نواز شریف کی ریلی کامیاب رہی یا نہیںیہ بات قابل بحث ہے۔۔گو کہ ریلی ابھی مکمل نہیں ہو ئی۔ اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگلے مراحل پہلے مراحل سے بھی زیادہ کامیاب ہو نگے۔ لاہور میں تیاریاں عروج پر ہیں۔ اس لیے کامیابی کوئی بحث نہیں۔سیاسی ریلیوں میں جب ایک خاص تعداد میں لوگ آجاتے ہیں تو وہ کامیابی یا ناکامی کی بحث سے مبرا ہو جاتی ہیں۔
اسی تناظر میں نواز شریف کا جی ٹی روڈ کا سفر اور شہر شہر ریلیوں میں اتنی تعداد میں لوگ آگئے ہیں کہ بات بن گئی ہے۔ نواز شریف نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کی جماعت کے ساتھ لوگ ابھی ہیں۔ لیکن کیا اس ریلی کا واحد مقصد یہی تھا۔ شاید ایسا نہیں تھا۔ہمیں اس ریلی کی کامیابی و نا کامی کا تجزیہ اس کے اہداف کو دیکھتے ہوئے کرنا ہو گا۔
یہ کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف کا لہجہ سخت ہے اور وہ تصادم کی طرف جا رہے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ ایسا کب ہو اکہ کسی عدالتی فیصلے کے خلاف بات کو اداروں کے ساتھ تصادم سمجھا گیا ہو۔ پیپلزپارٹی بھٹو کے خلاف فیصلے کو چالیس سال سے تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔ کبھی اس کو اداروں سے تصادم سے تشبیہ نہیں دی گئی۔ خود تحریک انصاف نے بھی دھاندلی کے مقدمہ کے فیصلہ کے بعد اس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
اگر میاں نواز شریف یہ کہہ رہے ہیں کہ عوام کے منتخب وزیر اعظم کو پانچ معزز جج کیسے گھر بھیج سکتے ہیں تو آجکل سوشل میڈیا پر بینظیر بھٹو کا بھی ایک انٹرویو بہت مقبو ل ہے جس میں وہ بھی کہہ رہی ہیں کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب وزیر اعظم کو دو جج کیسے گھر بھیج سکتے ہیں۔ جس طرح میاں نواز شریف پہلے وزیر اعظم نہیں ہیں جنھیں اس طرح گھر بھیجا گیا ہے اسی طرح وہ پہلے وزیر اعظم نہیں ہیں جو یہ بات کہہ رہے ہیں۔
اسی طرح الیکشن پٹیشن کی سماعت کے دوان بھی تحریک انصاف اعلیٰ عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے۔ اس لیے ملک میں جہاں عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کی روایت موجود ہے وہاں اس پر تنقید کی روایت بھی موجود ہے۔ نہ عدلیہ کے فیصلوں سے پہلے کبھی اداروںمیں تصادم ہوا ہے۔ اور نہ اب ہونے کا کوئی امکان ہے۔ اداروں میں تصادم کا خطرہ تب تھا جب میاں نواز شریف اپنی تقاریر میں عسکری اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے ۔ کیونکہ ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ عسکری ادارے اس ملک میں مقدس گائے کی حیثیت رکھتے ہیں اور نواز شریف ان پر کوئی بات نہیں کر رہے۔ اس لیے نواز شریف نے ریڈ لائن کو کراس نہیں کیا۔ ادارے بھی دیکھ رہے ہیں کہ ان پر کوئی بات نہیں ہو رہی۔ اس لیے اداروں سے تصادم کا کوئی خطرہ نہیں۔ کیونکہ اصل اداروں پر کوئی بات نہیں ہو رہی۔
یہ درست ہے کہ نواز شریف کی اس جی ٹی روڈ ریلی کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) میں اختلاف کوئی خبر نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس اختلاف کی قیادت بیچارے چوہدری نثار علی خان کے گلے میں ہی پڑ جاتی ہے لیکن اس بار چوہدری نثار علی خان اکیلے نہیں بلکہ تہمینہ درانی نے اپنے ٹوئٹس سے چوہدری نثار علی خان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ لیکن جہاں اس ریلی کی کامیابی و ناکامی کا تجزیہ اس کے اہداف کی روشنی میں کرنا ہو گا۔ وہاں مسلم لیگ (ن) میں سوچ کے اختلا ف کی خلیج ہر گزرتے دن کے ساتھ وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت خاموش ہے لیکن یہ خاموشی زیادہ دیر تک نہیں رہ سکے گی۔ چوہدری نثار علی خان کی باتوں کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی سوچ تنہا نہیں ہے۔ وہ خود تو اکیلے ہو سکتے ہیں لیکن وہ جو بات کر رہے ہیں وہ سوچ تنہا نہیں ہے۔ مجھے تو تہمینہ درانی کے ٹوئٹس کی پذیرائی دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ وہ بھی مسلم لیگ (ن) کے اندر کی ایک توانا سوچ کی علمبردار ہیں۔
