ممتاز سکالر اور قومی اسمبلی کے سابق رکن سید اسعد گیلانی آج دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔3 اپریل (29 رمضان) کو میں عید منانے کے لئے بچوں کے ساتھ لاہور سے ٹوبہ ٹیک سنگھ پہنچا ہی تھا کہ پاکستان ٹیلی ویژن کے خبرنامے سے ایک فقرے پر مشتمل اس خبر نے، سید اسعد گیلانی کے ساتھ کم و بیش 40 برس پر پھیلے ہوئے تعلق کو ذہن میں تازہ کر دیا۔ یہ کہانی کیا سامنے آئی میرے غم کی شدت میں اس قدر اضافہ ہوا کہ میں جو پہلے ہی اعصابی طور پر کمزور ہوں، اس غم کا بوجھ برداشت کرنے سے قاصر تھا۔ میں گھر کی چار دیواری ہی میں ایک دوسرے کمرے کی طرف لپکا اور اپنے بڑے بھائی قاضی غیاث الدین جانباز کو یہ روح فرسا خبر سنا کر اپنے صدمے میں انہیں بھی شریک کر لیا۔ یہ خبر سُن کر ان کا پہلا فقرہ ہی کچھ یوں تھا کہ پسے ہوئے طبقوں کا ایک غم خوار اور ایک انقلابی اپنے اللہ کے پاس چلا گیا۔ جانباز مجھ سے بڑھ کر اس سانحے پر ملول تھے کیونکہ ہم دونوں نے صحافت کا ابتدائی سبق سید اسعد گیلانی کی درس گاہ ہفت روزہ ’’جہان نو‘‘ کراچی میں پڑھا تھا۔
میرے تایا قاضی نصیرالدین سرہندی مرحوم (قاضی غیاث الدین جانباز کے والد) قیام پاکستان کے بعد ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ڈیرہ غازی خان چلے گئے جہاں انہوں نے ڈاکٹر نذیر احمد شہید کے کردار و عمل سے متاثر ہو کر جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار کر لی۔ کچھ عرصہ بعد وہ کاروبار کی غرض سے کراچی منتقل ہو گئے۔ جہاں انہوں نے رنچھوڑ لائن پر سید اسعد گیلانی کی اقامت گاہ (یہی جہان نو کا دفتر بھی تھا) کے قریب ہی رہائش اختیار کی۔ اسعد صاحب کے زیر ادارت شائع ہونے والا یہ پرچہ اس وقت کے حکمرانوں کے لئے تلوار کی مانند تھا۔ قاضی نصیرالدین، سید اسعد گیلانی کی جرأت و بے باکی اور جماعت اسلامی کے لئے ان کی شبانہ روز محنت سے بہت متاثر تھے۔ کراچی جانے کے کچھ ہی عرصہ بعد انہوں نے ہفت روزہ ’’جہان نو‘‘ کا ایک پرچہ میرے نام جاری کرا دیا تھا اور جب وہ کراچی سے پھر ٹوبہ ٹیک سنگھ منتقل ہوئے تو انہوں نے ہمارے ہی نام پر ہفت روزہ ’’جہان نو‘‘ کی ایجنسی بھی شروع کرا دی۔ اس طرح میں نے ہوش سنبھالتے ہی جو سب سے پہلا جریدہ پڑھنا شروع کیا، وہ سید اسعد گیلانی کی ادارت میں شائع ہونے والا ’’جہان نو‘‘ تھا۔ ’’جہان نو‘‘ کے مطالعے نے سید اسعد گیلانی کی ایک بے باک اور دبنگ ایڈیٹر کی تصویر میرے تصور میں راسخ کر دی تھی۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں میرا حلقہ احباب ایسے لوگوں تک وسیع ہونے لگا جو جماعت اسلامی کے مخالف اور بائیں بازو کی جماعتوں کے کارکن تھے۔ ان اصحاب کے ساتھ تعلق اس حد تک بڑھا کہ انہوں نے مجھے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں آزاد پاکستان پارٹی کا پروپیگنڈا سیکرٹری مقرر کر دیا اور اس تعلق کے حوالے سے میں روزنامہ ’’امروز‘‘ کا نامہ نگار بھی بن گیا۔
