ریاست علی آزاد از جمیل اطہر
روزنامہ ’’غریب‘‘ فیصل آباد کے ایڈیٹر کنور تنویر شوکت نے فرمائش کی ہے کہ میں روزنامہ ’’غریب‘‘ کی سال گرہ کے موقع پر اس اخبار سے وابستہ اپنی یادیں تازہ کروں۔
روزنامہ ’’غریب‘‘ لائل پور (اب فیصل آباد) سے شائع ہونے والا پُرانا روزنامہ ہے جس کی اشاعت کا آغاز 1948ء میں ہوا تھا ، اس کے بانی چوہدری ریاست علی آزاد تھے، جو ایک دبنگ اور جرأت مند صحافی تھے اور جب کوئی مؤقف یا حکمت عملی اختیار کر لیتے تھے تو اس سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔ چوہدری ریاست علی آزاد، بنیادی طور پر ایک زمیندار تھے لیکن ساتھ ہی ادبی ذوق کے اعتبار سے شاعربھی تھے، وہ ’’غریب‘‘ کی اشاعت سے پہلے ایک ادبی ماہنامہ ’’پرواز‘‘ شائع کرتے تھے، جب ’’غریب‘‘ کی اشاعت کا دائرہ پھیلنے لگا تو ماہنامہ ’’پرواز‘‘ پر ان کی توجہ نہ رہی اور یہ جریدہ بند ہوگیا البتہ جب چوہدری صاحب نے روزنامہ ’’غریب‘‘ کی طباعت کے لئے اپنا پریس قائم کیا تو اس کا نام ’’پرواز‘‘ پر نٹنگ پریس رکھا، اس طرح لفظ ’’پرواز‘‘ اور ’’غریب‘‘ ایک دوسرے سے وابستہ رہے، چند سال بعدانہوں نے ’’پرواز‘‘ کو پھر زندہ کیا مگر جلد ہی اس کی قوت پرواز نے جواب دے دیا۔ جب روزنامہ ’’غریب‘‘ کا اجراء عمل میں آیا تو اس دور کے ایک معروف صحافی جناب آزاد شیرازی بھی ’’غریب‘‘ کی مجلسِ ادارت میں شامل تھے، ان کا نام اخبار کی لوح پر چودھری ریاست علی آزاد کے نام کے ساتھ شائع ہونے لگا۔ آزاد شیرازی کا دلچسپ مشغلہ یہ تھا کہ جس سے بھی ان کا تعلق رہا اسے انہوں نے اخبار نکالنے پر لگادیا، کئی کاتب اور اخبار فروش ان کی نظر کرم سے ایڈیٹر اور ناشر بن گئے جن میں خوش نویس حاجی محمد اسحق بھی تھے جو گوجرہ سے ہفت روزہ ’’امن‘‘ نکالنے لگے اور اخبار فروش وزیر محمد جالندھری نے گوجرہ سے ہی ہفت روزہ ’’جانباز‘‘ شائع کرنا شروع کیا، مجھے اپنے زمانہ طالب علمی میں ان دونوں ہفت روزہ جرائد کی ادارت کا موقع ملا۔ شیرازی صاحب کی توجۂ خاص سے ایک اخبار میں جھاڑو دینے والا بھی اخبار کا مدیر مالک بنا۔ یہ ہفت روزہ ’’مسیحی پکار‘‘ تھا جس کے ناشر خورشید مسیح نے بعد میں اسلام قبول کرلیا اور خورشید مسیح سے خورشید ملک بن گیا، جب روزنامہ ’’غریب‘‘ کا اجراء عمل میں آیا اس وقت روزنامہ ’’انصاف‘‘ لائل پور سے شائع ہونے والا سب سے با اثر اخبار تھا جس کے ایڈیٹر مشہور خاکسار صحافی صفدر سلیمی تھے، اخبار کے مالک خاکسار رہنما امیر حبیب اللہ سعدی ناشر سماجی کارکن مولوی عبدالغنی جالندھری جو جالندھر میں تحریک پاکستان کے کارکن رہے تھے، اخبار کے ادارتی عملہ میں شمس الحق جالندھری بھی شامل تھے جنہوں نے جالندھر ریلوے سٹیشن پر متحدہ قومیت کے علم بردار مولانا حسین احمد مدنی کو تھپڑ مار کربڑی شہرت حاصل کی تھی، انہی شمس الحق کو لائل پور کی ایک با اثر شخصیت نے مبینہ طور پر دفتر ’’انصاف‘‘ سے اغوا کرکے ایک روایت کے مطابق کسی مل کے بوائلر میں پھنکوا دیا تھا جس کے بعد ’’انصاف‘‘ کا سورج غروب ہوگیا اور ’’غریب‘‘ مطلئ صحافت پر چمکنے لگا۔
میرے والد قاضی سراج الدین سرہندی ٹوبہ ٹیک سنگھ کی بلدیاتی سیاست میں سرگرم تھے اور پاکستان بننے کے بعد ترکِ وطن کرکے پاکستان آنے والے سرہند شریف کے مہاجرین کے مسائل کے حل میں بہت دلچسپی لے رہے تھے، وہ روزنامہ ’’انصاف‘‘ میں مہاجرین کے مسائل پر مضامین لکھتے تھے جب ’’انصاف‘‘ بند ہوگیا تو انہوں نے یہ سلسلہ روزنامہ ’’غریب‘‘ میں شروع کردیا اور ایک بزرگ بابا شہاب الدین کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ’’غریب‘‘ کی ایجنسی بھی لے کر دے دی، ’’غریب‘‘ کی ایجنسی کا سارا حساب کتاب والد صاحب خود رکھتے تھے، ’’غریب‘‘ کو خبریں بھی وہ خود ہی بھیجتے تھے مگر ایجنسی میرے چچا قاضی ظہورالدین سرہندی کے نام تھی اور باقاعدہ نامہ نگار بھی چچا جان ہی تھے۔
