دربار صحافت

ایثار راعی از جمیل اطہر

کجری وال کی معافی کا مطلب

ایثار راعی از جمیل اطہر

ایثار راعی جنہوں نے صحافت کی ابتداجھنگ سے کی اور پھر لائل پور (اب فیصل آباد) میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور پھر ملتان کو مسکن بنایا اور وہیں کے ہورہے ۔ ان سے میری ملاقات 1955ء میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منعقدہ ایک محفلِ مشاعرہ میں ہوئی ۔ دو چار مہینوں کے بعد مشاعرہ کی مجلس کا آراستہ کرنا ٹوبہ ٹیک سنگھ کی بعض شخصیتوں کا محبوب مشغلہ تھا۔ جس محفل مشاعرہ میں ایثار راعی سے تعارف ہوا، اس میں میرِ مشاعرہ جناب ساغر صدیقی مرحوم تھے جن کا کلام اور جن کی آواز دونوں مل کر مشاعرے کو لُوٹ لیتے تھے۔ ایثار راعی کے جاننے والوں کو یہ پڑھ کر تعجب ہوگا کہ وہ شاعر بھی اچھے تھے اور پڑھتے بھی ترنم سے تھے ۔ ان کے اندر کا شاعر بعد میں ان کی صحافت کے اندر ڈوب گیا۔ میرا ان سے زیادہ قریبی رابطہ اس وقت ہوا جب میں ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لائل پور چلا گیا اور روز نامہ ’’آفاق‘‘ سے وابستگی اختیار کرلی ۔ ایثار راعی یہاں روز نامہ ’’کوہستان‘‘ کے بیورو چیف تھے جو اس وقت کا ایک مقبول عام اخبار تھا جس کے چیف ایڈیٹر نسیم حجازی ، ایڈیٹر ابو صالح اصلاحی اور منیجنگ ایڈیٹر جناب عنایت اللہ مرحوم تھے۔ مؤخرالذکر کو وطن عزیز میں جدید صحافت کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ ایثار راعی اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مظاہرہ کے ساتھ ساتھ گفتگو سے دوسروں کو شیشے میں اتار نے کا فن خوب جانتے تھے۔ان کے اس ہُنر سے ایک صاحب جو ایثار راعی کے قیامِ جھنگ کے دوران وہاں ڈپٹی کمشنر رہے ، بہت متاثر ہوئے اور یہ تھے جناب قدرت اللہ شہاب۔ ایثار راعی کی زندگی کے آنے والے دنوں میں قدرت اللہ شہاب ان کی زندگی میں اور ایثار راعی قدرت اللہ شہاب کی زندگی میں بہت دخیل رہے۔عنایت اللہ صاحب کے ذہنِ رسا نے ملتان سے روز نامہ ’’کوہستان‘‘ کے اجراء کا نقشہ بنایا، اس وقت ایثار راعی لائل پور چھوڑ کر ملتان جا چکے تھے ۔ پھر جب نسیم حجازی اور عنایت اللہ کے راستے جدا ہوئے تو ’’کوہستان‘‘نسیم حجازی صاحب کے حصے میں آیا اور عنایت اللہ صاحب نے اخبار کی ایک نئی دنیا بسانے کے لئے تنکا تنکا جمع کرنا شروع کیا ۔ اس موقع پر ایثار راعی نے عنایت اللہ صاحب کا اخبار ’’مشرق ‘‘ جوائن کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ایثار راعی ملتان میں روز نامہ ’’ مشرق‘‘ کے بیورو چیف مقرر کئے گئے ۔ انہوں نے اپنا تن من دھن ’’ مشرق‘‘ کے لئے وقف کردیا اور ’’مشرق‘‘ لاہور سے چھپ کر ملتان میں فروخت ہونے والا سب سے بڑا اخبار بن گیا ۔ سنڈے میگزین بھی عنایت اللہ صاحب کی اختراع تھی ۔ جب ’’مشرق کے سنڈے میگزین کا آغاز ہوا تو ایثار راعی صاحب نے اس کے ٹائٹل کے اندرونی صفحہ پر جناب قدرت اللہ شہاب سے ایک طویل قسط وار انٹر ویو لینا اور شائع کرنا شروع کیا جو میری یاد داشت کے مطابق ایک سو سے زیادہ اقساط میں چھپا اور یہی انٹر ویو قدرت اللہ شہاب کی شہرہ آفاق کتاب شہاب نامہ کا حصہ بنا۔ اس کے کئی ابواب ان انٹر ویوز کے ہی اقتباسات ہیں جو ایثار راعی نے ’’مشرق‘‘ کے لئے ان سے کیا تھا ۔قدرت اللہ شہاب ایک جدید تعلیم یافتہ اور روشن خیال بیورو کریٹ تھے۔ ان میں رو حانیت کب اور کیسے داخل ہوئی یہ بھی ایک پُر اسرار داستان ہے۔ شہاب صاحب نے ایثار راعی کے چھوٹے بھائی صدیق راعی کو اسلام آباد بُلا لیا اور نیشنل پریس ٹرسٹ میں ملازمت دلادی اورصدیق راعی رفتہ رفتہ قدرت اللہ شہاب کے دل و دماغ پر محیط ہوتے چلے گئے اور ادھر صدیق راعی تصوف وطریقت کی منزلیں تیزی سے طے کرنے لگے اور پھر ممتاز مفتی ، قدرت اللہ شہاب ، اشفاق احمد، یہ ایک حلقہ بن گیا جو تھے تو افسانہ نگار ، ناول نگار مگر ہوگئے صوفی اور بن گئے اللہ کے فضل سے اس کے محبوب بندے ! شہاب صاحب کی رحلت کے بعد صدیق راعی کا تو دل اسلام آباد سے اس قدر اچاٹ ہوا کہ بستر بوریا لپیٹ کر واپس اپنے آبائی گھر جھنگ آگئے۔ ایثار راعی بھی ایک عجب شخص تھا ۔ پہلے تو وہ مجھے اکساتا رہا کہ میں ملتان سے روز نامہ ’’ جرأت‘‘ کا ایڈیشن شائع کروں ۔ جب میں نے اندیشہ ہائے دُور دراز کی بنا پر اس اقدام سے گریز کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اب اپنا اخبار نکالنا چاہتے ہیں ۔ میں نے انہیں بہت روکا اور سمجھا یا۔ وہ پہلے ایک سیاسی ہفت روزہ’’ گریبان‘‘ کے نام سے نکالنے کا ناکام تجربہ کرچکے تھے۔ یہاں بھی قدرت اللہ شہاب ہی ان کی مدد کو آئے تھے جنہوں نے ایثار راعی کے پریس کی مشینیں ان کی مرضی کی قیمت پرنیشنل پریس ٹرسٹ کو فروخت کرادیں اور اس طرح ایثار راعی اس وقت مالی بحران کی گرفت سے بچ رہے ۔ ایثار راعی کے اصرار پر میں نے اخبار کے لئے نام تجویز کیا ’’قومی آواز‘‘ یہ در اصل انڈین نیشنل کانگریس کے ترجمان اخبار کا نام تھا اور نہرو خاندان کی ملکیت تھا ۔ قومی آواز کے ساتھ ساتھ نہرو خاندان ’’ نیشنل ہیرالڈ‘‘ کے نام سے ایک انگریزی اخبار بھی شائع کرتا تھا مگر جب اندرا گاندھی ایک سیاسی طوفان کی لپیٹ میں آئیں تو انہوں نے یکا یک یہ دونوں اخبار بند کردیئے ۔ اس وقت ’’قومی آواز‘‘ دہلی کے ایڈیٹر ممتاز ادیب جناب حیات اللہ انصاری تھے ۔ ایثار راعی نے میرے مشورے کے برعکس چار صفحات کی بجائے آٹھ صفحات کا اخبار نکالا اور وہ بھی لاہور کے اخبارات کے معیار پر ، جبکہ ان کی جیب اس کی متحمل نہ تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے قریبی عزیزوں سے اخبار نکالنے کے لئے جو رقم قرض لی تھی وہ بر وقت واپس ادانہ ہوسکی۔ ایثار راعی نے اخبار نکالنے کی دُھن میں اپنا مکان تک فروخت کردیا جو اس کی عمر بھر کی کمائی کا حاصل تھا ۔ پھر اس نے بُرے وقتوں کے لئے ایک پلاٹ لے رکھا تھا وہ بھی اخبار کی نذر ہوگیا ۔ ادھر ایثار راعی اور میرے جاننے والے محکمہ اطلاعات کے بعض حکام اس بد گمانی میں مبتلا رہے کہ یہ اخبار حقیقت میں میں نے نکالا ہے اورایثار راعی میرے فرنٹ مین ہیں، اس لئے محکمہ اطلاعات کے افسروں کی مجھ سے ناراضی اور خفگی کے نتیجہ میں ’’قومی آواز‘‘ کے اشتہارات بھی بند ہوجاتے تھے ۔ ان مسائل نے آخر ایک باہمت اور جفا کش صحافی کے عزم و حوصلہ کو توڑ کر رکھ دیا ۔ ایثار راعی ایک ایسے مرض میں مبتلا ہوئے جس میں وٗہ نہ خود اٹھ سکتے تھے نہ کروٹ بدل سکتے تھے مگر میں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا کہ اس حالت میں بھی لاہور اور اسلام آباد کا سفر کرلیتے تھے ۔ وہ میرے دفتر میں آتے تھے تو یقین جانیں میرے لئے اپنے آنسوؤں کو ضبط کرنا مشکل ہوجاتا تھا کہ وہ ایک دو آدمیوں کے سہارے کے بغیر صوفے سے اٹھ بھی نہیں سکتے تھے ۔ مجھے ان کا آخری فون نشتر ہسپتال ملتان کے ایک وارڈ سے آیا جس میں انہوں نے بڑے صبر سے مجھے بتایاکہ اب وہ آخرت کے سفر پر روانہ ہورہے ہیں۔ ایثار راعی بہت ہی باغ و بہار طبیعت کے مالک ، بہت ہی زندہ دل اور بہت ہی اچھے انسان تھے۔ ان کے چلے جانے سے صحافت میں تو کوئی خلا پیدا ہوا ہے یا نہیں مگر وہ جاتے جاتے میرے دل کی دنیا تو ویران کرگئے۔ مجھے قدم قدم پر ایثار راعی یاد آتے رہیں گے ۔ میں وہ دن کبھی نہیں بھُولوں گا جب روز نامہ ’’آفاق‘‘ سے مصطفی صادق صاحب کی ہمدردی میں ، میں نے مستقبل کا سوچے سمجھے بغیر استعفیٰ دے دیا ۔ یہ ایثار راعی تھے جو مجھے سمجھا بجھا کر ’’ ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ کے مالک اور ایڈیٹر چوہدری شاہ محمد عزیز کے پاس لے گئے اور مجھے اتنی ہی تنخواہ پر ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ کا نیوز ایڈیٹر مقرر کرادیا جتنی تنخواہ میں ’’آفاق‘‘سے لیتا تھا ۔ میں بعض وجوہ کی بنا پر وہاں ملازمت پر آمادہ نہیں تھا مگر ایثار راعی یہ کہہ کر مجھے وہاں لے گئے کہ تم کم از کم اتنے دن کام کرلو جس سے کالج کی فیس کے پیسے حاصل ہوسکیں اور میں نے کیا بھی یہی ۔ پھر وہ دن میں کبھی بُھلا نہیں سکوں گا جب روز نامہ ’’کوہستان‘‘ کی اشاعت پر دو ماہ کی پابندی عائد ہونے کے بعد روز نامہ ’’نوائے وقت‘‘ کی انتظامیہ نے مجھے فوری طورپر لاہور سے ملتان چلے جانے کا حکم دیا جہاں ایک فرشتہ سیرت صحافی جناب مقبول احمد جو’’ نوائے وقت ‘‘ ملتان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر تھے میرے منتظر تھے ۔ ان کے علاوہ وہاں میرا کوئی جاننے والا نہ تھا ۔ مقبول صاحب’’ آفاق‘‘ لائل پور کے بھی ریذیڈنٹ ایڈیٹررہے تھے جہاں میں ان کے ماتحت کام کرتا رہا ۔ میرے تقرر کا معلوم ہوتے ہی دوسرے دن ایثار راعی ’’نوائے وقت ‘‘ کے دفترآپہنچے اور اسی شام انہوں نے اپنے گھر پر میرے لئے ایک پُر تکلف ضیافت کا اہتمام کیا اور اس طرح ملتان میرے لئے اجنبی نہ رہا اور میں نے اپنی زندگی کے مشکل دن ایثار راعی کی بدولت قدرے آسانی سے گزارلئے۔