حمید نظامی از جمیل اطہر
حمید نظامی کی رحلت کے سانحہ پر اڑتالیس سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن ماہ وسال کی گردش کے باوجود اس سانحہ کا غم اسی طرح تازہ ہے جیسے یہ حادثہ آج رونما ہوا ہو۔ وہ بدستور ہمارے دلوں میں بس رہے ہیں وہ دنیا سے رخصت ہوکر بھی زندہ اس لئے ہیں کہ ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ مقصد کی حقانیت اور وحدت فکروعمل کا مظہر تھا۔ انہوں نے قوم سے لیا کچھ نہیں اور دیا بہت کچھ۔ اپنی زندگی کسی نصب العین کی نذر کرنے والے مر کے بھی زندہ رہتے ہیں اور حمید نظامی کا شمار بھی قوم کے ایسے ہی مایہ ناز فرزندوں میں ہوتا ہے۔
حمید نظامی کو علم کی طلب لاہور لے آئی۔ حصول تعلیم کے دوران حضرت قائداعظمؒ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انہوں نے پنجاب میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کو منظم کیا اور اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کی مادر علمی سے نوجوان طالب علموں کی ایک ایسی جماعت تیار کی جس نے پنجاب کے قریہ قریہ میں پھیل کر مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا اور برصغیر کے مسلمانوں کے لئے الگ وطن کے قیام کا پیغام قصبے قصبے‘ گاؤں گاؤں پہنچایا۔ اس عہد آفریں جدوجہد کے دوران انہوں نے انگریزی میں ایم اے کیا اور 1940ء میں تحریک پاکستان کی آواز کو بلند و بالا کرنے کے لئے ہفتہ وار ’’نوائے وقت‘‘ کا اجراء کیا جسے 1944ء میں روزانہ اخبار بنا دیا گیا۔ 23 مارچ 2010 ء کو خدا کے فضل سے ’’نوائے وقت‘‘ اشاعت کے 71 ویں سال میں داخل ہوجائے گا۔
حمید نظامی کی زندگی کئی ادوار پر پھیلی ہوئی ہے۔ ایک طالب علم کے طور پر انہوں نے اپنی خداداد ذہانت اور محنت سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ان کی زندگی کا یہ پہلو غریب گھرانوں کے بچوں کے لئے ولولہ انگیز پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے آنے والی نسلوں کے لئے یہ پیغام چھوڑا ہے کہ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے ہی زندگی گزارنے کا حق نہیں رکھتے۔ علم اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے اور اس پر غریبوں کے بچوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی امیر کے بچے کا۔ ایک طالب علم کے طور پر ان کا کردار وطن عزیز میں علم کی طلب رکھنے والے نوجوانوں کو ولولہ اور حوصلہ عطا کرتا رہے گا۔
تحریک پاکستان میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکن اور رہنما کی حیثیت میں انہوں نے جس اولوالعزمی کا مظاہرہ کیا اور جواں سال سیاسی کارکنوں کی ایک کھیپ تیار کرکے قائداعظمؒ کی جھولی میں ڈال دی اس سے ایک سیاسی کارکن کے طور پر ان کی منفرد صلاحیتیں اجاگر ہوکر سامنے آتی ہیں۔ وہ اگر سیاست کے میدان میں رہتے اور زندگی نے انہیں مہلت دی ہوتی تو اپنی ان صلاحیتوں کی بدولت پاکستان کے اعلیٰ سے اعلیٰ منصب کے حقدار ٹھہرتے۔
عملی صحافت میں وہ اورینٹ پریس آف انڈیا کے نمائندے کی حیثیت سے داخل ہوئے تھے یہ اس وقت مسلمانوں کی واحد خبر ایجنسی تھی‘ حمید نظامی نے اس ایجنسی کی وساطت سے پنجاب میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن اور مسلم لیگ کے کام کو برصغیر کے دوسرے حصوں کے لوگوں سے روشناس کرایا۔ اس طرح انہوں نے بطور رپورٹر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا‘ آنے والے دور کے رپورٹروں کے لئے ان کا یہ کردار ہمیشہ مشعل راہ کا کام دے گا۔
