ایک وکٹ یا ایک چوکا؟ … خورشید ندیم
سیاست میں ابہام سے بدتر چیز ابھی تک دریافت نہیں ہو سکی۔ غلط موقف کا کم از کم یہ فائدہ تو ہے کہ وہ فکر و عمل میں یک سوئی پیدا کر دیتا ہے۔ ابہام کا حاصل الجھاؤ ہے، حکومت اس وقت جس میں بری طرح مبتلا ہے۔ الجھاؤ منزل کھوٹی کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
ابتدا میں یہ مقدمہ قائم کیا گیا کہ پاناما لیکس حکومت یا شریف خاندان کے خلاف ایک سازش ہے۔ جب پوچھا گیا کہ یہ کس کی سازش ہے تو کوئی واضح جواب نہیں ملا۔ پھر یہ کہا گیا کہ جے آئی ٹی کی تشکیل سازش ہے۔ پوچھا گیا: کس نے کی‘ تو اس کا بھی کوئی جواب نہیں تھا۔ اب وزیر دفاع نے دو ٹوک لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی سازش ہے۔ پاکستان کی فوج اور عدلیہ اس کا حصہ نہیں۔ اس دو ٹوک موقف کے بعد ابہام ختم نہیں ہوتا، مزید گہرا ہو جاتا ہے۔
اگر اس موقف کو مان لیا جائے اور حکومتی ذمہ داران کے بیانات کی روشنی میں اسے کوئی مرتب شکل دینے کی کوشش کی جائے تو ایک تصویر ابھرتی ہے۔ اس کے مطابق یہ ایک سازش ہے جو شریف خاندان نہیں، بلکہ پاکستان کے خلاف، ملک سے باہر کہیں تیار کی گئی۔ تحریکِ انصاف اور جے آئی ٹی اس سازش کا حصہ ہیں۔ ایک نے عوامی محاذ پر ایک تحریک منظم کی اور دوسرے نے قانونی سطح پر۔ جے آئی ٹی کو یہ دستاویزات بین الاقوامی ایجنسیوں نے فراہم کیں اور اس عمل میں چند حکومتوں نے بھی ان کی معاونت کی۔ یہ حکومتیں وہ ہیں جن کا خیال ہے کہ CPEC اور پاکستان کی اقتصادی ترقی سے ان کے مفادات متاثر ہوں گے۔
ان میں وہ حکومتیں بھی شامل ہیں جو پاکستان کی خارجہ پالیسی سے خوش نہیں۔ بعض نازک مواقع پر انہوں نے پاکستان سے مدد چاہی اور پاکستان نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ انہیں اب مو قع مل گیا اور وہ نواز شریف صاحب سے اس کا بدلہ لینا چاہتی ہیں۔ اگر وزیر دفاع کے اس مقدمے کو مان لیا جائے کہ یہ کوئی بیرونی سازش ہے تو پھر حکومتی موقف کے مختلف ٹکڑوں کو جوڑنے سے یہی ایک تصویر بنائی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس تصورِ سازش کی کوئی توجیہہ میرے خیال میں ممکن نہیں۔ تاہم، اسے درست مان لینے سے بھی، معمہ حل نہیں ہوتا۔
پہلی بات: یہ جے آئی ٹی کسی خارجی قوت نے نہیں، پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے بنائی۔ جے آئی ٹی کے ارکان کا جس طرح انتخاب ہوا، اس سارے عمل پر حکومت معترض رہی اور اسے سازش کی ایک کڑی کے طور پر پیش کرتی رہی۔ جے آئی ٹی کی تشکیل اور وٹس ایپ کا معاملہ عدالتِ عظمیٰ کی وضاحت کے بغیر سلجھ نہیں سکتا۔ اگر جے آئی ٹی اس سازش کا حصہ ہے تو عدالتِ عظمیٰ کے احکامات اور ہدایات سے الگ کرکے، اس کی تشکیل کو کیسے سمجھا جا سکتا؟ گویا جب کوئی یہ کہتا ہے کہ جے آئی ٹی کی تشکیل ایک سازش ہے تو میرے نزدیک یہ ممکن نہیں کہ سپریم کورٹ کو اس عمل سے الگ کیا جا سکے۔ اب اگر وزیر دفاع کا یہ موقف مان لیا جائے کہ جے آئی ٹی ایک سازش ہے اور پاکستان کی عدلیہ اس کا حصہ نہیں تو اس مو قف میں واضح تضاد پیدا ہوتا ہے۔ کیا حکومت کا کوئی نمائندہ اس تضاد کو دور کر سکتا ہے؟
دوسری بات: جے آئی ٹی میں ایم آئی اور آئی ایس آئی کے نمائندے شامل ہیں۔ اب تک کی خبر یہی ہے کہ اس کے معاملات آئی ایس آئی کے زیر انتظام رکھے گئے تاکہ کوئی اس عمل میں مداخلت کا مرتکب نہ ہو۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ متفقہ ہے جس پر ان دونوں ایجنسیوں کے نمائندوں کی تصدیق ثبت ہے۔ یہ دونوں ایجنسیاں پاک فوج کا حصہ ہیں۔ اگر یہ رپورٹ ایک سازش ہے تو یہ ماننا لازم ہے کہ اس میں وہ اراکین شریک ہیں جن کا تعلق خاص اداروں سے ہے۔ اگر وزیر دفاع کا یہ موقف درست مان لیا جائے کہ فوج اس کا حصہ نہیں تو پھر جے آئی ٹی کی رپورٹ سازش کیسے ہو گئی یا فوج اور ایجنسیاں اس سازش کا کیوں حصہ نہیں؟
