امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ از جمیل اطہر
امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری چار برس کی مسلسل اور تکلیف دہ علالت کے بعد پیر کے روز ملتان میں داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی موت کوئی اچانک حادثہ نہیں۔ وہ گذشتہ کئی مہینوں سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھے۔ ان کے علاج معالجہ کے لئے تمام تدابیر بروئے کار لائی گئیں مگر۔۔۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
برصغیر ہندو پاکستان کی سیاسی زندگی میں مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کا کردار کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انہوں نے گذشتہ ربع صدی میں بر صغیر کے اندر انگریزی راج اور انگریز کے پٹھوؤں کے خلاف زبردست جدوجہد کی اور ملک کو آزاد کرانے کے لئے قید و بند کی ان گنت صعوبتیں جھیلیں۔ ان کی موت سے تاریخ کا وہ باب بند ہو گیا ہے جو برصغیر کی کتابِ آزادی کا ایک روشن اور تابناک باب ہے۔ سیاسی دائرے میں سالہا سال کی جہدِ مسلسل کے علاوہ ایک بات جو اُنہیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتی تھی وہ ان کا نبی اکرمؐ سے والہانہ عشق تھا اور آج ہم اُن کی موت پر آنسو بہارہے ہیں تو ہمیں اس امر کا شدت سے احساس ہورہا ہے کہ عاشقِ رسولؐ کی حیثیت سے ان کی جگہ مشکل ہی سے پُر ہوسکے گی انہیں خطابت کا جوہر پہلے ہی میسّر تھا اور انہوں نے اس خوبی سے کام لے کر ہزاروں لوگوں کے دلوں میں حبِّ عشقِ رسولؐ کی شمع روشن کی۔ امیرِ شریعت کی ایک ہی کمزوری تھی کہ وہ کبھی ایسی کوشش یا مذموم حرکت کو کسی بھی طور برداشت نہیں کرتے تھے جو نبی اکرمؐ کی ناموس اور آپؐ کے خاتم الانبیاء ہونے کی راہ میں حائل ہوتی تھی۔ مرحوم شاہ جی کی زندگی پُرخلوص قربانیوں کا مرقع تھی۔ انہوں نے عالی حوصلگی، جرأت مندی اور بے جگری سے غیر ملکی راج کا مقابلہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ معرکۂ حرّیت کے شہ سوار تھے اور ان کی قربانیوں کو صدیوں تک فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ ان کا خلوص اتنا بے لوث اور نبی اکرمؐ سے اُن کی محبت اتنی بے پایاں تھی کہ ہم آنے والے دور میں ان جیسا کوئی رہبر مشکل ہی سے پائیں گے۔
ان کے عشق رسولؐ کا یہ عالم تھا کہ حضورؐ کا اسمِ مبارک سن کر ان پر یک گونہ بے خودی کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ سیاسی زندگی میں ان کی حکمتِ عملیوں سے اختلاف تو کیا جا سکتا تھا مگر انہوں نے غلام ہندوستان کی تیرہ و تار فضاؤں میں آزادی کے لئے تڑپ کے جو چراغ جلائے تھے اُنہیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔
مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری ایک بے بدل خطیب تھے، مجھے نہ صرف اُن کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی بلکہ یہ شرف بھی حاصل ہے کہ وہ جب ملتان سے ختمِ نبوت کانفرنس میں شرکت کے لئے ٹوبہ ٹیک سنگھ تشریف لائے تو ریلوے سٹیشن پر احرار رہنماؤں کے ساتھ میں بھی اُن کا استقبال کرنے کے لئے موجود تھا۔ وہ ریلوے سٹیشن سے چوہدری عبدالرحمن (سیکرٹری انجمن آڑھتیاں ٹوبہ ٹیک سنگھ و امیرمجلس تحفظ ختم نبوت ٹوبہ ٹیک سنگھ) کی دوکان تک پیدل گئے۔ اس دوکان کی بالائی منزل پر اُن کا قیام تھا، جب خان عبدالغفار خان ٹوبہ ٹیک سنگھ آئے تھے تب اُن کا قیام بھی اسی جگہ پر تھا، میں نے چاہا کہ شاہ صاحب کا سامان ریلوے سٹیشن سے غلہ منڈی تک میں اٹھا کر لے جاؤں لیکن میرے حصے میں اُن کا پاندان ہی آیا میں نے رات کو اکبری مسجد کے پلاٹ میں شاہ صاحب کی تقریر سُنی۔ وہ قرآن مجید کی تلاوت نہایت خوش الحانی سے کرتے تھے، اُن کی قرأت سن کر ایسا لگتا تھا کہ قرآن مجید نازل ہورہا ہے۔ شاہ صاحب کی تقریر کئی کئی گھنٹے جاری رہتی تھی اور صبح تہجد یا فجر کے وقت ہی اختتام کو پہنچتی تھی، بقول سید کرامت حسین جعفری سردی کے موسم میں اُن کی تقریر سننے والے لحاف اور کمبل ساتھ لے کر آتے تھے تاکہ اُن کی خطابت کے جادو سے محروم نہ رہیں اور سردی سے بھی اپنا بچاؤ کر پائیں۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاری تحریکِ پاکستان کے مخالف تھے، احرار نے آزادئ ہند کی جدوجہد میں تو بڑی قربانیاں دیں اور قید و بند کے مصائب جھیلے لیکن وہ متحدہ قومیت کے سحر کا شکار رہے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے قیامِ پاکستان کے بعد لاہور میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے تحریکِ پاکستان میں حصہ نہ لینے کی اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے عملی سیاست سے علیحدگی اختیار کرلی تھی، اُن کے دوسرے رفقا ماسٹر تاج الدین انصاری، شیخ حسام الدین، نوابزادہ نصراللہ خان اور آغا شورش کاشمیری نے تو حسین شہید سہر وردی مرحوم کی عوامی جمہوری جدوجہد میں شمولیت اختیار کرلی تھی لیکن سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے تحفظ ختمِ نبوت اور تحفظِ ناموسِ رسالت کے نصب العین سے ہی اپنا ناطہ جوڑے رکھا اور عملی سیاست سے اپنے آپ کو دور رکھا۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا انتقال ایک المناک سانحہ ہے ہم اردو زبان کے سب سے بڑے شعلہ بیان خطیب اور ایک معروف عالمِ دین سے محروم ہوگئے ہیں۔ قحط الرجال کے اس دور میں عطاء اللہ شاہ بخاری ایسی شخصیتیں روز روز پیدا نہیں ہوتیں انہوں نے بر صغیر ہند و پاکستان کے قریہ قریہ میں شعلہ نوائی کرکے قوم کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا اور اس کی سرد شریانوں میں زندگی کا گرم خون دوڑانے کی کامیاب کوشش کی، تاریخ اُس عطاء اللہ شاہ بخاری کے کارناموں کو کیونکر فراموش کرسکے گی جس کی ایک آواز پر ہزاروں اور لاکھوں کارکن تاج و تختِ ختمِ نبوت کے لئے اپنی جانیں دینے کے لئے تیار ہوجاتے تھے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔۔۔ آمین۔