جب حمید نظامی کی ادارت میں ’’نوائے وقت‘‘ روزانہ اخبار بنا اس وقت لاہور کی مسلم صحافت میں مولانا ظفر علی خان‘ مولانا غلام رسول مہر‘ مولاناعبدالمجید سالک‘ مولانا مرتضیٰ احمد خان میکش اور مولانا نصراللہ خان عزیز جیسے صحافی اپنی شہرت کے نصف النہار پر تھے لیکن اخبارات کی عمومی حالت قابل رشک نہ تھی۔ بیشتر اخبارات شام کو تیار ہوتے تھے اور انگریزی اخبارات سے ترجمہ شدہ خبروں پر مشتمل ہوتے تھے۔ بعض اوقات بے پر کی اور خود گھڑی ہوئی خبریں اخبارات کی زینت بنتی تھیں ہندو اخبارات کا معیار قدرے بہتر تھا۔ اخبارات کے اداریوں میں اردوئے معلیٰ لکھی جاتی تھی ادارئے پُرشکوہ الفاظ اور اشعار سے آراستہ ہوتے تھے، حمید نظامی نے ایک روزانہ اخبار کا نیا تصور دیا جس میں ہر خبر مستند ذریعہ کے حوالے سے شائع کی جاتی تھی۔ خبروں کو خوب چھان پھٹک کر پیش کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ انہوں نے اخبار کے ادارتی صفحہ اور ادارتی کالموں کو نیا حُسن اور وقار عطا کیا‘ سادہ زبان اور مختصر فقرے لیکن اپنے ہدف پر تیر کی طرح صحیح نشانہ وہ روزانہ صحافت میں پہلے ایڈیٹر تھے جن کا قاری ان کے اداریوں کا ایک ایک لفظ پڑھتا اور ہضم کرتا تھا۔ان کے ادارتی تبصرے حقیقی معنوں میں رائے عامہ کا رخ تبدیل کرنے کا ذریعہ بنتے تھے۔ آج کی طرح نہیں کہ اخبارات میں سب سے کم پڑھے جانے والے مواد میں ادارتی کالم سرفہرست ہیں۔ آپ جو چاہے لکھتے رہیں حکومت ٹس سے مس ہوتی ہے نہ رائے عامہ میں کوئی ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب تصویریں نہیں تحریریں اخبار کا اصل حسُن تھیں اور یہ حُسن عطا کرنے والے حمید نظامی تھے۔ انہوں نے اُردو اخبار کو انگریزی اخبار کی طرح باوقار بنایا اردو اخبار کو تھڑوں اور فٹ پاتھوں سے اٹھا کر پڑھے لکھے قاری تک پہنچایا اور اس طرح وہ اخبارات منظر سے ہٹتے چلے گئے جن کے سیاسی قبلے اور کعبے اس وقت کے محکمہ تعلقات عامہ سے ملنے والی وظائف کی رقم کے گھٹنے اور بڑھنے پر تبدیل ہوتے رہتے تھے۔ انہوں نے جہاں ’’لوٹے‘‘ سیاست دانوں کے خلاف جہاد کیا وہاں اپنے اخبار کی توقیر بڑھا کر اخبار کے قاری کو ’’بے پیندے کے لوٹے‘‘ اخبارات سے بھی نجات دلائی۔ انہوں نے اخبارات میں سنجیدگی اور متانت کو رواج دیا پاکستان بننے کے کئی سال بعد تک یہ صُورت رہی کہ لاہور کے بعض نامور اخبارات یکم اپریل کو اپریل فول کے نام پر قطعی جھوٹی خبر شائع کرکے قارئین کے لئے سنسنی کا سامان کرتے تھے ایک ایسے ہی اخبار نے یہ خبر شائع کردی کہ پولیس نے حزب اختلاف کے لیڈر میاں افتخار الدین کی رہائش گاہ پرچھاپہ مار کر انہیں گرفتار کرلیا۔ اور چھاپہ کے دوران روسی اسلحہ کی بھاری مقدار برآمد کرلی۔ یہ خبر شائع ہوتے ہی پولیس نے جھوٹی خبر شائع کرنے پر اخبار کے ایڈیٹر کو گرفتارکرلیا۔ ضمانت پر رہائی کے بعد جب ایڈیٹر نے صوبہ کے وزیراعلیٰ سے یہ شکایت کی کہ انہیں اپریل فول کی خبر شائع کرنے پر کیوں گرفتار کیا گیا ہے تو وزیراعلیٰ کو یہ کہنا پڑا کہ آپ نے اس لیڈر کا اپریل فول بنایا۔ آپ اپنی گرفتاری کو حکومت کی طرف سے اپنے ساتھ اپریل فول تصور کرلیں۔ یہ تھا ماحول جس میں حمید نظامی نے ’’نوائے وقت‘‘ کو ایک ایسا اخبار بنانے کی کوشش کی جس میں چھپنے والی ہر سطر پر قاری اعتماد اور بھروسہ کرسکے اور ایڈیٹر کی ادارتی رائے ملک کی سیاست کا رخ تبدیل کرسکے۔ اس بااصول اور بامقصد صحافت کا علم بلند رکھنے کے لئے انہوں نے مسلم لیگی حکومتوں‘ رہنماؤں اور پاکستان بنانے کے زعم میں مبتلا ان سیاسی لیڈروں کواپنی بے باک تنقید کا نشانہ بنایا جو پاکستان بننے کے بعد اقتدار کے نشے میں مست ہوکر تحریک پاکستان کے مقاصد سے بے نیاز ہوگئے تھے اور جمہوری اقدار کو ملیا میٹ کرنے پر تُلے ہوئے تھے‘ اس راستے میں انہیں اتنی صعوبتیں اٹھانا پڑیں کہ انہیں اپنے اخبار کی جبری بندش کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ اپنی پالیسی ترک کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ مجھے ’’نوائے وقت‘‘ کی بندش کے بعد شائع ہونے والے اخبارات ’’ندائے وقت‘‘ جہاد اور نوائے پاکستان ایک قصبہ کے گلی کوچوں میں بطور اخبار فروش فروخت کرنے کا موقع ملا اور میں نے سنجیدہ صحافت کا ابتدائی درس ان کی ادارت میں شائع ہونے والے اخبارات کے مطالعہ سے ہی حاصل کیا۔ پنجاب میں جب پہلے عام انتخابات کا ڈول ڈالا گیا تو بدعنوانیوں کا پردہ حمید نظامی نے ہی چاک کیا۔ انہوں نے وسیع پیمانہ پر ہونے والی دھاندلیوں کو جُھرلو کا نام دے کر ملک کی سیاست کو ایک نئی اصطلاح سے آشنا کیا جسے بعد میں آنے والے سیاست دان مزید ترقی دیتے چلے گئے۔
آج صحافت کے اس بطل جلیل کی یاد تازہ کرتے ہوئے ان کی وہ عہد آفریں جدوجہد بھی قوم سے خراج تحسین چاہتی ہے جو انہوں نے پاکستان بنتے ہی ان عناصر کے خلاف شروع کر دی تھی جو ملک کو کمیونزم کی گود میں دینے کے لئے بے چین تھے۔ وہ ملت کو لادینی نظریات کے زہر سے بچانے کے لئے کمیونسٹوں کے سیاسی عزائم کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ پاکستان کی سالمیت کے خلاف اشتراکی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لئے پورے مُلک میں صرف ایک آواز بلند ہو رہی تھی۔ یہ آواز حمید نظامی کی تھی یہ کسی مُلاّ کی آواز نہیں تھی ایک روشن خیال اور جدید تعلیم یافتہ مفکر کی صدا تھی جس نے اشتراکیوں کو ان کی کمیں گاہوں میں للکارا۔ آج جبکہ اشتراکیت کی عمارت کو خود اس کے علمبردار دھکا دے کرگرا چکے ہیں۔ حمید نظامی کی پیش بینی کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی جنہوں نے اس وقت جب اشتراکیت جوانِ رعنا تھی اس کے بلاخیز حسن کو نراسراب قرار دیا تھا، آج لینن گراڈ میں اشتراکیت کا بے گورو کفن لاشہ حمید نظامی کی رُوح کے لئے سکون کا باعث ہو گا انہوں نے یہ صدا اس وقت بلند کی تھی جب اشتراکیت اور ترقی لازم وملزوم قرار دیئے جانے لگے تھے اور حمید نظامی کو رجعت پسندی کے طعنے سننا پڑتے تھے۔ انہوں نے کمیونسٹوں کو ’’سُرخوں‘‘ کا لقب دے کر پُورے معاشرے میں اس طرح الگ تھلگ کر دیا تھا کہ سبز ہلالی پرچم تلے پروان چڑھنے والی قوم کو اشتراکیوں کی شناخت میں دشواری پیش نہ آئی۔ میاں افتخارالدین کی صحافتی ایمپائر۔ اس وقت کا صحافتی لال قلعہ۔ حمید نظامی کی گولہ باری کا مسلسل نشانہ بنا رہا۔ قلم سے تلوار کا کام لینے کی اصطلاح شاید ایسے ہی مواقع پر استعمال کی جاتی ہے۔ حمید نظامی کی روح آج مطمئن اور مسرور ہو گی کہ انہوں نے نو آزاد اسلامی مملکت پاکستان کو اشتراکیت کے طلسم سے بچانے کے لئے جو جہاد کیا تھا وہ اس حد تک مؤثر ثابت ہوا کہ وسط ایشیا کی تمام مسلم ریاستیں اس کے چُنگل سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ آیئے! حمید نظامی کے حضور عقیدت کے پھول نچھاور کریں کہ قوم کے اس مفکر کی پیش بینی نے پاکستان کو اشتراکیت کی دلدل میں پھنسنے سے بچایا اور قوم کی بروقت رہبری کی تاکہ اس کی منزل کھوٹی نہ ہو جائے۔
