دربار صحافت

خلیق قریشی از جمیل اطہر

پاک افغان تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش

خلیق قریشی از جمیل اطہر

خلیق قریشی کا تعلق اہلِ صحافت کے اس قافلہ سے تھا جس کی عظمت کی علامت کے طور پر جناب حمید نظامی نے ناموری حاصل کی، جس طرح حمید نظامی نے تحریکِ پاکستان میں طلبا کے محاذ پر نہایت مؤثر اور فعال کردار ادا کیا اور بعد ازاں صحافتی محاذ پر خدمات انجام دیں، اسی طرح خلیق قریشی نے اوائل عمر سے ہی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ ان کی سرگرمیوں کا اصل محور قیامِ پاکستان کے لئے جدوجہد تھا۔ خلیق قریشی کی ایک اور خوبی جو انہیں اپنے ہم عصر لوگوں میں ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ صحافت کے خارزار میں قدم رکھنے کے بعد صرف اسی دشت کے نہ ہورہے بلکہ انہوں نے شاعری کو بھی ذریعۂ اظہار بنایا اور وقتاً فوقتاً سیاسی و ادبی پلیٹ فارموں پر بھی ان کی آواز گونجتی رہی۔
خلیق قریشی مرحوم نے قیامِ پاکستان کے بعد چند سال سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں کام کیا۔ وہ لائل پور میں ڈسٹرکٹ پبلسٹی افسر رہے اور ڈسٹرکٹ بورڈ کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والے ’’لائل پور اخبار‘‘ کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ اس دوران ان کے ایک عزیز دوست اور لائل پور کے ممتاز صحافی جناب رمضان سرور مرحوم نے لائل پور سے روزنامہ ’’عوام‘‘ جاری کیا۔ رمضان سرور کی رحلت کے بعد خلیق قریشی نے نیم سرکاری ملازمت کو خیرباد کہا اور رمضان سرور مرحوم کے چھوٹے بھائی جناب ایوب سرور، جو ’’عوام‘‘ کے طابع و ناشر تھے، کی درخواست پر روزنامہ ’’عوام‘‘ کی ادارت سنبھال لی اور بعد میں یہ اخبار پوری طرح ان کے زیرِ انصرام آگیا۔
خلیق قریشی ایک تجربہ کار اور جہاندیدہ صحافی تھے جو قلم برداشتہ اداریے اور شذرات سپردِ قلم کرنے کے عادی تھے۔ وہ بلند پایہ شاعر اور اسلام اور پاکستان سے بے پناہ محبت رکھنے والے سیاسی رہنما بھی تھے۔ انہوں نے ملکی اور قومی مسائل پر خیال افروز اداریے اور مقالات لکھے اور ایسی غزلیں بھی کہیں جو حُسنِ تغزل کا شاہکار ہیں۔
حضور رسولِ مقبول ﷺ کی بارگاہ میں گل ہائے عقیدت پیش کرنے کے لئے نعتیں کہیں جو ایک مسلمان کے لئے توشۂ آخرت بن سکتی ہیں۔ انہیں سید الشہداء حضرت امام حسینؑ سے بھی گہری عقیدت تھی اور عشرۂ محرم میں ہر روز ان کے اخبار ’’عوام‘‘ کے صفحہ اول پر ان کے قلم سے ایک مرثیہ ضرور شائع ہوتا تھا۔
مجھے خلیق قریشی صاحب کے روزنامہ ’’عوام‘‘ کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا اور اس تعلق کے باعث میں جب بھی لائل پور جاتا، خلیق صاحب کے پاس ضرور حاضر ہوتا اور وہ اس حقیقت کے باوجود کہ میری حیثیت ایک معمولی نامہ نگار اور صحافت کے مبتدی کی تھی، ہمیشہ بہت شفقت سے پیش آتے اور معمولی معمولی خبروں پر بے حد حوصلہ افزائی کرتے اور جہاں کہیں سرزنش کی ضرورت محسوس ہوتی ان کا انداز نہایت ملائم ہوتا۔
