انقلاب ماتری از جمیل اطہر
18 جنوری بروز پیر حسب معمول سوا دس بجے صبح دفتر پہنچا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث دفتر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ صدر دروازے سے اپنے کمرے تک پہنچنا مشکل ہورہا تھا۔ اپنی نشست پر بیٹھا ماضی کی یادوں میں گُم تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ مدیرآفتاب جناب ممتاز طاہر لائن پر تھے غمگین لہجے میں گویا ہوئے‘ آپ کو مشتاق قریشی صاحب کا میسج ملا، میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو انہوں نے یہ افسوس ناک خبر سنائی کہ جناب انقلاب ماتری آج صبح انتقال کرگئے ہیں۔ ممتاز طاہر ابھی گفتگو جاری رکھے ہوئے تھے کہ میرے موبائل پر پیغام کا اشارہ نمودار ہوا اور اب مشتاق قریشی صاحب کی طرف سے یہی خبر میرے لئے تھی جو میرے دل کی دنیا اوربھی تاریک اور ویران کرگئی۔ میں نے فوراً ہی جناب عارف نظامی کو اس سانحہ سے آگاہ کیا اور پھر مجیب الرحمن شامی سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا جنہیں یہ خبر چند لمحے پہلے مل چکی تھی۔ شدید دُھند کے باعث پروازوں کا نظام معطل تھا اس لئے جنازہ میں شرکت کے لئے کراچی پہنچنا ممکن دکھائی نہیں دیتا تھا۔ باہمی مشورے سے یہی طے پایا کہ رسمِ قُل کے موقع پر قرآن خوانی میں شرکت کریں گے۔ رات گئے جناب مجیب الرحمن شامی نے اطلاع دی کہ قرآن خوانی بدھ 20 جنوری کو بعد نماز عصر کراچی میں منعقد ہورہی ہے اور اے پی این ایس کے مرکزی سیکرٹریٹ میں جمعرات 21 جنوری کو دوپہر دو بجے ایک تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیا جارہا ہے۔
انقلاب ماتری کا نام زبان اور قلم پر آتے ہی ایک نہایت مثالی پیکر کا تصور ذہن و دماغ کے اُفق پر ابھرتا ہے۔ وہ جس طرح اپنے نام کے اعتبار سے ایک منفرد شخص تھے اسی طرح وہ اطوار و کردار کے حوالے سے بھی اپنا جداگانہ تشخص رکھتے تھے‘ ان کے والد گرامی جناب فخر ماتری نے جس طرح اپنے اخبارات کے نام ’’ملّت‘‘، ’’حُریت‘‘ اور ’’لیڈر‘‘ رکھے اسی طرح اپنے بڑے صاحبزادے کا نام انقلاب رکھ کر اسے انسانوں کے بحرِ بیکراں میں ایک الگ مقام اور مرتبہ سے آشنا کردیا‘ شاید اس نام ہی کی بدولت انقلاب اُفق صحافت پر ایک انقلاب آفرین صحافی کی حیثیت سے اُبھرے۔
انقلاب ماتری سے میرا تعلق اور تعارف اُس وقت ہوا جب میں 1980ء میں روزنامہ ’’وفاق‘‘ سے الگ ہوا اور روزنامہ تجارت 14 ایبٹ روڈ پر نئے دفتر سے اشاعت پذیر ہونے لگا۔ میں سی پی این ای کا رُکن تو وفاق کے زمانۂ ادارت میں ہی بن چکا تھا‘ اس دور میں یو پی پی کے جناب محمد حیات‘ سی پی این ای کے سیکرٹری مالیات تھے‘ جن کی خبر ایجنسی کا دفتر شاہ دین بلڈنگ کی پہلی منزل کے ایک کونے میں واقع تھا۔ ایک روز جناب محمد حیات نہایت خوشگوار مُوڈ میں میرے کمرے میں تشریف لائے اور ایک کاغذ میرے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ سی پی این ای کی رکنیت کا فارم ہے اس پر دستخط کردو اور ساتھ ہی مجھے ایک سو روپے ادا کرنے کے لئے کہا جو رکنیت کی فیس تھی‘ میں نے فارم پر تو دستخط کردیئے لیکن ایک سو روپے اس وقت میرے پاس نہیں تھے مگر جناب محمد حیات نے ایک سو روپے کی رسید کاٹ کر میرے ہاتھ میں تھما دی اور کہنے لگے جب تمہارے پاس ادا کرنے کے لئے ایک سو روپے ہوں تو یاد سے یہ مجھے ادا کردینا‘ اس طرح مجھے کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کی رُکنیت کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ تمہید مجھے اس لئے باندھنا پڑی کہ یہ سی پی این ای کی رُکنیت ہی تھی جو جناب انقلاب ماتری سے میرے تعلق کا باعث بنی۔ جناب انقلاب ماتری کا شمار جناب مجید نظامی کے قریبی دوستوں اور رفقاء میں ہوتا تھا‘ انہیں مجید نظامی کا معتمد ترین دوست اور ساتھی سمجھا جاتا تھا اور بعد کے دنوں میں اس حقیقت کا ثبوت بھی ملتا رہا۔ وہ سی پی این ای اور اے پی این ایس کی سیاست میں ہمیشہ مجید نظامی کا ساتھ دیتے رہے اور انہوں نے نظامی فیملی سے اپنی لازوال وابستگی سیاست کے ہر موسم میں برقرار رکھی اور خزاں ہو یا بہار وہ اخبارات کے ناشروں اور مدیروں کی جماعتوں کی سیاست میں ان کے ساتھ کھڑے رہے۔
1992ء میں جب کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کا سالانہ اجلاس عام ہوا تو جناب انقلاب ماتری کو غالباً دوسری بار سی پی این ای کا صدر منتخب کیا گیا اور مجھے پہلی بار سی پی این ای کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ دیا گیا۔ صدر اور سیکرٹری جنرل سمیت تمام عہدیدار بلامقابلہ اور کامل اتفاق رائے سے منتخب کئے گئے۔ صدر منتخب ہونے کے بعد جناب انقلاب ماتری نے مجھے جو پہلی ہدایت دی وہ یہ تھی کہ میں اجلاسوں کی کارروائی درج کرنے کے لئے ایک رجسٹر بناؤں اور جس روز کوئی اجلاس منعقد ہو اسی دن اس کی کارروائی رجسٹر میں درج کرلوں، انہوں نے وضاحت سے کہا کہ میں اس سلسلے میں کسی کوتاہی سے کام نہ لوں اور آج کا کام کل پر نہ ٹال دوں کیونکہ بعض اوقات انسان کا حافظہ اس کا ساتھ نہیں دیتا اور کئی اہم باتیں کارروائی کا حصہ بننے سے رہ جاتی ہیں۔ میں نے ان کی ہدایت پر عمل کرنے کی کوشش کی مگر بعض مواقع پر کوتاہی کا بھی مرتکب ہوا‘ اسی طرح کے ایک موقع پر میں نے سی پی این ای کی سٹینڈنگ کمیٹی کے ایک اجلاس میں گزشتہ اجلاس کی کارروائی کی رپورٹ میں جناب مجیب الرحمن شامی سے آزادی صحافت پر سی پی این ای کی اصولی پالیسی کے حوالے سے چند فقرے منسوب کردیئے۔ یہ فقرے سُن کر جناب مجیب شامی پہلے تو بہت لطف اندوز ہوئے کہ ان کے خطاب میں سے اتنے گراں قدر فقرے کارروائی میں شامل ہیں مگر دفعتاً وہ چونکے اور اپنی آواز قدرے بلند کرتے ہوئے کہنے لگے کہ جمیل صاحب! میں تو گزشتہ اجلاس میں شریک ہی نہیں تھا، شامی صاحب کا یہ ردعمل بالکل درست تھا اور مجھ سے یہ کوتاہی جناب انقلاب ماتری کی ہدایت کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے سرزد ہوئی تھی۔
سی پی این ای کے صدر اور سیکرٹری جنرل کی حیثیتوں میں ہمارے مابین کامل یک جہتی اور ہم آہنگی برقرار رہی۔ انہوں نے سی پی این ای کو جمہوری اصولوں کے مطابق چلایا۔اس شعبے میں اپنے بڑوں کی عزت و توقیر کی‘ اپنے ہم عصروں کے ساتھ برابری کا سلوک کیا اور اپنے سے چھوٹوں کو کبھی احساس کمتری میں مبتلا نہ ہونے دیا مجھے انہوں نے سیکرٹری جنرل کے طور پر مکمل آزادی دیئے رکھی، ہمارے درمیان کبھی معمولی اختلاف بھی پیدا نہ ہوا البتہ اسی سال جب وہ صدر اور میں سیکرٹری جنرل تھا اے پی این ایس کے سالانہ اجلاس عام کے موقع پر ’’نوائے وقت‘‘ اور ’’ڈان‘‘ گروپ اور ’’جنگ‘‘ اور علاقائی اخبارات کے گروپ کے مابین انتخابی نتائج پر بدمزگی پیدا ہوگئی اور جناب مجید نظامی‘ جناب حمید ہارون اور ان کے رفقاء نے راتوں رات اے پی این ایس سے علیحدگی اختیار کرکے ناشروں کی نئی جماعت کی تشکیل کا اعلان کردیا، اس موقع پر سی پی این ای کے سالانہ انتخابات کا شیڈول طے ہوچکا تھا اور سالانہ اجلاس عام کے لئے نوٹس جاری کیا جاچکا تھا مگر سی پی این ای کے صدر جناب انقلاب ماتری اور کئی اور عہدیداروں نے اے پی این ایس کے انتخابی نتائج کے ردعمل میں استعفے دے دیئے۔ تمام عہدیداروں میں صرف میں سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے برقرار رہا۔ میں نے ان استعفوں پر اخبارات میں ایک بیان جاری کرکے اپنے مؤقف کا اظہار کیا اور یہ اعلان کیا کہ سی پی این ای کے انتخابات طے شدہ شیڈول کے مطابق کرائے جائیں گے‘ میں نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ دُنیا کی پیشہ ورانہ اور جمہوری تنظیموں کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی جماعت کے صدر نے انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہونے کے بعداپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس بیان کا اخبارات میں شائع ہونا تھا کہ جناب انقلاب ماتری نے فون کرکے اپنی روایتی خندہ پیشانی سے میرے بیان پر مجھے مبارک باد دی اور اختلافات کی شدت کے اس موقع پر تلخی کے مظاہرہ سے گریز کیا، یہ ان کی کشادہ قلبی اور فراخ دلی تھی جس کی وجہ سے آئندہ زندگی میں ہمارے درمیان نہایت پُرخلوص تعلقات برقرار رہے اور یہ ناخوشگوار واقعہ ان تعلقات کی راہ میں کبھی حائل نہ ہوا۔ جب اے پی این ایس اور سی پی این ای دو الگ الگ دھڑوں میں تقسیم ہوگئیں تو انقلاب ماتری کو بہت دکھ پہنچا‘ انہوں نے کراچی کے جمخانہ کلب میں دونوں دھڑوں کے رہنماؤں کو ظہرانہ پر مدعو کیا اور اس امر کی کوشش کی کہ اختلافات کو دُور کرکے باہم اتحاد کی راہ ہموار کی جائے‘ یہ کوشش اگرچہ اس وقت کامیاب نہ ہوسکی مگر وہ اس مقصد کے حصول تک سرگرم عمل رہے اور بالآخر دونوں جماعتوں کے متحارب دھڑے متحد ہوگئے۔
جناب انقلاب ماتری عمر بھر قومی صحافت میں انقلاب آفرین نظریات کے علمبردار اور پاسدار رہے، 1992ء میں جب وہ صدر اور میں سیکرٹری جنرل تھا جنگ گروپ کے انگریزی اخبار ’’دی نیوز‘‘ کی ایڈیٹر ملیحہ لودھی کے خلاف نواز شریف حکومت کی ناراضی سامنے آئی اور ’’دی نیوز‘‘ میں ایک اردو نظم شائع کرنے پر ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ نوازشریف حکومت کی طرف سے اخبارات کے ایڈیٹروں پر عمومی طور پر اور سی پی این ای کے عہدیداروں پر بالخصوص بہت دباؤ تھا کہ وہ ملیحہ لودھی اور ’’جنگ‘‘ گروپ کا ساتھ نہ دیں لیکن بہادر اور جرأت مند انقلاب ماتری نے آزادئ صحافت کے تحفظ کی اس معرکہ آرا جدوجہد میں سی پی این ای کے آئین اور منشور کے مطابق ایڈیٹر کے عہدے کے تقدس کی پاسبانی کی اور حکومت کو بالآخر ملیحہ لودھی کے خلاف مقدمہ واپس لینا پڑا۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں صحافت کی آزادی کی جدوجہد کے باعث انقلاب ماتری کا نام ہمیشہ تاریخ صحافت میں جگمگاتا رہے گا اور مؤرخ ان کے انقلابی کردار کو کبھی فراموش نہیں کرسکے گا۔