واقعہ یہ ہے کہ حکومت اور شریف خاندان سازش کے اس فلسفے میں رنگ نہیں بھر سکے۔ اگر اسے بین الاقوامی سازش مان لیا جائے تو بھی یہ ممکن نہیں کہ اسے پاکستان کی فوج اور عدلیہ کی مدد کے بغیر نتیجہ خیز بنایا جا سکے۔ بظاہر حکومت یہ موقف اس لیے پیش کر رہی ہے کہ وہ ریاستی اداروں میں تصادم نہیں چاہتی۔ یہ ایک نیک خواہش ہو سکتی ہے مگر اس سے موقف میں الجھاؤ بڑھ جاتا ہے۔ وزیر دفاع جیسے وکیل جب میڈیا میں سازش کا فلسفہ پیش کرتے اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج اور عدلیہ اس کا حصہ نہیں تواس سے ایک ابہام جنم لیتا ہے۔ ابہام کا ایک ناگزیر نتیجہ یہ ہے کہ آپ کا موقف مشتبہ ہو جاتا ہے۔ مبہم موقف کے ساتھ آج تک کوئی جنگ نہیں جیتی جا سکی۔
اس سازشی فلسفے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ اگر اسے سازش بھی مان لیا جائے تو چند باتیں بہرحال سامنے آ گئی ہیں۔ کچھ دستاویزات بھی ہیں جن کی صحت عدالتِ عظمیٰ میں زیرِ بحث رہی۔ شریف خاندان کوطوعاً و کرہاً ان کا جواب دینا تھا۔ جے آئی ٹی کی پیش کردہ دستاویزات مشکوک ہو سکتی ہیں، مگر ان کو غلط ثابت کرنا آپ کا کام تھا۔ اس کے ساتھ کچھ دستاویزات وہ بھی ہیں جو شریف خاندان نے پیش کیں۔ ان کی صحت پر اگر کوئی سوال اٹھتا ہے تو اس کی وضاحت بھی اب آپ ہی کی ذمہ داری تھی۔ عدالت کی نظر میں اگر جے آئی ٹی کی دستاویزات درست ثابت ہوتی ہیں تو اس میں سازش کہاں سے آ گئی؟ عدلیہ تو آپ کے بقول اس سازش کا حصہ نہیں۔
میں کالم لکھتے لکھتے یہاں تک پہنچا تو خبر آئی کہ عدالتِ عظمیٰ نے پاناما کیس میں اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ یہ فیصلہ پھر حکومت کے تصورِ سازش کے لیے ایک امتحان ثابت ہو گا۔ اگر یہ حکومت کے خلاف ہوا تو سابقہ موقف کی روشنی میں نواز شریف صاحب کے خلاف سازش کا ایک مرحلہ کامیابی کے ساتھ پایہء تکمیل کو پہنچا۔ سوال یہ ہے کہ عدلیہ کو بری الذمہ قرار دینے کے بعد کسی مخالفانہ فیصلے کو سازش کیسے کہا جا سکے گا؟ ایک سیاسی جماعت کے پاس اس کے بعد ایک ہی راستہ ہے کہ وہ عوام کے پاس جائے۔ عوام کا سامنا کرنے کے لیے بھی تو ایک واضح موقف کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ موجود نہیں ہے۔
کسی قانونی دلیل کی بنیاد پر اگر عدالت کوئی ایسا فیصلہ نہیں دیتی جو براہ راست نواز شریف صاحب کو متاثر کرتا ہو، تو بھی ان کی سیاسی مشکلات ختم نہیں ہوں گی۔ اگر انہیں اپنا مقدمہ سیاسی بنیادوں پر لڑنا ہے تو انہیں واضح سیاسی موقف کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ میں جان سکتا ہوں کہ اس راہ میں کیا مسائل ہیں لیکن ان مشکلات کا سامنا کرنے کے علاوہ اب ان کے پاس کوئی راستہ نہیں۔ سیاست جب انتہا پسندی کے راستے پر چل پڑے تو پھر بقا کے راستے محدود ہو جاتے ہیں۔
نواز شریف صاحب کے مخالفین، وہ جو بھی ہیں، نے نواز شریف صاحب کی سیاست کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ انتہائی فیصلہ ہے۔ اب اگر وہ بزمِ سیاست سے گئے تو بزمِ خیال سے بھی گئے۔ وہ اپنی سیاسی عصبیت کے زور پر اسے روک سکتے ہیں۔ سیاسی عصبیت کے لیے لازم ہے ان کا موقف ہر طرح کے ابہام سے پاک ہو۔ پیپلز پارٹی کی طرح، جو اس نے بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد اپنایا تھا۔ یہی موقف تھا جو پیپلز پارٹی کی حیاتِ نو کا پیغام بن گیا۔ لوگوں نے ان کی کمزوریوں کو نظرانداز کرکے اس موقف کی بنیاد پر انہیں ایک بار پھر قبول کر لیا۔
سیاستِ دوراں کا کھیل آخری گیند تک پہنچ گیا: ایک وکٹ یا پھر چوکا۔