ڈھاکہ پر بھارتی فوج کے قبضے اور لاہور پر آخری سفاکانہ بمباری کے بعد سابق مغربی پاکستان اور حالیہ پاکستان پر مکمل کنفیوژن اور خوف و ہراس طاری تھا۔ یحییٰ خان ٹیلی ویژن پر آ کر اس شرمناک شکست پر چند بڑھکوں کے ذریعے پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کر چکے تھے۔ ملک کے دو ٹکڑے ہونے کے بعد مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت تھی۔ جس کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو امریکہ میں تھے۔ وہ اندر کی صورتحال سے پوری طرح باخبر نہیں تھے اور ملک میں موجود پارٹی قیادت کو کوئی واضح لائن نہیں دے سکے تھے۔ اسی اثناء میں مولانا کوثر نیازی نے ٹیلی ویژن پر آ کر شکست کے جواز میں اسلام کی ابتدائی تاریخ سے مثالیں پیش کرکے جنرل یحیٰی کو عوامی غیظ و غضب سے بچانے کی کوشش کی۔ یہ پارٹی لائن نہیں تھی لیکن ملک کے اندر موجود قیادت اور کارکنوں کے کنفیوژن میں مزید اضافہ ہو گیا۔ حنیف رامے پارٹی کے ترجمان ’’مساوات‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ وہ شدید ڈیپریشن میں تھے۔ شام کو دفتر آئے تو ان کا چہرہ اور آنکھیں دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے دیر تک روتے رہے ہوں۔
پورے مغربی پاکستان پر سناٹا طاری تھا۔ بھارتی طیارے ہماری فضاؤں میں کھلے پھر رہے تھے شہری آبادیوں پر بم گرائے جا رہے تھے اور فائرنگ ہو رہی تھی۔ ہماری فضائیہ کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ تھا۔ حنیف رامے کچھ کہے سنے بغیر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ میں اخبار کا چیف نیوز ایڈیٹر تھا اور مجھے صبح کا اخبار بنانا تھا اس لئے مشورہ کرنے کیلئے ان کے کمرے میں چلا گیا۔ وہ دونوں ہاتھوں سے سر پکڑے اور میز پر کہنیاں ٹیکے خاموش بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا حنیف صاحب کیا کرنا ہے؟ جواب دینے کے بجائے انہوں نے یہ سوال کر دیا ’’کیا کرنا چاہیے؟‘‘ وہ پی ٹی وی پر مولانا کوثر نیازی کی تقریر سن کر آئے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ ’’اگر یہی پارٹی لائن ہے تو آپ کی پارٹی کا خدا حافظ‘‘۔ دکھ اور غصے سے بھری ہوئی قوم ایک چنگاری کی منتظر ہے۔ پی ٹی وی کی طرح نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات اس ذلت آمیز شکست کی سنگینی کو چھپانے اور قوم کو ’’آخری فتح ہماری ہو گی‘‘ جیسے نعروں سے بہلانے کی کوشش کریں گے۔ غیر سرکاری اخبارات اس شرمناک حقیقت کو ’’سقوط ڈھاکہ‘‘ جیسے الفاظ کا کفن پہنا کر تدفین اور فاتحہ خوانی کا ماحول پیدا کرینگے اور کوئی راستہ تجویز کر لگیں گے۔ حنیف صاحب شکست خوردہ جنرلوں کے خلاف کھلی لڑائی کے حق میں تھے اور اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے کا خطرہ مول لینے پر آمادہ تھے۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ بھٹو صاحب سے امریکہ میں رابطہ ممکن نہیں تو جے اے رحیم، غلام مصطفٰی کھر اور حفیظ پیرزادہ وغیرہ کو سمجھائیں کہ یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔ یحیٰی خان ٹولے کو مہلت دینا سیاسی اور قومی خودکشی کے مترادف ہو گا۔ انہوں نے پوچھا آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ مجھے اپنی مرضی کا اخبار بنانے دیں۔ وہ حتمی فیصلہ کرنے کیلئے دوسرے پارٹی لیڈروں سے مشورہ کرنے چلے گئے۔ میں اپنی تیاری میں لگ گیا۔ مساوات کے چیف فوٹو گرافر مجید میر چند دن پہلے بھارتی فوج کے خالی کردہ مورچوں میں بکھرے ہوئے کچھ غیر ملکی اخبارات اور رسالے اٹھا لائے تھے۔ میں نے ایک رسالے میں سے یحیٰی خان کا کراہت آمیز اور نفرت خیز کارٹون نکالا اور اپنے آرٹ ایڈیٹر عزیز اختر کے سپرد کرکے کہا کہ ممکن حد تک بڑے سے بڑا جوڑا اور لمبا کرکے صفحہ اول کے آخری تین کالموں میں لگا دو۔ باقی میں بتاتا ہوں۔ پھر میں نے قائد اعظم کے وہ اقوال نکلوائے جن میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کیلئے لڑنا پڑے تو پہاڑوں، جنگلوں،میدانوں اور دریاؤں میں لڑائی جاری رکھنا۔ کسی صورت ہار نہ ماننا۔ میں نے سرخیاں لکھیں جن میں سقوط جیسے ملفوف لفظ استعمال کرنے کے بجائے شکست کی ذلت کو اس کی اصل شکل میں دکھایا جا سکتا تھا۔ یہ کام جاری تھا کہ حنیف رامے کا فون آ گیا۔ انہوں نے کہا کہ مشورے تو ملے جلے ملے ہیں لیکن میرا فیصلہ ہے کہ نتیجہ کچھ بھی ہوہمیں اپنی قومی ذمہ داری اور فرض پورا کرنا چاہیے۔ تم جو کرنا چاہتے ہو کر دو، نتیجہ دیکھ لیں گے اور بھگتنا پڑا تو مجھے بُرے سے بُرا حال بھی قبول ہے۔ اگلی صبح ڈرے ڈرے اخبارات کے ساتھ للکارتا ہوا روزنامہ ’’مساوات‘‘ سامنے آیا تو خوف کے بندھن ٹوٹ گئے۔ اخبار 24 گھنٹے چھپتا اور تقسیم ہوتا رہا۔ عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ ملک ’’ہمیں ہماری آن دو، پورا پاکستان دو‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا ۔ پیپلز پارٹی کے ابتدائی دور میں حنیف صاحب نے بھٹو کا پیغام اور تصویروں، چھوٹے چھوٹے سٹیکروں، پوسٹروں اور ہفت روزہ نصرت کے ذریعے گھر گھر پہنچایا تھا پھر روزنامہ مساوات نکال کر حکومتی اور دائیں بازو کے اخبارات کے پروپیگنڈے کے اثرات کا مقابلہ کیا۔ مشرقی پاکستان میں شکست کے بعد یحیٰی ٹولے کے خلاف آخری معرکے میں ان کا کردار تاریخ کا حصہ اس لئے نہیں بنا کہ وہ اپنے کارناموں کی نمائش لگانے اور اپنے لئے خود تالیاں بجانے کا فن جانتے تھے نہ اسے اچھا سمجھتے تھے۔ وہ اپنے طور پر فیصلہ کرکے وہ شکست ڈھاکہ کے بعد ’’مساوات‘‘ کے ذریعے برسر اقتدار جرنیلوں کا خوف نہ توڑتے تو شاید جنرل یحییٰ خان اقتدار میں ہی رہتا یا پھر جنرل عبدالحمید شکست کے باوجود ملک پر مسلط ہو جاتا۔
ابتدائی زمانے میں حنیف رامے صاحب کوبھٹو صاحب کا حسنین ہیکل کہا جاتا تھا لیکن ذاتی طور پر انہیں صحافت کے مقابلے میں سیاست زیادہ پرکشش لگتی تھی۔ وہ عام انتخابات میں لاہور کے ایک حلقے سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پیپلز پارٹی کو اقتدار ملنے کے بعد پنجاب کے وزیر خزانہ بن گئے۔ جدوجہد کے دور میں یہی وزارت ان کا خواب تھی۔ انہوں نے بھٹو صاحب کے سامنے اس خواہش کا اظہار بھی کیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ یوں ہے کہ حنیف صاحب ملتان کے ایک جلسہ عام میں سٹیج پر بیٹھے تھے کہ اپنی تقریر کا سلسلہ کاٹ کر اچانک بھٹو صاحب نے انہیں اپنے پاس بلایا اور لوگوں کے سامنے کھڑا کرکے کہا ’’دیکھو اسے! یہ وزیر خزانہ بننا چاہتا ہے‘‘ اگلے دن وہ مایوسی اور پریشانی کی حالت میں مساوات کے دفتر میں آئے اور اپنے سینئر ساتھیوں کو کمرے میں بلا کر بڑی آزردگی سے یہ واقعہ سنایا۔ باقی سب نے تو اظہار ہمدردی کیا لیکن منو بھائی نے کہا ’’حنیف صاحب یقین کر لیں آپ وزیر خزانہ ہی بنیں گے‘‘ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد بھٹو نے انہیں اسلام آباد بلایا اور نہ صرف پنجاب کی وزارت خزانہ دیدی بلکہ وفاقی وزیر خزانہ کا انتخاب بھی ان کے مشورے سے کیا۔ مصطفٰی کھر پر برہم ہونے کے بعد بھٹو صاحب نے حنیف صاحب کو پنجاب کا وزیراعلٰی بنا دیا۔ اس طرح وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پہلے وزیر اعلٰی پنجاب تھے۔ (دوسرے اور آخری غلام حیدر وائیں تھے جنہیں اس صوبے کا یہ سب سے بڑا عہدہ ملا)۔ پھر کسی نامعلوم وجہ سے بھٹو صاحب حنیف رامے سے بھی بدظن ہو گئے اور استعفٰی لے لیا۔ ان سے پنجاب اسمبلی کی سیٹ بھی خالی کروا لی اور وعدہ کیا کہ سینیٹر منتخب کروا کے وفاقی وزیر بنا دیں گے۔ یہ وعدہ وفا ہونے سے پہلے مصطفٰی کھر نے ذوالفقار علی بھٹو کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا اور حنیف صاحب کے استعفٰی سے خالی ہونے والی نشست کے ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے شیر محمد بھٹی مرحوم کے خلاف امیدوار بن گئے۔ مصطفٰی کھر کو لاہور میں اتنی حیرت انگیز پذیرائی ملی کہ حنیف رامے جیسا سیانا آدمی بھی ’’گمراہ‘‘ ہو گیا۔ اس بغاوت میں زیادہ دخل اس غصے کا تھا کہ تمام تر خدمات کو نظر انداز کرکے انہیں وزارت اعلٰی سے کیوں ہٹایا گیا۔ وہ پیپلز پارٹی کے بعض دوسرے ارکان اسمبلی کی طرح کھر گروپ میں شامل ہوئے۔ کھر صاحب کی بہادری کے بہت چرچے تھے لیکن تاجپورہ کے جلسہ عام میں حکومتی سفاکی دیکھ کر وہ اس بری طرح ڈرے کہ پولنگ والے دن گھر سے ہی نہیں نکلے۔ کھلی دھاندلی سے الیکشن ہارنے کے بعد انہوں نے پیر پگاڑا کی مسلم لیگ میں پناہ لے لی۔ حنیف صاحب کو بھی مجبوراً ان کے ساتھ لٹک کر پگاڑا لیگ میں جانا پڑا جس پر بعد میں انہیں بہت پچھتاوا رہا۔ مصطفٰی کھر تو بھٹو صاحب کے اقتدار کے آخری دنوں میں ان کی حکومت واپس آ گئے لیکن حنیف رامے نے مزاحمت اور مخالفت جاری رکھی۔ شاہی قلعہ اور جیل بھگتی لیکن ہتھیار نہیں ڈالے۔ یہ الگ بات ہے کہ تاہم غصے اور انتقام کی اس کیفیت میں بھی انہوں نے لاہور ہائیکورٹ میں مقدمہ قتل کی سماعت کے دوران بھٹو صاحب کے خلاف گواہی دینے سے معذرت کر لی تھی۔ انہوں نے اپنی سیاسی پارٹی بنائی۔ جو ہوتے ہی مر گئی۔ مایوس ہو کر امریکہ جا بسے۔ چند سال بعد ایک اور سیاسی اننگز کھیلنے کیلئے واپس آ گئے۔ جنرل ضیاء الحق کے آخری دنوں میں وفاقی وزیر بننے کی پیشکش پر بھی غور کرتے رہے۔ یہ متذبذب سیاسی سفر اس وقت ختم ہوا جب وہ محترمہ بینظیر کی پیپلز پارٹی میں واپس آئے۔ لاہور کے ایک حلقے سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور سپیکر بننے پر اکتفا کر لیا۔ دوبارہ وزیراعلٰی پنجاب بننے کی خواہش ان کے دل سے کبھی نہیں گئی۔ جب منظور وٹو کے بعد عارف نکئی کو وزیراعلٰی نامزد کیا گیا تو میں سپیکر کے چیمبر میں ان کے سامنے بیٹھا تھا۔ میں نے انہیں اپنی آخری امید کی موت پر سراپا احتجاج بنتے اور آبدیدہ ہوتے دیکھا۔ بینظیر صاحبہ کی دوسری حکومت برطرف ہونے کے بعد انہوں نے پیپلز پارٹی اور سیاست سے لاتعلقی اختیار کر لی۔
حنیف رامے صاحب بہت بڑے مصور، ادیب، صحافی اور سیاستدان تھے۔ کئی راہوں کے مسافر تھے۔ ہر سفر ادھورا چھوڑ دیا اس لئے کسی بھی فن یا شعبے میں منزل کمال پر نہیں پہنچ پائے۔ انسان چلے جاتے ہیں۔ نام اور یادیں باقی رہ جاتی ہیں۔ وہ بھی زیادہ سے زیادہ ایک دو نسلوں تک زندہ رہتی ہیں، پھر کتابوں کے اندر یا ان کے سرورق پر لکھے ہوئے نام اور تصویریں ہی باقی رہ جاتی ہیں جنہیں دیکھ کر دلوں سے کوئی جذبہ اُبھرتا ہے نہ کسک اٹھتی ہے۔
وہ پیپلزپارٹی کی اُس تاریخ کا ایک اہم اور یاد رہ جانے والا باب کا نمایاں اور بنیادی کردار تھے لیکن یہ باب کبھی نہیں لکھا جا سکے گا کیونکہ آدھے راستے سے پلٹ گئے اور سمت گم کر بیٹھے اور آخر میں یہ کہہ کر ہار مان لی کہ ’’ہم رہ گئے ہمارا زمانہ گزر گیا‘‘
(3جنوری2006ء )