جمہوریت کا آئل ٹینکر اور تیل لوٹنے والے … عطا الحق قاسمی
جے آئی ٹی کی رپورٹ تو ابھی کل سامنے آئی ہے، مگر یار لوگوں کو تو بہت پہلے پتا چل گیا تھا کہ پردۂ غیب سے کیا ظہور میں آنے والا ہے، پولینڈ والوں کے بارے میں لطیفے اسی طرح مشہور ہیں، جس طرح ہمارے ہاں سکھوں کے لطیفے ہیں، سی آئی اے کے ایک ایجنٹ کو پولینڈ کے ایک مقامی جاسوس کے پاس بھیجا گیا جس کا نام جارج تھا اور پتا چلانے کے لئے کہ یہ جاسوس جارج ہی ہے، ایجنٹ کو جو کوڈ دیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ تم نے جارج نام کے شخص کو تلاش کرنا ہے اور جب مل جائے تو اسے کہنا کہ آج شام کو کیا کررہے ہو، اگر وہ کہے جو حکم آپ کا، تو سمجھ لینا کہ یہ جارج وہی جاسوس ہے جسے انتہائی کنفیڈنیشنل ڈاکیومنٹس دینی ہیں، سی آئی اے کا امریکی ایجنٹ ہزاروں میل کا سفر طے کر کے پولینڈ پہنچا اور ایک بار میں گیا۔ ایک ڈرنک لینے کے بعد اس نے پوچھا کہ اس گائوں میں جارج نام کا کوئی شخص رہتا ہے، اس نے جواب دیا کئی ہیں، ایک جارج ترکھان ہے، ایک الیکٹریشن ہے، ایک ٹیچر ہے، خود میرا نام بھی جارج ہے۔ یہ سن کر سی آئی اے کے ایجنٹ نے کہا ’’آج شام تمہارا کیا پروگرام ہے؟‘‘ اس پر بار مین نے کہا ’’اچھا اچھا، تم جارج جاسوس کا پوچھ رہے ہو!‘‘ بس جے آئی ٹی کا معاملہ بھی یہی ہے، اس کی فائنڈنگز کا علم پہلے ہی سے پورے شہر کو تھا، طوطے سےفال نکالنے والے نجومیوں کو جانے دیں جو 2013ء سے روزانہ نواز شریف کے جانے کی پیش گوئی کرتے چلے آرہے ہیں، میں سہیل وڑائچ کا حوالہ دینا چاہتا ہوں، جو کسی کا ’’کانا‘‘ نہیں ہے۔ اس نے دو ہفتے قبل ’’پارٹی از اوور‘‘ کے عنوان سے کالم لکھ کر وہ سب کچھ بتا دیا تھا جو آج بہت محنت سے تیار کی گئی اور بہت کاوش سے دستخط کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے۔
وہ لوگ بہت احمق ہیں جو سمجھتے ہیں کہ منتخب جمہوری حکومتوں کو چلتا کرنے کے لئے پرانے فارمولے استعمال کئے جاسکتے ہیں، اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا، اس وقت صحافت اتنی آزاد بھی نہیں تھی جتنی تھوڑی بہت آزاد ہے، تھوڑی بہت آزاد جمہوریت دوستوں کے لئے ہے، مادرپدر آزاد سیاست دانوں کی کردار کشی کے ذریعے جمہوریت کے خاتمے کے حوالے سے ہے۔ اب میں محسوس کرتا ہوں کہ لوگ خطرے کی بو بہت پہلے سونگھ لیتے ہیں اور خاموش نہیں رہتے، اپنے خدشات کا اظہار بھی کرتے ہیں، جب سے مائنس ون منصوبے پر عمل شروع ہوا ہے یعنی مسلم لیگ ن سے نوازشریف کوعلیحدہ کردیا جائے، اسے بہت سے دانشور سامنے آئے ہیں جو کھل کر اس موضوع پر بات کرتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کا نوازشریف یا اس کی حکومت سے دور کا بھی تعلق نہیں، دراصل انہیں علم ہے کہ نوازشریف کی کون سی پالیسیاں اسٹیبلشمنٹ کو ہضم نہیں ہوتیں اور دانشوروں کا یہ طبقہ جانتا ہے کہ نواز کی یہی پالیسیاں ملک و قوم کو معاشی ترقی اور سیاسی استحکام کی منزل تک پہنچا سکتی ہیں۔ عمران خان اس وقت اسٹیبلشمنٹ کا ’’بلیو آئیڈ بے بی ‘‘ ہے مگر صرف اس وقت تک رہے گا جب تک وہ نابالغ رہے گا۔ جس روز وہ بالغ ہوا اس روز اس کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوگا جو ماضی میں بالغ ہو جانے والے سیاست دانوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔
میں دانستہ یہ کالم بہت مختصر لکھ رہا ہوں کہ کہیں زیادہ باتیں کرنے سے منہ سے کوئی ایسی سچی بات نہ نکل جائے جو زیادہ ہی سچی ہو، چنانچہ آخر میں محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کی تین ٹویٹ ملاحظہ ہوں۔
NEVER KNOWN SUCH EFFICIENCY IN PAKISTAN. THE PANAMA JIT SHOULD BE COMMENDED FOR THERE HIGH LEVEL OF EFFICIENCY ALL BY THEMSELVES.
ANOTHER LESSON TO BE LEARNT: COME TO PAKISTAN AS A NOMINATTED TECHNOCRAT PM, LOOT, LEAVE AND DO NOT LOOK BACK YOU WILL BE REMEMBERED FONDLY.
MORAL OF THE STORY, WHEN WITH THE ESTABLISHMENT YOU WILL NOT BE TOUCHED, BUT IF YOU DISAEREE YOUR GRAND MOM WILL ALSO BE INVESTIGATED.
کالم کافی بور ہوگیا ہے، ابھی ابھی کچھ جملے فیس بک پر پڑھنے کو ملے ہیں، وہ بھی سنتے جائیں۔
جے آئی ٹی کی جلد نمبر 10میں لکھا ہے کہ سارا پنڈ وی مر جائے وہ نمبردار نئیں بن سکتا، جس کے ہاتھ میں یہ لکیر ہی نہیں ہے۔ (اصل جملہ کچھ اور تھا)
اپنے دادا کے کاروبار کی 45برس پہلے کی تفصیلات اور 28سال پہلے کے ذاتی اخراجات کی رسیدیں تلاش کرلیں، جے آئی ٹی کا وقت آپ پر بھی آسکتا ہے۔
وزیراعظم کے پاس صادق اور امین کہلانے کا ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ بابر اعوان اور دوسرے بہت سے صادق اور امینوں کی طرح تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں۔
جمہوریت کا آئل ٹینکر الٹایا جارہا ہے، تیل لوٹنے والےیاد رکھیں، وہ جل کر راکھ ہو جائیں گے۔
اور آخر میں مبشر زیدی کا ایک قول فیصل:’’جج اور جرنیل ایک دن سابق ہو جاتے ہیں، سیاست دان اورصحافی ہمیشہ حاضر سروس‘‘۔