بادشاہت …؟ . کالم خورشید ندیم
لوگوں نے بادشاہت دیکھی نہیں، صرف کتابوں میں پڑھی ہے یا اس کے بارے میں کسی سے سن رکھا ہے۔ بادشاہت تو دور کی بات، اگر یہ بنو اُمیہ اور بنو عباس کی خلافت ہی دیکھ لیتے تو خدا کا شکر ادا کرتے کہ ایک جمہوری دور میں زندہ ہیں۔
قلم اور زبان، دونوں رواں ہیں۔ اربابِ اختیار کی عزت و ناموس، دونوںکی زد میں ہے۔ جو چاہیں لکھ ڈالیں۔ جو چاہیں کہہ دیں۔ نہ کوئی اخلاقی پابندی نہ قانونی۔ کوئی سوال اٹھائے تو آزادی رائے کی دُہائی دیں۔ آج ملک میں ایک نہیں کئی اپوزیشن لیڈر ہیں۔ ان کی دہشت کا یہ عالم ہے کہ ریاستی ادارے بھی سہمے ہوئے ہیں۔ تفریح کے لیے میلوں کا سفر کر سکتے ہیں، مگر عدالت میں پیش ہونے پر آمادہ نہیں۔ اس کے باوجود کوئی اُن پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ دوسری طرف حکمران خاندان ہے۔ عدالت تو ایک طرف، جے آئی ٹی طلب کرتی اور انہیں پیش ہونا پڑتا ہے۔ کیا بادشاہت میں یہی ہوتا ہے؟
ایک پولیس افسر نے مریم نواز کو سلیوٹ کر دیا۔ شور برپا ہو گیا۔ کیا بادشاہتوں میں یہی ہوتا ہے؟ وہاں تو سر قلم ہو جاتے ہیں اور کسی کو بولنے کا اذن نہیں ہوتا۔ حکمرانوں کا ایسا احتساب اور ایسی عمیق نظر کہ کوئی زمین سے قلم اٹھا کر پکڑا دے تو ہنگامہ برپا ہو جائے۔ ٹی وی سکرین چیخ اٹھے اور صبح سے شام تک، کئی دن سرخ دائرہ لگا کر ایک واقعے کو دھرایا جائے۔ کیا بادشاہتوں میں کوئی اس کا تصور کر سکتا ہے؟ وہاں تو زندہ انسانوں کی کھال کھینچ دی جاتی ہے اور کسی کو اُف تک کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
تعصب اور فکری پستی، سیاست اور صحافت کا اس طرح گھیراؤ کر لے گی، کبھی سوچا نہ تھا۔ جمہوریت خدا کی ایک نعمت ہے۔ حد سے تجاوز بھی ہوتا ہے کہ انسان کا وتیرہ یہی ہے۔ کوئی نعمت مل جائے تو وہ اس کے کفران پر اتر آتا ہے۔ سیاست، صحافت، عدالت، سب کو آج آزادی میسر ہے۔ لوگ اس کی قدر پر آمادہ نہیں۔ ایک طرف وہ ہیں جو صبح شام جمہوریت کو گالی دیتے ہیں اور جنہیں کسی مسیحا کی تلاش ہے۔ دوسری طرف وہ ہیں جو اس جمہوریت کو بھی بادشاہت کہہ رہے ہیں۔ وہ نقطۂ اعتدال، جس پر قیام میں آسودگی ہے، کسی کو پسند نہیں۔ یہی انتہا پسندی ہے۔ اسی کا نام عدم برداشت ہے۔ اسی سے معاشرے برباد ہوتے ہیں۔
یہ فکری پستی ہے کہ ہم سماج اور ریاست کو نواز شریف اور عمران خان ہی کی صورت میں متشکل دیکھ رہے ہیں۔ یہ چند کردار ہیں۔ سماجی تبدیلی کا عمل ایک وسیع تر تناظر میں جاری ہے۔ نواز شریف صاحب اگر چاہیں بھی تو اس سے فرار اختیار نہیں کر سکتے۔ انہیں عدالت میں بہرحال پیش ہونا تھا۔ عمران خان کو بھی عدالت کا سامنا کرنا ہے۔ وہ نتھیا گلی جائیں یا چترال، عدالت تو بہرصورت آنا پڑے گا۔ پرویز مشرف کی گاڑی کا رخ عدالت سے ہسپتال کی طرف کیا جا سکتا ہے‘ لیکن کوئی اس پر قادر نہیں کہ وہ انہیں یہاں لائے‘ اور وہ اس پاک سر زمین پر قدم رکھ سکیں۔ یہ جمہوریت ہے۔ اس میں کمزوریاں ہیں لیکن یہ جمہوریت ہی کا حسن ہے کہ اس کی کمزوریاں بیان ہو رہی ہیں۔ یہ سوال مقتدر حلقوں کا ہمیشہ پیچھا کرتا رہے گا کہ نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی عدالت میں پیش ہو سکتے ہیں تو پرویز مشرف کیوں نہیں؟
پروین شاکر نے کہا تھا:
شدت ہے مزاج میرے خوں کا
نفرت کی بھی دے تو انتہا دے
کیا ہم سب کے خون کا مزاج یہی ہے؟ اگر انصاف کسی چیز کا نام ہے اور اس کا ظہور آرا میں ہوتا ہے تو دل پر ہاتھ رکھ کر بتایا جائے کہ کیا بادشاہت ایسی ہوتی ہے؟ کیا کسی بادشاہت میں میڈیا کا یہ تصور موجود ہے کہ وہ صبح سے شام تک، جس کی چاہے پگڑی اچھالتا رہے؟ اس میں سر فہرست ”بادشاہ‘‘ ہیں۔ اب تو شاید ہی کسی کے سر پر دستار سلامت ہو۔ یہ آصف زرداری ہوں یا نواز شریف، ان کے ساتھ، ان کے عہدِ حکمرانی میں جو سلوک روا رکھا گیا، اُس کا حق و انصاف سے دور کا واسطہ نہیں تھا۔ ان کو رسوا کرنے کے لیے ہر سچ اور جھوٹ کو بے تکلفی کے ساتھ پھیلایا گیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مراکزِ قوت میں سب سے کمزور عوام کی منتخب حکومت ہے۔ غریب کی جورو، سب کی بھابھی۔ ایسی حکومت کو اگر کوئی بادشاہت کہے تو، اس کو کیا کہا جائے؟
