سیاستدان سے لیڈر تک .. کالم خورشید ندیم
ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمان ، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے بعد، عمران خان، پانچویں سیاست دان ہیں جو لیڈر بننے کے مرحلے میں ہیں۔ اُن کا انجام سابق راہنماؤں جیسا ہو گا یا اُن سے مختلف؟ اس سے اہم تر سوال ایک اور ہے: کیا عمران خان اس تشکیلی مرحلے سے بحسن و خوبی گزر پائیں گے؟
میں لیڈرز کی اس فہرست کو ان پانچ افراد ہی تک محدود کرتا ہوں۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہمارے سیاسی منظرنامے پر بعض بڑی قدرآور شخصیات ابھریں جیسے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، نواب زادہ نصراللہ خان، حسین شہید سہروردی، خان عبدالولی خان۔ یہ لوگ ایک مخصوص حلقے ہی کو متاثر کر سکے۔ یہ عوامی لیڈر نہیں بن سکے۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں یہی پانچ افراد ایسے ہیں جنہیں عوامی مقبولیت کے پیمانے پر لیڈر قرار دیا جا سکتا ہے۔
بھٹو، نواز شریف اور عمران خان میں ایک واقعاتی یکسانیت ہے۔ تینوں نے فوج کی چھتری تلے، نشوونما پائی۔ جو رشتہ بھٹو صاحب کا ایوب خان کے ساتھ تھا، وہی نواز شریف صاحب کا ضیاالحق سے تھا۔ یہ رشتہ سیاسی اعتبار سے باپ بیٹے کا تھا۔ بھٹو صاحب ایوب خان صاحب کو ڈیڈی کہتے تھے اور ضیاالحق صاحب نے بھی دعا کی کہ ان کی عمر نواز شریف کو لگ جائے۔ عمران خان نے بھی اپنی مقبولیت کے اہم ترین مراحل ایجنسیوں کی سرپرستی میں طے کیے۔ 2011ء سے تادمِ تحریر جس طرح ان کی انگلی تھامی گئی، اس داستان کے اوراق جگہ جگہ بکھرے پڑے ہیں۔ جاوید ہاشمی کبھی کبھی انہیں سمیٹتے اور ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ مجیب الرحمان اور بے نظیر بھٹو کی سیاست کا آغاز فوج کی چھتری تلے نہیں ہوا مگر ان کی سیاسی زندگی اس کے ساتھ اقتدار کی کشمکش میں گزر گئی۔ٍ
بھٹو اور نواز شریف کی داستانوں میں یہ لکھا ہے کہ ایک مرحلہ آیا جب یہ بڑے ہو گئے۔ اب انہیں چھتری کی ضرورت نہیں رہی۔ ان کی سیاست کو ایک حقیقی بنیاد میسر آ گئی جسے عصبیت کہتے ہیں۔ یہ اس مصنوعی سرپرستی کا متبادل تھا جو فوج کی چھتری فراہم کر رہی تھی۔ جب ان کی طاقت کا سرچشمہ عوام بنے تو انہوں نے ڈکٹیشن لینے سے انکار کر دیا۔ بھٹو صاحب پہلے مرحلے میں سرخرو ہوئے۔ ان کا سامنا ایک بوڑھے ڈکٹیٹر سے تھا جسے اپنے زوال کا احساس ہوا تو اس نے اپنے منصب پر ایک جواں سال ڈکٹیٹر کو بٹھا دیا۔ دوسرے مرحلے میں وہ بچ نہ سکے۔
نواز شریف بھی پہلے مرحلے میں بمشکل بچ پائے۔ اقتدار گیا لیکن جان اور امکانات باقی رہے۔ یہ امکانات انہیں ایک بار اقتدار کے ایوانوں تک لے گئے۔ دوسرے مرحلے میں مگر بچ نہ سکے۔کیا منظر سے ان کی یہ غیرحاضری عارضی ہے؟ اس کا ابھی فیصلہ ہونا ہے۔ آج تو صورت حال وہی ہے جو غالباً احمد فراز نے بیان کی؛
مجھے غروب نہ جانو جو میں افق پہ نہیں
بکھر گیا ہوں اندھیروں میں کہکشاں کی طرح
عمران خان کے لیے وہ وقت قریب ہے جب وہ اس چھتری تلے سے نکلنے کی کوشش کریں گے۔ اس سے پہلے لیکن انہیں سیاست دان سے لیڈر بننا ہے۔ یہ امر اگرچہ ابھی مشتبہ ہے کہ وہ سیاست دان بن بھی پائے ہیں یا نہیں، لیکن ہم انہیں سیاست دان فرض کر لیتے ہیں کہ انہوں نے معاصرِ سیاست کے بہت سے ڈھنگ سیکھ لیے ہیں۔ اب انہیں لیڈر بننا ہے۔ انہوں نے یومِ تشکر کے موقع پر جو تقریر کی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں ابھی بہت ریاضت کی ضرورت ہو گی۔ یہ ان کی ضرورت ہے اور پاکستان کی بھی۔ اس کے علاوہ بھی انہیں بہت کچھ کرنا ہے لیکن تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔
جب وہ طاقت کے ایک مرکز کے قریب پہنچیں گے تو اس کا ناگزیر نتیجہ طاقت کے دوسرے مراکز کے ساتھ تصادم ہے۔ عمران خان کا مزاج شراکت کا قائل نہیں۔ اب تک ان کی زندگی اسی کی گواہی دیتی ہے۔ اگر وہ اقتدار کے معاملے میں بھی اسی رویے کا مظاہرہ کریں گے تو تصادم ناگزیر ہو جائے گا۔ ماضی یہ کہتا ہے کہ اس میں شکست اسی کو ہوتی ہے جو غیر مسلح ہو۔ سطحی تجزیوں میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ نواز شریف ہی کی ہر سپہ سالار سے کیوں لڑائی ہوتی ہے؟ یہ معاملہ کسی نواز شریف یا راحیل شریف کا نہیں ہے۔ اقتدار کی تعمیر ہی میں یہ خرابی مضمر ہے کہ وہ شراکت کو برداشت نہیں کرتا۔ الا یہ کہ کوئی خود ہی اس سے دست بردار ہو کر ایک ماتحت کی حیثیت کو قبول کر لے۔
عمران خان کو ابھی شیخ رشید کے سحر سے نکل کر لیڈر بننے کے مرحلے میں داخل ہونا ہے۔ وہ اگر یہ گھاٹی عبور کر سکے تو پھر انہیں اس ‘پل صراط‘ سے گزرنا ہو گا جہاں اقتدار کی حقیقی کشمکش کا آغاز ہو گا۔ یہ مرحلہ اس سے مختلف ہے جس میں ان کے حریف نواز شریف تھے۔ اگلے مرحلے میں ان کا سامنا ان لوگوں سے ہو گا جو پہلے ہی صاحبانِ اختیار ہیں۔ یہ انہوں نے طے کرنا ہے کہ وہ عمران خان کو کتنا حصہ دینے پر آمادہ ہیں۔
اگر یہ مقدمہ درست ہے تو پھر سوچا جا سکتا ہے کہ اِس وقت اقتدار کے مختلف مراکز میں کیا بحث ہو رہی ہوگی۔ میرا تاثر ہے کہ ایک طرف کچھ لوگ عمران خان کی نفسیاتی تحلیل میں مصروف ہوں گے۔ یہ طے ہے کہ انسان کا شاکلہ (نفسیاتی ساخت) تبدیل نہیں ہوتا۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ عمران خان نے کرکٹ ٹیم کے کپتان کے طور پر جس رویے کا مظاہرہ کیا، حکومت کی باگ ڈور ہاتھ میں آنے کے بعد، وہ کسی مختلف رویے کا اظہار کریں۔ ظاہر ہے کہ اس کا جائزہ لیا جا رہا ہو گا۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں ایک اور بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے: ایسے شواہد بھی جمع کیے جا رہے ہوں گے جو محفوظ رہیں اور کبھی کوئی جے آئی ٹی بنے تو کام آئیں۔
ایک اور بات بھی واضح ہے۔ اگر عمران خان کا شاکلہ تبدیل نہیں ہوا تو پھر اس سوال پر سو بار سوچا جائے گا کہ ان پر اقتدار کے دروازے کھلنے چاہئیں یا نہیں؟ میرا خیال ہے کہ شاید ہی کوئی رسک لینا چاہے گا۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر 28 جولائی کے بعد سے ان کا سیاسی کردار سکڑنا شروع ہو جائے گا۔ الیکشن تک ان کی ضرورت باقی ہو گی اور پھر شاید صفِ دوم سے کوئی چہرہ نمودار ہو جائے۔ یہ سب بھی اس صورت میں ہوگا جب ‘مائنس فور‘ کا کوئی فارمولا زیرِ غور نہیں ہو گا اور عدالتیں انہیں صادق اور امین قرار دے چکی ہوں گی۔
کیا عمران خان کو اس کا اندازہ ہے؟ کیا اس ملک میں سوچنے والوں کو اس امکانی منظر کا خیال ہے؟ اہلِ دانش کے بارے میں، میں کچھ کہہ نہیں سکتا مگر عمران خان کو ابھی اندازہ نہیں ہوا ورنہ ان کی سیاست کچھ اور ہوتی۔ مستقبل کے پردے میں کیا ہے، کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ہم سب اپنی عقل کے مطابق منصوبہ بندی کرتے ہیں لیکن بعض تاریخی عوامل ایسے ہیں جو انسانی ہاتھوں میں نہیں ہوتے۔ اس نظامِ کائنات میں کچھ غیبی ہاتھ بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ بارہا دیکھا گیا کہ اس نے انسانی تدبیر کی بچھائی بساط کو الٹ دیا۔ عالم پروردگار امورِ جہاں بانی سے دست بردار نہیں ہوا۔ اس میں شبہ نہیں کہ دنیا کے معاملات اس کی سنت کے تابع ہیں جو تبدیل نہیں ہوتی لیکن ماورائے اسباب معاملہ کرنا بھی اس کی سنت ہے۔ ہم تو بہرحال صرف عالمِ اسباب کو سامنے رکھتے ہوئے تجزیہ کرنے کے مکلف ہیں۔
میں دعا کر تا ہوںکہ وہ وقت نہ آئے جب میں کالم لکھنے بیٹھوں اور اس کا پہلا جملہ ہو: ”عمران خان کا مقابلہ ایک سیاسی جماعت سے نہیں،کسی اور سے ہے‘‘۔
عالمِ نو ہے ابھی پردہء تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب