جے آئی ٹی رپورٹ اور مبلغینِ اخلاقیات؟ رئوف طاہر
جے آئی ٹی نے ایسی برق رفتار کارکردگی دکھائی‘ ایسا محیرالعقول کارنامہ کر دکھایا جو بظاہر انسانی بس میں نہیں۔ یہ انسانوں کا نہیں‘ جنّوں کا کام ہے یا پھر اس کے لیے فرشتوں کی مدد درکار۔ لیکن اس پر جے آئی ٹی کے ارکان کو خراج تحسین پیش کرنے کے بجائے‘ اُلٹا اعتراضات کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔
جے آئی ٹی کے قیام کے‘ بیس اپریل کے فیصلے میں‘ اس کی تشکیل کے طریق کار کے ساتھ‘ اس کے لیے تیرہ سوالات پر مشتمل ایجنڈا بھی تجویز کر دیا گیا تھا۔ اس کی تشکیل میں طے کردہ طریقِ کار پر کس حد تک عمل ہوا‘ یہ بحث پرانی ہو چکی‘ اور واٹس ایپ کال والے معاملے کو بھی قابل اعتنا نہ سمجھا گیا۔ اس سوال کو بھی ایک طرف رکھئے کہ تحقیق و تفتیش کے لیے جو تیرہ (13) سوالات دیئے گئے تھے‘ دس جولائی کو پیش کردہ رپورٹ میں‘ ان میں سے کتنے سوالات کا جواب موجود ہے اور وہ بھی ضروری ثبوت و شواہد کے ساتھ کس حد تک تسلی بخش؟ لیکن جے آئی ٹی نے ہزاروں صفحات پر مشتمل رپورٹ (دس ضخیم جلدیں جنہیں ٹرالی میں لایا گیا) کی تیاری میں جو تیزی دکھائی (الفاظ کی تندی اپنی جگہ) اس پر اس کی تعریف تو بنتی ہے۔
پاناما لیکس کیس کی سماعت 23 فروری کو مکمل کی گئی تھی اور فیصلہ لکھنے میں تقریباً دو ماہ لگ گئے (20 اپریل کو فیصلہ سنایا گیا)۔ جے آئی ٹی کو دو ماہ دیئے گئے تو بہت سوں کا خیال تھا کہ کام اتنا پھیلا ہوا ہے کہ شاید مقررہ مدت میں مکمل نہ ہو سکے اور اس کے لیے مزید وقت دینا پڑے‘ لیکن اس کی ضرورت نہ پڑی۔ سپریم کورٹ میں تو دو‘ دو تین‘ تین گھنٹے کارروائی ہوتی تھی یہاں جے آئی ٹی تو آٹھ آٹھ‘ دس دس گھنٹے بھی ”سماعت‘‘ کرتی رہی‘ اس دوران اس کے کچھ ارکان چپکے سے لندن اور دبئی بھی ہو آئے (لیکن دوحہ جا کر قطری شہزادے کا ”بیان‘‘ لینے پر آمادہ نہ ہوئے‘ آخر جے آئی ٹی کی عزت اور وقار بھی تو کوئی چیز تھا) اور پھر اُدھر پانچ‘ چھ جولائی کو تفتیش ختم‘ اِدھر ہزاروں صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار… لیکن اس میں حیرت کی کیا بات؟ جے آئی ٹی پانچ مئی کو قائم ہوئی تھی‘ لیکن اس نے میڈیا سے متعلق‘ تقریباً سو صفحات پر مشتمل جو شکایت نامہ عملدرآمد بنچ کو پیش کیا‘ اس میں اس کی ولادت سے بھی پہلے 20 اپریل کی شام ہونے والے ان ٹاک شوز کا حوالہ بھی تھا‘ جن میں جے آئی ٹی میں دو حساس اداروں کی شرکت پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ تو کیا دس جولائی کو پیش کردہ رپورٹ میں شریف فیملی کے بزنس کی تفصیلات بھی کہیں بہت پہلے سے تیار شدہ تھیں جنہیں اب مناسب ایڈیٹنگ اور کراس چیک کئے بغیر ”شامل نصاب‘‘ کر دیا گیا۔
اب گیند پھر عدالت میں پہنچ گئی ہے‘ جہاں سترہ جولائی سے سماعت شروع ہو گی۔ نکتہ وروں کا کہنا ہے کہ ”کھیل‘‘ ختم نہیں ہوا‘ Game is not Over کھیل تو اب شروع ہوا ہے‘ نیا کھیل… وہ جو پنجابی فلم کا گیت تھا ‘مزے تے ماہیا ہُن آن گے‘۔
لال حویلی والے شیخ صاحب میڈیا پر خوب رش لیتے ہیں لیکن گزشتہ شب ان کے ساتھ دلچسپ ”واردات‘‘ ہوئی۔ وہ اپنی خاص فصاحت و بلاغت کے ساتھ شریف فیملی اور خصوصاً میاں صاحب کے متعلق گفتگو فرما رہے تھے (جنہیں کبھی وہ اپنا لیڈر اور سٹیل کے کاروبار کے حوالے سے مردِ آہن کہا کرتے) ان کا کہنا تھا‘ جے آئی ٹی کے قیام کے فیصلے پر شادیانے بجانے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینے والے اب کس منہ سے اس پر اعتراض کر رہے ہیں۔ منہ پھٹ اور بدلحاظ اینکر نے یاد دلایا: لیکن تب آپ اسی جے آئی ٹی کے بدترین ناقدین میں تھے اور اسے ”جاتی امرا انویسٹی گیشن ٹیم‘‘ قرار دے رہے تھے۔ شیخ اس سے انکاری تھا۔ یہاں اس نے یہ بھی یاد دلایا
