آپ صورتحال ملاحظہ کیجیے۔
میاں نواز شریف کے فلیٹس کا قصہ 1970ء کی دہائی میں شروع ہوا‘ شریف فیملی کا دعویٰ ہے ہم نے ستر کی دہائی میں قطر کے شاہی خاندان کو بارہ ملین درہم سرمایہ کاری کے لیے دیے تھے‘ یہ رقم اس دور میں چھ سات کروڑ روپے بنتی تھی‘ یہ آج کے دور میں 35 کروڑ ہو چکی ہے‘ قطری شہزادے حمد بن جاسم کے مطابق ہم لندن میں بے شمار جائیدادوں کے مالک ہیں‘ ہمارے شریف فیملی کے ساتھ خاندانی مراسم ہیں‘ میرے سب سے بڑے بھائی نے شریف خاندان کو ایون فیلڈ ہاؤس پارک لین لندن کے تین فلیٹس میں رہائش کی اجازت دی۔
یہ لوگ ان فلیٹس میں رہائش پذیر رہے‘ ہم نے 2006ء میں یہ تینو ں فلیٹس آف شور کمپنیوں سمیت حسین نواز کے نام منتقل کر دیے‘ شہزادہ حمد بن جاسم نے یہ بیان تحریری خط کی شکل میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرایا‘ یہ خط قطر کی حکومت اور پاکستانی سفارت خانہ سے تصدیق شدہ تھا‘ سپریم کورٹ نے 5مئی 2017ء کو فلیٹس کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی۔
شہزادہ حمد بن جاسم نے جے آئی ٹی کو بھی لکھ کر دے دیا ’’میں اپنے خط کی تصدیق کرتا ہوں‘‘ شہزادہ جے آئی ٹی کی تفتیش کے لیے بھی تیار تھا لیکن جے آئی ٹی کی خواہش تھی شہزادہ پاکستان آئے اور شریف فیملی کی طرح باقاعدہ جوڈیشل اکیڈمی میں پیش ہو کر تفتیش کا سامنا کرے مگر شہزادہ پاکستان آنے کے لیے تیار نہیں تھا تاہم اس نے جے آئی ٹی کو دوہاآنے کی دعوت دے دی‘ یہ شرط جے آئی ٹی کو قبول نہیں تھی یوں یہ معاملہ پھنس گیا‘ یہ پانامہ ایشو کی واحد منی ٹریل کی بیک گراؤنڈ تھی‘ ہم اس بیک گراؤنڈ کی بنیاد پر فرض کر لیتے ہیں‘ شریف فیملی کا دعویٰ غلط ہے۔
میاں شریف نے قطری خاندان کو کوئی رقم نہیں دی یا یہ 12ملین درہم قانونی طریقے سے دوبئی سے قطر اور قطر سے لندن نہیں گئے یا پھر یہ فلیٹس 2006ء کے بجائے 1993ء میں خریدے گئے تھے اور یہ تمام ترسیلات ’’منی لانڈرنگ‘‘ تھی‘ ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں یہ فلیٹس 12 ملین درہم کے بجائے ایک ارب روپے میں خرید گئے تھے اور شریف فیملی نے یہ رقم ہنڈی کے ذریعے لندن بھجوائی تھی اور ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں حدیبیہ پیپر مل اور التوفیق بینک کے تمام انکشافات بھی حقیقت ہیں اور شریف فیملی ماضی میں منی لانڈرنگ کرتی رہی‘ ہم اگریہ تمام مفروضے مان بھی لیں تو بھی دو باتیں سامنے آئیں گی۔
یہ رقم ایک دو ارب روپے سے زیادہ نہیں تھی اور یہ جرم منی لانڈرنگ تک محدود تھا اور یہ رقم رشوت‘ کک بیکس یا کمیشن نہیں تھی‘ کیوں؟ کیونکہ یہ ثابت کرنا تقریباً ناممکن ہو گا جب کہ میں اس کے مقابلے میں ایک ایسا کیس بار بار قوم کے سامنے لا رہا ہوں جس میں مزدوروں اور چھوٹے ملازمین کی پنشن کے 44 ارب روپے لوٹ لیے گئے تھے‘ یہ رقم سرکاری خزانے سے اڑائی گئی لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ‘یہ ای او بی آئی کا 44 ارب روپے کا اسکینڈل ہے اور یہ شریف خاندان کے تین فلیٹس کے مقابلے میں ہزار گنا بڑا ایشو ہے لیکن آپ ریاستی اداروں کی ترجیحات دیکھ لیجیے۔
