارت میں یہی نام لکھتے تھے اور حقانی کے لاحقہ کا بہت بعد میں ان کے نام کے ساتھ اضافہ ہوا) نے میرا تعارف اخبار کے مدیر اعلیٰ جناب سعید ملک سے بھی کرایا جو اس وقت جماعت اسلامی پنجاب کے امیر بھی تھے۔ یہیں میری ملاقات جناب مصطفی صادق سے بھی ہوئی اور یہی ملاقات بعد میں ان کے ساتھ طویل صحافتی رفاقت کا باعث بنی۔ جناب ارشاد احمد ’’تسنیم‘‘ کی ادارتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے مرکزی شعبہ نشرواشاعت کے ناظم بھی تھے۔ آج کے دور کی اصطلاح میں اسے سیکرٹری انفارمیشن یا سیکرٹری اطلاعات کہنا چاہئے۔ اس دور میں جماعت اسلامی جن نکات پر اپنی سیاسی مہم چلا رہی تھی ان میں اسلامی دستور کا نفاذ‘ نبی اکرم ﷺ کے خاتم النبین ہونے کے عقیدہ کی حفاظت اور اس عقیدہ پر یقین نہ رکھنے والے قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ شامل تھا۔ جماعت اسلامی کے کارکن سیاسی و دینی اجتماعات میں ان مطالبات کے حق میں پمفلٹ تقسیم کرتے‘ عام شہریوں کے بازوؤں پر چھوٹے چھوٹے سٹکر باندھتے اور گلی محلوں اور اہم چوکوں پر ’’خاموش مظاہرے‘‘ کئے جاتے۔ جن میں جماعت کے کارکن زبان سے کچھ نہیں بولتے تھے اور نہ ہی کسی قسم کے نعرے لگاتے تھے‘ انہیں جماعت اسلامی کے حامی خاموش مظاہروں کا نام دیتے تھے اور جماعت کے مخالف اخبارات اس پر گونگے مظاہروں کی پھبتی کستے تھے۔ اس زمانے میں پاکستان ٹائمز‘ امروز اور سول اینڈ ملٹری گزٹ کے علاوہ کوئی اخبار اپنے نمائندوں کو کوئی معاوضہ یا ڈاک الاؤنس نہیں دیتا تھا۔ جب ارشاد احمد حقانی اور مصطفی صادق نے میرا تعارف جناب سعید ملک سے کرایا تو وہ اس بات پر بہت متعجب ہوئے کہ چودہ پندرہ سال کا ایک بچہ اپنے علاقہ کی خبریں لکھنے اور بھیجنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انہوں نے میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے نمائندوں کو کوئی معاوضہ تو نہیں دیتے اور نہ ہی کوئی ڈاک الاؤنس ادا کرتے ہیں حتیٰ کہ اعزازی اخبار بھی جاری نہیں کرتے کیونکہ وہ عام طور پر جماعت کے اپنے کارکن ہی ہوتے ہیں مگر تمہیں ’’تسنیم‘‘ کا ایک اعزازی پرچہ ضرور دے دیا کریں گے۔
1957ء میں جب صادق آباد کے قریب ماچھی گوٹھ میں جماعت اسلامی کا سالانہ اجتماع منعقد ہوا تو میرے تایا جان بھی اس اجتماع میں شریک ہونے کے لئے ماچھی گوٹھ گئے۔ واپس آنے پر وہ جماعت میں اپنے رفقاء سے وہاں ہونے والے مباحث کا بھی ذکر کرتے جس کی کچھ بھنک میرے کان میں بھی پڑتی رہی۔ اسی طرح کی ایک گفتگو سے مجھے پتہ چلا کہ ارشاد احمد روزنامہ ’’تسنیم‘‘ کی ادارت سے مستعفی ہوگئے ہیں میں نے یہ سُنا اور فوراً ہی روزنامہ ’’امروز‘‘ کو یہ خبر ارسال کردی جس نے یہ خبر صفحہ اول پرشائع کی اور اس طرح اخباری حلقوں کو اس خبر سے آگاہی حاصل ہوئی کہ جماعت اسلامی‘ انتخابات میں براہ راست حصہ لینے کے سوال پر اختلاف و انتشار کا شکار ہوگئی ہے۔