کہ وہ حال ہی میں عمرہ ادا کرکے آیا ہے۔ خانہ کعبہ کے غلافوں کی قسم کھا کر اس کا اصرار تھا کہ اس نے جے آئی ٹی کے متعلق یہ الفاظ کبھی ادا نہیں کئے (پرویز مشرف کے دور میں اپنے ”باس‘‘ کی مدح و ستائش میں وزن پیدا کرنے کے لیے وہ کہا کرتا تھا‘ میں نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا ہے‘ اور اب جو کچھ کہہ رہا ہوں‘ سچ کہہ رہا ہوں۔ تب وہ یہ بھی کہا کرتا تھا کہ سیاست تو میں اب کر رہا ہوں۔ اس سے پہلے تو جھک مارتا رہا…) اب اسے ایک بے مروت اینکر کا سامنا تھا جس نے شیخ کی ویڈیو چلا دی‘ جس میں وہ جے آئی ٹی کو ”جاتی امرا انویسٹی گیشن اتھارٹی‘‘ قرار دے رہا تھا لیکن اس دوران شیخ سکرین سے غائب ہو چکا تھا…
بات سے بات نکلتی ہے اور یہاں ہمیں ایک پرانی بات یاد آ گئی۔ اکتوبر 2002ء کے الیکشن میں وہ شدید خواہش اور کوشش کے باوجود مسلم لیگ نون کا ٹکٹ حاصل نہ کر سکا۔ تب میاں صاحب جلاوطن تھے۔ اس نے لاہور کے ایک بزرگ ایڈیٹر (اب مرحوم) کی زوردار سفارش بھی کرائی‘ شریف فیملی میں جن کی حیثیت خاندان کے بزرگ کی تھی۔ بڑے میاں صاحب (مرحوم) بھی ہر اہم معاملے پر ان سے مشاورت کرتے۔ میاں نواز شریف کے لیے بزرگ ایڈیٹر کی بات ٹالنا آسان نہ تھا‘ لیکن یہاں معاملہ شیخ کے اپنے شہر اس کے اپنے حلقے کے مسلم لیگی ورکرز اور سپورٹرز کا تھا‘ جنہیں 12 اکتوبر 1999ء کے بعد شیخ کی اپنے لیڈر اور اپنی جماعت سے بے وفائی اور بے اعتنائی بھولی نہ تھی۔ بیگم کلثوم نواز صاحبہ ”رابطہء عوام‘‘ کے لیے راولپنڈی آئیں‘ تو شیخ نے جن الفاظ کے ساتھ اپنے شہر میں ان کا ”خیر مقدم‘‘ کیا‘ مسلم لیگی متوالوں کو یاد تھا۔ (تب ڈکٹیٹر کے تمام تر دبائو کے باوجود چوہدری تنویر تھا جس نے اپنی حویلی کے دروازے اپنے لیڈر کی اہلیہ کے لئے کھول دیئے تھے۔) میاں صاحب کے لئے ان کارکنوں کے جذبات و احساسات کو نظر انداز کرنا ممکن نہ تھا‘ جو 12 اکتوبر کے بعد کی صورتحال میں ہمت و استقامت اور جرات و ایثار کا حوالہ بن گئے تھے۔ مسلم لیگ نون کے ٹکٹ سے محروم ہونے کے بعد شیخ نے نئی حکمتِ عملی اختیار کی۔ آزاد امیدوار کے طور پر انتخابی مہم میں اس کا کہنا تھا‘ میں یہ دونوں سیٹیں (حلقہ 55 اور 56) جیت کر نواز شریف کے قدموں میں رکھ دوں گا۔ شیخ یہ دونوں سیٹیں جیت کر مشرف کا وزیر بن گیا۔ اس کے چھوڑے ہوئے حلقہ 56 کے ضمنی انتخاب میں ووٹرز نے شیخ کی بے وفائی کا بدلہ یوں لیا کہ اس کے بھتیجے کو حنیف عباسی کے ہاتھوں شکست سے دوچار کر دیا۔ 2008ء کے عام انتخابات میں وہ ان دونوں نشستوں سے ایک بار پھر امیدوار تھا۔
اس بار اس نے ایک نیا پتہ پھینکا‘ اسے اپنی زندگی کا آخری الیکشن قرار دیتے ہوئے اپنے شہر کے باسیوں سے اس کا کہنا تھا کہ وہ آخری بار اپنے بیٹے کی لاج رکھ لیں۔ حلقہ 55 میں اسے جاوید ہاشمی کا سامنا تھا‘ جس کے خلاف اس نے ”پردیسی‘‘ ہونے کی مہم چلائی لیکن اس کا کوئی حربہ کام نہ آیا۔ حلقہ 56 میں وہ حنیف عباسی کے ہاتھوں اپنی ضمانت بھی نہ بچا سکا۔
اب نواز شریف صاحب سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے وہ ”سیاسی اخلاقیات‘‘ کا حوالہ دیتا ہے۔ یاد آیا‘ مشرف دور میں وہ ریلوے کا وزیر تھا‘ ٹرین کے ایک حادثے پر اخبار نویس نے پوچھا کہ کیا آپ اس پر استعفیٰ دینا پسند کریں گے؟ (اس پر اس نے ہندوستان کا حوالہ دیا‘ جہاں وزیر ریلوے حادثے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مستعفی ہو گیا تھا (یہ لال بہادر شاستری تھے‘ جو بعد میں ہندوستان کے وزیر اعظم بنے) سیاسی اخلاقیات کے مبلغ فرزند لال حویلی کا جواب تھا‘ میں کوئی انجن ڈرائیور تھا کہ استعفیٰ دے دوں…؟؟