ایک چوری کا کالم … کالم عطاالحق قاسمی
میرے بعض کالم نگار اور اینکر دوستوں نے میاں نواز شریف میں اتنی خامیاں نکال دی ہیں کہ اب ان میں خوبیوں کے علاوہ بچا ہی کچھ نہیں البتہ سپریم کورٹ نے تو حد ہی کر دی اس نے میاں صاحب میں کوئی خامی نکالی ہی نہیں نہ کرپشن کا کوئی الزام لگایا اور نہ حکومتی اختیارات کے غلط استعمال کی بات ہی کی۔ ان کی ذاتی زندگی پر بھی انگلی نہیں اٹھائی۔ بس ایک چھوٹی سی خامی کا ذکر کیا کہ آپ نے صرف کاغذوں میں اپنے بیٹے سے تنخواہ کا ذکر کیا مگر وصول کیوں نہیں کی، چنانچہ اس خامی پر بہت معمولی سی سزا سنائی کہ انہیں وزارت عظمیٰ کیلئے نااہل قرار دیا۔ مجھے میاں نواز شریف سے گلہ ہے کہ وہ سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے کہ اسے ایک طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے شخص کو ہر قسم کی کرپشن سے پاک قرار دیا، صرف ایک معمولی سی فروگزاشت پر اگر نااہل قرار دے بھی دیا تو یہ کون سی ایسی بات تھی کہ وہ پاکستان بھر کے اپنے کروڑوں ووٹروں کے ووٹ کی توہین کا ذکر کرتے ہوئے یہ سوال کریں کہ انہیں کیوں نکالا گیا۔ سیتا وائٹ سے عمران خان کی بیٹی کی ایک تصویر ’’جانگیئے‘‘ میں سوشل میڈیا پر شائع ہوئی ہے جس میں وہ پوچھ رہی ہے کہ عمران خان نے اسے اپنی جائیدادوں کے زمرے سے کیوں نکالا ہے، تو عمران خان کا یہ ذاتی مسئلہ ہے لہٰذا 62-63کے زمرے میں نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک اس پر کوئی عدالتی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔
میرا ایک دانشور دوست طارق احمد پنوکامل یوکے میں رہتا ہے، دانشور آدمی ہے اللہ جانے اسے میاں صاحب کے نااہل قرار دیئے جانے کی اتنی تکلیف کیوں ہے اور وہ اس فیصلے کو عدلیہ کے ماتھے پر ایک کلنک کا ٹیکہ کیوں قرار دیتا ہے حالانکہ ہماری عدلیہ نے تو انہیں کرپشن فری قرار دیا ہے مگر طارق احمد کو یہ بات سمجھ ہی نہیں آتی وہ اور دیگر سینکڑوں (جی ہاں یقین کریں سینکڑوں) دانشور جن کا میاں نواز شریف یا ان کی جماعت سے کوئی تعلق نہیں، عدلیہ کے موجودہ رویے کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اسے ’’جیوڈیشل مارشل لاء‘‘ قرار دینے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ میرے ایک مسخرے دوست کی رائے ہے کہ روز روز کے جھگڑوں سے بہتر ہے کہ باہمی مشاورت کیساتھ مارشل لاء لگا کر اختیارات جمہوری طریقے سے فوج کے حوالے کر دیئے جائیں۔ بہرحال میں بتا رہا تھا کہ دانشور طبقہ یا جو لوگ کسی خاص عینک سے چیزوں کو نہیں دیکھتے وہ نواز شریف کو چھوڑ کر (کہ ان کی خامیاں تو سامنے آ گئی ہیں) ان دنوں عمران خان کے تضادات سامنے لا رہے ہیں۔ میں نے ابھی سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی جو میں آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔
1۔جس کو پارٹی صدر بنایا بعد میں اسے نون لیگ کا ایجنٹ کہا۔ (جاوید ہاشمی) 2۔جس کو بیوی بنایا اس کو ایم آئی سکس کا ایجنٹ کہا۔ (ریحام خان) 3۔جس کو ایم این اے بنوایا پارٹی چھوڑنے پر اسے کرپٹ اور نون لیگ کی ایجنٹ اور چوبیس گھنٹے کی قیمت پر بکنے والی کہا۔ (عائشہ گلالئی) 4۔جس نے پارٹی کارکنان کو کتا کہا اسے پارٹی کا ترجمان بنا دیا۔ (فواد چودھری) 5۔جسے کرپشن کی اماں کہا اسے پارٹی میں مرکزی عہدہ دے دیا۔ (فردوس عاشق اعوان) 6۔جسے چپڑاسی کہا اسے وزیراعظم کا امیدوار بنایا (شیخ رشید عرف ٹلی) 7۔جسے جھوٹا کہا اسے بعد میں اپنا وکیل بنایا اور مرکزی عہدہ دیا (بابر اعوان عرف بابر حیوان) 8۔قومی وطن پارٹی کو کرپشن کا الزام لگا کر نکالا اور پھر بغیر کسی سزا کے واپس رکھ دیا۔ 