یہ اچانک مر جانے والے لوگ اپنے دوستوں اور جاننے والوں میں عجیب قسم کا خوف و ہراس پیدا کر جاتے ہیں۔ امتیاز سپرا لاہور کی سماجی اور صحافتی زندگی کا ایک ہنگامہ خیز کردار تھے۔ وہ دنیا کے ہر موضوع پر گفتگو کرتے اور ہمیشہ اپنی بات پر اڑ جاتے۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ آخر میں ہر محفل ہنگامہ نما اختتام کی نذر ہو جاتی۔ منگل کے روز وہ اپنے دفتر گئے ایک مضمون لکھا اور ہنستے کھیلتے رخصت ہو گئے۔ شام ساڑھے سات بجے کے قریب انہوں نے اپنے ایک دوست نعیم طاہر شیخ کو ٹیلی فون کیا اور مل بیٹھنے کی خواہش ظاہر کی۔شیخ صاحب کے خیال میں دیر ہو چکی تھی انہیں گھر جانے کی بھی جلدی تھی اس لئے انہوں نے پروگرام اگلے دن پر ملتوی کر دیا۔ سپرا صاحب سو گئے۔ اگلی صبح ملازم جگانے گیا تو پتہ چلا کہ وہ ایسی نیند سوئے پڑے ہیں جس سے جاگنا ممکن نہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ میں صحافت کے شعبے کے کئی منفرد کردار ہمیشہ کیلئے رخصت ہوئے ہیں۔ امتیاز سپرا اپنی نوعیت کی ایک الگ چیز تھے۔ سفید داڑھی اور سفید بالوں والی تصویر میں وہ بزرگ لگتے لیکن آخری سانس تک اندر سے بالکل نوجوان رہے۔ خدا جانے موت کے فرشتے سے بحث کرنے کی گنجائش ہوتی ہے یا نہیں۔ لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو سپرا صاحب نے بڑی طویل اور زور دار بحث کی ہو گی اسے اپنی موت کے نقصانات بتائے ہوں گے اور مزید زندہ رہنے کی افادیت سے آگاہ کیا ہو گا۔ وہ بحث میں ہارنے کے قائل نہیں تھے۔ بہرحال میرا خیال ہے کہ موت سے پہلے یہ آخری بحث ہارتے ہوئے انہوں نے اپنی عادت کے مطابق انگلی کھڑی کرکے ’’ون فار دی روڈ‘‘ کی ضرور فرمائش کی ہو گی۔ گزشتہ شام سپرا صاحب کے جنازے میں، میں نے ہر آدمی کو ہکا بکا دیکھا۔ یہ ایسی موت تھی جس پر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنے دوسرے بہت سارے دوستوں کی طرح امتیاز سپرا بونس کے سالوں پر زندہ تھے۔ انہوں نے بونس کے ان سالوں میں موت سے ڈر کر اپنے معمولات تبدیل نہیں کئے۔ شاید کبھی کسی ڈاکٹر سے بھی مشورہ نہ کیا ہو۔ بعض لوگ اپنے آپ کو زندگی پر ’’قادر‘‘ سمجھتے ہیں۔ امتیاز سپرا اپنے مزاج کے اعتبار سے کچھ ایسے ہی آدمی تھے۔
سپرا صاحب سے پہلے ہمارے چاچا محمد رفیق رخصت ہوئے وہ بھی اپنی ہی قسم کا ایک کردار تھے۔ 1965ء میں میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔ وہ پی پی آئی میں کام کرتے تھے اور میں امروز میں۔ آخری ملاقات پریس کلب کے الیکشن پر ہوئی جہاں وہ الیکشن کمشنر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ 1965ء زندگی کے آخری ساچاچا رفیق یونین کے ہر الیکشن میں سرگرم رہے۔ خود شاید کسی الیکشن میں حصہ نہیں لیا لیکن اپنے امیدواروں کیلئے دن رات ایک کر دیتے تھے۔ ابتدائی دور میں وہ اشرف طاہر مرحوم کے مستقل سپورٹر تھے۔ اشرف طاہر کے انتقال کے بعد وہ حسین نقی کے ساتھی بن گئے۔ آخر میں الیکشن کمشنر کا عہدہ قبول کرکے ’’غیر جانبدار‘‘ ہو گئے۔ 1970ء کی ہڑتال میں پی پی آئی سے برطرف ہونے کے بعد چاچا رفیق روزنامہ مساوات سے منسلک ہو گئے تھے۔ سینئر رپورٹر، نیوز ایڈیٹر اور ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے عہدوں پر فائز رہے لیکن ان کے مزاج میں کوئی فرق نہیں آیا۔ چاچا رفیق کے متعلق عام مشہور تھا کہ جس نوجوان صحافی نے ان کی درسگاہ میں کلاس اٹینڈ نہیں کی وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ ہم لوگ ہر نئے آنے والے کو مشورہ دیا کرتے تھے کہ پہلے چاچا رفیق کی دستار بندی کرو ، سر پر ہاتھ پھیراؤ، پھر صحافت کے سفر کا آغاز کرو۔ چاچا رفیق نے اپنے پورے کیرئیر میں شاید ہی کسی کو دکھ دیا ہو۔ وہ ناراض بھی ہوتے تھے مگر ایک حد تک، ایک مبہم سی گالی ان کا تکیہ کلام تھا۔ جس کا کوئی برا نہیں مناتا تھا۔ امتیاز سپرا کی طرح انہوں نے برق رفتاری سے زندگی گزاری نہ عبدالحمید عدم کی طرح اس فلسفے کے قائل رہے۔
میں میکدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا
ورنہ سفر حیات کا خاصا طویل تھا
چاچا رفیق بڑی دھیمی رفتار سے زندگی کے سفر پر نکلے اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اُفق کے پار نکل گئے۔ انہوں نے صحافت کے پیشے میں دھماکے نہیں کئے۔ بڑے امن سے وقت گزارا۔ چاچا رفیق کے بارے میں میرا ایک عجیب تاثر ہے کہ وہ کوئی پراسرار قسم کے آدمی تھے۔ قریب ترین دوستوں سے بھی اپنی زندگی کے کچھ حصے چھپا کر رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے پیچھے خوشگوار قسم کی یادیں چھوڑی ہیں۔ جنہیں لطیفے بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ لطیفے چاچا کے جنازے میں بھی چلتے رہے۔ دوستوں اور عزیزوں نے انہیں محبت اور احترام سے رخصت کیا۔ ہر زبان پر تعریف کے کلمات تھے۔ کوئی گلہ تھا تو صرف یہ کہ ’’چاچا مر کیوں گیا‘‘ چاچے کو سینکڑوں کی تعداد میں صحافی جانتے ہیں اور ان کی زندگی کے دلچسپ قصے عام ہیں۔ لیکن حقیقت کچھ اس طرح ہے
گئے دنوں کا سراغ لیکر کہاں سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ
موت کا ذکر چلا ہے تو آئیے نوائے وقت کے لیاقت مجاہد کو بھی یاد کریں۔ انہیں دل کی تکلیف تھی۔ بائی پاس آپریشن بھی کرایا۔ جہاں اور جب بھی ملے سمارٹ اور خوش و خرم لگے۔ احتیاط کے بارے میں ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ایک دن تو مرنا ہی ہے اور وقت بھی مقرر ہے پھر ڈرنا کیا۔ ایک رات سوئے صبح جگانے کی کوشش کی گئی تو پتہ چلا کہ 4 گھنٹے پہلے ہمیشہ کی نیند سو چکے ہیں۔ خاص قسم کی مسکراہٹ ان کا ٹریڈ مارک تھی۔ میرا خیال ہے کہ امتیاز سپرا کی طرح وہ موت کے فرشتے سے بحث میں نہیں الجھے ہوں گے لیکن مسکرائے ضرور ہوں گے۔۔۔
ایک اُداس سی بے بس مسکراہٹ!
(12جولائی 2001ء)