شریف فیملی کے تین فلیٹس کے لیے سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ بنا‘ سپریم کورٹ تاریخ میں پہلی بار ٹرائل کورٹ بنی‘ یہ کیس پہلے تین ماہ 24 دن عدالت میں چلا‘ پوری قوم ٹیلی ویژن پر تماشہ دیکھتی رہی‘ پھر یہ کیس وزیراعظم کو گاڈ فادر قرار دے کر جے آئی ٹی کے حوالے کر دیا گیا۔
جے آئی ٹی نے 62 دنوں میں 56 سماعتیں کیں‘ سماعتوں کے دوران جوڈیشل اکیڈمی کے سامنے روزانہ تھیٹر لگتا رہا‘ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف ایک دوسرے اور ریاستی اداروں پر الزامات دھرتی رہیں‘ سپریم کورٹ تک کے کردار کو مشکوک قرار دے دیا گیا‘ الزام بازی کے اس بازار میں ملک اور معیشت کا دیوالیہ نکل گیا لیکن فلیٹس کی منی ٹریل نہ نکل سکی‘ یہ کیس ابھی ختم نہیں ہوا‘ یہ مزید چلے گا۔
یہ 2018ء کے الیکشنوں تک جائے گا جب کہ اس کے مقابلے میں ای او بی آئی کا کیس ہزار گنا بڑا تھا‘ اس میں حقیقتاً سرکاری خزانہ لوٹا گیا تھا اور اس لوٹ مار میں ملک کی چار بڑی سیاسی جماعتیں‘ بیورو کریسی‘ سابق آرمی چیف کے بھائی اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے رشتے دار شامل تھے‘ وزیراعظم نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ‘ یہ کیس براہ راست سپریم کورٹ نے شروع کیا تھا لیکن سپریم کورٹ کے سوموٹو نوٹس کے باوجود مجرم گرفتار ہوئے‘ منی ٹریل سامنے آئی اور نہ سرکاری خزانے سے لوٹی رقم واپس آئی‘ یہ کیس آج بھی سپریم کورٹ کے سرد خانوں میں انصاف کی گرم نگاہوں کا منتظر ہے۔
ہمیں آج ماننا ہوگا ہم نے 12 ملین درہم کو ایشو بنا کر وزیراعظم کی عزت مٹی میں ملا دی لیکن پاکستان کا کوئی ادارہ44 ارب روپے لوٹنے کے باوجود آج تک ای او بی آئی کیس کے مرکزی ملزم کا بال تک بیکا نہیں کر سکا‘ ایف آئی اے تک تحقیقات مکمل نہیں کر سکی‘ اس کی تفتیش نہیں ہو سکی‘ کیوں؟ آخر کیوں؟ اس کیوں کا جواب بہت دلچسپ ہے‘ ملزم شاطر بھی ہے اور ریاست کے تمام اہم ستون بھی اس کے ساتھ ہیں چنانچہ یہ خزانے کو 44 ارب روپے کا نقصان پہنچا کر بھی گھر بیٹھا ہے جب کہ 12 ملین درہم کا ’’گاڈ فادر‘‘ پورے خاندان سمیت عدالتوں‘ تفتیشی ٹیم اور میڈیا میں دھکے کھا رہا ہے۔
آپ ای اے بی کیس کے ملزم کا کمال ملاحظہ کیجیے‘ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 29 جون 2013ء کو سوموٹو نوٹس لیا‘ کنور واحد خورشید نے کراچی میں ایف آئی کے سامنے تمام سچ اگل دیے‘ یہ 18 جائیدادیں کس کس سے کن شرائط پر خریدیں اور کس نے کتنی رقم بنائی‘یہ تمام حقائق سامنے آ گئے‘ ایف آئی اے نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارنا شروع کر دیے‘ مرکزی ملزم سکھر فرار ہو گیا۔
یہ وہاں ایک سیاسی لیڈر کے پاس پناہ گزین ہو گیا‘ ایف آئی اے گرفتاری کے لیے چھاپے مارتی رہی اور یہ وہاں چھپا رہا‘ اس نے اس دوران اپنا موبائل فون ڈرائیور کے ذریعے بلوچستان میں تفتان بارڈر تک پہنچا دیا اور ساتھ ہی یہ خبر پھیلا دی ’’ملزم ایران فرار ہوگیا‘‘ مگر ایف آئی اے جھانسے میں نہ آئی‘ یہ اس دوران ’’پروٹیکشن بیل‘‘ لے کر وکلاء کے جلوس میں ایف آئی اے کے سامنے پیش ہو گیا‘ پروٹیکشن بیل کے دوران تفتیش ممکن نہیں ہوتی چنانچہ ایف آئی اے اس سے تفتیش نہ کرسکی‘ یہ 23 ستمبر 2014ء کو سپریم کورٹ پیش ہوا۔