خلیق قریشی کا ایک امتیازی وصف ان کی ظرافت اور بذلہ سنجی تھا۔ وہ ہلکے پھلکے انداز میں بعض اوقات ایسی کام کی بات کہہ دیتے تھے جو شاید کسی ادارتی مقالہ میں لکھنا ممکن نہ ہو۔ جب لائل پور سے سہگل پبلشرز لمیٹڈ نے اپنے روزنامہ ’’آفاق‘‘ کا ایڈیشن جاری کیا تو اس موقع پر ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں میاں سعید سہگل نے، جو سہگل پبلشرز لمیٹڈ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چئیرمین تھے، تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میری زندگی کی دو خواہشیں تھیں، ایک یہ کہ میں کپڑے کی مل لگاؤں اور دوسرے ایک اخبار نکالوں۔ کپڑے کی مل میں نے چند سال قبل لگائی تھی اور اب میری دوسری خواہش بھی پُوری ہوگئی ہے۔ جب اس مجلس میں لائل پور کے مقامی صحافیوں کی طرف سے جناب خلیق قریشی نے روزنامہ ’’آفاق‘‘ کے اجراء کا خیر مقدم کیاتو انہوں نے نہایت لطیف پیرائے میں صنعت اور صحافت کا فرق بھی واضح کردیا، انہوں نے کہا کہ ہم میاں سعید سہگل کی اس خوشی میں شریک ہیں کہ ان کی زندگی کی دو خواہشات پوری ہوگئی ہیں لیکن یہ صرف اسی وجہ سے ممکن ہوا ہے کہ انہوں نے پہلے مل لگائی تھی بعد میں اخبار نکالا ہے، اگر انہوں نے پہلے اخبار نکالا ہوتا تو مل لگنے کی نوبت ہی نہ آتی۔
خلیق صاحب کا اس طرح کا ایک جملہ بعض اوقات پوری مجلس کا رنگ بدل دیتا تھا۔ سابق صدر ایوب خان کا معمول تھا کہ وہ اپنے دورِ اقتدار میں ہر چند ماہ کے بعد ایڈیٹروں کی کانفرنس بلاتے تھے جس میں وہ مُلکی مسائل پر گفتگو کرتے تھے۔ ایوب خان دراصل اخباری نمائندوں کے تیز و تند سوالات سے بہت عاجز تھے اور ان سے نجات پانے کے لئے انہوں نے ایڈیٹروں سے ملاقات کی طرح ڈالی تھی۔ ان کانفرنسوں میں بعض اوقات ایڈیٹروں کو نامہ نگاروں کی طرح قلم پنسل سنبھالنے کا خوشگوار یا ناخوشگوار فریضہ بھی ادا کرنا پڑتا تھا، اسی طرح کی ایک کانفرنس مری میں منعقد ہوئی، اس دن روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے راولپنڈی ایڈیشن میں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کے سیاست میں دوبارہ حصہ لینے کے بارے میں ایک خبر شہ سرخی کے ساتھ شائع ہوئی تھی جس پر ایوب خان بہت سیخ پا تھے۔ اسی صبح ان کی ملاقات عالمی بنک کے نائب صدر سے ہوئی تھی جو ناکام رہی۔ اس پر بھی ایوب خان کا پارہ چڑھا ہوا تھا۔ چنانچہ جب ریسٹ ہاؤس کے چھوٹے سے کمرے میں وہ ایڈیٹروں سے ملاقات کے لئے آئے تو ان کے چہرے سے خفگی صاف جھلک رہی تھی۔ ایوب خان نے چُھوٹتے ہی ’’جنگ‘‘ کے مدیرو مالک میر خلیل الرحمن سے تیز و تند باتیں کیں جس سے میر صاحب کی طبیعت مکدّر ہوئی اور انہیں کانفرنس کے کمرے سے دوسرے کمرے میں لے جانا پڑا۔ جناب خلیق قریشی اس صورتِ حال سے سخت پریشان تھے اور ایسے موقع پر جبکہ ایڈیٹر حضرات سلسلۂ کلام دوبارہ شروع کرنے کی راہ کی جستجو میں تھے، خلیق قریشی اپنی نشست سے اٹھے اور انہوں نے کہا، ’’جنابِ والا آج اس مجلس میں گھٹن بہت زیادہ ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ کمرہ بہت تنگ ہے‘‘۔ ایوب خان کی پیشانی پر پریشانی کی شکنیں ابھریں اور انہوں نے کہا، ’’اگر گھٹن بہت زیادہ ہے تو آپ کو پسینہ کیوں نہیں آرہا؟‘‘ خلیق صاحب کب خاموش رہنے والے تھے انہوں نے بلا تأمل کہا، ’’جناب یہ تو ہماری قوتِ برداشت ہے‘‘۔ خلیق صاحب کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہونے کی دیر تھی کہ ایوب خان کی شکنیں غائب ہوگئیں اور گفتگو اعتدال پر آگئی اور اس کے بعد صدرِ مملکت اور مدیرانِ جرائد میں کام کی باتیں ہوئیں۔
خلیق صاحب کا ایک اور وصف ان کی عالی ظرفی تھا۔ لائل پور کے بعض مالکانِ اخبارات وہاں سے کسی نئے اخبار کے اجراء کے بارے میں بہت حسّاس تھے اور انہیں کسی نئے اور خاص طور پر اچھے اخبار کا اجراء قطعاً گوارا نہ تھا اور وہ اس کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کرتے تھے لیکن خلیق صاحب کا معاملہ ان سے بالکل مختلف تھا وہ نہ صرف معیاری اخبار کے قدردان تھے بلکہ ایسا اخبار نکالنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔ ان کی بلند حوصلگی اور وسیع الظرفی کے درجنوں واقعات ہیں۔ مصطفی صادق صاحب اور میں نے جب روزنامہ ’’آفاق‘‘ لائل پور سے علیحدگی اختیار کرکے ’’وفاق‘‘ کے نام سے اپنا اخبار جاری کرنے کا ارادہ کیا تو خلیق صاحب نے ہمیں ایک بزرگ دوست کی حیثیت سے اس راہ کی مشکلات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی اور اس کے ساتھ ہی یہ پیشکش بھی کی کہ اگر ہمیں اخبار نویسی کا چسکا ضرور ہی پورا کرنا ہے تو ہم ان کے اخبار کی ادارتی ذمہ داریاں سنبھال لیں اور بجائے اس کے کہ وہ ہماری تنخواہ یا معاوضہ مقرر کریں، انہوں نے یہ فیاضانہ پیشکش کی کہ ہم ان کی تنخواہ یا اخراجات کا ماہانہ الاؤنس مقرر کردیں۔ آج کے مادی دور میں اس طرح کی مثالیں مشکل ہی سے ملیں گی۔
جب ’’وفاق‘‘ کا پہلا شمارہ مرتب ہورہا تھا تو انہوں نے اس کے لئے ’’وفاق‘‘ اور اہلِِ ’’وفاق‘‘ کے بارے میں کسی فرمائش کے بغیر ایک خوبصورت نظم لکھی اور خود دفتر آکر سنائی جو ان کے اظہارِ پسندیدگی کا بہترین ثبوت تھا۔
خلیق صاحب نوجوان اخبار نویسوں کی جو حوصلہ افزائی کرتے تھے، اس کی مثال پیش کرنے کے لئے مجھے ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے۔ ’’وفاق‘‘ کے پہلے شمارے میں جہاں لائل پور کی صحافت کے بارے میں متعدد مضامین شائع ہوئے تھے وہاں شہیدِ صحافت شمس الحق مرحوم کے بارے میں میرے قلم سے ایک مضمون بھی شامل تھا۔ شمس مرحوم لائل پور کے روزنامہ ’’انصاف‘‘ سے وابستہ تھے اور ان کی بعض تحریروں پر مشتعل ہو کر ایک روایت کے مطابق انہیں ان کے مکان سے اغوا کرکے بعض با اثر لوگوں نے ایک کارخانے کے بوائلر میں زندہ جھونک کر ہلاک کردیا تھا، شمس مرحوم کی ضعیف العمر والدہ کو کہیں سے یہ معلوم ہوا کہ کسی اخبار میں ان کے بیٹے کے بارے میں مضمون شائع ہوا ہے۔ وہ لاٹھی ٹیکتے ہوئے خلیق صاحب کے پاس گئیں اور ان سے اس اخبار کے بارے میں دریافت کیا جس میں شمس کے متعلق مضمون شائع ہوا تھا۔ خلیق صاحب نے بوڑھی ماں کو اپنے دفتر میں بٹھایا اور اپنے چپراسی کو بازار سے ’’وفاق‘‘ کا وہ شمارہ لانے کے لئے بھیجا جس میں یہ مضمون شائع ہوا تھا۔ جب چپراسی یہ اخبار لے آیا تو انہوں نے خود سارا مضمون پڑھ کر شمس مرحوم کی ستم رسیدہ والدہ کو سنایا۔ مضمون سن کر ماں کی آنکھوں میں تو آنسو تیر ہی رہے تھے، خلیق صاحب کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔ شمس کی والدہ نے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اس مضمون کے لکھنے والے کو ایک نظر دیکھنا چاہتی ہیں۔ خلیق صاحب نے ایک کاغذ پر ’’وفاق‘‘ کے دفتر کا پتہ اور میرا نام لکھا اور اپنے چپراسی کو ہدایت کی کہ وہ بوڑھی ماں کو جناح کالونی جانے والے تانگے پر بٹھادے۔ شمس الحق کی والدہ جب ہمارے دفتر میں تشریف لائیں اور انہوں نے فرطِ محبت سے میرا بوسہ لیا اور یہ فرمایا کہ بیٹے۔۔۔ میرا ایک بیٹا دشمنوں نے چھین لیا، تم بھی میرے شمس ہو کہ تم نے شمس پر مضمون لکھنے کی جرأت کی ہے، میں تمہیں صرف یہ کہنے آئی ہوں کہ میرا شمس تو واپس آنے سے رہا، تم خدا کے لئے ایسے مضامین نہ لکھا کرو اس لئے کہ تمہاری زندگی بھی مجھے شمس کی طرح عزیز ہے۔ یہ سن کر میری گردن اس عظیم ماں کے قدموں میں جھک گئی اور میری اپنی آنکھیں جل تھل ہوگئیں۔ میری زندگی کا یہ قیمتی لمحہ مجھے خلیق صاحب کی بدولت میسّر آیا تھا۔
خلیق قریشی جیسے ہمہ صفت موصوف انسان کے بارے میں کچھ کہنا مجھ ایسے شخص کے بس کا روگ نہیں۔ ان کی زندگی کے کس کس پہلوکا احاطہ کیا جائے ان کی کس کس خوبی پر روشنی ڈالی جائے۔ ان کے عشقِ رسولؐ، ان کی وطن دوستی، دوست نوازی، شاعری، صحافت اور خطابت ایک ایک موضوع ایسا ہے جس پر بیسیوں صفحات تحریر کئے جا سکتے ہیں۔ پھر ایسے مضامین لکھنے سے کیا حاصل جس پر داد دینے والے خلیق قریشی دنیا سے اٹھ گئے ہیں۔
خلیق قریشی جیسا عظیم انسان اب ہمارے درمیان نہیں ہے۔ وہ گذشتہ کئی ماہ سے علیل تھے اور زندگی و موت کی کشمکش میں موت سے پنجہ آزما تھے۔ انتقال سے چند روز قبل اُن کے دوست حکیم سلطان احمد داؤدی مزاج پُرسی کے لئے گئے اور از راہِ ہمدردی فرمایا، ’’خلیق صاحب آپ دل کیوں چھوڑرہے ہیں حوصلہ رکھیں، آپ صحت یاب ہوجائیں گے‘‘۔ خلیق صاحب ہنستے کھیلتے موت کا خیر مقدم کررہے تھے انہوں نے دوست سے کہا، ’’میں دل کو کہاں چھوڑ رہا ہوں دل مجھے چھوڑ رہا ہے‘‘۔
خلیق صاحب فی الحقیقت ہماری قومی متاع تھے ۔ قحط الرجال کے اس دور میں جبکہ پرانے بادہ کش اٹھتے جاتے ہیں، ان کی موت سے واقعی ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے جوکبھی پُر نہ ہوسکے گا۔
اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ہمیں توفیق دے کہ ان کی خوبیاں اپنا سکیں۔
(ینگ جرنلسٹس سرکل لاہور کے زیرِ اہتمام خلیق قریشی کی یاد میں منعقدہ تقریب میں پڑھا گیا)
(2)