1957 میں سید اسعد گیلانی سے پہلی بار مجھے اس وقت ملاقات کا شرف حاصل ہوا جب وہ چودھری علی احمد مرحوم اور جناب جیلانی بی اے کی معیت میں جماعت اسلامی کے ایک جلسے سے خطاب کے لئے ٹوبہ ٹیک سنگھ تشریف لائے۔ آزاد پاکستان پارٹی سے تعلق کے باعث ہم چند لڑکوں نے اس جلسے میں ہنگامے کا پروگرام بنایا ہوا تھا لیکن میرے تایا مرحوم جنہیں اس بات پر بڑی تشویش تھی کہ میں سیدھے راستے سے ہٹ گیا تھا اور ان کے خیال کے مطابق لادین سیاسی عناصر کے نرغے میں آ گیا تھا میری اصلاح کے خیال سے مجھے سید اسعد گیلانی سے ملانے کے لئے غلہ منڈی میں اس جگہ لے گئے، جہاں جماعت اسلامی کے رہنما ٹھہرے ہوئے تھے۔ سید اسعد گیلانی سے یہ میری پہلی ملاقات تھی لیکن اپنی محبت بھری گفتگو سے انہوں نے میرا دل اس طرح موہ لیا کہ میں 11 بجے صبح ان کے پاس گیا اور ان سے اجازت لینے کا تصور بھی نہ کر سکا اور رات کو عشاء کی نماز کے بعد منعقد ہونے والے جماعت اسلامی کے جلسے میں ان کے ساتھ ہی سٹیج پر چلا گیا۔ میرے وہ ساتھی جو جلسے میں ہلڑ بازی کے لئے میرے منتظر تھے، میرا انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ سید اسعد گیلانی سے یہ ملاقات نہ صرف آزاد پاکستان پارٹی سے واپسی کا سبب بنی بلکہ اسعد گیلانی صاحب سے برخوردارانہ اور پھر برادرانہ اور دوستانہ رشتے کی استواری کا ذریعہ بھی ثابت ہوئی اور اس طرح میں اس راستے پر چند قدم چل کر ہی واپس پلٹ آیا جو میرے تایا مرحوم کو میرے لئے پسند نہ تھا اور جس پر جانے سے روکنے کے لئے انہوں نے صرف ’’جہان نو‘‘ ہی کا سہارا نہیں لیا بلکہ نور، الحسنات، کوثر، چراغ راہ، ترجمان القرآن اور مولانا مودودیؒ کی تصانیف ایک کورس کی طرح پڑھانے کا اہتمام کیا۔ روزنامہ ’’تسنیم‘‘ بھی زیر مطالعہ رہتا تھا، مصطفٰے صادق صاحب اس کے ناشر اور مدیر تھے۔ آج جب میرے تایا اس دنیا میں نہیں ہیں، میں تشکر کے یہ الفاظ سپرد قلم کر رہا ہوں کہ آج مجھے دین کا جو بھی شعور و فہم حاصل ہے اس میں ان کی دلچسپی اور رہنمائی کا بہت دخل ہے۔
بات ہو رہی تھی سید اسعد گیلانی کے ساتھ تعلق کی، سید اسعد گیلانی کے رشحاتِ فکر نے مجھے پڑھنے کا ذوق اور لکھنے کا قرینہ عطا کیا اور ان کے ساتھ ملاقات نے میرا نظریاتی قبلہ درست کرنے میں میری رہنمائی کی ورنہ میں تو بھٹک چکا تھا اور اگر ان کی بروقت رہنمائی حاصل نہ ہوتی تو شاید اتنا آگے چلا جاتا کہ واپسی کی راہ سجھائی نہ دیتی، اس لحاظ سے انہیں میں اپنا راہبر اور محسن قرار دینے میں حق بجانب ہوں۔
