پاکستان پروگریسو لمیٹڈ (پی پی ایل) کو مارشل لا کے ہاتھوں دفن ہوئے اتنا عرصہ گزر چکا ہے کہ لوگ اس کا نام بھی بھول چکے ہوں گے۔ یہ ادارہ پاکستان ٹائمز، امروز، لیل و نہار (ہفت روزہ) اور سپورٹس ٹائمز (ماہانہ) شائع کرتا تھا اور میاں افتخار الدین مرحوم کی ملکیت تھا۔ اس ادارے سے بائیں بازو اور لبرل سوچ کے حامل بڑے بڑے لوگوں کا تعلق رہا۔ مولانا چراغ حسن حسرت، احمد ندیم قاسمی اور ظہیر بابر باری باری روزنامہ امروز کے ایڈیٹر رہے۔ عبداللہ ملک اور حمید اختر اسی اخبار کی پہچان تھے۔ پاکستان ٹائمز کو فیض احمد فیض اور مظہر علی خان کی ادارت کا شرف حاصل رہا۔ خواجہ محمد آصف، اے ٹی چودھری، صفدر میر، آئی اے رحمان، عزیز صدیقی، محمد ادریس، خالد حسن، فاروق مظہر اور مقبول شریف جیسے بڑے بڑے لوگ اس اخبار سے منسلک رہے۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ والدین اپنے طالب علم بچوں کو انگریزی سکھانے کیلئے پاکستان ٹائمز پڑھایا کرتے تھے اور اچھی اردو کا معیاری اخبار امروز کو سمجھا جاتا تھا۔ ہفت روزہ لیل و نہار سید سبط حسن کی ادارت میں شائع ہوتا تھا اور اس معیار کا کوئی ہفت روزہ بعد میں منظر عام پر نہیں آیا۔ ہمارے عبدالقادر حسن، جب بھی اپنی صحافت کے ابتدائی زمانے کا تذکرہ کرتے ہیں یہ بتانا نہیں بھولتے کہ انہوں نے تقریباً سب کچھ سبط حسن صاحب سے سیکھا۔
میں نے روزنامہ انجام کراچی سے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز کیا تھا۔ 1965ء میں امروز لاہور میں آ گیا۔ اس وقت ظہیر بابر صاحب ایڈیٹر تھے اور ایوبی آمریت سے جنم لینے والے نیشنل پریس ٹرسٹ کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہونے کے باوجود ’’پاکستان ٹائمز‘‘ اور ’’امروز‘‘ بہت بڑے اخبارات تھے۔ ضیاء الحق دور میں نیشنل پریس ٹرسٹ کے دوسرے اخباروں کی طرح یہ اخبارات بھی آخری دموں پر آ گئے اور خسارہ اتنا بڑھا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں ایک ایک کرکے بند ہو گئے۔ اخبارات دفن ہوئے تو ان کی پہچان سمجھے جانے والے بڑے بڑے لوگ بھی اس طرح رخصت ہوئے کہ جب بھی میں پی پی ایل کی عمارت کے قریب سے گزرتا ہوں مجھے ہمیشہ وہاں گزارا ہوا اپنا ماضی اور یہ شعر یاد آ جاتا ہے۔
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے
دو تین دن پہلے ایک اور نامی کا نشان مٹنے کی خبر واشنگٹن سے آئی۔ خالد حسن کیا شاندار آدمی تھا اور کتنا بڑا صحافی۔ لندن میں میاں نواز شریف کی اے پی سی کے دوران ملا تو ویسے کا ویسا ہی تھا جیسے اسے جوانی کے زمانے میں دیکھا۔ ایک دن پہلے خبر چھپی کہ وہ پروسٹیٹ کینسر کی وجہ سے بستر مرگ پر ہے۔ اگلے دن پتہ چلا کہ ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گیا ہے۔ کچھ بلکہ بیشتر اخباروں نے اسے ایک سنگل کالم خبر میں دفن کر دیا کیونکہ دور حاضر کے صحافیوں کی اکثریت کو معلوم ہی نہیں کہ خالد حسن کون تھا اور کیا تھا۔ وہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں اتنا ماہر تھا کہ اس نے سعادت حسن منٹو کے افسانے انگریزی میں ترجمہ کرکے اس عظیم افسانہ نگار کو پوری دنیا میں متعارف کرایا۔ فیض احمد فیض کی شاعری کے انگریزی ترجمے کئے۔ انگریزی اور اردو کے اتنے ترجمے کئے کہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ اتنے وسیع کاموں کیلئے وقت کیسے نکالتا ہے۔ ابتدا میں رپورٹر تھا، پھر بہت بڑا کالم نگار بن گیا۔ پچھلے چند سالوں سے اس کے کالم ترجمہ ہو کر کئی اردو اخباروں میں بھی شائع ہو رہے تھے۔ امروز اور اس کے بعد کے زمانے میں میری خالد حسن سے لمبی چوڑی ملاقاتیں نہیں رہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اسے پسند کرتے تھے اس لئے جب وہ اقتدار میں آئے، خالد حسن نے ان کی فرمائش پر پریس سیکرٹری کا عہدہ قبول کر لیا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد بھٹو صاحب نے پہلے 14 اور پھر 13 عرب اور افریقی ملکوں کے دورے کئے جن کا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان 1971ء کی شکست کی شرمندگی سے بھی نکلا اور اسے بھاری مالی امداد بھی ملی، جس میں ایٹمی پروگرام کیلئے بے حساب رقوم بھی شامل تھیں۔ اسی دور میں پاکستانیوں کو خلیج کے ملکوں اور سعودی عرب میں ملازمتیں ملیں اور گھر گھر گھر آسودگی پھیلی۔