مجھے یکم ستمبر 1959ء کو حمید نظامی سے ٹمپل روڈ پر ان کی قیام گاہ پر ملاقات کا شرف حاصل ہوا، یہ ایک بڑے اخبار کے بڑے نام والے ایڈیٹر سے ایک طالب علم نامہ نگار کی ملاقات تھی جو لائل پور میں ’’نوائے وقت‘‘ کا سٹاف رپورٹر بننے کا خواہاں تھا لائل پور سے ’’نوائے وقت‘‘ کا ایڈیشن بند کئے جانے پر سٹاف رپورٹر کی حیثیت سے کام کرنے والے ممتاز صحافی جناب عرفان چغتائی لاہور جا چکے تھے۔ میں وقت مقررہ پرجناب حمید نظامی کی رہائش گاہ پر پہنچا اور ٹھیک گیارہ بجے ان کے ڈرائنگ روم کے باہر گھنٹی کا بٹن دبادیا، چند ساعتوں میں دروازہ کھلا اور سفید کُرتے پاجامے میں ملبوس وہ باوقار ایڈیٹر میرے سامنے تھے جن کے اداریوں اور خبروں سے اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ آجاتا تھا اور جن کا اخبار ’’نوائے وقت‘‘ ملک میں جرأت، بے باکی اور حق گوئی کا نشان سمجھا جاتا تھا، یہ ایک کُھلا اور کشادہ ڈرائنگ روم تھا جس کی چھت کافی اُونچی تھی۔ میں جس صوفے پر بیٹھا اور جس صوفے پر وہ فروکش ہوئے، ان کے درمیان کافی فاصلہ تھا میں نے اب تک جن اخبارات میں اور جن اخبارات کے لئے کام کیا تھا ان کے خطوط اور تقررناموں کی نقول میں پہلے ہی انہیں بھیج چکا تھا، میں نے بڑے فخر کے ساتھ عرض کیا کہ میں روزنامہ ’’آفاق‘‘ میں کام کررہا ہوں۔
اُنہوں نے ایک لمحہ توقف کیے بغیر فرمایا ، ’’اس کا تو ذکر چھوڑئے۔ ’’یاد رہے کہ ’’آفاق‘‘ ممتاز صنعت کار سعید سہگل نے شائع کرنا شروع کیا تھا، پنجاب کے سابق ڈائریکٹر تعلقات عامہ میر نُور احمد (جو قیام پاکستان سے قبل انگریزی اخبار ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کے چیف رپورٹر بھی رہے تھے) ’’آفاق‘‘ کے منیجنگ ایڈیٹر تھے اور ’’نوائے وقت‘‘ کے عملۂ ادارت کے سینئر ارکان ظہور عالم شہید، ذکریا ساجد اور بشیر احمد ارشد بھی ’’نوائے وقت‘‘ سے مستعفی ہوکر ’’آفاق‘‘ میں چلے گئے تھے۔ حمید نظامی نے انہیں بخوشی ’’نوائے وقت‘‘ سے الگ ہوجانے کی اجازت دے دی تھی، اور ان کے استعفے منظور کرتے ہوئے کہا تھا، ’’آپ کے لئے ’’نوائے وقت‘‘ کے دروازے ہمیشہ کُھلے رہیں گے‘‘، انہوں نے ظہورعالم شہید اور ان کے رفقاء کے ’’آفاق‘‘ میں چلے جانے کا اشتہار بھی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’نوائے وقت‘‘ کے صفحہ اوّل پر شائع کیا تھا اور اس روز خود نیوز روم میں رہے اور اخبار کے خبروں کے صفحات خود تیار کرائے۔
مجھ سے ان کا پہلا سوال یہ تھا، ’’آپ رپورٹر کیوں بننا چاہتے ہیں، سب ایڈیٹر کے طور پر کام کیوں نہیں کرتے؟‘‘
میں نے ادب سے عرض کیا کہ میری اب تک کی ساری تربیت اور تجربہ نامہ نگار اور رپورٹر کا ہے، میں اپنے آپ کو اس کام کے لئے ہی زیادہ مناسب سمجھتا ہوں۔ اُنہوں نے میرا استدلال قبول نہ کیا اور فرمایا ، ’’آپ کالج میں پڑھتے ہیں، اگر گیارہ بجے ایوب خان لائل پور کے ہوائی اڈے پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرنے والے ہوں تو آپ اپنی کلاس میں جائیں گے یا پریس کانفرنس میں؟‘‘ ظاہر ہے کہ ان کی دلیل کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا اس کے بعد فرمانے لگے، ’’آپ کی تعلیم کے علاوہ آپ کی کم عمر بھی ایک مسئلہ ہے، دراصل ہمیں زیادہ عمر کے آدمی کی ضرورت ہے، اگر سربراہ مملکت سے ہمارے رپورٹر کا آمنا سامنا ہو اور وہ ہمارے اخبار کے متعلق کوئی ریمارکس دے دیں تو وہ ان ریمارکس کا فوری جواب اُنہیں دے سکے‘‘۔ پھر ارشاد فرمایا، ’’آپ کی کوئی مالی ضرورت ہے تو بتائیے میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں؟‘‘
