جنرل مشرف کے دورحکومت میں جب شوکت عزیزملک کے وزیراعظم تھے توانھوں نے یونان جانے کا پروگرام بنایا۔صحافیوں کی ایک ٹیم ان کے ساتھ تھی۔ انور سعید ریڈیو پاکستان کے نمایندے کی حیثیت سے ٹیم میں شامل تھے۔ ایتھنزمیں وزیراعظم کا قیام تین دن رہا یہاں سے انھیں لیبیا کے معمر قذافی سے ملنے طرابلس جانا تھا۔ایتھنز میں انھیں کئی سرکاری تقریبات میں خطاب کرنا پڑا۔آخری تقریب سے پہلے ان کے پریس سیکریٹری جاویداختر نے سرکاری خبررساں ایجنسی کے نمایندے شفیق قریشی کو اپنے لیپ ٹاپ پرخبر بناتے دیکھا تو پوچھا۔’’کیا کر رہے ہو؟ خبریں تو تم بھیج چکے ہو۔‘‘ انھوں نے جواب دیا۔ ’’اگلی تقریب کی خبر بنارہا ہوں۔‘‘ جاوید اختر نے کہا ’’تمہیں کیا معلوم وزیر اعظم کیا کہیں گے۔‘‘ شفیق قریشی نے جواب دیا ’’وہ مجھے معلوم ہے، وہ سکندر اعظم کے ذکر سے شروع کریں گے اور اسی کے ذکر پرختم کریں گے۔‘‘
بات یہ تھی کہ شوکت عزیز کے پاس یونان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے بارے میں کچھ کہنے کو نہ تھا۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے وہ اپنی ہرتقریر برصغیر پرسکندر اعظم کے حملے سے شروع کرتے اور اس سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ہمارے یونان سے پرانے تعلقات رہے ہیں۔
انور سعید نے اپنی کتاب ’’ریڈیو پاکستان میں تیس سال‘‘ میں اپنی یادوں کے حوالے سے ان شخصیتوں اور واقعات کا ذکر دلچسپ انداز میں کیا ہے، جن سے انھیں اپنی ریڈیو کی زندگی میں واسطہ پڑا۔ اس میں ان کے مشاہدے، تبصرے اورتجزیے سب شامل ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے دوران میں جواہم واقعات ملک اوربیرون ملک رونما ہوئے اورجن کے اثرات پاکستان پر ظاہر ہوئے ان کا ذکر ہے، تاریخ کے حوالے ہیں۔
اپنے وطن میں اور بیرونی سفر میں جو حسین مناظر دیکھے ان کا بھی بڑی چاؤ سے تذکرہ کیا ہے، لیکن ان کی ریڈیوکی زندگی کا سب سے اہم واقعہ وہ ہے جس کا ذکر انھوں نے ’’قسمت کی یاوری‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ وہ صدرمشرف کے ابوظہبی اور سعودی عرب کے دورے پران کے ساتھ جانے والی صحافیوں کی ٹیم میں ریڈیو پاکستان کے نمایندے کی حیثیت سے شامل تھے۔ ابوظہبی سے جب مشرف سعودی عرب پہنچے تو ان کو حرم کعبہ میں حاضری کا شرف حاصل ہوا اور یہی نہیں، انھیں بیت اللہ شریف کے اندرجانے کی سعادت بھی ملی۔ پھر یہ بھی ان کی قسمت کی یاوری تھی کہ وہ سرکاردوعالمؐ کے روضہ مبارک پرحاضر ہوکر اس جگہ تک پہنچے جہاں نصیب ہی لے جاسکتا ہے۔انورسعید صدرکے قافلے میں شامل تھے اور بھی بڑے نصیب والے تھے۔ انھیں بھی یہ سعادتیں ملیں۔
وہ لکھتے ہیں ’’ہم نے عمرہ ادا کیا نفل ادا کیے۔اسی وقت یہ معلوم ہوا کہ خانہ کعبہ کے دروازے پر سیڑھی لگائی جا رہی ہے اورصدر صاحب سمیت کچھ لوگ اندر لے جائے جائیں گے۔ اسی دوران صدر، بیگم صہبا مشرف اور ان کے پیچھے وزیرخارجہ عبدالستار اور وزیر خزانہ شوکت عزیز اندر چلے گئے۔ ہم اور راشد علی خان (اے پی پی کے رپورٹر) خاموش پیچھے کھڑے تھے کہ دروازے کے قریب اوپرکی پہلی سیڑھی پر کھڑے ایک سعودی نے ہم دونوں کو اشارے سے اوپر بلایا۔ اس وقت ہماری جو حالت تھی وہ ناقابل بیان ہے۔ ہم دونوں نہایت جذبات کے عالم میں سیڑھی پر چڑھے اور چند قدموں کے بعد اس گھر کے اندرتھے جسے ہر مسلمان بچپن ہی سے صرف ایک نظر دیکھنے کی آرزو کرتا ہے۔ اندر ہلکی سی روشنی تھی،کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا کیا جائے، کیا مانگا جائے، کیسے مانگا جائے اورکس منہ سے مانگا جائے۔‘‘