ایف آئی اے نے ساری کہانی جج صاحب کے سامنے رکھ دی‘ سپریم کورٹ نے ضمانت منسوخ کر دی‘ یہ اپنے وکیلوں کے ساتھ بھاگ کر سپریم کورٹ بار میں پناہ گزین ہو گیا‘ بار کے صدر نے تین گھنٹے بعد اسے زبردستی باہر نکالا اور یوں یہ اسلام آباد میں پولیس کی حراست میں چلا گیا‘ پولیس نے اسے جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھجوا دیا‘ اب ایف آئی اے کی ٹیم لاہور تھی‘ ٹرائل کورٹ بھی لاہور میں تھی مگر ملزم راولپنڈی میں تھا‘ ایف آئی اے اسے مہینوں لاہور نہیں بلا سکی۔
یہ جب بھی راولپنڈی سے لاہور لے جایا جاتا تھا‘ راستے میں جیل کی گاڑی ’’خراب‘‘ ہو جاتی تھی اور یہ واپس جیل پہنچا دیا جاتاتھا‘ یہ جس دن لاہور پہنچ جاتا تھا اس دن جج صاحب ’’چھٹی‘‘ پر ہوتے تھے‘ ملزم کا کیس عدالت کے پاس لگتا رہا اور یہ ہمیشہ بے چارہ ثابت ہوتا رہا‘ یہ اس دوران بے شمار مرتبہ ’’بیمار‘‘ بھی ہوا‘ یہ بیماری بھی عدالت میں اس کی حاضری کے راستے میں رکاوٹ بنتی رہی‘ ایف آئی اے کے دو ڈائریکٹر جنرل اس کے سفارشی تھے‘ یہ دباؤ ڈالتے رہے لیکن انسپکٹروں کے ایمان میں دراڑ نہ آئی‘ یہ ڈٹے رہے لیکن پھر یہ بے چارے بھی ہار گئے‘ سسٹم جیت گیا۔
ایف آئی اے کے افسروں نے ملزم سے تفتیش کے بغیر لکھ کر دے دیا‘ ہم ’’منی ٹریل‘‘ تلاش نہیں کر سکے یوں خزانے کو 44 ارب روپے کا ٹیکہ لگانے والا شخص 30 جنوری 2017ء کو ضمانت پر گھر چلا گیا‘ یہ اب مزے کی زندگی گزار رہا ہے‘ اس نے چند دن پہلے بیان جاری کیا میں نے جو جائیدادیں خریدی تھیں وہ اب سو ارب روپے کی ہو گئی ہیں‘ واہ کیا استدلال ہے؟ یہ استدلال قتل کا ہر ملزم عدالت میں پیش کر کے باعزت بری ہو سکتا ہے‘ یہ جج صاحب سے درخواست کرے جناب مقتول نے کسی نہ کسی دن مر ہی جانا تھا‘ میں نے مار دیا تو کیا خرابی کی۔عدلیہ کو چاہیے‘یہ اس نقطے کو قانون کا حصہ بنا دے تاکہ مستقبل میں انصاف آسان ہو جائے۔
آپ سسٹم کا کمال ملاحظہ کیجیے‘ ہم ایک طرف شریف خاندان کی چالیس سال پرانی منی ٹریل تلاش کر رہے ہیں اور دوسری طرف ای او بی آئی کیس کے ملزم کی تین سال پرانی منی ٹریل فائلوں میں دبی پڑی ہے‘ ہم ایک طرف شریف فیملی کے خلاف پاکستان‘ دوبئی‘ قطر اور لندن میں تحقیقات کر رہے ہیں‘ ہم نے 12 ملین درہم کے لیے جے آئی ٹی بنا دی اور ہم نے پورے خاندان کو جوڈیشل اکیڈمی بلا لیا لیکن دوسری طرف خزانے سے 44 ارب روپے لوٹنے والا اسلام آباد میں دندناتا پھر رہا ہے اور سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود ایف آئی اے اس سے تفتیش نہیں کر سکی۔
شریف فیملی کا کیس جرمنی کے ایک اخبار نے کھولا‘ ہم نے اسے تاریخ کا سیریس ترین کیس بنا دیا اور دوسری طرف ای او بی آئی کیس سپریم کورٹ نے شروع کیا اور یہ کیس سپریم کورٹ کی فائلوں ہی میں گم ہو کر رہ گیا‘ کیوں؟ یہ کیا ہے اور کیا ہم 44 ارب روپے کو رقم نہیں سمجھتے اور کیا یہ کرپشن نہیں؟ اگر نہیں تو پھر مہربانی فرما کر کرپشن کی نئی تعریف وضع کر دیں تاکہ قوم کو احتسابی مغالطے سے نکلنے میں آسانی ہو جائے۔