ہفتے کو ”لاہور کے وزیراعظم“ نواز شریف حسبِ معمول لاہور تشریف لے آئے۔ میر ا خیال تھا ”جواب شکوہ“ کے طور پر اس بار ویک اینڈ پر وہ کے پی کے میں ہوں گے، کیونکہ اس ویک اینڈ پر عمران خان لاہور میں تھا۔ ممکن ہے اس خدشے کے تحت وہ لاہورآ گئے ہوں عمران خان لاہور کہیں چھین کر نہ لے جائے، جس کے اچھے خاصے حالات بنتے جا رہے ہیں۔ لاہور کے گورنر ہاﺅس میں اپنے پسندیدہ صحافیوں کے ساتھ انہوں نے ملاقات بھی کی۔ کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لئے بطور خاص اہتمام کیا گیا تھا صرف انہی صحافیوں کی ان سے ملاقات کروائی جائے جنہیں وہ پسند کرتے ہیں اور جواباً وہ صحافی بھی انہیں پسند کرتے ہیں۔ عمران خان وزیراعظم بن گیا تو اُمید ہے اُنہیں بھی وہ ویسے ہی پسند کرنے لگیں گے جیسے موجودہ وزیراعظم کو کرتے ہیں۔ ہمارے ایک محترم صحافی کو عمران خان کی”اے ٹی ایم مشینوں“ پر بڑا اعتراض ہے۔ اُن کی ”خدمت“ میں عرض ہے زیادہ اعتراض خود ان کے لئے اس ہوالے سے سود مند نہیں کل کلاں وہ اقتدار میں آگیا تو اُن کی ”خدمت “وہ ویسے نہیں کر سکے گا جس کی موجودہ حکمرانوں نے اُنہیں عادت ڈالی ہوئی ہے۔ وہ تو کسی کو چائے کی پیالی نہیں پوچھتا۔ ایسی صورت میں میرے کچھ صحافی دوستوں کی ضرورتیں اس کی”اے ٹی ایم مشینیں “ ہی پوری کر سکیں گی…. کسی چینل پر میں دیکھ رہا تھا وزیراعظم کی صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں صحافیوں کی نشستیں بہت سوچ سمجھ کر مختص کی گئی تھیں۔ جو جتنا وزیراعظم کے حق میں لکھتا یا بولتا ہے اس کی نشست وزیراعظم کے اتنے ہی قریب رکھی گئی تھی۔ پی ٹی وی کے چیئرمین عطاءالحق قاسمی سب سے قریب تھے۔ کسی صحافی کے ”گول مول“ سے ایک سوال پر وزیراعظم کو قاسمی صاحب کا ایک پرانا کالم یاد آ گیا جس میں انہوں نے لکھا تھا”ستائیس ارب کی موٹروے میں ایک سو ستائیس ارب کا گھپلا ہو گیا“۔…. ظفر اقبال کا ایک شعر ہے”جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی اس پررہو ظفر ۔آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئے“…. قاسمی صاحب ایسے”صاحب کردار“ کی وزیراعظم دل سے عزت کرتے ہیں تو یہ ان کا حق بنتا ہے۔ میں سوچ رہا تھا میں وزیراعظم بن گیا تو میں بھی دل سے اُن کی عزت کروں گا۔ بہرحال صحافیوں کے ساتھ وزیراعظم کی نشست اس حوالے سے بڑی کامیاب رہی وہاں کوئی ایسا سوال نہیں پوچھا گیا جواُنہیں ناگوار گزرتا۔ وزیراعظم کو یقیناً ایسے ہی محسوس ہو رہا ہو گا جیسے وفاقی کابینہ کے اجلاس کی وہ صدارت کررہے ہیں۔ ہمارے ایک محترم کالم نویس دوست بڑے حیران پریشان تھے کہ وزیراعظم کے خلاف اُنہوں نے کبھی کھل کر نہیں لکھا، خصوصاً پانامہ لیکس کے حوالے سے تو کچھ بھی نہیں لکھا، اس کے باوجود گورنر ہاﺅس میں انہیں کیوں مدعو نہیں کیا گیا؟ میں نے عرض کیا”وزیراعظم کے خلاف کھل کر نہ لکھنا اور بات ہے اوروزیراعظم کے حق میں کھل لکھنا اور بات ہے۔ آپ اب تک وزیراعظم کے خلاف کھل کر نہیں لکھتے رہے، اب ذرا کھل کر ان کے حق میں لکھ کر دیکھیں ممکن ہے آپ کی دال بھی گل جائے یا آپ کی”لاٹری“ بھی نکل آئے“…. ایک کالم نویس نے کسی حکمران سے گلہ کیا”میں نے ہمیشہ آپ کے حق میں کھل کر لکھا، اس کے باوجود آپ میرا فون سنتے ہیں نہ میرے کسی میسج کا جواب دیتے ہیں جبکہ فلاں کالم نگار نے کبھی آپ کے حق میں نہیں لکھا، اس کے باوجود آپ اس کے فون سنتے ہیں اُس کے جائز ناجائز کام بھی کرتے ہیں“…. حکمران بولا”اُس کالم نویس کے کام میں اِس لئے نہیں کرتا کہ وہ میرے حق میں نہیں لکھتا ،اس کے کام تو میں اِس لئے کرتا ہوں کہ وہ میرے خلاف نہیں لکھتا“…. سو ہمارے اکثر لکھنے والے اب بڑے سیانے ہو گئے ہیں۔ اُنہیں سب پتہ ہوتا ہے کس کے حق میں لکھ کر کتنے فائدے اٹھانے ہیں اورکس کے خلاف نہ لکھ کر کتنے اٹھانے ہیں؟ آج وہ ایک سیاسی حکمران کے حق میں لکھ کر اسے کوئی فائدے پہنچا رہے ہیں تو کل کلاں حسب ِمعمول کسی فوجی حکمران کے خلاف نہ لکھ کر اُسے فائدے پہنچا رہے ہوں گے اور اِس پر ”جمہوریت پسندی “ کے تمغے بھی حاصل کر رہے ہوں گے…. جہاں تک ناروے کے سابقسفیر، لاہورآرٹس کونسل کے سابق اورپی ٹی وی کے موجودہ چیئرمین عطائالحق قاسمی کا تعلق ہے توہمارے دلوں میں اُن کی عزت قائم رہتی اگر ”درباری عہدے“ قبول کئے بغیر وزیراعظم اوران کے خاندان کے گن وہ گاتے رہتے۔ اب ان کے ”راگ درباری“ کو لوگ اچھی طرح سمجھتے ہیں اوروزیراعظم بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں ایسے لوگوں کو مستقل طورپر قابوکیسے کیاجاسکتاہے۔ البتہ اس حوالے سے قاسمی صاحب کی تحسین ضروربنتی ہے اب کے بار زیادہ بڑے عہدوں کی لالچ میں وہ نہیں پڑے۔ ناروے کی سفارتکاری کے بعد لاہورآرٹس کونسل کی اعزازی چیئرمینی تو بالکل بھی اُن کے شایان شان نہیں تھی۔ مگر اسے بھاگتے چور کی لنگوٹی سمجھ کر انہوںنے قبول کرلیا۔ کیونکہ انہیں پتہ تھا اس کے بعد شریف برادران نے اقتدارمیں آنا ہے۔ نہ ہی ان کی اپنی عمر مزید کسی ”درباری عہدے“ کے قابل رہنی ہے۔بہرحال ان سے زیادہ ہم ان کے ان عہدوں کےلئے دعاگوہیں جو اس وقت ان کی زندگی بنے ہوئے ہیں…. کچھ سینئر صحافی بغیر عہدے کے بھی ”خدمات “انجام دے رہے ہیں مگر فائدے اورمراعات بڑے سے بڑے کسی عہدے سے زیادہ حاصل کررہے ہیں۔ ہردورمیں کمال فنکاری سے وہ اسے اپنی ”جمہوریت پسندی“ قراردیتے ہیں۔ لوگوں کی آنکھوں میں وھول جونکنے کا فن کوئی ان سے سیکھے۔مرحوم جنرل ضیاءالحق کی خدمت بھی انہوںنے ویسے ہی کی تھی جیسے موجودہ وزیراعظم کی آج وہ کررہے ہیں۔ اورجنرل ضیاءالحق نے بھی ان کی خدمت ویسے ہی کی تھی جیسے موجودہ وزیراعظم آج اُن کی کررہے ہیں۔ اُن کی ”جمہوریت پسندی“ وزیراعظم کی ”جمہوریت پسندی“ سے ملتی جلتی ہے۔ جنرل ضیاءالحق ان سب کے سانجھے تھے۔ تب ان کی نظر میں ملک کو ”جمہوریت “سے خطرہ تھا آج اُس ”متوقع آمریت“ سے ہے جس کے بارے میں مجھے یقین ہے وہ اُن کےلئے اتنی ہی سودمندثابت ہوگی جتنی آج ”جمہوریت “ ہورہی ہے بلکہ ہوسکتاہے اُس سے کچھ زیادہ ہی ہو، مگر کاروبارصحافت ودیگر کاروباری مجبوریوں کے تحت موجودہ ”بچہ جمہوری حکمرانی“ جب تک ختم نہیں ہوتی اُس کےلئے اپنی حمایت بھی وہ ختم نہیں کرسکتے۔ پھر محبتوں کے نئے سلسلے شروع ہوںگے اور اُسی فنکاری سے اپنا مو¿قف یاپینترا وہ بدلیں گے جس فنکاری سے ہمیشہ بدلتے آئے ہیں اورذرا شرمندگی محسوس نہیں کرتے، یایہ نہیں سوچتے لوگ ان کے بارے میں کیاسوچیں گے؟…. کچھ اور ”معززین صحافت“ بھی اپنے نام نہاد ”جمہوریت پسندی“ کی آڑ میں موجودہ حکمرانوں کی حمایت میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوششوں میں ہیں۔ اصل جمہوریت اِس ملک میں ہو اُس کےلئے جان بھی حاضر ہے۔ مگر یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں حکمرانوں کو لوٹ مار کرنے کی ہمیشہ سے کھلی چھٹی رہی؟ جس میں عدل وانصاف کےلئے لوگ مارے مارے پھرتے ہیں؟ جس میں قتل کرنا نہیں قتل ہونا ایک جرم ہے؟ جس میں تعلیم اورصحت کی بنیادی سہولیات کو لوگ ترستے ہیں؟ جس میں کچھ لوگوں کواپنے گزربسر کےلئے اپنے بچے تک اب کرائے پر دینا پڑتے ہیں؟ جس کے سارے ثمرات حکمرانوں کے خاندان تک محدود ہیں؟ جس میں اپنے کیسوں کےلئے وکیل سے زیادہ جج کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے؟ جس میں رشوت لیتے ہوئے پکڑے جانے والا رشوت دے کر چھوٹ جاتاہے؟ جس میں جو جتنا بڑا ڈاکوہے اُتنا معزز ہے؟…. جمہوریت اورآمریت میں کوئی فرق نہیں رہا۔ اس مقام پر کون لے کر آیا؟ کیااُنہیں سزانہیں ملنی چاہےے؟ میرے نزدیک تو یہ بھی ایک سزا ہے اپنے اقتدارکی مدت پوری کرنے کا انہیں موقع ملے۔ مگر اِس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ گناہ وہ سارے جرم معاف کردیئے جائیں ملک کی تباہی کا جوباعث بنے۔ میرے کچھ صحافی دوست یہ خواہش رکھتے ہیں تو اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے اس کی آڑمیں اپنے کچھ گناہ اورجرائم بھی وہ معاف کرواناچاہتے ہیں!