جناب انقلاب ماتری نے دوستوں کی ایک محفل میں بتایا تھا کہ جب انہوں نے گریجوایشن کرلی تو جناب فخر ماتری نے اپنے بیٹے سے دریافت کیا کہ کیا وہ اخبار میں کام کرنا پسند کرے گا مگر بیٹے نے باپ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوتے ہی بے اختیار کہا ’’نہیں ہرگز نہیں‘‘ والد نے دریافت کیا ’’آخر وہ کیا کرنے کا خواہش مند ہے۔‘‘ بیٹے نے کہا ’’میں وکیل بننا چاہتا ہوں اور وکالت کی اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک جانا چاہتا ہوں‘‘ والد نے یہ سنا اور بیٹے سے کہا میں تمہیں دو روز دیتا ہوں اچھی طرح سوچ لو‘‘ دو روز کے بعد والد نے پھر دریافت کیا تو بیٹے کا وہی جواب تھا۔ والد نے کہا ’’پھر اپنا سامان پیک کرو اور لندن چلے جاؤ‘‘ انقلاب ماتری نے بتایا کہ والد نے ان کے داخلہ کا انتظام کیا۔ ویزا لگوایا‘ اخراجات کے لئے رقم دی اور انہیں بیرسٹرایٹ لاء کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے مڈل ٹمپل انگلستان بھیج دیا۔
جناب انقلاب ماتری نے اس کہانی کا دوسرا حصہ بڑے دلچسپ پیرائے میں بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں بیرسٹر ایٹ لاء کی ڈگری حاصل کرکے خوشی خوشی وطن واپس پہنچا اور قانون دان کی حیثیت سے پریکٹس شروع کرنے والا تھا کہ میری آمد کے چند روز بعد ہی میرے والد جناب فخر ماتری اپنے دوست روشن علی بھیم جی (سربراہ ایسٹرن فیڈرل یونین انشورنس کمپنی) کی طرف سے دیئے گئے ایک عشائیہ میں ہارٹ اٹیک سے چل بسے اوراگلے ہی روز مجھے ان کے جانشین کی حیثیت میں بطور ایڈیٹر اور پبلشر ذمہ داریاں سنبھالنا پڑیں اور اس کرسی پر بیٹھنا پڑا جس پر بیٹھنے سے میں نے انکار کردیا تھا۔
1966ء میں جب انقلاب ماتری نے ’’اردو روزنامہ ’’حریت‘‘، گجراتی روزنامہ ’’ملت‘‘ اور انگریزی اخبار ’’دی لیڈر‘‘ کی ادارت کی ذمہ داریاں سنبھالیں یہ صحافت کے لئے ایک پُرآشوب دور تھا۔ ایوب خان کے دور آمریت کا سورج غروب ہونے والا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کے خلاف بغاوت کا علَم بلند کرنے کی تیاریاں کررہے تھے۔ ’’ملت‘‘ گجراتی زبان کا ایک مقبول عام اخبار تھا۔ حریّت جدید اردو صحافت کا پرچم تھام کر نکلا تھا لیکن نوجوان، بااصول، خوددار اور کم آمیز انقلاب ماتری نامساعد حالات کا مقابلہ نہ کرسکے اور انہوں نے چند سال بعد روزنامہ ’’حریت‘‘ ایک معاہدے کے تحت ڈان گروپ کے حوالے کردیا۔ اس گروپ میں اس وقت کوئی اردو اخبار نہیں تھا لیکن ڈان گروپ نے بھی کئی سال کی صبر آزما جدوجہد کے بعد یہ بھاری پتھر چُوم کر دوبارہ انقلاب ماتری کے حوالے کردیا۔ انقلاب کے پاس اب یہ اخبار کسی دوسری پارٹی کو فروخت کردینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا، چند سال بعد انقلاب نے میدان صحافت میں ایک اور معرکہ سر کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ اردو کا ایک نیا اخبار ’’پبلک‘‘ کے نام سے نکالا۔ اس اخبار کا پہلا شمارہ اس روز شائع ہوا جب ایم کیو ایم کے رہنما عظیم طارق کو شہید کیا گیا‘ اس دن اخبارات کی تعطیل تھی اور پبلک آٹھ صفحات پر شائع ہونے والا شام کا پہلا اخبار تھا۔ یہ ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہوا۔ قارئین کے اصرار پر انقلاب ماتری نے اندرون سندھ کے قارئین کے لئے پبلک کا مارننگ ایڈیشن شائع کرنا شروع کیا‘ یہ اخبار اشاعت کے اعتبار سے تو خوب کامیاب رہا مگر اسے اپنی زندگی برقرار رکھنے کے لئے اشتہارات کی صُورت میں جو آکسیجن درکار تھی وہ مطلوبہ مقدار میں فراہم نہ ہوسکی اور یہ اخبار بھی انہیں کسی دوسرے ناشر کو فروخت کردینا پڑا۔ ’’ملت‘‘ گروپ کا تیسرا اخبار شام کا انگریزی اخبار ’’لیڈر‘‘ تھا جس کے مالکانہ حقوق ان کے چھوٹے بھائی فردوس ماتری کے پاس تھے، فردوس نے بھی اسے کسی دوسری پارٹی کے ہاتھ میں دے دیا، اس طرح انقلاب ماتری کی ساری زندگی تگ و تاز میں گزری لیکن مشکل کے دن انہوں نے صبروتحمل سے بسر کئے۔ چھوٹے بھائی سے اختلافات کے باعث چند سال پہلے جب نیو چالی میں اپنے گروپ کی ملکیتی ایک وسیع و عریض عمارت اور ایک بہت بڑے چھاپہ خانہ سے انہیں بیدخل ہونا پڑا تو یہ انقلاب ماتری ہی تھے جنہوں نے صحافت کے میدان میں ملّت گروپ کے بے مثل عروج کے بعد ملّت گجراتی کو کرایہ کی عمارت میں زندہ رکھنے کے لئے اپنے خُون سے سینچا۔ ان پر یہ شعر صادق آتا ہے ۔
رکھا ہے آندھیوں نے ہی ہم کو کشیدہ سر
ہم وہ چراغ ہیں جنہیں نسبت ہوا سے ہے
انقلاب ماتری ایک جدید تعلیم یافتہ صحافی اور قانون دان تھے لیکن کئی سال انگلستان میں گزارنے کے باوجود وہ ایک سچے اور پکے مسلمان تھے۔ وہ اس کا سارا سہرا اپنی جرمن اہلیہ کے سر باندھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میری اہلیہ نے قرآن مجید کا مطالعہ کیا اور اسلام کی حقیقت سے آگاہی حاصل کی اور مجھے ایک باعمل مسلمان بننے کے راستے پر ڈالا۔
گزشتہ کئی سال کے دوران مجھے عمرہ کی سعادت حاصل ہوتی رہی‘ میرا معمول تھا کہ میں مدینہ منورہ میں مسجد نبویؐ سے انقلاب ماتری کو فون کرتا تھا اور انہیںیہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس کرتا تھا کہ میں نے فخر ماتری مرحوم ‘ ان کی بیگم صاحبہ (انقلاب ماتری کی والدہ) کی مغفرت اور بلندئ درجات اور آپ کے لئے صحت و عافیت اور رزق کی وسعت کے لئے دعائیں کی ہیں۔ انقلاب اس پر بے اختیار ممنونیت کا اظہار کرتے اور پاکستان آکر جب ان سے ملاقات ہوتی تو اپنی ممنونیت اور بھی والہانہ انداز میں ظاہر کرتے ‘ ان کا چہرہ جو ہمیشہ دل آویز مسکراہٹ سے دمکتا رہتا تھا اس موقع پر اور بھی شاداب ہوجاتا تھا اور انقلاب ماتری‘ پروین شاکر کے اس شعر کی تصویر بن جاتے تھے۔
دیکھا تھا یہ کس نظر سے اس نے
تصویر دمک رہی ہے اب تک
اب جبکہ انقلاب ماتر ی اپنے خالق حقیقی سے جاملے ہیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کی مغفرت کی دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہوئے ان کی اہلیہ کے لئے بھی بے اختیار اجر عظیم کے الفاظ زبان سے ادا ہورہے ہیں جنہوں نے اپنے نامور شوہر انقلاب ماتری کو ایک راست باز اور راست فکر مسلمان کی طرح زندگی بسر کرنے میں شب و روز ان کی مدد کی۔ اللہ پاک ان کی رفیقہ حیات، صاحبزادی شمائلہ داؤد ماتری اور داماد داؤد کو صبر جمیل عطا کرے اور اس خاندان کو یہ توفیق دے کہ وہ جناب فخرماتری اور جناب انقلاب ماتری کی روشن کی ہوئی اس شمع کو تندئ باد مخالف سے بچا کر ایک عظیم صحافتی ادارہ بنانے میں کامیاب و کامران ہوں، باری تعالیٰ سے دعا ہے کہ انقلاب ماتری کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ان کے قریبی رفقاء جناب مشتاق احمد قریشی، جناب انور فاروقی اور جناب محمود العزیز کو بھی ان کی جُدائی کا صدمہ برداشت کرنے کی توفیق ارزانی کرے اور مجھ ایسے اُن کے مداحوں کو اُن کی قائم کردہ اعلیٰ روایات کی نگہبانی اور حفاظت کی سعادت نصیب ہو۔ آمین