جناب ارشاد احمدجماعت کے اجتماع میں اپنے استعفیٰ کے فیصلہ کا اعلان کررہے تھے تو امیر جماعت اسلامی مولانا مودودیؒ نے بعض ارکان کی طرف سے ’’تسنیم گروپ‘‘ پر سازش کے الزام کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے ارشاد احمد اور مصطفی صادق کی دیانت و امانت پر کوئی شبہہ نہیں‘ میں چاہوں گا کہ یہ جماعت کے ترجمان اخبار میں بدستور کام کرتے رہیں اور اگر انہوں نے الگ ہونے پر ہی اصرار کیا تو میں ان کی پیشانیوں پر بوسہ دے کر انہیں رخصت کروں گا۔ بعد میں مولانا مودودیؒ نے اس الوداعی دعوت میں شرکت کی جو ارشاد احمد صاحب اور مصطفی صادق صاحب کے ’’تسنیم‘‘ سے علیحدہ ہوجانے پر ان کے اعزاز میں ادارہ ’’تسنیم‘‘ کی طرف سے دی گئی۔
جناب مصطفی صادق روزنامہ ’’تسنیم‘‘ سے الگ ہوکر لاہور سے لائل پور (اب فیصل آباد) آگئے جہاں انہوں نے مولانا عبدالرحیم اشرف کے جرائد ہفت روزہ ’’المنیر‘‘ اور بعد میں ہفت روزہ ’’المنبر‘‘ کی ادارت سنبھالی اور چند مہینوں بعدوہ ممتاز صنعت کار سعید سہگل کے ملکیتی اخبار روزنامہ ’’آفاق‘‘ میں پہلے سب ایڈیٹر اور بعدازاں ریذیڈنٹ ایڈیٹر بن گئے اور مئی 1958ء میں راقم بھی روزنامہ ’’آفاق‘‘ سے بطور سب ایڈیٹر وابستہ ہوگیا اور اس سال کے آخر میں ہم نے اپنا اخبار ’’وفاق‘‘ نکالنے کا فیصلہ کیا جو چار سال ہفت روزہ رہا اور 1962ء میں روزنامہ بن گیا اور چند سال کے وقفوں کے ساتھ سرگودھا‘ لاہور‘ رحیم یار خان اور راولپنڈی سے شائع ہونے لگا۔ ارشاد احمد صاحب روزنامہ ’’تسنیم‘‘ سے سبکدوش ہونے کے بعد انگریزی روزنامہ ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کے انگریز ایڈیٹر کلاڈسکاٹ سے ملنے گئے اور اپنی تعارفی چٹ پر لکھا ’’نصف گھنٹہ پہلے تک اردو روزنامہ ’’تسنیم‘‘ کا ایڈیٹر۔‘‘ کلاڈسکاٹ نے انہیں کسی تأمل کے بغیر سب ایڈیٹر مقرر کردیا۔ مگر یہاں انہوں نے ایک دو مہینے ہی کام کیا اور ایڈیٹر سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں اپنے آبائی قصبہ قصور جانا چاہتا ہوں۔ کلاڈ سکاٹ نے انہیں اجازت دیتے ہوئے قصور میں ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کا نامہ نگار مقرر کردیا‘ یہ میرے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لائل پور آنے اور آفاق میں شمولیت سے پہلے اور وفاق کے اجراء سے پہلے کا دور ہے جب میں بھی ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کا نامہ نگار تھا اور انتظامیہ ہر سال تار گھر سے کسی نقد ادائیگی کے بغیر اپنے سٹاف کے بعض ارکان اور چیدہ چیدہ نمائندوں کو تار کی صورت میں خبریں بھیجنے کا اختیار نامہ دیتی تھی‘ اس طرح کے دو تین سال تک جاری ہونے والے اختیار ناموں میں میرے اور ارشاد احمد کے نام بھی شامل رہے جبکہ قدوس صہبائی (شاہین ۂبائی کے والد) اور ممتاز ٹریڈ یونینسٹ آئی ایچ راشد کے اسماء بھی ان اختیار ناموں TELEGRAPHIC AUTHORITIES میں شامل رہے۔ میں ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لائل پور آنے کے بعد بھی ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کو خبریں بھیجتا رہتا تھا اور کبھی کبھی ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاوہ ضلع کے دوسرے قصبات کی خبریں بھی شامل کردیتا تھا۔ ایسے ہی ایک موقع پر لائل پور کے سٹاف کارسپانڈنٹ بزرگ صحافی بشیر قریشی (اب مرحوم) نے میری شکایت کردی اور ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کے ڈپٹی ایڈیٹر اور معروف صحافی مولوی محمد سعید (مرحوم) نے مجھ سے ایک خط کے ذریعے جواب طلب کرلیا۔ مجھے یہ خط اس وقت ملا جب ارشاد صاحب‘ مصطفی صادق اور جماعت اسلامی سے الگ ہوجانے والے اپنے رفقاء بالخصوص مولانا عبدالرحیم اشرف سے ملاقات کے لئے قصور سے لائل پور آئے ہوئے تھے اور مصطفی صادق صاحب کے ہاں قیام پذیر تھے۔ یہاں میری بھی ان سے ملاقات ہوئی‘ میں نے مولوی محمد سعید صاحب کا وہ خط انہیں دکھا کر مشورہ کیا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔ انہوں نے ہمارے ادارہ ’’پاک نیوز سروس‘‘ کے لیٹر پیڈ کا ایک کاغذ پکڑ کر انگریزی میں چند سطور لکھیں جس میں لائل پور کے نمائندہ خصوصی کی حدود میں تجاوز پر نہایت انکساری سے معذرت کا اظہار تھا اور آئندہ کے لئے محتاط رہنے کی یقین دہانی اور وہ بھی ان الفاظ میں کہ میرے برادر بزرگ (بشیرقریشی) خاطر جمع رکھیں‘ میں انہیں آئندہ شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔ اس قدر نرم اور ملائم الفاظ میں لکھے ہوئے ارشاد صاحب کے اس خط سے میری پریشانی دُور ہوگئی اور ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کی انتظامیہ نے اس کوتاہی پر درگزر کا فیصلہ کیا۔
ارشاد صاحب ’’تسنیم‘‘ کی ادارت کے دور میں ہی عوامی جمہوریہ چین کا پہلی بار دورہ کرنے والے صحافیوں کے وفد میں شریک ہوئے‘ اس وفد میں ’’ڈان‘‘ کے الطاف حسین ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے فیض احمد فیض ’’امروز‘‘ کے احمد ندیم قاسمی اور ’’جنگ‘‘ کے میر خلیل الرحمن بھی شامل تھے۔ ارشاد صاحب نے روزنامہ ’’تسنیم‘‘ کے ادارتی صفحہ کے زیریں نصف صفحہ پر کم و بیش 37 اقساط میں اپنا سفر نامہ لکھا جو بعدازاں ’’اشتراکی چین‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔ جب لاہور میں امریکی شعبہ اطلاعات UNITED STATES INFORMATION SERVICE (USIS) کو پتہ چلا کہ ارشاد صاحب چین کے متعلق ایک کتاب لکھ رہے ہیں تو ان کے ڈائریکٹر نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر ارشاد صاحب اس کتاب میں ان کا مہیا کردہ ایک باب شامل کردیں تو وہ انہیں معقول رقم پیش کرنے کو تیار ہیں مگر ارشاد صاحب نے یہ پیشکش قبول نہ کی۔ یہ کتاب شائع ہونے کے بعد امریکی محکمہ اطلاعات کے انفارمیشن افسر سرگودھا تشریف لائے اور ’’وفاق‘‘ سرگودھا کے دفتر میں میری بھی ان سے ملاقات ہوئی۔ سرگودھا سے لاہور واپس پہنچ کر انہوں نے میرے نام ایک خط لکھا اور ارشاد صاحب کی کتاب اس خط کے ساتھ منسلک کی اور اپنے خط میں خاص طور پر یہ الفاظ لکھے کہ میں یہ کتاب بازار سے خرید کر آپ کو بھیج رہا ہوں۔
’’تسنیم‘‘ اور ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کے بعد ارشاد صاحب اسلامیہ کالج قصور میں لیکچرار ہوگئے جہاں انہوں نے تاریخ اور علوم اسلامی کے مضامین پڑھائے۔ انہوں نے روزنامہ ’’تسنیم‘‘ اور جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کرنے والے سعید ملک‘ مصطفی صادق اور محی الدین سلفی سے اپنا رابطہ برقرار رکھا‘ اسی طرح وہ قصورسے لاہور آکر جن شخصیتوں کے ساتھ ملاقات کے خواہاں رہتے تھے ان میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، مولانا امین احسن اصلاحی اور سابق وزیراعظم پاکستان چودھری محمد علی خاص طور پر قابل ذکر ہیں‘ روزنامہ وفاق کا اجراء 23 مارچ 1965ء کو لاہور سے ہوا‘ اس وقت آغا شورش کاشمیری کی چٹان بلڈنگ (88 میکلوڈ روڈ) کی پہلی منزل پر وفاق کا دفتر تھا‘ ارشاد صاحب مہینے میں ایک دو بار ضرور قصور سے لاہور آتے تھے اور وفاق کے دفتر میں ہی ان کی نشست ہوتی تھی بعد میں وفاق کا دفتر لاہور ہوٹل کے سامنے ایک عمارت میں چلا گیا اور 1971ء میں شاہراہ قائداعظم پر واقع شاہ دین بلڈنگ میں منتقل ہوگیا جہاں سے سالہاسال ’’نوائے وقت‘‘ شائع ہوتا رہا تھا۔ وہ ’’وفاق‘‘ میں مضامین لکھتے رہے اور مختلف ادوار میں ’’وفاق‘‘ کے اداریہ نویس بھی رہے۔ وہ یہ اداریہ قصور سے لکھ کر بھیجتے تھے۔ اس مقصد کے لئے وہ علی الصبح بس سٹینڈ پر پہنچ جاتے‘ وہیں لاہور سے آنے والے اخبارات کے بنڈل کُھلنے پر اخبارات پر ایک نظر ڈالتے اور اداریہ سپرد قلم کردیتے اور لاہور آنے والے کسی مسافر کے حوالے کردیتے جو ’’وفاق‘‘ کے دفتر میں پہنچانے کا فرض انجام دیتا۔ ان کے خیالات اور افکار بہت روشن‘ واضح اور دو ٹوک رہے۔ قادر الکلام شعراء کی طرح تبصرے اور تجزیئے ان پر نازل ہوتے تھے‘ انہوں نے جو کچھ کاغذ پر منتقل کرنا ہوتا تھا وہ پہلے سے خیالات کے اس سمندر اور سیلاب کی طرح ان کے ذہن و دماغ میں موجزن ہوتا تھا۔ مجھے سالہاسال ان کی تحریریں پڑھنے اور کتابت اور کمپوز ہونے کے بعد ان پر ایک نظر ڈالنے کے مواقع ملتے رہے‘ یقین جانیں ان کی تحریر میں کبھی کسی کمی یا اضافہ یا کانٹ چھانٹ حتیٰ کہ کسی لفظ یا حرف کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہ پڑی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی طرف سے چلائی گئی ’’تحریک نظام مصطفی‘‘ کے دوران بھی ’’وفاق‘‘ کا اداریہ ارشاد صاحب لکھتے رہے۔ انہوں نے ایک ادارتی مقالہ میں وزیراعظم بھٹو سے کہا کہ وہ دوبارہ انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیں اور اس معاملے میں ’’سیاسی ہیرا پھیری‘‘ سے کام نہ لیں بھٹو صاحب کو اس اداریہ کی جو سمری انگریزی میں پیش کی گئی اس میں لفظ ہیرا پھیری نمایاں طور پر اردو میں لکھا گیا۔ بھٹو صاحب نے وفاق کے ایڈیٹر مصطفی صادق صاحب کو اسلام آباد میں وزیراعظم ہاؤس طلب کیا اور ’’وفاق‘‘ میں اس روز شائع شدہ اداریئے کے حوالے سے اپنی سخت برہمی کا اظہار کیا۔ بھٹو صاحب بار بار کہہ رہے تھے ’’آپ نے مجھے ہیرا پھیری‘‘ کہا ہے‘ مجھے ہیرا پھیری لکھا ہے اور انہوں نے سخت غصے کے عالم میں تین چار مرتبہ ’’ہیرا پھیری‘‘ کا لفظ دہرایا۔ اس واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ارشاد صاحب کے لکھے ہوئے حروف اور الفاظ کیا معنی رکھتے تھے اور وہ اقتدار کے ایوانوں میں کس طرح گونجتے اور ارتعاش پیدا کرتے تھے۔