صدر مشرف کا قافلہ دوسری صبح مدینہ منورہ پہنچا۔ ظہرکی نمازکا وقت قریب تھا۔ صدر اور ان کے ہمراہی جلدی جلدی مسجد نبوی پہنچے۔نماز ادا کی پھر ریاض الجنۃ میں نوافل ادا کیے گئے۔ انور سعید لکھتے ہیں ’’نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہم سب لوگ روضہ اقدس کی جالیوں کی طرف لے جائے جانے کی بجائے اصحاب صفہ کی طرف لے جائے گئے۔ سب سے کہا گیا کہ روضہ رسولؐ کے اندر جا رہے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ہم جیسے گناہ گار بندوں کوکیسے اتنی بڑی سعادت مل رہی ہے۔ لوگ تو ساری عمرجالیوں تک پہنچنے کی تمنا کرتے ہیں۔‘‘
بیرونی ملکوں میں صدر اور وزیر اعظم کی سرگرمیوں کی کوریج ہو یا اپنے ملک میں، ریڈیو کے رپورٹرکو بڑی احتیاط سے کام کرنا ہوتا ہے۔ اخبار اور ٹیلی ویژن کے رپورٹرزکو بڑی آزادی ہے جیسی چاہیں خبر بنادیں۔ ریڈیو حکومت کی ترجمانی کرتا ہے یہاں رپورٹنگ میں غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ خفیہ اجلاسوں کی کارروائی کے دوران یہ کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی اخبار والا موجود نہ ہو تا کہ اندرکی بات باہر نہ جائے مگر ہوتا یہ ہے کہ اجلاس میں شریک افراد خود ہی اندرکی خبریں صحافیوں کو پہنچاتے ہیں اور اس طرح اخبار والوں سے اپنا رشتہ قائم رکھتے ہیں۔
انور سعید نے اس سلسلے میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ صدر مشرف جب مکران کی ساحلی سڑک کا افتتاح کرنے اورماڑہ گئے تو وہاں ایک اجلاس میں صوبائی وزیر اعلیٰ جام یوسف نے مسلم لیگ کے کارکنوں کو جو ان کے اپنے حلقے کے لوگ تھے گوادر میں ایک ایک پلاٹ دینے کا مطالبہ کیا۔ اجلاس میں جب پلاٹوں اور دیگر مراعات کی بات ہو رہی تھی تو صدر کے ملٹری سیکریٹری کو فکر ہوئی کہ یہ بات باہر نہ جائے۔ وہ بھاگے ہوئے رپورٹروں کی طرف آئے اور پوچھا کہ آپ میں سے کوئی اخبارکا رپورٹر تو نہیں ہے۔ وہاں زیادہ تر سرکاری ذرایع ابلاغ کے نمایندے ہی تھے۔ ایک صاحب کا تعلق ایک نیوز ایجنسی سے تھا۔ انھوں نے جب اپنے بارے میں بتایا تو ملٹری سیکریٹری نے انھیں فوراً باہر نکل جانے کوکہا۔ وہ باہر چلے گئے لیکن باہر جانے کے بعد حیران ہوئے کہ انھیں باہرکیوں بھیجا گیا ہے جب کہ اجلاس کی ساری کارروائی لاؤڈ اسپیکر سے باہر باآسانی سنائی دے رہی ہے۔
انور سعید نے ریڈیو میں اچھا وقت گزارا۔ اپنے فرائض کی ادائیگی میں کامیاب رہے تاہم انھوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ریڈیو پاکستان کے کارکنوں کے ساتھ ناانصافیاں اور زیادتیاں ہوتی ہیں جس کا ان کی کارکردگی پر اثر پڑتا ہے۔ خود انھیں بھی اس کا ذاتی تجربہ ہوا۔ زیادہ ترشکایات پروموشن اور تبادلوں کے معاملے میں ہوتی ہیں جہاں حق دارکو حق نہیں ملتا۔ ریڈیو پاکستان کے ایک ڈائریکٹر جنرل نے آتے ہی ریڈیو کے کارکنوں کے لیے پروموشن کے قواعد تبدیل کردیے اور سنیارٹی اور موزونیت کے مستند معیارکو ختم کرکے ایک مبہم اور ناقابل عمل معیار مقررکردیا۔
اس سلسلے میں ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ شیخ رشید احمد جب وزیر اطلاعات تھے تو براڈ کاسٹنگ ہاؤس تشریف لائے۔ نیوز اور پروگرام کے سینئر عملے اور ریڈیو انجینئر کے ایک اجلاس سے خطاب کیا۔ اس موقعے پر حسب قاعدہ پروموشن وغیرہ کے معاملوں کا ذکر بھی ہوا۔ ریڈیو کے ایک سینئر ایڈیٹر محمود حسین نے ان کو اپنے پرموشن کے معاملے پر توجہ دلائی اور نظر انداز کیے جانے کی شکایت کی۔ کہنے لگے کہ ریڈیوکے ڈائریکٹر جنرل اور وزارت اطلاعات کے سیکریٹری سے جو شیخ صاحب کے دائیں بائیں بیٹھے تھے، میرے بڑے اچھے تعلقات ہیں پھر بھی ترقی کے وقت مجھے نظراندازکردیا گیا۔
شیخ صاحب نے یہ سن کر برجستہ کہا ’’یہی تو وجہ تھی کہ آپ کا پروموشن نہیں ہوا۔‘‘
انور سعید نے ریڈیو میں اپنے طویل قیام میں بہت کچھ دیکھا اور سنا۔ بہت کچھ اپنی اس کتاب میں لکھا بھی ہے۔ کچھ خوش کن ہیں کچھ ناگوار اور افسوسناک۔