مجھے یاد ہے کہ والد صاحب نے ایک مرتبہ ایجنسی کا بل ادا کرنے کے لئے مجھے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لائل پور بھیجا، اس وقت روزنامہ ’’غریب‘‘ کا دفتر امین پور بازار میں جامع مسجد اہل حدیث کے سامنے ہوتا تھا جہاں نیچے سٹیشنری اور کتابوں کی دوکانیں ہوتی تھیں۔ اوپر کی منزل میں ’’غریب‘‘ کا دفتر تھا۔ مگر جب میں وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ چوہدری ریاست علی آزاد کی بڑی بیٹی فوت ہوگئی ہیں جس کی وجہ سے دو روز اخبار شائع نہیں ہوگا اور سانحہ ارتحال کے سوگ میں اخبار کا دفتر بند تھا، بعد ازاں یہ دفتر کچہری بازار میں منتقل ہوگیا جہاں چوہدری علی اکبر (جو اس وقت وزیرِ صنعت و بلدیات پنجاب تھے جو بعد ازاں سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر بھی رہے) نے اپنے دفتر کی جگہ دوستانہ تعلقات کے باعث چوہدری ریاست علی آزاد کو دے دی، اس عمارت کی بالائی منزل شمس الحق مرحوم (روزنامہ ’’انصاف‘‘ والے) کی والدہ کے پاس تھی، چوہدری ریاست علی آزاد اور شمس الحق کی والدہ کے مابین کئی سال اس عمارت کے مالکانہ حقوق پر مقدمہ بھی چلتا رہا، جب میرا روزنامہ ’’غریب‘‘ کے کچہری بازار والے دفتر میں آنا جانا شروع ہوا اس وقت ممتاز ترقی پسند شاعر احمد ریاض روزنامہ ’’غریب‘‘ کے جوائنٹ ایڈیٹر تھے، لطیف آذر اور سلطان شاہد نیوز ایڈیٹر اور شفٹ انچارج تھے، اندرونی صفحات رفعت ہاشمی اور احسان رانا مرتب کرتے تھے۔ آنے والے برسوں میں لطیف آذر اور سلطان شاہد نے قومی اخبارات میں کام کرکے بڑا نام کمایا، احسان رانا بھی روزنامہ ’’مساوات‘‘ سے وابستہ ہوئے اور ’’مساوات‘‘ لائلپور کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر بھی رہے۔ چوہدری ریاست علی آزاد کے بھانجے کفایت علی خان ’’غریب‘‘ کے جنرل منیجر اور غلام محمد شاد سرکولیشن منیجر تھے (شادصاحب روزنامہ ’’جرأت‘‘ لاہور اور راولپنڈی سے اجراء کے موقع پر ’’جرأت‘‘ سے وابستہ ہوئے اور آخری دم تک ادارۂ ’’جرأت‘‘ سے ہی وابستہ رہے) روزنامہ ’’غریب‘‘ کے اجراء کے بعد ایک اور شخصیت بھی ’’غریب‘‘ کے انتظامی شعبہ سے وابستہ رہی جو بہت ہی خلیق اور ملنسار تھی اور ’’غریب‘‘ کی ترقی میں ان کا بھی بہت اہم کردار تھا۔ یہ تھے پیرزادہ باری لطیف، یہ میرے والد صاحب سے ملنے کے لئے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہمارے گھر بھی آتے رہے، کچھ عرصہ بعد ان کا انتقال ہوگیا، ’’غریب‘‘ اس زمانے میں (55-56) ایک ترقی پسند اور روشن خیال اخبار کا نقش اور تأثر رکھتا تھا اور اس کی وجہ اس کی مجلسِ ادارت میں ترقی پسند شاعر احمد ریاض کی شمولیت تھی جو ’’غریب‘‘ کا اداریہ لکھتے تھے اور لائل پور میں روزنامہ ’’امروز‘‘ لاہور کے نمائندہ خصوصی بھی تھے۔ روزنامہ ’’امروز‘‘ کے ایڈیٹر احمد ندیم قاسمی اور جوائنٹ ایڈیٹر حمید اختر ان کا بہت احترام کرتے تھے، احمد ریاض لدھیانہ کے رہنے والے تھے یہاں ممتاز انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی ان سے اصلاح لیتے رہے، حمید اختر بھی لدھیانہ کے باسی ہونے کے باعث احمد ریاض کے ساتھ رشتۂ دوستی میں منسلک تھے، ’’امروز‘‘ سے احمد ریاض کے قریبی تعلق کے باعث ’’غریب‘‘ پر بھی ایک ترقی پسند اخبار کی مہر لگ گئی اور اسے ’’امروز‘‘ کے توسط سے اہم اور مستند خبریں ملنے لگیں۔