میں نے گذارش کی کہ اخبارات میں کام کرکے میری مالی ضروریات تو پُوری ہورہی ہیں اور آپ کے ہاں بھی میں کام کرنے کا خواہش مند ہوں اور آخر میں عرض کیا کہ آپ اگر زیادہ عمر کے کسی آدمی سے ہی کام لینا چاہتے ہیں تو اُس وقت تک کے لئے مجھے کام کرنے کا موقع دیں جب تک آپ کو اپنی پسند کا آدمی نہیں مل جاتا، اُنہوں نے میری یہ بات قبول کرلی۔۔۔ میں نے اجازت لینا چاہی تو وہ اٹھ کر دوسرے کمرے میں گئے اور ایک لفافہ میرے حوالے کیا جس میں میرے وہ خطوط تھے جو میں نے اپنے تجربہ کے ثبوت میں اُنہیں بھیجے تھے، کمرے سے باہر نکل کر جب میں نے لفافہ کھولا تو اُس میں میرے خطوط کے علاوہ ایک دو کاغذات اور بھی تھے، جن میں ایک ٹیلی گرام تھا جس کے حوالے سے اُنہوں نے لائل پور کے ایک رپورٹر کی سرزنش کی تھی اور یہ ریمارکس لکھے تھے کہ آپ نے اُسی ٹیلی گرام کی کاپی ’’نوائے وقت‘‘ کو بھیج دی جو ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کو ارسال کی گئی تھی اور دونوں رپورٹوں میں ایک لفظ کا بھی فرق نہیں تھا۔ اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ حمید نظامی بحیثیت مدیر کس گہرائی سے اپنے اخبار اور دوسرے مؤقر اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کا موازنہ کرتے تھے۔
اس گفتگو میں ایک بے اصول اخبار کے لئے ان کی کھلی ناپسندیدگی، ایک طالب علم کی مالی ضروریات پُورا کرنے سے ان کی فراخدلانہ دلچسپی۔ ’’نوائے وقت‘‘ کے رپورٹر کے لئے عمر اور تجربہ کے معیار، صحافت میں ایک نئے داخل ہونے والے کے کام کا برملا اعتراف، اپنے ادارے کی ضروریات کو اولیت دینے کے جو رہنما نکات سامنے آتے ہیں وہ صحافت کے طالب علموں کے لئے مینارہ نور ثابت ہوں گے۔ میرے اصرار پر انہوں نے عارضی رپورٹر کے طور پر میرا تقرر تو کر دیا تھا لیکن تین ماہ بعد یہ لکھ کر مجھے اس ذمہ داری سے سبکدوش کر دیا کہ ہم محض آپ کی صغر سنی اور طالب علمی کی وجہ سے آپ کی خدمات سے فائدہ نہیں اٹھا سکے ورنہ آپ کا کام اچھا تھا۔
حمید نظامی کے ایک اور وصف کا ذکر کئے بغیر ان کا تذکرہ ادھورا رہے گا۔ وہ اپنے قلم سے اپنے ہی قصیدے لکھنے والے صحافیوں میں سے نہیں تھے۔ انہوں نے اپنی ذات کو اخبار سے بالکل الگ رکھا اس حد تک کہ انہوں نے اپنی والدہ ماجدہ کے انتقال کی خبر بھی ’’نوائے وقت‘‘ میں شائع کرنے کی اجازت نہ دی اور جب ’’نوائے وقت‘‘ کے لائل پور ایڈیشن میں یہ خبر شائع ہو گئی تو انہوں نے وہاں کے عملہ سے اس کی اشاعت پر جواب طلب کیا۔ وہ اخبار کوقارئین کی امانت سمجھتے تھے انہوں نے ایڈیٹر کی حیثیت میں بھی اپنے رپورٹنگ کے ابتدائی کیریئر کو کبھی فراموش نہ کیا۔ ضلع جھنگ کے ایک گاؤں موچی والا میں جب مردوں اور خواتین کی اجتماعی توہین کا سانحہ ہوا تو وہ خود آغا شورش کاشمیری سمیت موچی والا گئے اور ایڈیٹر کے قلم سے شائع ہونے والی ان کی رپورٹ سے اس وقت کی حکومت کے ایوانوں کے درو دیوار لرز گئے۔
حمید نظامی فی الحقیقت ہماری ملّی صحافت کا بلند و بالا مینار تھے۔ ایک ایسا مینار جو کبھی گرا نہ کبھی جھکا سنگ وخشت سے آراستہ مینار تو ٹیڑھے بھی ہو جاتے ہیں لیکن گوشت پوست کا یہ مینار زندگی بھر راست رہا کیونکہ اس کا نظریاتی قبلہ درست تھا انہیں پاکستانی صحافت کا عظیم قائد کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس لئے کہ وہ آئین کی بالادستی، جمہوریت کی سربلندی اور حق و صداقت کی طرف داری میں قائداعظم کے سچے پیروکار تھے۔ انہوں نے تو ایوب خان کے مارشل لاء کی گھٹن میں زندہ رہنے کے مقابلے میں مر جانے کو ترجیح دی۔ حمید نظامی آج ہمیں بے طرح یاد آتے ہیں اور یاد آتے رہیں گے لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ حمید نظامی زندہ ہیں۔ وہ زندہ رہیں گے اس وقت تک جب تک پاکستان زندہ ہے اور دشمنوں کے ناپاک ارادوں کے باوجود پاکستان انشاء اللہ تاابد زندہ رہے گا جب تک ہمارے ملک میں غریب اور امیر کے بچوں کو حصول تعلیم کے ایک جیسے مواقع میسر نہیں آتے، جب تک حکمرانوں اور عام آدمی کے معیار زندگی میں تفاوت برقرار ہے جب تک تنقیدی تحریروں پر ہماری جبینیں شکن آلود ہوتی رہیں گی۔ جب تک اخبارات کو صحیح معنوں میں آزادی میسر نہیں آتی۔ جب تک اشتہارت کے لئے اخبارات حکومت کے محتاج ہیں جب تک سیاسی جماعتیں اپنی صفوں میں حقیقی جمہوریت نہیں لاتیں۔ جب تک حکومتیں اپنی پالیسیاں اپنی جماعت کے منشور کے تابع نہیں کرتیں حمید نظامی یاد آتے رہیں گے۔ اس صورت حال میں انقلاب لانے کے لئے صرف حمید نظامی کی تحریروں سے رہنمائی حاصل کرنا ہو گی۔(یوم حمید نظامی کی ایک تقریب میں پڑھا گیا)
(2)
حمید نظامی کا نام زبان پر آتا ہے تو صحافت کے اس دور کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جب اخبارات کے صفحات کی تعداد اور ان کے ایڈیشنوں کے رنگوں کی بجائے ان کے مدیروں کا قدوقامت صحافت کا اصل حُسن اور بانکپن تھا۔ جب تصویروں کے بجائے تحریریں صحافت کی آبرو تھیں۔ جب بہنوں اور بیٹیوں کی تصاویر سے اخبارات کو آراستہ کرنے کے بجائے قلم کو ماں بہن کی عصمت کا درجہ دیا جاتا تھا۔ حمید نظامی کا شمار انہی صحافیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے قلم کی قوت سے صحافت کی عزت دوبالا کی۔
انہوں نے سانگلہ ہل کے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی، اپنی دنیا آپ بنائی، محنت کی عظمت کا لوہا منوایا۔ ان کی قیادت کے جوہر اس زمانے میں کھلنا شروع ہوئے جب اس سکول کو آزمائش کا سامنا کرنا پڑا جہاں وہ زیر تعلیم تھے انہوں نے اس کی بقا کے لئے دیہات میں گھر گھر جاکر مسلمانوں کو یہ احساس دلایا کہ وہ حصول تعلیم کے لئے اپنے بچوں کو سکول بھیجیں۔
اسلامیہ کالج لاہور میں تعلیم کے دوران نوجوان طالب علم لیڈرکی حیثیت سے جب ان کو قائداعظم کی سیاسی بصیرت و فراست اور مطالبہ پاکستان کی اہمیت کا احساس ہوا تو انہوں نے قائد اعظمؒ کی آواز پر لبیک کہا اور اپنی تنظیمی صلاحیتیں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کو منظم کرنے کے لئے وقف کردیں۔ انہوں نے سکول کے زمانے میں اپنے تجربہ سے فائدہ اٹھا کر طلباء کی جماعتوں کو صوبہ کے قریہ قریہ میں بھیجا۔ آج ہم جس پاکستان میں آزادی کی فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں یہ قائد اعظم کی زیرِ قیادت حمید نظامی اور ان کے رفقاء کی محنت شاقہ کے طفیل قائم ہوا ورنہ پنجاب تو یونینسٹ پارٹی کے سحر میں گرفتار تھا جب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پرچم تلے یہ نوجوان پاکستان کا پرچم اپنے ہاتھ میں تھام کر تہی دست اور تہی دامن، متحدہ قومیت کے گاندھیائی نظرئیے کو تار تار کرنے کے لئے میدانِ عمل میں آئے تو مقصد اور نصب العین کی حقّانیت کا سرمایہ ان کے لئے وجہ افتخار بنا۔
حمید نظامی نے بطور صحافی صحافت کو نئی معنویت عطا کی، اداریہ نویسی کو نیا اسلوب بخشا، اداریہ کو اشعار اور بھاری بھرکم الفاظ سے مزین کرنے کے بجائے سادہ اور سلیس زبان میں ادارئیے تحریر کئے، شوکتِ الفاظ کے بجائے دلیل، منطق اور سنجیدگی کی طرح ڈالی۔ انہوں نے اخبار کو صحیح معنوں میں اخبار بنایا۔ صحافت کو خوشامد کی بدبُو سے پاک کیا، ایڈیٹر کی ذات کو اخبار سے الگ رکھا اور اسے اپنی نمود و نمائش اور تشہیر کا ذریعہ نہ بنایا۔ انہوں نے پاکستان کی نو آزاد مملکت کی تعمیر میں اس طرح حصہ لیا کہ آزادئ اظہار کے سب سے بڑے علم بردار بن کر ابھرے۔ انہوں نے جمہو ری اقدار اور روایات کو پامال کرنے والے حکمرانوں کو للکارا اور خوشامدی پریس کے بھی لتّے لئے۔ وہ آزادی اور جمہوریت کا نشان بن کر زندہ رہے اور بالآخر مارشل لائی گُھٹن اور حبس کا مقابلہ کرتے ہوئے جان دے دی۔