اب جہاں تک جی ٹی روڈ سے لاہور کے سفر کے اہداف کا تعلق ہے تو اگر کسی کے ذہن میں ترکی کا ماڈل تھا۔ اگر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو طیب اردوان کی طرز پر چیلنج کرنے کا پلان تھا تو یہ ممکن نہیں ہو سکا۔ جس طرح عمران خان کے دھرنے میں لوگ تو آگئے تھے لیکن ان کی تعداد اتنی نہیں تھی کہ ایمپائر انگلی اٹھا سکتا۔ لوگ تھے لیکن ایمپائر کی انگلی کے لیے کم تھے۔اس طرح دھرنا کامیاب بھی تھا اور ناکام بھی۔ کیونکہ عوام تو آئے لیکن اہداف کے حصول کے لیے مطلوبہ تعداد سے کم تھے۔ اسی طرح نواز شریف کی جی ٹی روڈ ریلی میں لوگ آئے ہیں ان کی سیاسی قوت کا مظاہر ہ ہو گیا ہے۔ اگر کسی کو یہ گمان تھا کہ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد ان کی سیاسی قوت ختم ہو گئی ہے۔
نواز شریف کی ریلی میں عوامی جوش و خروش موجود ہے لیکن یہ جوش و خروش ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اس کو اپنے لیے خطرہ سمجھے۔ ان کا رول ماڈل طیب اردوان ہیں۔ ترکی کا سیاسی انقلاب ہے۔ اگر ایسا ہے تو عوام اس طرح باہر نہیں آئے ہیں۔ معذرت کے ساتھ جو باہر آئے ہیں وہ بھی خود نہیں آئے ہیں لائے گئے ہیں۔ استقبال ہوئے ہیں۔ شاندار ہوئے ہیں۔ لیکن کروائے گئے ہیں۔ خود بخود نہیں ہو ئے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرنے والے استقبال نہیں تھے۔ یہ جمہوریت کے لیے ٹینکوں کے سامنے لیٹنے والی ریلی نہیں تھی۔
یہ ثابت ہوا ہے کہ عوام ان کے ساتھ ہیں۔ لیکن یہ نہیں ثابت ہوا کہ عوام صرف ان کے ساتھ ہیں۔ وہ بلا شرکت غیرے مقبول ہیں۔ ایسا ثابت نہیں ہو سکا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ابھی تو ان کی اپنی سیاسی جماعت بھی مکمل طور پر ان کے ساتھ متفق نہیں ہے۔ ایسے میں عوام کیسے ساتھ آسکتے ہیں۔
ہمیں نواز شریف کے اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا کہ کیا میاں نواز شریف نے اقتدار کی سیاست کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ کیا ان کا اور ان کی جماعت کا سیاسی ہدف اب اقتدار میں آنا نہیں ہے۔ایسا نہیں ہے۔ اگر میاں نواز شریف کا عوام کے سامنے مقدمہ یہی ہے کہ عوام انھیں مینڈیٹ دیا تھا اور پانچ معزز جج انھیں کیسے گھر بھیج سکتے ہیں۔
یہ عوامی مینڈہٹ کی توہین ہے۔ ایسے میں نواز شریف کو اپنے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے تمام ارکان پارلیمنٹ کو بھی مستعفی کروا کر عوام میں ایک نئے فریش مینڈیٹ کے لیے آنا چاہیے تھا۔ اگر سب مستعفی ہوجاتے تو عوام کو یہ سمجھ آتی کہ نواز شریف اور ان کی جماعت نے عوامی مینڈیٹ کی توہین کے بعد اقتدار کو ٹھوکر مار دی ۔ اور عوام میں واپس آگئے۔ یہ مقدمہ بن سکتا تھا کہ ہم عوام میں آگئے ہیں۔
وہ عوام سے فریش مینڈیٹ کی بات کر سکتے تھے۔ دو تہائی کی بات کر سکتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کو نکیل ڈ الی جا سکے۔ لیکن اگر اس نظام کو بھی چلانا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کو بھی چلانا ہے۔ شہباز شریف کو بھی چلانا ہے۔اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی چیلنج کرنا ہے۔ یہ ممکن نہیں۔ایک طرف چلنا ہو گا ۔ عوام کو ایک راہ دکھانا ہو گی۔ طیب اردگان کا راستہ مشکل راستہ ہے۔ اس میں مفاہمت کی کوئی گنجائش نہیں۔پارٹی میں جو اقتدار کا راستہ دکھا رہے ہیں پہلے انھیں فارغ کریں۔ تا کہ سمجھ آئے کہ بس ایک ہی سمت ہے۔ نواز شریف دو کشتیوں کے سوار نظر آرہے ہیں۔جو کوئی اچھی حکمت عملی نہیں ہے۔