9۔تبدیلی کی بات کی اور نوجوان نسل کو فاسق بنا دیا جو صرف ماں بہن کو گالیاں دینے کو شعور کہتے ہیں۔ 10۔جلسوں میں ناچ گانا کروا کر بعد میں قرآنی آیات کی تلاوت کی۔ 11۔اسمبلی کو جعلی کہا اور بعد میں اسی اسمبلی کی تنخواہ لے لی۔ 12۔لوگوں کے سامنے بل جلایا اور گھر آکر بل جمع کروا دیا۔ تلاشی سے بھاگنے والے کو چور کہا اور خود امریکی عدالت سے بھی بھاگ گیا اور پاکستانی عدالت سے بھی۔ 13۔نواز شریف کیلئے کمیشن اور کمیٹی کی بات کی لیکن اپنی دفعہ کسی کمیٹی کے سامنے جانے سے انکار کر دیا۔
کچھ دیر پہلے میں نے طارق احمد کا ذکر کیا تھا میرے اس دوست نے نواز شریف کی ریلی کا جائزہ لیا ہے میرے خیال میں یہ بھی پڑھنے والی چیز ہے۔ آپ بھی دیکھیں شاید آپ بھی وہی محسوس کریں جو طارق نے محسوس کیا ہے۔ پوسٹ ذیل میں درج ہے:۔
1۔ایک کامیاب سیاسی شو۔ 2۔عوامی طاقت کا اظہار۔ 3۔نوجوانوں کی شمولیت۔ 4۔نواز شریف سے محبت کا اظہار۔ 5۔نواز شریف کے ذاتی دکھ اور تکلیف کا اظہار۔ 6۔روایت کا خاتمہ کہ وزیراعظم کی برطرفی پر لوگ باہر نہیں نکلتے۔ 7۔نئے مسلم لیگی کلچر کا آغاز، لوگوں کی خود سے شمولیت اور جوش و خروش۔ 8۔عوام سے براہ راست مکالمہ اور عوامی رائے۔ 9۔نواز شریف بطور اپوزیشن لیڈر۔ 10۔نواز شریف بطور ایک دلیر مزاحمتی لیڈر۔ 11۔نواز شریف بطور وژنری لیڈر۔ 12۔پنجاب خصوصاً مارشل بیلٹ پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانئے کا کھلا پرچار۔ 13۔عدلیہ کے فیصلے پر کھلی تنقید۔ 14۔عوام کی ایجوکیشن اور نئے بیانئے کی قبولیت۔ 15۔نیا نظام، نیا قانون، نیا آئین لانے کا اعلان۔ 16۔ججوں اور جرنیلوں کے احتساب کا اعلان۔ 17۔عوامی جدوجہد کو جاری رکھنے اور پارلیمان میں لیجانے کا اعلان۔ 18۔میڈیا کے مخصوص حصے اور افراد کا ایکسپوز ہونا۔ 19۔نواز شریف کا اپنی پارٹی اور حکومت پر تسلط برقرار۔ 20۔ن لیگ میں دراڑیں پڑنے کی افواہوں کا خاتمہ۔ 21۔یہ پیغام کہ عدالتی فیصلوں سے سیاسی لیڈر ختم نہیں ہوتے۔ 22۔یہ پیغام کہ منفی سیاست اور کرپٹ پینٹ کرنے کے مسلسل پروپیگنڈے سے مقبول لیڈر ختم نہیں ہوتے۔ 23۔ یہ پیغام کہ ایک لیڈر کو مسلسل ٹارگٹ کرنے سے اسکے فالورز اثر نہیں لیتے بلکہ ڈائی ہارڈ سپورٹرز بن کر باہر نکلتے ہیں۔ 24۔یہ پیغام کہ نااہلیت نے نواز شریف کے ہاتھ میں مظلومیت کا کارڈ تھما دیا ہے جس نے ان کی مقبولیت میں اضافہ کر دیا ہے۔
25۔یہ پیغام کہ یہ فیصلہ اور پروپیگنڈہ بیک فائر کر گیا ہے۔ 26۔یہ پیغام کہ اب یہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ رکنے والا نہیں یہ پاکستان کی گلی کوچوں تک پہنچ گیا ہے۔ 27۔یہ پیغام کہ عمران خان اپنی سیاست، اپنا نعرہ، اپنی پوزیشن اور اپنی کریڈیبلٹی کھو بیٹھے ہیں۔ 28۔یہ پیغام کہ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں جلد یا بدیر باہم مل کر بیٹھیں گی اور نواز شریف کی قیادت میں ایک نیا میگنا کارٹا لکھا جائیگا۔ 29۔یہ پیغام کہ نواز شریف کو جیل ڈالنے کی صورت میں یہ مزاحمتی اور بیداری کی تحریک اور تیز ہو جائیگی۔ 30۔میرے ووٹ کی توہین مت کرو کا پیغام پھیلتا جائیگا۔ 31۔عوام کے حقِ حکمرانی کا پیغام پھیلتا جائیگا۔ 32۔سوشل میڈیا کا کردار اہم ہوتا جائیگا۔ 33۔ اسٹیبلشمنٹ کو سوچنا پڑے گا کہ وہ کتنی دیر مزید پاکستان کے اقتدار اور اختیار پر اپنا ناجائز قبضہ برقرار رکھ سکتے ہیں۔ 34۔یہ انتظار کہ نواز شریف اپنی مقبولیت اور پارلیمان میں اپنی اکثریت کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔
میرے خیال میں آج اتنا ہی کافی ہے تاہم ’’مراسلہ نگار‘‘ کی ہر رائے سے ’’ایڈیٹر‘‘ کا متفق ہونا ضروری نہیں!