پچاس کے عشرے میں لائل پور (اب فیصل آباد) کے افقِ صحافت پر جو چار ستارے بڑی آب و تاب سے جگمگارہے تھے ان میں ریاست علی آزاد، خلیق قریشی، ناسخ سیفی اور چوہدری شاہ محمد عزیز کے اسماء گرامی شامل ہیں، ان میں خلیق قریشی اس اعتبار سے بہت نمایاں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پیکر میں شعر و ادب اور سیاست و صحافت کا حسیں امتزاج پیدا کیا تھا۔ خلیق قریشی کو تحریک پاکستان میں حصہ لینے کا منفرد اعزاز بھی حاصل تھا۔ انہوں نے پاکستان بننے کے بعد ڈسٹرکٹ بورڈ کے زیر اہتمام نکلنے والے ہفت روزہ ’’لائل پور اخبار‘‘ کی ادارت کی اور جب ان کے عزیز دوست رمضان سرور کا انتقال ہوا تو انہوں نے ان کے روزنامہ ’’عوام‘‘ کی ادارت سنبھال لی۔
لائل پور جیسے سنگلاخ علاقے میں شجرِ صحافت کی آبیاری میں خلیق قریشی نے اپنی تمام صلاحیتیں نذر کیں۔ انہوں نے اخبار اگرچہ ایک ضلعی صدر مقام سے نکالا لیکن اسے قومی مقاصد کا پاسدار بنایا۔ان کی ادارت میں صحافت کی تربیت پانے والوں نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بہت نام پیدا کیا۔ ’’عوام‘‘ میں بچوں کا صفحہ مرتب کرنے والے شفیق جالندھری پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے سربراہ کے باوقار منصب تک پہنچے۔ یہ خاکسار بھی ان سے کسب فیض کرنے والوں میں شامل ہے۔ خلیق قریشی کی شخصیت میں اسلام، پاکستان اور عوام کو ہمیشہ امتیازی مقام حاصل رہا۔
جب ایوب خان نے ملک کی عنان اقتدار سنبھالی تو کچھ عرصہ بعد انہوں نے ملک بھر کے ممتاز ایڈیٹروں کو مری میں مدعو کیا۔ اس موقع پر ایوب خان ایک بڑے قومی اخبار کے ایڈیٹر پر بہت برہم ہوئے اور یہ ریمارکس کس دئیے کہ تم پیسے کی خاطر بک گئے ہو۔ جب اس ایڈیٹر نے ’’جناب والا‘‘ کہہ کر اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہی تو ایوب خان نے یہ کہہ کر انہیں بولنے کی اجازت نہیں دی کہ ’’جناب والا صحیح ہے باقی سب غلط‘‘۔ سربراہ مملکت کی ناراضی اور خفگی کی اس کیفیت میں جناب خلیق قریشی اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور صدر سے یوں مخاطب ہوئے،
’’ جناب صدر، معلوم نہیں کہ آج کانفرنس کے لئے جس کمرے کا انتخاب کیا گیا ہے اس کا دامن تنگ ہے یا مری کی فضا کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ شدید حبس کا احساس ہورہا ہے‘‘۔
ایوب خان نے خلیق قریشی کی بات سنی، چہرے کا تناؤ قدرے کم ہوا اور بھاری بھرکم خلیق صاحب کی طرف ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا مگر آپ کو پسینہ تو نہیں آیا ہوا۔ خلیق صاحب نے کہا کہ ’’جناب یہ تو ہماری قوت برداشت ہے‘‘، ان کے اس جواب نے اس نشست کی تلخی ختم نہیں کی تو کم ضرور کردی۔
خلیق صاحب کا برجستہ گفتگو میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ گوجرہ کے ایک نیوز ایجنٹ مولوی محمد عیسیٰ عاصی نے لائل پور کے گھنٹہ گھر کے قریب خلیق صاحب کو دیکھ کر راستہ تبدیل کرلیا مگر چند لمحوں کے بعد ایک اور جگہ پر دونوں آمنے سامنے تھے۔ خلیق صاحب نے انہیں اپنے سامنے پاکر سوال کیا، مولوی صاحب آپ نے مجھے دیکھ کر راستہ تبدیل کیوں کرلیا؟