13 ملکوں کے دورے میں، میں بھی بھٹو صاحب کے ہم سفروں میں شامل تھا۔ اس سفر میں خالد حسن کے ساتھ قربت اور تعلق بڑھا۔ خالد حسن کی سربراہی میں پی آئی اے کے میاں شجاع اللہ، مارننگ نیوز کے ایس کے پاشا، نیلام گھر والے طارق عزیز (اس زمانے میں وہ پیپلز پارٹی کے رہنما تھے) اور میں نے ایک ’’خفیہ گینگ‘‘ بنا لیا تھا جس کا منشور یہ تھا کہ 14یا15 دنوں پر مشتمل 13 ملکوں کے اس دورے میں، جتنا بھی وقت ملے سرکاری مصروفیات کے بعد حتی المقدور ’’آوارہ گردی ضرور کرنی ہے‘‘۔ ان تیرہ دنوں میں بڑے بڑے دلچسپ واقعات ہوئے۔ جن میں ایک خاص واقعہ یہ تھا کہ جب بھٹو صاحب شام میں حسن البکر کے محل میں پہنچے تو میں طارق عزیز اور دو ایک دوسرے ساتھی غیر رسمی کپڑوں میں ملبوس تھے، اندر دونوں سربراہوں کی بات چیت جاری تھی کہ خالد حسن نے ہمیں جمع کیا اور کہا کہ زیڈ اے بی (عام طور پر وہ ان کا یہ مختصر نام ہی لیتے تھے) بہت غصے میں ہے، اگر آج تم سامنے آ گئے تو یہیں سے پاکستان ڈیپورٹ ہو جاؤ گے۔ چھپنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا لیکن بائیں طرف ہم ایک ایسی جگہ کھڑے ہو گئے جہاں سے بھٹو صاحب اور حسن البکر نے ہال میں داخل ہو کر دائیں طرف سے ہاتھ ملانے شروع کرنے تھے۔ ہم دونوں سربراہان مملکت کے پیچھے پیچھے چلتے رہے اور پھر ڈائننگ ہال میں داخلے کا مرحلہ اس طرح طے کیا کہ جب بھٹو صاحب اپنے چہرے کا رخ حسن البکر کی طرف کرکے باتیں کر رہے تھے، خالد حسن کے اشارے پر ہم خاموشی سے اندر گھس کر سب سے آخر میں سوٹوں والوں کے پیچھے چھپ گئے۔
دورے میں شامل 12 واں ملک ترکی تھا اور قیام ازمیر میں تھا جہاں رہائش تو ترک حکومت کے ذمے تھے لیکن کھانے وغیرہ کا خرچہ اپنا اپنا تھا۔ اس وقت ہمارا ’’گینگ‘‘ تقریباً دیوالیہ ہو چکا تھا۔ میٹنگ ہوئی اور سوچا گیا کہ پیسے کہاں سے لئے جائیں گے۔ شام کا کھانا بھٹو صاحب کی طرف سے تھا۔ خالد حسن نے حکمت عملی طے کی کہ ’’جب بھٹو صاحب تقریر کے بعد شرکا کے درمیان آ جائیں گے، وہ ان کے قریب رہے گا۔ اس وقت طارق عزیز کو اس طرح سامنے سے گزرنا چاہیے کہ بھٹو صاحب کی نظر پڑ جائے ‘‘طارق عزیز سامنے سے گزرا تو بھٹو صاحب نے پوچھا ’’تم نے یہاں کے تاریخی مقامات دیکھ لئے ہیں۔ طے شدہ حکمت عملی کے مطابق اس مرحلے پر ’’اچانک‘‘ خالد حسن بول اٹھا ’’اس کے پاس تو پیسے ہی نہیں ہیں۔ یہ کیا دیکھے گا‘‘۔ بھٹو صاحب نے اسی وقت اپنے اے ڈی سی کو بلایا اور کہا کہ میرے ذاتی اکاؤنٹ سے اسے پانچ سو پونڈ دے دو، ہم اچانک امیر بن گئے اور عشائیہ ختم ہونے کے بعد ایک بار پھر ’’میدان جنگ‘‘ میں نکل پڑے۔
خالد حسن پریس سیکرٹری کے عہدے سے فارغ ہوا تو لندن میں پریس قونصلر لگ گیا، پھر وہ بس پردیسی ہی ہو گیا۔ اس نے اظہار محبت کیلئے فرائیڈے ٹائمز کیلئے میرے دو کالم بھی ترجمہ کئے لیکن رابطے فون پر ہوتے رہے۔ آخری ملاقاتیں لندن اے پی سی کے دوران ہوئیں لیکن سرسری سی تھیں۔ ہم ایک دوسرے سے پچاس ساٹھ میل کے فاصلے پر ٹھہرے ہوئے تھے۔
یہ دنیا اور یہ زندگی کتنی ہی بااختیار کیوں نہ ہو، بنیادی طور پر تو ایک بے بسی ہی ہے۔ خالد حسن چلا گیا۔ بہت سے لوگوں کی زندگی کا ایک حصہ گم ہو گیا اور یادوں کے قبرستان میں ایک اور قبر بن گئی… کچھ عرصے تک باقاعدگی سے پھول چڑھانے کیلئے اور آخر میں احمد مشتاق کی بیان کی ہوئی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کیلئے۔
پھول مہنگے ہو گئے قبریں پرانی ہو گئیں (9 فروری 2009ء )