سید اسعد گیلانی کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو جاننے، انہیں قریب سے دیکھنے اور ان کی صلاحیتوں اور غیر معمولی انسانی صفات کا مطالعہ کرنے کا موقع اس وقت ملا جب 1962ء میں روزنامہ ’’وفاق‘‘ کو لائل پور سے سرگودھا منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور چند ماہ کچہری بازار اور نشتر مارکیٹ میں کام کرنے کے بعد ’’وفاق‘‘ کا دفتر اور ہماری رہائش جماعت اسلامی ضلع سرگودھا کے اس وقت کے امیر مولانا حکیم عبدالرحمن ہاشمی کی ملکیتی عمارت ’’دارالرحمت‘‘ سیٹلائٹ ٹاؤن میں منتقل ہو چکی تھی۔ سرگودھا ڈویژن کا دفتر بھی اس عمارت میں واقع تھا جس کی امارت کے فرائض اس وقت سید اسعد گیلانی انجام دے رہے تھے۔ اسعد صاحب کی رہائش بھی دفتر جماعت کی بالائی منزل میں تھی۔ مدیر ’’وفاق‘‘ مصطفی صادق 1958ء کے مارشل لاء کے نفاذ سے پہلے ہی جماعت اسلامی سے الگ ہو چکے تھے اور ان کا شمار جماعت کے کھلے مخالفوں میں ہوتا تھا۔ ان کی ادارت میں نکلنے والا ’’وفاق‘‘ بھی کبھی جماعت اسلامی پر تنقید کرتا تھا اور جماعت کے رہنماؤں کی چٹکیاں لیتا تھا۔ اسعد گیلانی چونکہ میرے مرحوم تایا کے عزیز دوستوں میں رہے تھے اور مدیر ’’جہان نو‘‘ کی حیثیت میں ان کی جان دار تحریروں نے میرے قلب و ذہن پر ان کی بے باکی اور بہادری کا گہرا نقش چھوڑا تھا، اس لئے میں ’’وفاق‘‘ کی پالیسی سے اختلاف کے باوجود کچھ وقت سید اسعد گیلانی کی صحبت میں گزارنے لگا۔ وہ جماعت اسلامی کے ڈویژنل امیر کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود زاہد خشک نہ تھے۔ ان کے بھرپور قہقہے کسی بھی نشست کی سنجیدگی کو خوش گوار بنا دیتے تھے، لیکن ان کی طبیعت کا یہ ہلکا پھلکا رنگ صرف ان چند لمحوں کے لئے ہوتا تھا، جب وہ اپنے ملاقاتی سے اپنائیت کا اظہار کرنا چاہتے تھے، ورنہ انہوں نے اپنی زندگی کو جن اصولوں کے سانچے میں ڈھال رکھا تھا نظم و ضبط، اوقات کار کی پابندی اور لکھنے کے کاموں کے لئے پوری یکسوئی اس کے عناصر ثلاثہ تھے اور یہ اسعد گیلانی اس اسعد گیلانی سے بالکل مختلف شخص تھے، جنہوں نے ابھی چند لمحے قبل اپنے ملاقاتی سے ہلکی پھلکی گفتگو کی تھی۔ مجھے سرگودھا میں اپنے قیام کے دوران اسعد گیلانی کی شخصیت کے یہ دونوں ہی پہلو بڑے دل کش اور دل نشین لگے۔ میرا اسعد صاحب کے بارے میں پہلا تاثر یہی تھا کہ وہ بہت منضبط زندگی گزارنے والے، سخت جفاکش اور بلا کے ذہین اور طباع قلم کار ہیں۔ وہ 10، 10، 15، 15 دن کے طویل تنظیمی دورے کرتے تھے کتابوں اور لکھنے پڑھنے کے تمام لوازمات پر مشتمل بیگ ان کا شریک سفر ہوتا تھا۔ ان دوروں میں وہ کارکنوں سے ذاتی رابطہ کرتے تھے، تربیت گاہوں میں خطابت کرتے تھے، عوامی اجتماعات میں رائے عامہ کو جماعت اسلامی کے پروگرام کی حمایت میں ہموار کرتے تھے اور جب ایسے کسی طویل سفر سے واپس آتے تھے تو سب سے پہلے جماعت کے دفتر میں اپنی غیر حاضری کے دنوں کی ڈاک دیکھتے تھے۔ صرف دیکھتے ہی نہ تھے، جواب طلب تمام خطوط کے جواب لکھتے اور اس کام کو نمٹانے کے بعد وہ گھر کے دروازے میں داخل ہوتے۔ یہ دورے جاری رہتے، سرگودھا میں ان کی موجودگی کے دوران دن بھر ان کے پاس جماعت کے کارکنوں اور دیگر مکاتیب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا آنا جانا رہتا۔ وہ ہر ملاقاتی کو اس کے حسب خواہش وقت دیتے، اس کے استفسارات کا شافی جواب دینا اپنا فرض تصور کرتے اور کئی گھنٹوں پر پھیلے ہوئے اس عمل میں ان کے چہرے پر مخصوص مسکراہٹ کھیلتی رہتی اور کبھی کوئی ہلکا سا قہقہہ اس گفتگو کو سنجیدگی کی حدود میں داخل ہونے سے روکنے کا ذریعے بنتا۔ میں بھی کبھی کبھار اسعد گیلانی کو یہ موتی رولتے دیکھتا اور ان سے اپنا خالی دامن بھرنے کی کوشش کرتا، میں محسوس کرتا تھا کہ وہ مجھ پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔
1964ء میں جب جماعت اسلامی سرگودھا ڈویژن، سرگودھا میں ایک خصوصی اجتماع کا اہتمام کر رہی تھی جس میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودویؒ کو بھی خطاب کرنا تھا اور اسعد گیلانی کی قیادت میں جماعت اسلامی کے کارکن اس اجتماع کی تیاریوں میں ہمہ تن مصروف تھے۔ ان کی اس توجہ ہی کا نتیجہ تھا کہ میں نے اسعد صاحب سے عرض کیا۔
’’اس اجتماع کے لئے کوئی خدمت اور ڈیوٹی مجھے بھی سونپ دیجئے‘‘۔
انہوں نے اپنی دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھا اور کسی تکلف کے بغیر فرمایا ’’آپ اس موقع پر ’’وفاق‘‘ کا ایک خصوصی شمارہ شائع کریں‘‘۔
اگرچہ انہوں نے مجھے امتحان میں ڈال دیا تھا مگر یہ سید اسعد گیلانی کی مسحور کن شخصیت کا اعجاز تھا کہ میں نے بھی بلاتامل عرض کیا‘‘ ضرور ! وفاق کا خصوصی شمارہ اس دن آپ کے ہاتھوں میں ہو گا‘‘۔
انہوں نے پھر میری طرف دیکھا اور زبان سے کچھ کہے بغیر گویا پوچھا کیا ’’مصطفی صادق اس پر آمادہ ہو جائیں گے؟‘‘
مصطفی صادق صاحب کو یہ سمجھنے میں کچھ دیر نہ لگی کہ جمیل اطہر، اسعد گیلانی کے دام الفت میں گرفتار ہو کر جماعت اسلامی نمبر شائع کرنے پر تیار ہو گیا ہے۔ انہوں نے اس ’’مصیبت‘‘ سے نجات حاصل کرنے کے لئے ایک ایسی شرط لگا دی جو ان کے خیال میں اسعد صاحب کے لئے پُورا کرنا ممکن نہ ہو گا۔ انہوں نے کہا جماعت اسلامی کے اجتماع کے موقع پر ’’وفاق‘‘ کا خصوصی ایڈیشن شائع کیا جا سکتا ہے مگر اس صورت میں کہ میں مولانا مودودی کی آمد کے ایک ہفتہ بعد ’’دارالرحمت‘‘ میں مولانا امین احسن اصلاحی کے درس قرآن کا اہتمام کروں گا۔ اسعد گیلانی اور جماعت کے دوسرے لوگ اس درس میں شریک ہوں۔ میں نے مصطفی صادق صاحب کی عائد کردہ شرط کا ذکر کئے بغیر اسعد صاحب کو یہ خوش خبری سنا دی اور انہیں بتایا۔ وفاق کا خاص شمارہ شائع ہو رہا ہے، مصطفی صادق صاحب نے یہ تجویز منظور کر لی ہے میں نے ان سے کہا ہے کہ آپ مولانا مودودیؒ کی آمد کے چند روز بعد مولانا اصلاحی کو سرگودھا بلائیں، ان کے درس قرآن کا پروگرام رکھیں۔ اسعد گیلانی صاحب اور جماعت کے دوسرے رفقا کو اس میں شمولیت کی دعوت دیں یہ سب لوگ مولانا اصلاحی کا درس سنیں گے۔ اس طرح جماعت کے ان رہنماؤں کے درمیان قربت کی راہ دوبارہ ہموار ہو گی۔ اسعد صاحب نے میری تجویز پورے انہماک سے سنی اور سینے پر ہاتھ رکھ کر اثبات میں جواب دیا اور مخصوص قہقہے کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔
ہم نے اگلے روز نوائے وقت میں وفاق کے جماعت اسلامی نمبر کا اشتہار شائع کرا دیا۔ مضامین نگاروں کی فہرست میں مولانا امین احسن اصلاحی کا اسم گرامی بھی شامل تھا۔ وفاق کے جماعت اسلامی نمبر کا اعلان جماعت کے حلقوں میں حیرت و استعجاب کا باعث بنا اور جب یہ شائع ہو گیا تو اگرچہ مولانا امین احسن اصلاحی کی طرف سے مصطفی صادق کو سخت جھاڑ کا ایک خط پڑھنے کو ملا مگر یہ شمارہ جہاں جماعت اسلامی کے حلقوں میں مصطفی صادق صاحب کی دوبارہ پذیرائی اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی سے ازسرنو رابطے کا ذریعہ بنا، وہاں جماعت اسلامی اور اس کے قائد مولانا مودودی سے اختلاف کا اظہار کر کے الگ ہونے والوں کے درمیان تلخی کم کرنے کا باعث بھی ہوا۔ اس کوشش کو مزید تقویت اس وقت ملی جب مصطفی صادق صاحب نے چند دنوں بعد مولانا اصلاحی کو جو مولانا مودودی کے دیرینہ ساتھی چودھری نیاز علی خاں سے ملاقات کے لئے جوہر آباد جا رہے تھے، سرگودھا میں چند گھنٹوں کے لئے رُکنے اور درس قرآن دینے کی دعوت دی۔ درس کے اس اجتماع میں شامل ہونے والوں میں سید اسعد گیلانی، مولانا عبدالرحمن ہاشمی، حکیم مشتاق احمد اصلاحی، چودھری محمد سلیم اور محمد محبوب شاہ ہاشمی پیش پیش تھے۔ جماعت کے یہ رہنما مولانا اصلاحی سے گلے مل کر روتے رہے اور ان سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے رہے۔ اس سارے کام کا سہرا سید اسعد گیلانی کے سر تھا۔ جماعت کے اس اجتماع کے بعد وفاق نے اجتماع کی تفصیلی کارروائی پر مشتمل روداد نمبر شائع کیا۔ یہ سارے کا سارا شمارہ راقم نے مرتب کیا جس پر سید اسعد گیلانی نے تعریف و تحسین کا اظہار کیا۔
1965ء میں جب وفاق لاہور سے بھی شائع ہونے لگا تو مصطفی صادق اور میں لاہور منتقل ہو گئے اور سید اسعد گیلانی سے قُربت کا وہ تعلق برقرار نہ رہا جو جماعت اور وفاق کے دفاتر اور ہماری رہائش کی ہمسائیگی کا قدرتی نتیجہ تھا لیکن آنے والے دنوں میں مجھے ان کی طرف سے اخلاص و محبت کی جو نعمت حاصل ہوتی رہی اس میں کچھ عرصہ کی اس ہمسائیگی اور رفاقت کے اثرات نمایاں رہے۔
1977-78ء میں جب ہم نے تجارت پرنٹرز کے نام پر ایک طباعتی ادارہ قائم کیا اور میرے والد قاضی سراج الدین سرہندی مرحوم نے اس ادارے کی نگرانی کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو سید اسعد گیلانی نے اپنی مطبوعات کی طباعت کا کام ہمارے پریس کو سونپ دیا۔ والد صاحب نے جن کے معیار پر کسی شخص کا پُورا اترنا معجزے سے کم نہ ہوتا تھا۔ سید اسعد گیلانی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اپنی زندگی میں بے شمار سیاست دانوں، علما، مشائخ اور پیروں سے واسطہ پڑا، مالی معاملات میں، میں نے سید اسعد گیلانی سے بہتر شخص نہیں پایا۔ والد صاحب سید اسعد گیلانی کے کردار کی اس خوبی کے اس حد تک مداح اور معترف تھے کہ کچھ دنوں بعد انہوں نے بتایا کہ میں نے سید اسعد گیلانی سے دریافت کیا کہ وہ سال ہا سال سے کتابیں چھپوا رہے ہیں، کیا دفتری خانے سے تیار شدہ کتابیں وصول کرتے ہوئے انہوں نے کبھی ان کی گنتی بھی کی ہے؟ تو اسعد صاحب نے اس کا جواب نفی میں دیا۔ اس وقت ان کی ایک کتاب دفتری کے پاس تھی۔ اسعد گیلانی صاحب نے والد کے اس مشورے کی روشنی میں کتابوں کی گنتی کروائی مطبوعہ تعداد سے ایک سو کتابیں کم تھیں۔ کتاب کی قیمت کے مطابق اس کی رقم پانچ ہزار روپے بنتی تھی۔ اسعد صاحب، والد مرحوم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے تھے، میں نے قاضی صاحب سے کاروبار کے کئی گُر ایسے سیکھے جن سے لاعلمی کے باعث میں بہت نقصان اٹھاتا رہا تھا۔
سید اسعد گیلانی کی ذات حقیقت میں ایک فرد نہیں ایک ادارہ تھی۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے لئے شب و روز جس طرح کام کیا، وہ 50 سال میں کسی طرح 90 سال سے کم نہ تھا۔ انہیں جماعت اسلامی کے یوم تاسیس سے اب تک اگر سب سے زیادہ عملی کام کرنے والا کارکن قرار دیا جائے تو اس میں قطعاً مبالغہ نہیں ہو گا۔ اس طرح تصنیف و تالیف کے شعبے میں جماعت کے فکری و نظریاتی محاذ پر انہیں مولانا مودودیؒ کے بعد سب سے زیادہ کام کرنے کا شرف حاصل رہا۔ اُنہوں نے ایک اخبار نویس کی حیثیت میں جو تاریخی کام کیا، وہ صحافت کے طالب علموں کے لئے تحقیق و تجسس کا موضوع بننا چاہئے۔ میرے تصور میں جن جرأت مند ایڈیٹروں کی تصویریں سجی ہوئی ہیں ان میں اسعد گیلانی کا پورٹریٹ سب سے زیادہ پُرکشش ہے۔ کاش جہان نو زندہ رہتا، ہفتہ وار سے روزانہ ہوتا اور کراچی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دوسرے شہروں سے بھی شائع ہوتا اور قوم اپنے دور کے ایک روشن دماغ ایڈیٹر سے محروم نہ ہو پاتی۔ اس طرح صحافت کا نقشہ ہی مختلف ہوتا، ہماری سیاست کا رخ بھی کچھ اور ہوتا۔ سید اسعد گیلانی کی خدمات کا ایک مضمون میں احاطہ کرنا ممکن نہیں اور نہ ہی مجھ جیسے شخص کے لئے اس کے تقاضے پورے کرنا ممکن ہے۔ ان سے بے پایاں عقیدت و محبت کا کسی اخباری مضمون میں شایان شان اظہار نہیں ہو سکتا۔ ان کی یاد تازہ کرنے کے لئے فی الحال اپنی چند واقعات کے تذکرے پر اکتفا کرتا ہوں، ان کی زندگی ایک جامع کتاب کا تقاضا کرتی ہے اور یہ حق ان جیسی خوبیوں کے حامل ان کے بیٹے سید فاروق حسن گیلانی اور ان کے مصنف دوست ہارون الرشید ہی ادا کر سکیں گے اور انہیں یہ حق ادا کرنا بھی چاہئے۔ اور اب یہ کام اُن کی پوتی مریم گیلانی بھی انجام دے سکتی ہیں جو اب ماشاء اللہ ایک جانی پہچانی کالم نویس بن چکی ہیں۔ فاروق گیلانی سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو چکے اور مریم گیلانی اپنے تیز و تند کالموں اور وزیر ریلوے کی خواہش کے مطابق ان کے حلقہ کے نوجوانوں کو ملازمتیں نہ دینے کی پاداش میں معطلی اور تنزلی کی سزائیں بھگت رہی ہیں۔