یہ سب کیا ہے؟
شاید ایک اندھا سفر‘ ایک اندھیرے سے دوسرے اندھیرے تک۔
آدمی ایک مکمل اندھیرے سے جنم لیتا ہے‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے اپنے اردگرد کا شعور ہونے لگتا ہے۔ پہلے دنیا صرف ماں تک محدود ہوتی ہے پھر پھیلتی جاتی ہے۔ باپ بہن بھائی اور دوسرے رشتے سمجھ آنے لگتے ہیں۔ دوستوں اور پڑوسیوں کی پہچان ہونے لگتی ہے‘ پھر دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے۔ کمپیوٹر کے اس دور میں کائنات بھی اس کی مٹھی میں آ جاتی ہے لیکن طبقاتی تقسیم میں اس کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہو تو پوری زندگی صرف روٹی کے گرد گھومتے گھومتے ختم ہو جاتی ہے۔ سیاسی، سماجی یا مالی درجہ جو بھی ہو آدمی کا آغاز بھی ایک ہے اور انجام بھی ایک۔ عمر کے سفر میں وہ آگے بڑھتا جاتا ہے۔ اس کے اردگرد جنازے اٹھتے اور قبریں بنتی رہتی ہیں لیکن اسے اپنے انجام کا خوف زندگی سے مایوس نہیں ہونے دیتا۔ وہ دوڑتا رہتا ہے۔ اس وقت تک جب تک اس کی رگوں میں خون دوڑتا رہتا ہے۔
رمان احسان سے میری ابتدائی ملاقاتیں 1988-89ء میں ہوئی تھیں۔ ہم مہینے میں ایک دو بار دوپہر کے کھانے پر اکٹھے ہو جاتے تھے‘ اس کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی شرارت ہر وقت ناچتی رہتی تھی اور وہ جملہ کسنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتا تھا۔ بعد میں ملاقاتیں کم ہوتی گئیں لیکن تعلق بڑھتا گیا۔ رمان کا چھوٹا بھائی عرفان احسان دو اخباروں میں میرے ساتھ کام کرتا رہا۔ اب ’’ایکسپریس‘‘ میں بھی میرے ساتھ ہے۔ رمان سے آخری ملاقاتیں لندن کی آل پارٹیز کانفرنس میں ہوئیں پھر خبریں ہی ملتی رہیں کہ وہ ایک ادارے سے دوسرے میں اور پھر مزید ترقی کرکے کسی تیسرے اخباری ادارے میں چلا گیا ہے۔
آخری خبر یہ تھی کہ وہ بہت بیمار ہے۔ عرفان احسان مجھے تفصیل بتاتا رہا۔ میں اپنے طور پر اس کے چند معالجوں سے رابطے میں تھا۔ ایک دن پتہ چلا کہ دماغی طور پر اس کی موت واقع ہو گئی ہے لیکن ’’ریسی پیریٹر‘‘ پر ہونے کی وجہ سے اس کی سانس بھی چل رہی ہے اور دل بھی دھڑک رہا ہے۔ میں اس قسم کی صورتحال سے گزر چکا ہوں۔ میری مرحومہ بیوی کومے میں گئی تو اسے سانس چلانے والی مشین پر لگا دیا گیا تھا۔ یہ منظر اپنے طور پر بڑا ہولناک ہوتا ہے۔ انسان مر بھی جائے تو اس کی سانس چلتی رہتی ہے۔ 12 گھنٹے کے بعد میں نے دیکھا کہ مرحومہ کے ہونٹ پھٹنے لگے ہیں اور چہرہ بگڑنے کا امکان ہے‘ تب میں نے ڈاکٹر سے کہا کہ ایک طرف آپ یہ کہتے ہیں کہ دماغ ختم ہو چکا ہے اور کچھ بھی باقی نہیں بچا دوسری طرف آپ نے یہ مشین لگا رکھی ہے۔ مہربانی کرکے چند سیکنڈوں کیلئے یہ مشین اتار کر اتنا تو چیک کر لیں کہ مشین کے نیچے کوئی اصل سانس باقی بھی ہے یا نہیں۔ ہسپتال والوں نے 36 گھنٹے تک اپنا ’’علاج‘‘ جاری رکھا اور آخر میں نتیجہ وہی نکلا جس کا شبہ میں ظاہر کر رہا تھا۔