انہوں نے ایک طالب علم رہنما کی حیثیت میں اپنی جدوجہد سے یہ حقیقت ثابت کی کہ نوجوان کسی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ دولت کو مال و منال کے پیمانے سے ہی نہیں ناپا جاسکتا۔ جفا کش نوجوان قیادت قوموں کی تقدیر بدلنے میں فیصلہ کن کردار اداکرتی ہے۔
ایک ایڈیٹر کی حیثیت میں حمید نظامی نے جو جرأت مندانہ کردار ادا کیا اس سے اس امر کی تصدیق ہوگئی کہ صحافی اگر حق پرست، صداقت کے نگہبان اور جرأت کے پیکر ہوں تو قومیں ان پر ہمیشہ ناز کرتی ہیں، انہیں سلام پیش کرتی ہیں اور عقیدت سے ان کے پیکر خاکی کے سامنے اپنی گردنیں جھکاتی ہیں۔ حمید نظامی فی الحقیقت ایک ایسے ہی صحافی تھے جنہوں نے غربت کا مان بڑھایا۔ غریبوں کے بچوں کے لئے حمید نظامی کا پیغام یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی آپ بنا سکتے ہیں اور اپنی تقدیر کے خود مالک بن سکتے ہیں اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر کار زارِ حیات میں ان لوگوں کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں جو منہہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ حمید نظامی نے غربت کی عزت بڑھائی سیاسی کارکن کا وقار بڑھایا اور صحافت کو آبرو عطا کی۔ ان کی کہانی، ان کی زندگی کی داستان، جہدِ مسلسل کی ایک ایسی تاریخ ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک غریب اور متوسط گھرانے کا بیٹا جس نے ایک پسماندہ قصبے میں آنکھ کھولی اپنی خداداد ذہانت کے بل پر ساری قوم کی آنکھوں کا تارہ بن گیا۔ ایک سیدھا سادا نوجوان مگر آزادی کا شیدائی اور متوالا جس نے غلامی کی زنجیریں کاٹنے کے لئے انگریز اور ہندو سامراج دونوں سے ٹکر لی۔ اس کی عظمت کے لئے یہی کیا کم ہے کہ خود بانئ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اسے خراجِ تحسین پیش کیا۔ ان کی ہدایت پر ’’نوائے وقت‘‘ کو روزنامہ کیا گیا۔ غریب گھرانوں کے نوجوانوں کے لئے حمید نظامی کی زندگی یہ پیغام دیتی ہے کہ علم پر صرف سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے بچوں کا اجارہ نہیں ہے۔ علم اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے اور انسان کا کا م قدرت کے اس عطیہ کا زیادہ سے زیادہ صحیح استعمال ہے۔ حمید نظامی نے غریب نوجوانوں کو زندہ رہنے اور زندگی گذارنے کا حوصلہ اور ولولہ عطا کیا۔ ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے وہ ایثار و اخلاص کا نمونہ تھے۔ وہ صلہ و ستائش کی پرواہ کئے بغیر قائد اعظمؒ کے سپاہی بنے۔ ایک جری اخبار نویس کی حیثیت سے انہوں نے اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں ممتاز محمد خان دولتانہ سے ٹکر لی اور مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات خواجہ شہاب الدین کے خلاف صف آراء ہوئے۔ ایک رپورٹر کی حیثیت سے انہوں نے اورینٹ پریس کے لئے کام کیا۔ انہوں نے اسمبلی کی رپورٹنگ خود کی۔ جھنگ کے گاؤں موچی والا میں جب غریب انسانوں کو سرِ عام رُسوا کیا گیا تو وہ خود وہاں پہنچے اور ان المناک واقعات کی اپنے قلم سے تصویر کشی کی اور اقتدار کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ پھر گجرات کے بس سٹینڈ پر ایک مسافر خاتون حسین بی بی کے ساتھ جو ظلم ہوا ’’نوائے وقت‘‘ میں اس کی دردناک کہانی کی اشاعت نے ملک میں احتجاج کی شدید لہر پیدا کردی۔ موچی والا کی رپورٹ میں ان کی معاونت جھنگ کے صحافی عرفان چغتائی اور حسین بی بی کیس میں گجرات کے صحافی سید سجاد کرمانی نے کی تھی۔ پاکستان بننے کے چند سال بعد ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے مسلم لیگی وزیر اعلیٰ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کی غیر جمہوری روش پر اختلاف کی آواز سب سے پہلے حمید نظامی نے بلند کی، پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں اپنے تاریخی کردار کے باعث شاید انہیں اس بات کا سب سے زیادہ حق تھا۔ انہوں نے اشتراکیت کے خلاف جدوجہد میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، میاں افتخارالدین نے انگریزی اخبار ’’پاکستان ٹائمز‘‘ اور اردو اخبار ’’امروز‘‘ کو اشتراکیت کے پروپیگنڈہ کے لئے وقف کردیا تھا۔ میاں افتخارالدین کے اس صحافتی لال قلعہ پر سب سے پہلے گولہ باری کرنے والے بھی حمید نظامی ہی تھے۔ انہوں نے ترقی پسندوں سے گالیاں کھائیں، لیکن بے مزہ نہ ہوئے۔ وہ ماسکو سے اشارہ پانے والوں کو للکارتے رہے اور ان کے ارادوں کو بھانپ کر انہیں بے نقاب کرتے رہے۔
وہ نوجوانوں، صحافیوں، سیاسی کارکنوں، رپورٹروں اور اداریہ نویسوں کے لئے روشنی کا مینار تھے۔ انہوں نے سلطان ٹیپو کے اس قول کو اپنے عمل سے سچ کر دکھایا کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے‘‘۔ انہوں نے 25 فروری 1962ء کو 48 سال کی عمر میں جان دے کر یہ بھی ثابت کردیا کہ ایک فوجی آمریت میں ایک صحیح الخیال صحافی اور محب وطن اور جمہوریت پرست پاکستانی کے لئے موت، زندگی سے افضل ہے۔ ان کی موت نے جمہوریت کے پرستاروں، پاکستان کے شیدائیوں اور آزادی کے متوالوں کو نیا عزم اور ولولہ بخشا اور آج بھی حمید نظامی کے لکھے ہوئے ادارئیے اور جمہوریت کے لئے ان کی عظیم تر قربانی مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید اور حوصلہ کی شمع روشن کررہی ہے۔
وہ سیاست کے راستے سے صحافت میں آئے تھے۔ بر صغیر کی سیاسی و صحافتی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ صحیح معنوں میں صحافی وہی ہے جس نے اخبار کے ذریعے قوم کی سیاسی تربیت کی۔ وہ خود سیاست کے کارزار سے صحافت کے خارزار کی طرف آئے ان کی صحافت نے سیاست کو عزت بخشی، وہ صحافت کے وقار میں اضافہ کا باعث بنے۔
غریبوں، نوجوانوں، طالب علموں، سیاسی کارکنوں، سیاست دانوں، صحافیوں، رپورٹروں، اداریہ نویسوں، طنز نگاروں اور مالکانِ اخبارات کے لئے ان کا کردار ایک ایسی شمع ہے جو تا ابد روشن رہے گی۔ جب بھی معاشرے میں موت کی خاموشی ہوگی، قبرستان کا سناٹا ہوگا، اخبار نویسوں کے قلم گُنگ ہوں گے، اخبارات بے وقت کی راگنی الاپ رہے ہوں گے، حمیدنظامی بے طرح یاد آئیں گے۔ مایوسی کی تاریکیوں میں امید اور حوصلہ کے چراغ روشن کرنے والا وہ شخص ہمیں یاد آئے گا جس نے ہمیشہ آوازۂ حق بلند کیا اور لفظ و حرف اور قلم و قرطاس کا پاسدار اور نگہبان رہا۔ حمید نظامی کی حب الوطنی، بے باکی اور حق گوئی کو سلام۔
یہ عرض کرنے کی جسارت کروں گا کہ ہمیں ناشرین اخبارات، مدیروں، کالم نویسوں اور کارکن صحافیوں کو یوم حمید نظامی کو ہر سال یوم احتساب کی حیثیت سے منانا چاہئے اور اپنے گریبانوں میں جھانک کر کم ازکم اس وقت یہ ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ ہم اس مملکت خداداد کے صحافی اپنی قوم کوکیا دے رہے ہیں اور اس سے کیا کچھ چھین رہے ہیں تاکہ دوسروں پر تنقید اور نکتہ چینی کا حق چاہنے والے چراغ تلے اندھیرا کے مصداق نہ ٹھہریں۔ حمید نظامی کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کا اس سے بہتر طریقہ کوئی نہیں ہو گا۔ (روزنامہ جرأت لاہور 25 فروری 2010ء)