یہ مثالی جمہوریت بلا شبہ نہیں ہے۔ مثالی جمہوریت دنیا میںکہیں بھی نہیں ہے۔ اسلام، اشتراکیت، جمہوریت… یہ سب آئیڈیلز ہیں، جو انسانی فطرت اور ذھن کی دَین ہیں۔ اُس کی فطرت ان کا تقاضا اور اس کی عقل ان کی جستجوکرتی ہے۔ وہ ان آئیڈیلز کے لیے جدوجہد کرتا ہے‘ الا یہ کہ خدا اپنا فیصلہ نافذ کر دے جیسے رسالت مآبﷺ کے غلبے کی صورت میں ہوا۔ بصورتِ دیگر، جدوجہد کے نتیجے میں انسان اپنے آئیڈیلز کے قریب تر چلا جاتا ہے، آئیڈیلز سے مگر دور رہتا ہے۔ یہ دوری اسے مسلسل جدوجہد پر آمادہ رکھتی ہے۔ ہمارا معاشرہ آئیڈیل جمہوریت کے لیے کوشاں ہے۔ یہ الگ بات کہ آزادیء رائے کے باب میں ہم آئیڈیلز سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ آئیڈیلز میں آزادی ذمہ داری سے مشروط ہے۔ ہم ذمہ داری سے آزاد ہو چکے۔ اس کے باوجود شکایت ہے کہ یہاں بادشاہت ہے۔
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
یہ حکومت ہو یا عدلیہ، فوج ہو یا کوئی جے آئی ٹی، یہ ناگزیر ہے کہ ان کا رویہ اور کارکردگی عوام میں زیرِ بحث آئے۔ جمہوریت اس سے منع نہیں کرتی۔ جب کوئی فریق عدالتِ عالیہ کے فیصلے کے خلاف عدالتِ عظمیٰ میں اپیل کرتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا کہ وہ عدالتِ عالیہ کے فیصلے سے اختلاف کرتا ہے۔ تاہم جب عدالت کوئی فیصلہ دے دے تو سب اس کو عملاً قبول کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ جمہوریت یہی رویہ سکھاتی ہے۔ اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے، جمہوریت کو اس سے کوئی خطرہ نہیں۔ سب اس عدالتی نظام کو مان رہے ہیں۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی سچ ہے کہ عدالتیں اگر انصاف نہ کریں تو اس کا ایک ردِ عمل ہوتا ہے۔ اگر عوام کے منتخب لوگوں کو غیر آئینی طریقے سے ہٹایا جائے تو یہ عمل سیاسی رویوں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ بھی جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ میں بار بار لکھ رہا ہوں کہ جب کسی فرد یا گروہ کو سیاسی عصبیت حاصل ہو جائے تو پھر اس کا راستہ مصنوعی طور پر نہیں روکا جا سکتا۔ اس لیے کوئی ایسا قدم کسی کو نہیں اٹھانا چاہیے جو جمہوری عمل کو سبوتاژ کرے۔ عصبیت کا فیصلہ انتخابات ہی پر چھوڑ دینا چاہیے کہ اسی سے اس کا تعین ممکن ہے۔
جو اس جمہوریت کو بادشاہت سمجھ رہے ہیں، وہ در اصل بادشاہت کو آواز دے رہے ہیں۔ اگر یہ نظام باقی نہیں رہے گا تو پھر اس کا متبادل آمریت ہی ہے۔ یہ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں قائم ہو سکتی ہے جیسے بنگلہ دیش میں ہوا اور فوجی اقدام کے نتیجے میں بھی جیسے ہمارے ہاں بارہا ہوتا آیا ہے۔ ایسے امکانات سے دور رہنا چاہیے۔ آج اگر آزادیء رائے میسر ہے تو جمہوریت باقی ہے۔ کسی کی نفرت میں اس انتہا تک نہیں جانا چاہیے کہ ہم جمہوریت کو بادشاہت قرار دینے لگیں۔ اہلِ سیاست اور اہلِ صحافت دونوں کو اس کا خیال رکھنا ہو گا۔
(پس تحریر: جو لوگ جمہوریت کو کفر کہتے اور رات دن اس کی مذمت کرتے نہیں تھکتے، آج لکھ رہے ہیں: ”جب لوگ کسی تحریک کا پرچم رہنماؤں سے چھین کر اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں تو اس کے بعد قیادت کو ان کے ساتھ ہی نہیں، ان کے پیچھے چلنا پڑتا ہے‘‘۔ کاش وہ اس عمل کو شعوری طور پر بھی سمجھ سکتے اور لوگوں کو جمہوریت سے متنفر کرتے وقت بھی اسے پیشِ نظر رکھتے)۔