روزنامہ ’’غریب‘‘ کا جو اولین تصور میرے ذہن میں محفوظ ہے اس کے مطابق یہ اخبار ابتدا میں چند سال 20×26 سائز کے چار صفحات پر مشتمل ہوتا اور اس کی قیمت ایک آنہ فی پرچہ تھی، اس کی لوح روزانہ رنگین شائع ہوتی تھی اور روز مختلف رنگ میں اس میں ’’معاف کیجئے گا‘‘ کے عنوان سے ایک فکاہی کالم بھی شائع ہوتا تھا۔ عنوان کے نیچے ’’گناہ گار کے قلم سے‘‘ لکھا ہوتا تھا، یہ کالم سید سعادت علی شاہ لکھتے تھے جن کا نام آزاد شیرازی کے ’’غریب‘‘ سے الگ ہوجانے کے بعد ادارۂ تحریر میں اخبار کی پیشانی پر چوہدری ریاست علی آزاد کے نام کے ساتھ شائع ہوتا تھا۔ انہی سعادت علی شاہ نے ’’غریب‘‘ سے الگ ہوکر اپنا ہفت روزہ ’’السید‘‘ شائع کرنا شروع کردیا۔
میرے والد صاحب غالباً 1952-53ء میں مجھے اپنے ساتھ سرہند شریف لے گئے تھے ، ہمارا قیام وہاں حضرت مجدد الف ثانیؒ کی درگاہ پر رہا، اس وقت میری عمر بارہ تیرہ سال تھی، میں نے اس سفر کے تاثرات و مشاہدات پر مبنی ایک مضمون ’’دیار مجدد میں چند روز‘‘ کے عنوان سے لکھا جو دو اقساط میں چھپا جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے یہ ’’غریب‘‘ کے ادارتی صفحہ کے آخری کالم میں شائع ہوا، یہ میرے قلم سے شاید پہلا مضمون تھا، میں نے سب سے پہلے روزنامہ ’’غریب‘‘ کے بچوں کے صفحہ پر لکھنا شروع کیا تھا جس کے انچارج (جنہیں اس وقت کے رواج کے مطابق بھائی جان کہا جاتا تھا)۔ روزنامہ ’’غریب‘‘ کے جوائنٹ ایڈیٹر احمد ریاض تھے، اس وقت بچوں کے صفحہ میں جو بچے مضامین لکھتے تھے اور جنہوں نے آنے والے ماہ و سال میں مختلف شعبوں میں شہرت حاصل کی ان میں (اب پروفیسر ڈاکٹر) صدیق جاوید، (اب پروفیسر) محمد جہانگیر عالم، میاں محمد ابراہیم طاہر، باقر صغیر احمد اور نیلسن ڈی کنول (اب کنول فیروز) کے نام ذہن میں محفوظ ہیں، ان حضرات سے بعد میں بھی خلوص و محبت کا رشتہ قائم رہا، احمد ریاض مہینے میں ایک بار دفتر ’’غریب‘‘ میں ’’بزم غریب‘‘ کے رُکن بچوں کا ایک اجلاس بھی منعقد کرتے تھے، میں اس اجلاس میں شرکت کے لئے کئی بار ٹوبہ ٹیک سنگھ سے سفر کرکے لائلپور (اب فیصل آباد) گیا پھر میں نے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھی احمد ریاض کو مدعو کیا اور یہاں انہوں نے ’’بزم غریب‘‘ کے اجلاس کی صدارت کی، ہم نے شورکوٹ بازار، جو میرے والد مرحوم کی کاوش و منصوبہ بندی سے بلدیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ نے نیا نیا تعمیر کیا تھا۔ ایک دوکان بیس روپے ماہانہ کرایہ پر لے کر اس میں ’’بزم غریب‘‘ کا دفتر قائم کیا تھا، احمد ریاض چونکہ ترقی پسند شعراء اور ادیبوں میں بہت محبوب ومقبول تھے اس لئے ’’غریب‘‘ ان کی ادارت میں ایک مکمل ترقی پسند اور غریب دوست اخبار کی حیثیت سے اپنا تشخص منوارہا تھا۔ اس زمانے میں اخبار کا ایک پُورا صفحہ ایک خوش نویس اپنے ہاتھ سے کتابت کرتا تھا جس کا معاوضہ پانچ روپے فی صفحہ ہوتا تھا، ’’غریب‘‘ کا صفحۂ اول منشی عبدالحمید اور آخری صفحہ منشی محمد سرور لودھی کتابت کرتے تھے۔ اندرونی صفحہ کے کاتب اللہ دتہ شاد تھے، جن کی لکھائی منشی عبدالحمید اور سرور لودھی کے مقابلے میں اچھی نہ تھی۔ اللہ دتہ شاد بعد ازاں اے ڈی شاد بن گئے اور انہوں نے اپنا ہفت روزہ ’’تاج‘‘ بھی نکالا۔ ’’غریب‘‘ جمعہ کے روز شائع نہیں ہوتا تھا۔ اس زمانے میں تمام علاقائی اخبارات ہفتہ وار تعطیل کرتے تھے بلکہ بعض قومی اخبارات بھی۔ چوہدری ریاست علی آزاد کے پاس روزنامہ ’’انقلاب‘‘ کے نام کا ڈیکلریشن بھی تھا، کبھی کبھی ہفتہ وار تعطیل کے روز ’’غریب‘‘ کی جگہ ’’انقلاب‘‘ مارکیٹ میں بھیجا جاتا۔ روزنامہ ’’غریب‘‘ کو کراچی اور لاہور میں اس دور کے دو معروف صحافیوں کا تعاون بھی حاصل رہا، کراچی سے احمد اسحق اور لاہور سے خواجہ صادق کاشمیری ’’غریب‘‘ کے لئے رپورٹنگ کرتے تھے، احمد اسحق، فخر ماتری کی زیر ادارت شائع ہونے والے جدید طرز صحافت کے علم بردار روزنامہ ’’حریت‘‘ کراچی کے چیف نیوز ایڈیٹر بھی رہے۔ خواجہ صادق کاشمیری جو ممتاز سیاست دان، شاعر، صحافی اور خطیب آغا شورش کاشمیری کے برادرِ نسبتی تھے اور وہ ان کے ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ کے مدیر معاون بھی رہے۔ جھنگ میں بلال زبیری، چنیوٹ میں حاجی محمد یوسف وہرہ روزنامہ ’’غریب‘‘ کے نمائندے اور ایجنٹ تھے، ٹوبہ ٹیک سنگھ میں میرے والد قاضی سراج الدین سرہندی مرحوم یہ فرائض انجام دیتے رہے اور ان کی زندگی میں ہی (1956-57) میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ’’غریب‘‘ کا باقاعدہ نامہ نگار بن گیا۔
یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے، میرے والد ’’غریب‘‘ کے لئے خبریں لکھنے کے بعد ایک بک پوسٹ لفافہ ڈاک خانہ میں سپردِ ڈاک کرنے کے لئے روزانہ میرے حوالے کرتے تھے۔ ایک روز جب میں یہ لفافہ لیٹر بکس میں ڈالنے کے لئے پوسٹ آفس جارہا تھا جو ہمارے گھر سے اگلی گلی میں واقع تھا تو میں نے بچوں کے مابین فٹ بال کے ایک میچ کی خبر لکھ کر اس لفافہ میں ڈال دی جو دوسرے تیسرے دن والد صاحب کی بھیجی ہوئی خبروں کے ساتھ ’’غریب‘‘ میں شائع ہوگئی۔ یہ خبر اخبار کے صفحات پر چھپی ہوئی دیکھ کر میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، اب میں روزانہ اس لفافہ کو کھول کر والد صاحب کی لکھی ہوئی خبریں پڑھنے لگا جس سے مجھے رہنمائی ملتی اور وقتاً فوقتاً خود بھی خبریں لکھتا اور والد صاحب کو پیش کردیتا، جو وہ عام طور پر کسی قطع و برید کے بغیر ایڈیٹر ’’غریب‘‘ کے نام لفافہ میں ڈال دیتے۔
یہ 1955-56ء کا ذکر ہے، ایک روز ’’غریب‘‘ فروخت کرنے والے بزرگ اخبار فروش بابا شہاب الدین کی طبیعت ناساز ہوگئی، والد صاحب نے مجھے طلب کیا اور میری ڈیوٹی لگائی کہ اگلی صبح ریلوے سٹیشن سے روزنامہ ’’غریب‘‘ کا بنڈل میں وصول کروں اور ان کی دی ہوئی فہرست کے مطابق اخبار لوگوں کو گھروں اور دکانوں پر پہنچاؤں۔ میں نے بڑی منت سماجت کی کہ میں یہ فریضہ انجام نہیں دے سکوں گا مجھے اخبار تقسیم کرتے ہوئے بڑی خفت محسوس ہوگی، مگر والد صاحب نے ایک لیکچر ہی دے ڈالا کہ کسی کام میں بھی کوئی عار نہیں اور پھر یہ کہ یہ اخبار صبح سورج نکلنے سے پہلےِ تقسیم کرنا ہے اور مجھے کوئی دیکھے گا بھی نہیں اور اس طرح بابا شہاب الدین کی بیماری کے باعث اخبار فروخت ہونے سے نہیں رہ جائیں گے میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی صبح سویرے ریلوے سٹیشن جاکر ’’غریب‘‘ کا بنڈل ٹرین کی بریک میں سے نکالا اور والد صاحب کی ہدایت کے مطابق ’’غریب‘‘ کے پرچے لوگوں کے گھروں اور دوکانوں پر پہنچا دئیے۔ شام کو والد صاحب نے بتایا کہ شہاب الدین بدستور بیمار ہیں اور وہ کل بھی اخبار فروخت نہیں کرسکیں گے اور آج کچھ پرچے بچ بھی گئے، جو بابا جی آواز لگا کر بازار میں فروخت کرتے تھے، والد صاحب چاہتے تھے کہ میں اگلے روز آواز لگا کر شہر کے مین بازار میں اخبار بیچوں تاکہ اخبار کی تمام کاپیاں فروخت ہوسکیں اور کوئی اخبار فروخت ہونے سے نہ رہ جائے۔
مجھے اس کام میں کافی تأمل تھا مگر میں نے اپنے والد صاحب کےِ حکم کی تعمیل میں شہر کے مین چوک میں اخبار اپنے بازوؤں میں پھیلا کر آواز لگائی ’’آگیا غریب اخبار‘‘ اور کئی لوگوں نے دھڑادھڑ مجھ سے اخبار خرید لئے مگر شہر کے ایک مقبول تاجر چوہدری فضل کریم نے مجھے دیکھا اور پہچان کر ایک فقرہ مجھ پر اچھال دیا، ’’کیا قاضی سراج الدین کا دیوالیہ نکل گیا ہے جو ان کا بیٹا اخبار فروخت کرنے لگا ہے‘‘ یاد رہے کہ والد صاحب اس وقت ٹوبہ ٹیک سنگھ میونسپل کمیٹی کے وائس پریذیڈنٹ ایک ہوزری فیکٹری اور ہینڈ لوم فیکٹری کے مالک اور ٹوبہ اور گوجرہ میں دو کاٹن جننگ فیکٹریوں کے مالک قاضی محمد اصغر سرہندی کے بیٹے تھے اور اس وقت ٹوبہ ٹیک سنگھ کے مالیاتی ستونوں میں شامل ہوتے تھے۔ روزنامہ ’’غریب‘‘ قیام پاکستان کے فوری بعد شائع ہونا شروع ہوا، یکے بعد دیگرے لائل پور سے ’’انصاف‘‘ کے علاوہ جو اخبارات نکلے اور زندہ رہے ان میں ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘، ’’سعادت‘‘ اور ’’عوام‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، ’’غریب‘‘ سمیت ان اخبارات کے ایڈیٹروں چوہدری ریاست علی آزاد، چوہدری شاہ محمد عزیز، ملک امام بخش ناسخ سیفی اور خلیق قریشی کو ’’چہار درویش‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، روزنامہ ’’غریب‘‘ لائل پور کی شہری سیاست میں صنعت کار سعید سہگل کے چھوٹے بھائی یوسف سہگل کے عمل دخل کا سخت مخالف تھا، جب لائل پور سے روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کا ایڈیشن چھپنا شروع ہوا تو وہ بھی سہگلوں کے خلاف جدوجہد میں پیش پیش تھا، سہگل ڈاکٹر خان صاحب کی ری پبلکن پارٹی کے ساتھ وابستہ تھے اور شہری سیاست میں چیف بوٹ ہاؤس کے شیخ بشیر احمد کے سرپرست کا کردار ادا کررہے تھے، روزنامہ ’’غریب‘‘ سہگلوں کے طرز سیاست کا سخت مخالف تھا اور اس نے ان کے خلاف پراپیگنڈہ کو ایک تحریک کی صورت دے دی تھی، سہگلوں کے خلاف آئے دن دھوبی گھاٹ میں جلسے منعقد ہونے لگے، ان جلسوں سے خطاب کرنے والوں میں آغا شورش کاشمیری بھی شامل ہوتے تھے جنہیں لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے میں خاص ملکہ حاصل تھا، وہ اپنی تقریر میں الفاظ سے کھیلتے اور اشعار کا برمحل استعمال ان کی تقریر کو چار چاند لگا دیتا تھا۔
میں نے بطور نامہ نگار خان عبدالغفار خان کے دورۂ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی کوریج کی، مجھے آزاد پاکستان پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت میں غلہ منڈی ٹوبہ ٹیک سنگھ میں سید ذوالفقار محمود شاہ کی دکان کے سامنے منعقدہ جلسہ عام میں خان عبدالغفار خان کے ساتھ خطاب کرنے کا موقع بھی ملا، ’’غریب‘‘ کے جوائنٹ ایڈیٹر احمد ریاض کے تعارفی خط پر ’’امروز‘‘ کے ایڈیٹر احمد ندیم قاسمی نے 1956ء میں مجھے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ’’امروز‘‘ کا نامہ نگار مقرر کردیا تھا، ’’امروز‘‘ کی نمائندگی نے مجھے میاں افتخار الدین کی آزاد پاکستان پارٹی کے قریب کردیا اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے بزرگ ترقی پسند سیاسی قائدین مفتی غلام حسین، کامریڈ قاسم علی اور چوہدری فتح محمد نے مجھے آزاد پاکستان پارٹی ٹوبہ ٹیک سنگھ کا پروپیگنڈا سیکرٹری (موجودہ اصطلاح کے مطابق سیکرٹری اطلاعات) مقرر کردیا میں نے خان عبدالغفار خان کے دورہ کے لئے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے دیہات کا تفصیلی دورہ کیا ہم ایک تانگہ پر لاؤڈ سپیکر نصب کرکے دیہات میں خان عبدالغفارخان کے استقبال کے لئے لوگوں سے ٹوبہ ٹیک سنگھ پہنچنے کی اپیل کرتے۔ ’’غریب‘‘ میں خان عبدالغفار خان کے دورے کی خبریں نمایاں طور پر شائع کی جاتیں مگر جب سرخ پوش رہنما ٹوبہ ٹیک سنگھ ریلوے سٹیشن پر تشریف لائے اور اپنی روایت کے مطابق تھرڈ کلاس کے ڈبہ سے باہر نکلے تو ریلوے پلیٹ فارم پر ان کے خیر مقدم کے لئے بمشکل چالیس پچاس افراد ہی موجود تھے۔ میں نے روزنامہ ’’غریب‘‘ کے لئے مسلم لیگی رہنما سردار بہادر خان (ایوب خان کے بھائی) کے دورہ کی بھی کوریج کی، انہوں نے کمیٹی باغ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک بڑے جلسۂ عام سے خطاب کیا، وہ ایک بڑے سنجیدہ سیاسی لیڈرتھے اور پٹھانوں کے لب و لہجے میں اُردو بولتے تھے، لوگوں نے ان کا خطاب بڑی دلچسپی اور اشتیاق سے سنا، ان کے دورہ میں لائل پور کے مسلم لیگی رہنما ایوب سرور خان اور ممتاز مسلم لیگی شاعر ظہیر نیاز بیگی بھی شامل تھے، ایوب سرور خان سے میرا تعارف پہلے سے تھا کیونکہ میں اپنے والد کی ہوزری فیکٹری کی