آج کا دن، جو یہ کالم چھپنے پر ’’کل‘‘ بن چکا ہو گا، میری زندگی کے ان چندانتہائی مشکل دنوں میں سے ایک تھا جن کا آغاز ایک ایسی المناک خبر سے ہوا جو چند لمحوں کیلئے یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ یہ صبح سے رات تک کی مصروفیتیں اور دھندے، محبتیں اور نفرتیں، جھگڑے اور جھمیلے کتنے بے حقیقت اور بے معنی ہیں۔ اس کیفیت میں مجھے ہمیشہ شاہ حسین کی ایک کافی کے یہ مصرعے یاد آ جاتے ہیں۔
اوڑک جانا مر وے
چل میلے نوں چلئے
(آخر تو مر ہی جانا ہے چلو میلہ دیکھنے چلیں)
یہاں ’’میلے‘‘ کا مطلب زندگی کا وہ لازمی معمول ہے جو انسان کو ’’ہارنے‘‘ نہیں دیتا اور ہر روز اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔
میں بستر سے اٹھا ہی تھا کہ ایک ایس ایم ایس کی ’’ٹک‘‘ نے مجھے موبائل فون کی طرف متوجہ کر دیا۔ اسے کھول کر پڑھا تو اطلاع یہ تھی ’’سہیل قلندر حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے ہیں‘‘۔ کچھ دیر کیلئے میں سناٹے میں رہ گیا پھر یادوں کا ایک ہجوم میرے دماغ میں گھوما اور کچھ سوال تلملانے لگے، کیوں؟ اور کیسے؟ اتنی جلدی؟ اتنی تھوڑی عمر میں؟۔۔۔ میں دوبارہ بستر پر لیٹ گیا۔ پھر مجھے یاد آیا کہ ہر زندگی کا ’’اوڑک‘‘ تو ایک ہی سہی لیکن ’’میلے‘‘ پر تو جانا ہی ہے اپنے اخبار کا کام نبٹانا ہے اور اپنے ٹی وی چینل کا پروگرام ’’کالم کار‘‘ بھی کرنا ہے۔ چار بجے سہ پہر وزیراعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف کی ’’بریفنگ‘‘ میں بھی شریک ہونا ہے۔ ’’اوڑک‘‘ کا خوف اور ادراک کبھی ’’میلے‘‘ کی ڈیوٹی سے چھٹی کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
میاں شہباز شریف اپنی ڈیفنس والی قیام گاہ میں تھے۔ نجم سیٹھی صاحب، مجیب الرحمان شامی صاحب، عمر شامی صاحب، شفقت محمود صاحب اور میں تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹہ وزیراعلٰی پنجاب اور ان کے مالیاتی ماہرین سے این ایف سی ایوارڈ کے مختلف پہلوؤں پر مزید معلومات سے استفادہ کرتے رہے۔ آنکھیں اور کان ان کی طرف تھے اور دماغ سہیل قلندر کی اچانک موت کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا۔ وہاں سے رخصت ہونے کے بعد میں ڈیفنس سے آخری موڑ پر ٹریفک سگنل پر رکا تو سڑک کے پار ایک نیون سائن نظر آیا، جس پر حضرت علیؓ کا یہ قول جگمگا رہا تھا۔
’’اگر کوئی تم سے پوچھے کہ زندگی کیا ہے تو اپنی ہتھیلی پر تھوڑی سی خاک رکھ کر پھونک سے اڑا دینا‘‘۔
یہ قول پڑھ کر مجھے یوں محسوس ہوا کہ مجھے اپنے سمیت ہر زندگی کی اصل حقیقت سمجھ آ گئی ہے سہیل قلندر جو کہ تھا اور میں جو کہ ہوں، ہماری اوقات کیا تھی یا ہے۔ بس اتنی ہی۔ ’’وقت کی ہتھیلی پر رکھی ہوئی تھوڑی سی خاک جو پھونک سے اڑ جاتی ہے‘‘۔
سہیل قلندر بڑا بہادر آدمی تھا۔ وہ موت سے نہیں ڈرتا تھا، پشاور میں بیٹھ کر دہشت گردی اور دہشت گردوں کی کھلی مذمت اور ملامت کرتا تھا، فون پر ان کے خونخوار لیڈروں (مولوی فضل اللہ، مسلم خان وغیرہ) کی دھمکیاں سن کر مصلحت یا منافقت کا سہارا لینے کے بجائے، انہیں چیلنج کر دیا کرتا تھا۔ ’’اس وقت میں فلاں (پوری نشاندہی کرکے) جگہ بیٹھا ہوں۔ ابھی آ جاؤ اور جو کرنا ہے، کرلو‘‘۔ پچھلے دنوں جب پشاور میں مسلسل بم دھماکے ہو رہے تھے۔ بھرے بازاروں میں عورتوں اور بچوں سمیت بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ میں نے اسے احتیاط کرنے اور اپنا خیال رکھنے کیلئے کہا لیکن اس کا جواب یہ تھا ’’شاہ جی فکر نہ کریں، یہ بزدل مجھے نہیں مار سکتے‘‘۔ جوانی کی عمر، اچھی صحت، بھائیوں، والد اور والدہ کا ساتھ میسر ہونے جیسی حقیقتوں کے سبب شاید ’’میرے بعد‘‘ اور ’’میرے چھوٹے چھوٹے بچوں کا کیا بنے گا‘‘ جیسے سوالات اس کے لئے بے معنی ہوں۔ اپنے اندر اور آس پاس اتنی طاقتیں موجود ہوں تو انسان کو یہ شبہ بھی نہیں ہوتا کہ اس کے اپنے جسم کے اندر چھپے ہوئے چھوٹے چھوٹے اعضا کتنے دھوکے باز ہیں اور سانس کی ڈور اتنی کچی ہے کہ نیچے سے اوپر جاتے اور اوپر سے نیچے آتے ہوئے انسان کے اپنے اختیار میں ہوتی ہے نہ اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔
2007ء کے آغاز تک دہشت گردی کے حوالے سے سہیل قلندر کے رویے نرم بلکہ ہمدردانہ بھی تھے۔ 2 جنوری کو ایک خطرناک گروپ نے اسے اغوا کر لیا۔ ایکسپریس کی انتظامیہ اور تمام صحافتی حلقے اس کیلئے فکرمند تھے۔ بازیابی کی محتاط کوششیں کی گئیں۔ احتیاط اس لئے ضروری سمجھی گئی کہ ضرورت سے زیادہ دباؤ اور کسی اندھا دھند انتظامی کارروائی کے نتیجے میں اغوا کار اسے جان سے نہ مار ڈالیں۔ میں خود بھی پشاور گیا۔ ہم لوگوں نے خفیہ ایجنسیوں اور بااثر دوستوں سے امداد بھی مانگی لیکن کوئی سراغ نہیں ملا۔ آخر میں یہ ہوا کہ وہ اپنی ہی عقل استعمال کرکے 24 فروری کو زندہ سلامت واپس پہنچ گیا۔ اس واقعہ کے بعد دہشت گردوں کے بارے میں اس کے خیالات بالکل تبدیل ہو گئے اور وہ ان کا کھلا دشمن بن گیا۔ اس کے کالم اور پروگرام ’’کالم کار‘‘ میں گفتگو دہشت گردوں کو قتل کی دعوت دینے کے مترادف ہوتی تھی لیکن وہ بچا رہا ادھر اس کا اصل دشمن، اس کا اپنا دل، جسم کے اندر بیٹھا اس کی زندگی کی گھڑیاں گن رہا تھا۔ اس دل نے کبھی اسے کوئی اتنی ہلکی یا معمولی سی تکلیف بھی نہیں ہونے دی کہ وہ خبردار ہو کر معائنہ ہی کروا لیتا۔
سہیل قلندر جیسی جوان اور اچانک موتیں اپنے اردگرد خطرے کی گھنٹیاں بجا کر متاثرہ خاندانوں، رشتہ داروں، دوستوں اور شناساؤں کے دلوں میں خوف اور بے یقینی پیدا کر دیتی ہیں اور انہیں اپنے اپنے ’’میلوں‘‘ کی رونق بے معنی لگنے لگتی ہے لیکن یہ میلہ ہے ہی اتنا پرُفریب کہ انہیں لمحوں، گھنٹوں یا دنوں میں ’’اوڑک‘‘ سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ وہ کہنیاں مارتے، دھکے کھاتے، گرتے پڑتے، ایک دوسرے کو کچلتے اور روندتے حق چھینتے اور حق مارتے ہوئے آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ زمین کی چھوٹی یا بڑی خدائی کے نشے میں کبھی یہ یاد نہیں کرتے کہ ہتھیلی پر رکھی ہوئی وہ ذرا سی خاک ہیں جو ایک پھونک سے اڑ سکتی ہے۔ زندگی، خواہشیں اور دنیا کا یہ سارا تسلسل اسی لئے قائم ہے کہ ’’اوڑک‘‘ سامنے کھڑا ہوتا ہے لیکن میلے کی گہما گہمی دیکھ کر اسے اس لئے بھلانا پڑ جاتا ہے کہ ہم سامنے رکھے ہوئے جنازے اور بچھڑ کر قبروں میں گم ہو جانے والے چہرے ہر وقت یاد کرتے رہیں تو زندگی کا یہ سفر اور اس کی منزلیں، یہ ہم، یہ تم، ہمارے چاروں طرف پھیلا ہوا یہ سب کچھ میلے کے بجائے کوئی ایسا جبر بن جائے جسے سہنا اور جس میں رہنا ہماری مجبوری ہے، ایک ایسی مجبوری جس کے متعلق کیوں اور کیسے سمیت کوئی راز ہمیں معلوم نہیں۔ (13دسمبر 2009ء )