صاحبزادہ سید خورشید احمد گیلانی سے میری آخری ملاقات گنگا رام ہسپتال میں ہوئی۔ انہیں آکسیجن لگی ہوئی تھی، چہرہ مرجھا چکا تھا اور جسم سوکھ چکا تھا۔ موت ان کے سرہانے کھڑی دکھائی دیتی تھی لیکن وہ مقابلہ کر رہے تھے۔ بیڈ کے قریب بیٹھ کر ان کا چھوٹا بھائی انہیں اخبار پڑھ کر سنا رہا تھا۔ میں نے حال چال پوچھا تو انہوں نے اپنی بیماری اور تکلیف کا ذکر کرنے کے بجائے مجھ سے پوچھا ’’میرے کالموں کی کتاب آپ کو کیسی لگی، گٹ اَپ کیسا تھا‘‘ مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے انہیں اپنے سفر آخرت کے متعلق سب کچھ معلوم ہو اور انہوں نے ایک حقیقت کو اٹل سمجھ کر قبول کر لیا ہو۔ ایک دو مرتبہ نوائے وقت کے دفتر میں بھی میری ان سے ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ ہمارے ڈپٹی ایڈیٹر ارشاد احمد عارف کے سگے بھائی تھے لیکن بہت عرصے بعد مجھے پتہ چلا کہ بڑے نہیں چھوٹے بھائی تھے۔ وہ پہلی بیماری سے اٹھ کر آئے تو اتنے صحت مند لگتے تھے جیسے کبھی بیمار نہ ہوئے ہوں۔ ہسپتال میں ایک دو ڈاکٹروں سے میری جان پہچان ہے۔ وہ بڑی حیرت کا اظہار کرتے تھے کہ یہ ایک ایسا مریض ہے جو کبھی اپنی تکلیف کا اظہار تک نہیں کرتا۔ خاموشی سے اس طرح لیٹا رہتا ہے جیسے کسی ایسے مہمان کے انتظار میں ہو جو ضرور آئے گا۔ آدمی دکھ اور بیماری سے دوچار ہو تو وہ دوا کرنے کے ساتھ ملنے والوں سے دعا کرنے کی بھی فرمائش کرتا ہے لیکن دعا کے بارے میں بھی ان کا ایک اپنا نقطہ نظر تھا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:۔
’’رحمت رب کو پیسہ یا حوالہ درکار نہیں ہوتا بس ایک حیلہ مطلوب ہوتا ہے، اس لئے جہاں دُعا کا ساتھ لفظ چھوڑ جاتے ہیں، جملے پیچھے رہ جاتے ہیں اور حرف جواب دیتے جاتے ہیں، وہاں کوئی حیلہ کام آجاتا ہے، خواہ وہ دل کی تیز دھڑکن ہو، جسم کی کپکپی ہو، روح کی بیقراری ہو، آنکھوں کی اشکباری ہو، دامن کا بے ساختہ پھیلاؤ ہو، ہاتھوں کا گدایانہ ارتعاش ہو، لہجے کا اضطراب ہو اور کچھ بھی میسر نہ ہو تو گناہوں کا اعتراف ہی قبولیت دُعا کا زینہ بن جاتا ہے، بندہ بے صبرانہ ہو، لمحوں میں قطع منازل کا اسے لپکا نہ ہو، ذرا لذت انتظار کا آشنا ہو، پھر دیکھئے کہ عرش اور فرش کا فاصلہ کیسے گھٹتا ہے، افلاک اور خاک کا کیسے ملاپ ہوتا ہے اور آقا و بندہ کیسے ہم کلام ہوتے ہیں‘‘
گیلانی صاحب نے اپنے پیچھے کالموں کے آخری مجموعے قلم برداشتہ سمیت سات کتابیں چھوڑی ہیں۔ انہیں دنیاوی دولت سے کبھی غرض نہیں رہی اس لئے ایک سوگوار خاندان کیلئے وافر دکھ اور مصیبتیں بھی چھوڑ گئے ہیں۔
ہمارے کولیگ اسراربخاری صاحب کا گیلانی صاحب سے گہرا تعلق رہا ہے۔ وہ انہیں اس وقت سے جانتے ہیں جب مرحوم طالب علمی کی ابتدائی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ بخاری صاحب بتاتے ہیں کہ ’’ایک طالب علم کی مالی استطاعت محض اتنی ہوتی ہے کہ وہ ایک آدھ وقت کا کھانا ہی کھا لے مگر گیلانی صاحب اپنے اس دور میں بھی اکثر کھانا کھانے کے بجائے کوئی کتاب خرید کر علمی تشنگی بجھانے کا سامان کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ بخاری صاحب نے بتایا کہ ان سے میرے تعلق کا عرصہ کوئی پچیس برس پر محیط ہے جس میں میری جانب سے کئی وقفے بھی آتے رہے تاہم ان کے ساتھ ایسے طویل مباحثے آج بھی لوح یادداشت پر محفوظ ہیں جن کے موضوعات اکثر و بیشتر علم کلام کے موضوعات ہوا کرتے تھے۔ وہ روایتی اور رجعت پسندانہ مکتب فکر سے کوسوں دور تھے۔ علوم کے بے شمار شعبوں کے مالہ و ماعلیہ پر دسترس رکھتے ہوئے وہ اپنا ایک عقلی و فکری مسلک بھی رکھتے تھے۔ میرا اوراُن کا تصوف سے شغف مشترک تھا۔ علالت کے آخری ایام میں بھی انہوں نے مجھے برسوں پہلے کی وہ آئیڈیل خانقاہ قائم کرنے کے بارے میں یاد دلایا جس کے قیام، نصاب اور نظام کی بابت ہم دونوں نے کبھی پر سکون راتوں میں گھنٹوں غوروخوض کے بعد قول و قرار کئے تھے۔ اسرار بخاری کے بقول صاحبزادہ صاحب کا ذوق شعر، شعر گوئی سے بھی زیادہ بالغ تھا، ان کی ایک ذاتی ڈائری آج بھی ان کے لواحقین کے پاس محفوظ ہے جس میں فارسی اور اُردو کے ایسے اشعار کا انتخاب موجود ہے جنہیں فی الواقع شعر مانا جا سکتا ہے۔ صاحبزادہ صاحب کی رفتار ہی شاید ان کے اختتام کا باعث تھی۔قسام ازل نے تفہیم کی جو برق صفت صلاحیت ان کو عطا کی تھی وہ ان کو نگاہوں اور دماغوں کا مرکز بنا دیتی تھی یہی وجہ ہے کہ ان کا لطیف وجود کم مدت میں ڈھیروں اثرات مرتب کرکے شتابی سے رخصت ہو گیا‘‘۔
زندگی اور اس کے رشتے عجیب ہوتے ہیں۔ زندگی کا انجام موت کے سوا کچھ نہیں اور رشتے ٹوٹنے کیلئے بنتے ہیں۔ شروع شروع میں بہت دکھ دیتے اور رلاتے ہیں پھر وقت زخموں کو مندمل کر دیتا ہے اور ایک کسک سی باقی رہ جاتی ہے جسے احمد مشتاق نے یوں بیان کیا ہے
رہ گیا مشتاق دل میں رنگ یاد رفتگاں
پھول مہنگے ہو گئے قبریں پرانی ہو گئیں
(9جون 2001ء)