پیکنگ چھپوانے کے لئے ان کے پریس، پاکستان الیکٹرک پریس بھوانہ بازار میں جایا کرتا تھا، ایوب سرور اور ظہیر نیاز بیگی نے مجھے پیر محل اور کمالیہ میں ہونے والے جلسوں کی رپورٹنگ کی غرض سے اپنے ساتھ چلنے کے لئے کہا میں ان کی گاڑی میں سوار ہوگیا، کمالیہ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے درمیان کسی گاؤں میں ایک بڑے زمیندار نے جنرل محمد ایوب خان کے بھائی سردار بہادر خان کے اعزاز میں ظہرانہ کا اہتمام کیا ہوا تھا، جس میں دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے موجود تھے، میں نے چونکہ زندگی میں پہلی بار اس قسم کے کھانے دیکھے تھے اس لئے میں کھانے میں کچھ تأمل سے کام لے رہا تھا، مگر ظہیر نیازبیگی نے مچھلی کی ایک پلیٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ اللہ کی یہ نعمتیں باری تعالیٰ سے تمہاری شکایت کریں گی کہ تم انہیں نظر انداز کررہے ہو، ظہیرنیاز بیگی کے پُرلُطف فقرے سن کر میں نے اس ظہرانے سے واقعی انصاف کیا اور ان کھانوں سے خوب لطف اندوز ہو ا لیکن کمالیہ پہنچ کر ان کھانوں کا لطف جاتا رہا کیونکہ جونہی ایک وسیع میدان میں جلسہ شروع ہوا چاروں طرف سے پتھراؤ شروع ہوگیا جلسہ میں بھگدڑ مچ گئی، شامیانے اکھاڑ دئیے گئے اور جلسے کا انتظام کرنے والے کارکن زخمی ہوگئے، مجھے بھی ایک دو چھوٹے چھوٹے پتھر لگے لیکن میں سردار بہادر خان اور دوسرے لیڈروں کے سائے میں اس جلسہ گاہ سے قریب ہی ایک محفوظ جگہ منتقل ہوگیا، اب مجھے جلدی سے جلدی کمالیہ سے لائل پور پہنچنا تھا تاکہ دفتر ’’غریب‘‘ پہنچ کر اس ہنگامہ کی خبر دے سکوں، مجھے کوئی کار اور بس سڑک پر دکھائی نہیں دے رہی تھی میں نے اینٹوں کے ایک ٹرک کو ہاتھ دے کر روکا اور ٹرک ڈرائیور نے مجھے اپنے ساتھ ہی بٹھالیا، میں رات نو ساڑھے نو بجے دفتر ’’غریب‘‘ پہنچا، دفتر کے باہر فٹ پاتھ پر ایوب سرور دوسرے مسلم لیگیوں کے ساتھ ایک بس سے اتر رہے تھے، مجھے دیکھتے ہی میری طرف لپکے اور بڑے ملتجیانہ انداز میں کہنے لگے کہ میں اپنی خبر میں خاص طور پر اس امر کا ذکر کروں کہ انہوں نے کمالیہ کے جلسہ میں شر پسندوں کی کوشش ناکام بنانے کے لئے بڑی سرگرمی دکھائی، ان کی اس درخواست کو سُن کر بطور صحافی میرے فخر میں کچھ اور اضافہ ہوگیا، میں نے ’’غریب‘‘ کے لئے نظام اسلام پارٹی کے سربراہ چوہدری محمد علی کے ٹوبہ ٹیک سنگھ، کمالیہ اور پیر محل کے جلسوں کی بھی رپورٹنگ کی جنہوں نے وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ کے بعد نظام اسلام پارٹی قائم کی تھی، یہ چوہدری محمد علی کی مقبولیت کا دور تھا اور ایک صاف ستھرے سیاست دان کی حیثیت سے ان کو بڑی عزت و تکریم حاصل تھی اور لوگ ان کے جلسوں میں جوق در جوق شریک ہوتے تھے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں نامہ نگار کی حیثیت سے بعض خبریں شائع ہونے پر چوہدری ریاست علی آزاد کو ہتک عزت کے دو مقدمات کی آزمائش سے بھی گزرنا پڑا، بلدیاتی سیاست میں میرے والد صاحب کے ایک حریف سید دلبر حسین نے ایک خبر کی اشاعت پر ہتک عزت کا دعویٰ دائر کردیا، چوہدری ریاست علی آزاد اس مقدمہ کی پیشیاں بھگتنے کے لئے کئی بار لائل پور سے ٹوبہ ٹیک سنگھ آئے، وہ وہاں سے اپنے ایک دوست وکیل چوہدری نصراللہ خان کو ساتھ لے کر آتے جو تحریک پاکستان کے ایک نامور کارکن اور لفظِ پاکستان کے خالق چوہدری رحمت علی کے قریبی ساتھی رہے تھے، چوہدری ریاست علی آزاد کی لغت میں کسی اخبار یا مضمون کی اشاعت پر معافی کا لفظ شامل نہیں تھا، وہ مخالفتوں اور مقدمات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے، میں انہیں ریلوے سٹیشن پر لینے جاتا وہ ہمارے گھر پر قیام کرتے، میں انہیں اپنے ساتھ عدالت لے جاتا مگر انہوں نے ایک موقع پر بھی یہ شکایت نہیں کی کہ میری کسی خبر کی وجہ سے انہیں یہ زحمت اٹھانا پڑ رہی ہے۔ روزنامہ ’’غریب‘‘ سے یہ تعلق اس وقت تک جاری رہا جب تک میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں تھا،مئی 1958ء میں میٹرک کرنے کے بعد میں نے گورنمنٹ کالج لائلپور میں داخلہ لیا اور سعید سہگل اور یوسف سہگل کے زیر ملکیت روزنامہ ’’آفاق‘‘ سے بطور سب ایڈیٹر وابستگی اختیار کرلی اور اس طرح نامہ نگار کی حیثیت سے میرا کردار ختم ہوا، میں نے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں قیام کے دوران ’’غریب‘‘ کے علاوہ روزنامہ ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘، روزنامہ ’’زمیندار‘‘، روزنامہ ’’امروز‘‘ اور جماعت اسلامی کے اخبار ’’تسنیم‘‘ اور ’’اعلان‘‘ کی نمائندگی کے فرائض بھی انجام دئیے، مگر ابتدائی تعلق کے باعث ’’غریب‘‘ سے قلبی وابستگی اب تک جاری ہے۔ جب میں سہگلوں کے اخبار میں کام کررہا تھا روزنامہ ’’غریب‘‘ چھ صفحات پر شائع ہونے لگا تھا، لائل پور سے ’’نوائے وقت‘‘ اور ’’آفاق‘‘ کے ایڈیشنوں کی اشاعت نے اس شہر کی اخباری اہمیت میں اضافہ کردیا تھا، ہدایت اختر، ہمایوں ادیب اور مقبول احمد یکے بعد دیگرے ’’نوائے وقت‘‘ کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر مقرر ہوئے، ضیاء الاسلام انصاری، مقبول احمد اور مصطفی صادق روزنامہ ’’آفاق‘‘ کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر رہے، مظفر احسانی کے ’’آفاق‘‘ سے رخصت ہونے کے بعد جب آفتاب احمد قرشی کے چھوٹے بھائی ریاض احمد قرشی نے ’’آفاق‘‘ خرید لیا تو انہوں نے مجھے ریذیڈنٹ ایڈیٹر مقرر کیا مگر یہ تعلق زیادہ دیر تک نہ چل سکا۔ مصطفی صادق اور میں نے دسمبر 1959ء میں ہفت روزہ ’’وفاق‘‘ کا اجراء کیا۔ اس سے پہلے ہم نے روزنامہ ’’آفاق‘‘ سے علیحدگی اختیار کرکے پاک نیوز سروس اور پاک ایڈورٹائزرز کے نام سے ایک خبر ایجنسی اور ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کی داغ بیل ڈالی، پاک نیوز سروس کی خبریں دوسرے اخبارات کے علاوہ ’’غریب‘‘ میں بھی (پ ن س) کے حوالے سے شائع ہونے لگیں اور ہمارے جاری کردہ لائل پور کی ٹیکسٹائل ملوں کے اشتہارات بھی ’’غریب‘‘ کی زینت بننے لگے، غریب 1948ء سے 1958ء تک محض ایک اخبار نہیں بلکہ ایک جدوجہد، ایک تحریک اور ایک نصب العین کا نام رہا۔ یہ جدوجہد تھی صنعتی اجارہ داریوں کے خلاف، یہ تحریک تھی مفاد پرست سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف اور یہ ایک نصب العین تھا صحیح معنوں میں ایک آزاد اخبار کی اشاعت کا اہتمام جو کسی کے دباؤ میں آئے اور نہ کسی کے سامنے جھکے، چوہدری ریاست علی آزاد کے نام کا حصہ لفظ آزاد، روزنامہ ’’غریب‘‘ کے صفحات اور کالموں پر چھایا رہا، پھر ’’غریب‘‘ ایک اخبار ہی نہیں لائل پور کی تہذیب و ثقافت کا ایک جیتا جاگتا نشان بھی تھا، کچہری بازار میں دفتر ’’غریب‘‘ کے باہر فٹ پاتھ پر مغرب کی نماز کے بعد ایک مجلس آراستہ ہوتی، چند بنچ کچھ مُوڑھے، ایک دو چارپائیاں، کچھ کرسیاں اور درمیان میں ایک حُقّہ اور اس کے ارد گرد سیاست دان، سابق اور حاضر وزراء، ارکان اسمبلی، وکلا، صحافی، دانش ور، بلدیاتی سیاست کے کار پرداز ادھر ان کے درمیان سیاست حاضرہ پر بحث مباحثہ ادھر چوہدری ریاست علی آزاد یہاں سے اٹھ کر دفتر کے اندر چلے جاتے ہیں، کبھی نیوز ایڈیٹر سے تازہ خبروں پر مشورہ، کبھی خوش نویسوں سے پوچھ گچھ کہ کتنا کام ہوچکا اور کتنا کام اب باقی ہے، نامہ نگاروں کے کام کی معلومات، جھنگ کی خبریں آگئی ہیں یا آنے والی ہیں، لاہور، کراچی سے کوئی فون آیا ہے یا نہیں۔ جو کاپی پریس جاچکی ہے اس کی طباعت شروع ہوئی یا نہیں۔ پھر کفایت علی خان اور غلام محمد شاد سے ایجنٹوں کی وصولی کی صورت حال پر معلومات کا حصول، دفتر کی پُوری عمارت میں چہل پہل اور سرگرمی اور دفتر کے باہر فٹ پاتھ پر ایک قسم کا جلسۂ عام، یار لوگوں نے اس نشست پر بیٹھنے والوں کو فٹ پاتھئیے کہہ کر ان کا تمسخر اڑانے کی کوشش کی، مگر وہ اسے منتشر نہ کرسکے۔ لائل پور میں ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کے نمائندہ بشیر قریشی اور ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے نمائندے خالد بٹ سے اس نشست میں ہی میرا تعارف ہوا، یہ وہی خالد بٹ ہیں جو سولہ سال پی آئی اے میں جنرل منیجرپبلک افئیرز رہے، کرکٹ سے اپنی دلچسپی کے باعث کرکٹ بورڈ سے بھی وابستگی اختیار کی اور آج کل انگریزی روزنامہ ’’نیشن‘‘ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں اور باقاعدگی سے کالم بھی لکھتے ہیں، فروری 1962ء میں ہم نے ’’وفاق‘‘ کو ہفت روزہ سے روزانہ اخبار میں تبدیل کردیا مگر ہمیں سازگار حالات میسر نہ آئے، ہم نے ’’نوائے وقت‘‘ اور ’’آفاق‘‘ کے معیار اور ضخامت کا اخبار نکالا۔ وسائل ہمارے پاس سرے سے تھے ہی نہیں، ہم نے روزنامہ ’’آفاق‘‘ کے خوش نویسوں کی پوری ٹیم کی خدمات حاصل کرلیں جن میں یوسف نگینہ، محمد ادریس، چوہدری محمد علی اور نذیر شاہد جیسے مایہ ناز خوش نویس شامل تھے۔ ’’وفاق‘‘ میں روزنامہ ’’آفاق‘‘ کے عملۂ کتابت کے اتنے زیادہ ارکان کام کر رہے تھے کہ جب ’’وفاق‘‘ کا پہلا شمارہ شائع ہوا تو اخبار کی لوح کے علاوہ ہر صفحہ کی پیشانی پر ’’آفاق‘‘ کا نام کتابت ہوگیا اور اسی طرح شائع بھی ہوگیا، ہم بمشکل دوتین ماہ ہی روزنامہ ’’وفاق‘‘ شائع کرپائے تھے کہ مالی بحران نے بُری طرح آ دبوچا، ہماری مخالفت بھی بہت زیادہ ہورہی تھی بہرحال ہم نے روزنامہ ’’وفاق‘‘ کو لائل پور کے بجائے سرگودھا سے شائع کرنے کا ارادہ کرلیا اور اپنے تمام سٹاف کو دعوت دی کہ وہ ہمارے ساتھ سرگودھا چلے جہاں ہم نے سیٹلائٹ ٹاؤن میں قاضی مرید احمد ایم پی اے کی زیر تعمیر کوٹھی میں دفتر قائم کیا۔ لائل پور سے سرگودھا جانے والے ہمارے خوش نویس ساتھی چند ماہ تو ہمارے ساتھ اپنی رفاقت نبھاتے رہے مگر بالآخر آئے دن سفر کی صعوبت نے ان کے حوصلے پست کردئیے پہلے چوہدری محمد علی کا استعفیٰ آیا پھر نذیر شاہد اور پھر دوسرے خوش نویسوں کا۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ ہمارے یہ سارے ساتھی روزنامہ ’’غریب‘‘ میں چلے گئے ہیں جہاں پُورا صفحہ کتابت کرانے کی سالہا سال پرانی روایت ختم کرکے اب دو صفحات پر چار تنخواہ دار کاتبوں کے ذریعے اعلیٰ اور معیاری کتابت کا نظام قائم کردیا گیا ہے اور اس طرح طویل عرصہ ہمارے ساتھ ’’آفاق‘‘ اور ’’وفاق‘‘ میں کام کرنے والی خوش نویسوں کی ٹیم نے ’’غریب‘‘ کو نئی زندگی عطا کرنے کا بیڑا اٹھالیا، ’’غریب‘‘ کا چہرہ یکسر بدل گیا اور اس کا معیار دوسرے مقامی روزناموں سے کہیں بہتر ہوگیا۔ چوہدری ریاست علی آزاد گلے کے کینسر میں مبتلا ہوکر میو ہسپتال کے اے وی ایچ وارڈ میں زیر علاج تھے، ان کے بڑے صاحب زادے کنور شوکت ناز اور چوہدری صاحب کے ایک پرانے رفیق کار حکیم شفائی ان کی دیکھ بھال کے لئے وہاں موجود ہوتے تھے، مصطفی صادق اور یہ عاجز ان کی عیادت کے لئے ہسپتال جاتے رہے، مجید نظامی بھی ایک بار ہمارے ساتھ وہاں گئے مگر کمرے کے اندر جانے کے بجائے باہر ہی رہے ان کا خیال تھا کہ جس شخص کو انہوں نے برسوں صحت مند اور تندرست دیکھا ہے اس کا وہی چہرہ ان کے سامنے رہے اور وہ سرطان کے خلاف لڑنے والے کمزور اور علیل شخص کا تصور اپنے ذہن میں نہ لانے پائیں۔ چوہدری ریاست علی آزاد اس موقع پر بھی اپنے بیٹے کو اے پی این ایس اور سی پی این ای کی رکنیت کا چندہ جمع کرانے کی تاکید کرتے رہے، اسی شام وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