مولوی صاحب بولے، خلیق صاحب آپ کے اخبار کے اس مہینے کے بل کی ادائیگی میں مجھ سے تاخیر ہوگئی ہے، اس شرمندگی سے بچنے کے لئے میں نے راستہ تبدیل کرلیا۔ خلیق صاحب کہنے لگے بہت افسوس ہے آپ پر، اتنی بات پر بے تعلقی اور بے مروتی، میں نے بے شمار لوگوں کے پیسے ادا کرنا ہیں مگر میں انہیں دیکھ کر بھاگتا نہیں ان کا سامنا کرتا ہوں، آپ بھی یہی طریقہ اختیار کریں۔
خلیق صاحب کی شگفتگی بستر علالت جو بستر مرگ ثابت ہوا پر بھی برقرار رہی۔ ان کی رحلت سے چند روز قبل فیصل آباد کی بزرگ سیاسی و سماجی شخصیت حکیم سلطان احمد داؤدی نے ان کی عیادت کرتے ہوئے جب یہ فرمایا کہ خلیق صاحب آپ دل کیوں چھوڑ رہے ہیں تو خلیق قریشی صاحب نے ارشاد فرمایا، ’’داؤدی صاحب میں دل نہیں چھوڑ رہا۔۔۔ دل مجھے چھوڑ رہا ہے‘‘۔
خلیق قریشی اس دل کے ہاتھوں یہ دنیا چھوڑ گئے مگر وہ ہمارے دلوں میں اب بھی زندہ ہیں اور تا ابد زندہ رہیں گے ان کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے باعث قوم ایک بطلِ جلیل سے محروم ہوگئی جو مولانا ظفر علی خان اور جناب حمید نظامی کے دبستانِ ادب و صحافت کا وارث و امین تھا اور جسے پاکستان دنیا کی ہر دولت سے زیادہ عزیز رہا اور جو عوام کی حاکمیت پر اس حد تک ایمان رکھتاتھا کہ اس نے ابلاغ کے لئے ’’عوام‘‘ کا نام ہی جُھومر کے طور پر سجانا پسند کیا۔ وہ اپنی نوا ہائے سحر گاہی سے اس خاک میں پوشیدہ آتشِ شوق کو زندہ کرنے کا فریضہ انجام دیتا رہا اور ان کی زندگی اقبال کے اس شعر کی تصویر بن گئی۔
اندھیری شب ہے، جُدا اپنے قافلے سے ہے تو
ترے لئے ہے مرا شعلۂ نوا قندیل
حضورؐ کی ذات ستودہ صفات سے والہانہ عشق خلیق قریشی کی شخصیت کا طُرّۂ امتیاز رہا۔ انہوں نے بے شمار نعتیں کہیں جنہیں قبول عام حاصل ہوا۔ خلیق صاحب کا اصل نام غلام رسول تھا۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں انہوں نے روزنامہ ’’عوام‘‘ کی لوح پر مدیر کی حیثیت سے اپنا نام خلیق قریشی کی جگہ غلامِ رسول خلیق قریشی لکھنا شروع کیا اور آج بھی ’’عوام‘‘ کی لوح پر بانی مدیر کی حیثیت میں یہی نام تابندہ و روشن ہے۔
خلیق قریشی کی صحافت ان کے شاعرانہ مقام و مرتبہ پر سایہ فگن رہی ورنہ اس میدان میں ان کا کام بہت ہی قابل قدر ہے جس طرح مولانا ظفر علی خان پر اشعار اس وقت نازل ہوتے تھے جب وہ حقہ گڑگڑاتے تھے اسی طرح خلیق صاحب شعر اس وقت کہتے تھے جب ان کے ارد گرد ان کے احباب کا جمگھٹا ہوتا۔ وہ دوستوں سے محو گفتگو ہوتے، فون سُن رہے ہوتے، کاتب اور مدیر معاون کو طلب کرکے ہدایات دے رہے ہوتے اور انہی لمحوں میں وہ اخبار کے لئے ادارتی مقالہ سپرد قلم کررہے ہوتے یا کسی نظم، غزل یا نعت کی شیرازہ بندی کررہے ہوتے۔
مصطفی صادق اور اس عاجز نے جب دسمبر1959ء میں سعید سہگل کے ملکیتی روزنامہ ’’آفاق‘‘ سے علیحدگی اختیار کرکے اپنا اخبار ’’وفاق‘‘ نکالا تو ہم نے اس کے افتتاحی شمارہ کے لئے چند اشعار کی درخواست کی تو خلیق صاحب نے فوراً ہی اس نظم کے پہلے شعر سے نواز دیا جو کچھ یوں تھا۔
سرحد آفاق سے آگے ہے مومن کا مقام
بلکہ اٹھتا ہے یہیں سے اولیں گامِ وفاق