جے آئی ٹی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد واحد سیاسی اور جمہوری راستہ جلد از جلد انتخابات کا ہے۔آج کا کالم چند دن پہلے کے ایک سفر سے شروع کرتے ہیں۔
منکہ مسمّی ادنیٰ صحافی کو وزیراعظم نواز شریف کے ہمراہ وسط ایشیائی ملک تاجکستان جانے کا موقع ملا۔ پاکستان کے پڑوسی ملک تاجکستان کی اسلام آباد سے دوشنبہ تک اُڑان ڈیڑھ گھنٹے کی تھی لیکن جاتے اورپھر واپس آتے ہوئے نواز شریف صاحب سے طویل سیاسی گفتگو ہوئی جس میں بہت سی باتیں آف دی ریکارڈ قرار دے دی گئیں جبکہ آن دی ریکارڈ گفتگو میں بھی خاصا مواد ہے۔ پتہ نہیں کیوںادنیٰ صحافی کو اس سفر کے دوران ہی یہ لگ رہا تھا کہ جیسے جے آئی ٹی رپورٹ نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف ہی جائے گی۔وزیراعظم جے آئی ٹی رپورٹ آنے سے پہلے کیا سوچ رہے تھے اور ان کی آئندہ کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ اس کے لئے میں آپ کو ان ملاقاتوں کا احوال سناتا ہوں۔
مکالمے کا آغاز کچھ یوں ہوا کہ حسین نواز شریف کے صاحبزادے زکریا اور زایٔد نے مجھے دیکھا تو خاص طور پر گلے ملنے آئے۔ دونوں سے میرا غائبانہ تعارف محسنی سہیل ضیاء بٹ کے ذریعے سے ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے پوتوں کو ادنیٰ صحافی سے گفتگو کرتے دیکھ کر مسکراتے ہوئے فقرہ چُست کیا کہ کیا آپ ان سے ”دی پارٹی از اوور‘‘ والے کالم کا گلہ کر رہے ہیں‘ اور پھر مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے پرانے دوست ہیں مگر اب ان کو کیا ہوا ہے کہ ہماری حکومت جانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ پھر ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہا ”بدلے بدلے سے میرے سرکار نظر آتے ہیں‘‘۔ ادنیٰ صحافی نے دفاع کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ میں آج بھی آپ کا دوست ہوں‘ صحافی کی مجبوری ہے کہ اس نے حقائق سامنے رکھنے ہوتے ہیں۔ ”پارٹی از اوور‘‘ دراصل آنے والے حالات سے پیشگی متنبہ کرنے کی کوشش ہے۔
تاجکستان سے واپسی پر صحافیوں سے لمبی گفتگو ہوئی جو پاکستان ون کی اسلام آباد لینڈنگ تک جاری رہی۔ گفتگو میں سرتاج عزیز بھی شامل تھے کہ پیچیدہ خارجہ امور کی الجھی گتھیاں سلجھانی پڑیں تو وہ بھی اپنا حصہ ڈال سکیں۔ دوشنبہ میں اشرف غنی کی تقریر نے خطے میں ترقی پر کئی سوالات اور تحفظات کھڑے کر دئیے ہیں‘ حالانکہ صرف ڈیڑھ ماہ پہلے مئی 2017ء میں چین سے واپسی پر وزیر اعظم بہت پُرامید تھے اور کہہ رہے تھے کہ چین چاہتا ہے کہ بھارت اور افغانستان دونوں طرف کے تجارتی راستے کھولے جائیں‘ مگر دوشنبے میں اشرف غنی نے تاجکستان کو افغانستان کے راستے پاکستان تک راہداری کے حوالے سے جب یہ شرط رکھی کہ پاکستان افغانستان کو بھارت تک راہداری دے تو نواز شریف کو یہ بالکل نہ بھایا۔ بریفنگ میں انہوں نے کہا کہ مودی جس طرح بھارت کو چلا رہے ہیں اور کشمیر میں نوجوانوں کو شہید کر رہے ہیں‘ سینکڑوں لوگ اندھے کئے جا چکے ہیں‘ ایسے میں تجارت کیسے ہو سکتی ہے؟ گویا ایک بات تو واضح ہو گئی کہ نواز شریف خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھارت اور افغانستان کو جو تجارتی رعایات دینا چاہتے تھے‘ اب وہ اپنی سوچ بدل چکے ہیں‘ اور مودی کی ان پالیسیوں کی موجودگی میں اس حوالے سے کسی بھی پیش رفت کا امکان نظر نہیں آتا۔
گفتگو خارجہ امور سے ہوتی ہوئی داخلی امور اور پھر پاکستانی سیاست پر آ گئی۔ ادنیٰ صحافی نے سوال اٹھایا کہ ن لیگ نے سیاسی Initiative یعنی سیاست میں آگے رہنے یا پہل کرنے کو کھو دیا ہے اور ایسا لگ رہا ہے جیسے ن لیگ ایک سہل پسند جماعت بن چکی ہے۔ جے آئی ٹی کی کارروائی 60 دن جاری رہی اور ن لیگ یہ فیصلہ نہ کر سکی کہ جارحانہ انداز اپنانا ہے یا پھر مدافعانہ انداز۔ نواز شریف ہلکی ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ ادنیٰ صحافی پر طنز کے تیر برساتے رہے۔ ادنیٰ صحافی چونکہ انہیں گزشتہ 17 سال سے قریب سے جانتا ہے اس لئے اسے علم ہے کہ وہ ہر ایک کی رائے سنتے ہیں‘ اپنے دل کی بات باہر نہیں لاتے۔ ادنیٰ صحافی سے ان کے تعلقات اتار چڑھائو کا شکار رہے۔ 1998ء اور 1999ء میں ادنیٰ صحافی ان کے ناپسندیدہ ترین صحافیوں میں شامل تھا اور احتساب الرحمن نے جن صحافیوں کو میڈیا سے نکلوانے کے لئے دبائو ڈالا ان میں چوتھا پانچواں نام ادنیٰ صحافی کا تھا‘ مگر جب میاں نواز شریف جلا وطن ہوئے تو ادنیٰ صحافی وہ پہلا شخص تھا‘ جس نے جدہ جا کر ان کا انٹرویو کیا اور بعد ازاں ان انٹرویوز کو اپنی کتاب ”غدار کون‘‘ میں شائع کیا۔
ادنیٰ صحافی کو یاد ہے کہ جب نومبر 2013ء میں وزیر اعظم نے پچھلے چیف آف آرمی سٹاف کا فیصلہ کرنا تھا تو انہوں نے لاہور سے کراچی کے قریب ایٹمی بجلی گھر کے افتتاح کی سائٹ پر جاتے ہوئے جہاز میں تین اخبار نویسوں سے پوچھا: آپ کے خیال میں اگلا آرمی چیف کون ہونا چاہئے۔ ایک ساتھی نے جنرل ہارون اسلم اور دوسرے نے جنرل راشد محمود کے نام لئے۔ نواز شریف ہلکا ہلکا مسکراتے رہے مگر کچھ نہ بولے۔ جب تین صحافی طیارے سے نیچے اترے تو ادنیٰ صحافی نے اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا کہ یہ دونوں جرنیل تو چیف نہیں بنیں گے کیونکہ نواز شریف کی عدم دلچسپی یہ ظاہر کر رہی تھی کہ ان کے ذہن میں کوئی اور نام ہے اور واقعی یہی ہوا۔ اگلے روز جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف بنانے کا اعلان کر کے نواز شریف نے سب کو حیران کر دیا۔ خیر بات ہو رہی تھی نواز شریف اور ادنیٰ صحافی کے معاملے کی۔ ادنیٰ صحافی نے تاجکستان سے واپسی پر پوچھا کہ آپ جے آئی ٹی کی تشکیل اور پھر بنچ کے منصفوں پر اعتراض کیوں نہیں کر سکے تو نواز شریف نے کہا: شاید میرے اور قوم دونوں کے لئے جے آئی ٹی سے گزرنا ہی بہتر ہو گا۔ ان کے جواب سے مجھے یوں لگا کہ وہ اپنی تقدیر کی جبریت پر شاکر ہوں یا پھر زوال کو تقدیر سمجھ کر اس میں سے راستہ نکالنے کے بارے میں سوچ رہے ہوں۔ ادنیٰ صحافی نے پریشان کن ماحول کو نارمل کرنے کے لئے کہا: مریم نواز شریف نے نپے تلے الفاظ میں اپنا موقف بہتر طور پر پیش کیا۔ ان کے چہرے پر خوشی اور اطمینان کی سرخی دوڑی مگر ساتھ ہی جب یہ سوال داغا گیا کہ کیا آپ نے مریم نواز کو اپنا جانشین بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ تو نواز شریف نے جواباً کہا: آپ میرے دوست ہیں یا دشمن؟
ادنیٰ صحافی نے کہا: ہم نے سنا ہے کہ حکومت مشکل میں ہو تو اسے دوبارہ عوام سے رجوع کرنا چاہئے۔ اسی طرح جمہوریت مشکل میں ہو تو اس کا جمہوری حل یہ نکالا جاتا ہے کہ دوبارہ سے مینڈیٹ حاصل کیا جائے۔ نواز شریف نے جواباً کہا کہ اس سال کے شروع میں فریش مینڈیٹ حاصل کرنے پر غور کیا گیا مگر پھر سوچا گیا کہ جب تک ترقیاتی منصوبے مکمل نہیں ہوتے اس وقت تک حکومت جاری رکھنی چاہئے۔ ادنیٰ صحافی نے وزیر اعظم سے کہا کہ آپ کرپشن کے حوالے سے کوئی جوابی بیانیہ نہیں بنا سکے۔ اب دیر ہو چکی کیونکہ ن لیگ کا بیانیہ عوام میں جا ہی نہیں سکا۔ وفاقی وزیر تجارت اور انتہائی پڑھے لکھے خرم دستگیر خان نے کہا: جوابی بیانیے کی بات چھوڑیں‘ جب آپ نے ”دی پارٹی از اوور‘‘ والا کالم لکھا تب ہمیں شک ہوا کہ کہیں واقعی ایسا نہ ہو جائے پھر ہم نے سوچنا شروع کر دیا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔
اب جے آئی ٹی کی رپورٹ آ چکی ہے ”پارٹی از اوور‘‘ کا سفر شروع ہے۔ ادنیٰ صحافی کا اب بھی مشورہ ہے کہ وزیر اعظم سیاسی حل نکالیں‘ فوراً عمران خان اور خورشید شاہ کے ساتھ مل کر اگلے الیکشن کی تاریخ طے کریں۔ نگران حکومت کے لئے ناموںکو حتمی شکل دی جائے‘ بجائے اس کے کہ وزیر اعظم سپریم کورٹ میں ہر روز سوالوں کے جوابات کے لئے پیش ہوں۔ بہتر ہے کہ عوامی عدالت کا سامنا کریں‘ نظام اور جمہوریت کے تسلسل کے لئے مستقبل کی منصوبہ بندی کریں۔ وہ جے آئی ٹی رپورٹ کو اپنے فیصلے کے مطابق ضرور سپریم کورٹ میں چیلنج کریں‘ مگر اصل چیلنج سیاسی بحران ہے جس کے حل کے لئے سب سٹیک ہولڈرز مل بیٹھیں اور ریاست کے مستقبل کا خاکہ ترتیب دیں وگرنہ اگر سیاسی بحران پیدا ہوا تو وہ کل کو ریاستی بحران میں بھی بدل سکتا ہے۔