تجزیہ :چودھری خادم حسیناس میں کوئی ابہام نہیں کہ حکومت دباؤ کا شکار ہے اور اس میں ’’حکومتی دوستوں‘‘ کی بھی مہربانی شامل ہے جو محاذ آرائی کو تیز کرتے چلے گئے۔ حکومت کے لئے تو یہ ضروری تھا کہ سیاسی موسم اور ماحول کو ٹھنڈا اور اعتدال پر رکھا جائے جبکہ عمران خان کی حکمت عملی اس کے برعکس رہی۔ انہوں نے 2نومبر کی کال کے حوالے سے بہت کچھ داؤ پر لگا دیا اس لئے انہوں نے تو ماحول کو گرمانا ہی تھا اور اسی لئے وہ شہر شہر پھر کر جلسے بھی کر رہے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے طلال چودھری ، دانیال عزیز اور بعض وزراء نے بھی جوابی حملے کرکے مزید موقع دیاکہ عمران خان بڑھ بڑھ کر حملے کریں مجموعی طور پر تحریک انصاف کی یہ ’’سولو فلائٹ‘‘ ہے اور شیخ رشید کے سوا کوئی ساتھ نہیں تھا، حتیٰ کہ پاکستان عوامی تحریک کے چیئرمین ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا وہ بیرونِ ملک بیٹھ کر تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو، پر عمل پیرا ہیں جبکہ مسلم لیگ (ق) نے یکایک موقف تبدیل کر لیا ہے اور اب دھرنے میں شرکت کا فیصلہ کر لیا حالانکہ مسلم لیگ (ق) کے انتخابات سے قبل چودھری شجاعت حسین نے دھرنے کی مخالفت کی تھی انتخابات میں قیادت تو پُرانی سامنے آئی ہے تاہم چودھری پرویز الٰہی کے موقف کو پذیرائی ملی اور اب انہوں نے اپنے کارکنوں کو بھی تیاری کی ہدایات جاری کر دی ہیں، صف بندی مکمل ہو چکی اب تحریک انصاف کے ساتھ عوامی مسلم لیگ اور مسلم لیگ (ق) ہیں تو جمعیت علماء اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمن نے کھل کر وزیراعظم اور حکومت کی حمائت کر دی ہے۔ پیپلزپارٹی نے اس موقع پر حکومت پر دباؤ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور اب قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ چیئرمین بلاول بھٹو کی طرف سے پیش کئے گئے چار مطالبات منظور کر لئے جائیں تو حکومت کے ساتھ بیٹھا جا سکتا ہے، تاہم پیپلزپارٹی نے جو پالیسی بیان جاری کیا وہ حکومت کے حق میں جاتا ہے۔ پالیسی بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی غیر جمہوری اقدام کی حمائت نہیں کی جا سکتی اور یوں بالواسطہ طورپر یہ حمایت ہے کہ پیپلزپارٹی نے دھرنے کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا ہے۔اس سلسلے میں اب بحث نے دوسرا رخ اختیار کر لیا کہ خود عمران خان نے تیسری قوت کو ملوث کرنا شروع کر رکھا ہے، پہلے الزام لگایا کہ حکمران فوج کو بدنام کر رہے ہیں اور اب کہا کہ تیسری قوت نے مداخلت کی تو اس کے ذمہ دار وزیراعظم محمد نوازشریف ہوں گے۔ اب سنجیدہ فکر لوگ پوچھ رہے ہیں کہ عمران خان جو اس قدر ماحول کو گرما رہے اور دھمکی آمیز لہجے میں گفتگو کرتے ہیں وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کیونکہ ایک امر تو واضح ہے کہ اگر اسی طرح عوامی دباؤ کے تحت حکومت یا وزیراعظم مستعفی ہونے لگے تو پھر یہ روائت جڑ پکڑ جائے گی اور اگر یہ مصر سے مستعار ہے تو پھر مصر کی تمام تر الٹ پلٹ ملاحظہ کرلیں کہ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آیا، اس لئے ضروری ہے کہ کوئی درمیانی راہ نکالی جائے اور وہ سپریم کورٹ میں درخواستوں کی سماعت اور فیصلہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں فریق خوشدلی سے قبول کریں پاناما کے لئے جوڈیشل کمیشن اور پاناما میں آنے والے سب ناموں کا احتساب شامل ہو،وزیراعظم اور عمران خان اپنے اپنے طور پر خود کو احتساب کے لئے پیش کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ یوں یہ مسئلہ حل ہو جائے گا تاہم اس کے لئے تحمل اور برداشت کی ضرورت ہے اور سیاست میں تلخی کم ہونا چاہیے۔ملکی حالات تو یہ ہیں ایسے میں افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ بھی معاندانہ روش پر آ گئے اور کہتے ہیں کہ طالبان کے وفد کے اسلام آباد آنے سے یہ ثابت ہو گیا کہ طالبان تمام تر کارروائیاں پاکستان کی سرزمین سے کرتے ہیں۔ ایسے میں ایک امریکی قائم مقام نائب وزیر ایڈم زوبن پاکستان کی تمام تر تعریف اور امریکہ پاک ہم آہنگی کی بات کرنے کے باوجود پھر ڈومور کی بات کرتے ہوئے الزام لگاتے ہیں کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کچھ نہیں کر رہا۔ اس لئے ممکن ہے خود امریکہ کو کارروائی کرنا پڑے، یہ بہت واضح دھمکی ہے اس کے علاوہ بھارت کی جارحیت اپنی جگہ ہے۔ کیا یہ حالات قومی اتفاق رائے اور محاذ آرائی ختم کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں اور کیا سیاسی گرمی اور جنگ ’’قومی خدمت‘‘ ہے۔ فریقین کوسوچنا ہوگا۔