رومان کی دماغی موت کی تصدیق ہو جانے کے تقریباً دوسرے دن عرفان سے میری ملاقات ہوئی اور اگلے دن عرفان اپنے بھائی عمران کے ساتھ کافی دیر میرے ساتھ بات کرتا رہا۔ دونوں کو اصل صورتحال کا اچھی طرح ادراک تھا لیکن رمان کی اہلیہ اور اس کے والد کا خیال تھا کہ جب سانس چل رہی ہے اور دل بھی دھڑک رہا ہے تو کوئی نہ کوئی معجزہ ہو سکتا ہے۔ اس معجزے کے انتظار میں پورا خاندان دس بارہ روز ایک کبھی نہ بھولنے والے عذاب سے گزرا اور بالآخر اتوار کی صبح کو اسے تقدیر کا وہی فیصلہ ماننا پڑا جو تقریباً دس گیارہ دن پہلے ہو چکا تھا۔ رمان کی زندگی کا یہ درد ناک آخری سفر جو یکم فروری کی صبح کو اختتام پر پہنچا دسمبر کے آخری ہفتے میں شروع ہوا تھا جب اسے اپنے سر میں ہلکا ہلکا درد محسوس ہوتا تھا۔ ایک بڑے ڈاکٹر سے چیک کروایا تو اس نے کہا ہے کہ معاملہ کچھ سنگین ہے۔ اسی وقت ہسپتال میں داخل ہو جاؤ۔ رمان نے نیورو سرجنوں سے سیکنڈ تھرڈ اور فورتھ رائے لی اور آخر میں یہی ماننا پڑا کہ آپریشن کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ آپریشن کے بعد وہ کومے میں چلا گیا اور واپس نہیں آیا۔
رمان نے اپنے پسماندگان میں تین بیٹیاں، عمریں بالترتیب 11,13 اور 7 سال، چھوڑی ہیں۔ ساڑھے پانچ سال کا ایک بیٹا ہے۔ جس کا نام علی ہے وہ نماز جنازہ کے وقت بھی اپنے باپ کو پکار رہا تھا اور جب میت قبرستان لے جائی جانے لگی تو زار و قطار روتی ہوئی ایک خاتون اسے تسلی دے رہی تھی کہ تمہارے ابو گاڑی میں بیٹھ کر گھر جا رہے ہیں اور آؤ ہم بھی ان کے پیچھے چلتے ہیں۔ جنازے میں اس کے اخبار نویس اور غیر اخبار نویس ساتھی زار و قطار روتے رہے کہ اس کے سوا اور ہو بھی کیا سکتا ہے۔
رمان کے خاندان کے دکھ اور سکھ اسی کے گرد گھومتے تھے۔ وہ ایک سایہ تھا، جو اچانک ہٹ گیا اور اب خاندان کا ہر فرد اپنے آپ کو کڑی دھوپ میں کھڑا محسوس کرتا ہے لیکن زندگی کی اپنی حقیقتیں ہیں وقت زخم مندمل کرتا ہے اور خلا بھی پر کر دیتا ہے اور پیچھے رہ جانے والوں کے دلوں میں محض ایک کسک سی باقی رہ جاتی ہے۔
فوری طور پر رمان کے خاندان کیلئے مسئلے ہی مسئلے باقی رہ گئے ہیں جن کے دنیاوی حل تو وقت کے ساتھ نکل ہی آئیں گے لیکن ان کی کسک شاید کبھی ختم نہ ہو۔ (2 فروری 2009ء )