ارشاد حقانی صاحب ایک منجھے ہوئے اداریہ نویس تھے۔ ان کی کالم نویسی کی ابتداء تو رونامہ ’’جنگ‘‘ میں ’’حرف تمنا‘‘ کے نام سے چھپنے والے کالم سے ہوئی۔ ان کی اداریہ نویسی کے جوہر تسنیم‘ وفاق‘ کچھ عرصہ کے لئے نوائے وقت اور پھر جنگ میں کھلتے چلے گئے۔ مجھے روزنامہ ’’وفاق‘‘ میں ان کی رفاقت کا شرف حاصل رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ کم و بیش تیس برس کی درس و تدریس اور گہرے مطالعہ و مشاہدہ نے انہیں کندن بنادیا تھا‘ وہ بہت سوچ سمجھ کر لکھتے تھے۔ ارشاد احمد حقانی جس عرصہ میں روزنامہ ’’وفاق‘‘ کا اداریہ لکھ رہے تھے اور یہ عاجز روزنامہ ’’وفاق‘‘ کے شعبہ مخابرات کے سربراہ کا فریضہ ادا کرتے ہوئے بھٹو کے دور استبداد کے خلاف جدوجہد میں مصروف تھا اور صلاح الدین (مدیر جسارت) الطاف حسن قریشی (مدیر اردو ڈائجسٹ) اور مجیب الرحمن شامی (مدیر زندگی) جیسے نامور صحافی اپنی جرأت و بے باکی کی سزا قیدوبند کے مصائب کی صورت میں بھگت رہے تھے۔ یہ دور گزرنے کے کئی سال بعد فیڈرل سکیورٹی فورس (جسے بھٹو صاحب کی ذاتی فوج کی حیثیت حاصل رہی) کے ایک اہلکار نے ارشاد احمد حقانی کو ایک تفصیلی خط لکھ کر مطلع کیا کہ اسے ارشاد احمد حقانی اور جمیل اطہر کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اس مقصدکے لئے اس نے مزنگ چونگی میں قصور سے لاہور پہنچ کر بس سے اُترنے اور دفتر وفاق پیدل جاتے ہوئے حقانی صاحب کا پیچھا بھی کیا تھا مگر اس کے ضمیر نے ملامت کی اور وہ ان کے خُون سے اپنے ہاتھ رنگنے سے باز رہا‘ حقانی صاحب نے ’’جنگ‘‘ میں شائع شدہ اپنے کالم ’’حرف تمنا‘‘ میں یہ خط شائع کرکے قوم کو یہ بتایا تھا کہ وطن عزیز میں ایک ایسا دور بھی گزرا ہے کہ صحافت کے خارزار میں قدم رکھنے کے معنی اپنی جان‘ مال اور آبرو ہتھیلی پر رکھنا تھے اور یہ شعر معمولی تضمین کے ساتھ صادق آتا تھا
یہ شہادت گہہِ اُلفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں صحافی ہونا
ارشاد احمد حقانی عمر بھر جمہوریت اور جمہوری اقدار کے سچے پرستار اور علمبردار رہے۔ جب وہ وفاق کے لئے اداریہ نویسی کررہے تھے اس وقت بھٹو صاحب کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک اپنے جوبن پر تھی تو تحریک کے اندر نوابزادہ نصراللہ خان اور ایئر مارشل (ریٹائرڈ) اصغر خان دو مخالف اور متحارب سوچ کے مالک سیاست دان سمجھے جاتے تھے۔ ارشاد احمد حقانی صاحب کا نقطہ نظر نوابزادہ صاحب کے مؤقف سے قریب تر تھا‘ ایک موقع پر ایئر مارشل (ر) اصغر خان نے جو کوٹ لکھپت جیل میں قید تھے مدیر ’’وفاق‘‘ مصطفی صادق صاحب سے کہا کہ کیا آج کل ’’وفاق‘‘ کا اداریہ نوابزادہ نصراللہ خان لکھ رہے ہیں۔ ایئر مارشل کے اس تأثر سے یہ اندازہ بآسانی کیا جاسکتا ہے کہ جس طرح نوابزادہ نصراللہ خان جمہوریت سے اپنی لازوال وابستگی کے باعث ’’بابائے جمہوریت‘‘ کہلائے‘ اسی طرح اپنے وطن کی محبت کے صدہا رنگوں میں گندھے ہوئے اپنے اداریوں اور کالموں کی وجہ سے ارشاد احمد حقانی بھی ’’بابائے صحافت‘‘ قرار دیئے جانے کے بجا طور پر حق دار ہیں۔ انہوں نے بھٹو‘ ضیاء الحق‘ جونیجو‘ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دونوں ادوار میں کسی مصلحت اور مفاد کی پروا کئے بغیر ان پر نکتہ چینی کی۔ نوازشریف کا دوسرا دور تو بینظیر حکومت پر ارشاد حقانی کی سخت نکتہ چینی اور مواخذہ کے نتیجے میں حاصل ہوا تھا لیکن نوازشریف نہ صرف ان کے تنقیدی کالموں پر برہم ہوئے بلکہ میر شکیل الرحمن سے یہ مطالبہ بھی کیا جانے لگا کہ ارشاد حقانی سمیت چند ممتاز صحافیوں کو ’’جنگ‘‘ سے نکال ہی دیا جائے۔ اس موقع پر میر خلیل الرحمن میموریل سوسائٹی کی طرف سے لاہور کے ایک ہوٹل میں احتجاجی سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس کے مقررین کی فہرست میں میرا نام بھی شامل تھا‘ پرائم منسٹر ہاؤس سے میاں نوازشریف کے پریس سیکرٹری رائے ریاض حسین جن سے راقم کے دوستانہ اور برادرانہ روابط بھی تھے مجھے فون کرکے اس سیمینار میں شرکت سے باز رکھنے کی کوشش کی‘ مگر میں نے ان سے یہ کہتے ہوئے معذرت کی کہ میں اس سیمینار میں شرکت کا وعدہ کرچکا ہوں اور میرا نام میری اجازت سے مقررین کی فہرست میں شائع ہوچکا ہے‘ اس لئے اب میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا‘ میں نے اس سیمینار میں اپنی تقریر میں ارشاد حقانی کو ادارہ ’’جنگ‘‘ سے الگ کرنے کے مطالبہ کی شدید مذمت کی اور نوازشریف کو یاد دلایا کہ آج وہ اقتدار کے جو مزے لُوٹ رہے ہیں یہ اقتدار ان کو بے نظیر بھٹو کے دور حکومت کے خلاف ارشاد حقانی کی جارحانہ نکتہ چینی کے نتیجے میں تبدیل ہونے والی رائے عامہ کی بدولت حاصل ہوا ہے‘ ارشاد حقانی صاحب کی صاحبزادی اتفاق سے اس سیمینار میں موجود تھیں۔ ارشاد صاحب نے فون کرکے مجھے بتایا کہ میری بیٹی نے مجھے بتایا ہے کہ آپ کے حق میں سب سے زیادہ پُرزور آواز جمیل اطہر نے بلند کی ہے۔
ارشاد احمد حقانی نے جنہیں ہمیشہ خلوت عزیز رہی انتقال سے چند لمحے قبل اپنی بیٹی اور بیٹوں سے کہا مجھے کچھ وقت کے لئے علیحدگی درکار ہے‘ میں آرام کرنا چاہتا ہوں اور یہ الفاظ ادا کرنے سے چند ہی ساعتیں بعد وہ ابدی آرام کے لئے چلے گئے اور اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔ بھٹو‘ ضیاء الحق نوازشریف‘ بینظیر بھٹو‘ پرویز مشرف اور آصف زرداری سے انہوں نے معاشرتی زندگی میں انقلاب کی جو اُمیدیں وابستہ کیں وہ بدقسمتی سے پُوری نہیں ہوسکیں اور ہر بہتری کی آرزو میں جس تبدیلی کے لئے انہوں نے اپنا قلم استعمال کیا اور اس سے تیغ کا کام لیا وہ تبدیلی بہتری لانے کے بجائے مزید ابتری کا باعث بنی۔ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کی روح نوجوان صحافیوں کی طرف دیکھ رہی ہے جو پاکستان کا حقیقی مستقبل اور وطن عزیز کی قومی صحافت کا روشن کل ہیں کہ ان کے آدرشوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے قلم کا ہتھیار بروئے کار لائیں گے اور وسیع مطالعہ‘ و مشاہدہ کو بروئے کار لاکر پاکستان کو قائداعظمؒ علامہ اقبالؒ اور ارشاداحمد حقانی کے خوابوں کا مُلک بنانے کے لئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