عبداللہ ملک صاحب کے ساتھ ایک عہد ختم ہو گیا۔ تاریخ کا ایک باب تمام ہوا، مکالمے اور وضع داری کی ایک زندہ علامت دفن ہو گئی۔ اس مارکسٹس جنگجو کو آرام نصیب ہوا جو نظریات اور جمہوری آدرش کی سربلندی کیلئے 60 سال، کامل 60 برس دکھی انسانیت اور اپنے سماج کو بدلنے کیلئے سرگرم رہا۔ زمانے بیت گئے، کالے بال سفید ہوئے ۔مارکسی نظام کی زندہ علامت سوویت یونین زوال پذیر ہوا۔ لیکن یہ سب حوادث عبداللہ ملک کو ایک لمحے کیلئے بھی ان کے نظریات سے نہ ہٹا سکے، وہ مایوس ہوئے، نہ بددل۔ بیماری کے ہاتھوں مفلوج ہونے تک انہوں نے قلم پکڑے رکھا اور لکھتے گئے۔ خود میری موجودگی میں انہوں نے ہوش اور بے ہوشی کی سرحد پر لیٹے ہوئے اپنے معالج کو مسکرا کر اشارے سے کہا، ’’میرے دماغ کو روک دو یہ طاقتور اور جوان دماغ میرے جسم کو چین نہیں لینے دیتا‘‘۔
عبداللہ ملک مرحوم کی زندگی سیاسی کارکنوں، نظریاتی ورکروں اور خاص طور پر اخبار نویسوں کے لئے ایک مثال ہے۔ انہوں نے رپورٹر کے طور پر اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور ریٹائرمنٹ تک نہیں تھکے۔ وہ متحدہ ہندوستان میں برطانوی سامراج کے خلاف برسر پیکار رہے۔ 70ء کی دہائی تک عملی طور پر رپورٹنگ کرتے رہے۔ بیماری کے جان لیوا حملوں کے باوجود وفات سے تین ماہ پہلے تک نوائے وقت کیلئے لکھا۔ شدید تکلیف کے دوران بھی ’’وقفہ‘‘ پاتے ہی روزنامچہ لکھنا شروع کر دیتے۔ آخری ایام میں ملک صاحب کا عملی دنیا سے رابطہ ٹی وی نیوز چینلز اور ذاتی احباب تک محدود ہو گیا تھا لیکن بستر مرگ پر وہ جونہی بیماری کے جان لیوا حملوں سے سنبھلتے ،لیٹے لیٹے تجزیہ نگاری شروع کر دیتے۔ ایک تجزیہ نگار اور سینئر اخبار نویس کی حیثیت سے اپنے پیشے سے لگن کی اس سے بڑی کوئی مثال نہیں ہو سکتی کہ وہ ساری زندگی لکھنے اور پڑھنے میں لگے رہے۔ بے شمار نظریاتی مداح ان کے اردگرد رہے لیکن انہوں نے کبھی تقدس کا کوئی مصنوعی ہالہ اپنے گرد بنانے کی کوشش نہیں کی۔ ان کے حلقہ ارادت کی وسعتوں کا اندازہ گزشتہ روز پہلی بار اس وقت ہوا جب ان کے سفر آخرت میں دائیں بازو کے نامور احباب بھی بڑی تعداد میں شریک تھے۔
اپنی تمام تر مصروفیات اور معرکہ آرائیوں کے باوجود جناب عبداللہ ملک نے اپنے خاندان پر مکمل اور بھرپور توجہ دی۔ یہ ان کی ذاتی زندگی کا شاندار پہلو ہے۔ کامیاب باپ کی حیثیت سے انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں ڈاکٹر کوثر ملک اور سرمد ملک کو دنیا کی اعلیٰ ترین تعلیم دلائی۔ بیماری کے دوران ڈاکٹر کوثر ملک، ان کی بہو تسنیم اور پوتی میرا نے ملک صاحب کی دن رات خدمت اور نگہداشت کی۔ وجہ صرف خونی رشتہ نہیں، ان کی شخصیت کا وہ قابل فخر پہلو بھی تھا جسے کے آر ایل ہسپتال میں ملک صاحب کے سرہانے کھڑے ڈاکٹر کوثر نے یوں بیان کیا کہ ’’ہم اپنے باپ سے زیادہ عبداللہ ملک کی خدمت کر رہے ہیں‘‘ ۔ عبداللہ ملک مرحوم کے لکھے ہوئے متحدہ ہندوستان کے دور سے 14 اگست 1947ء تک کے روزنامچے شائع ہو چکے ہیں جبکہ قیام پاکستان کے بعد لمحہ بہ لمحہ روداد پر مشتمل روزنامچے اشاعت کیلئے آخری مراحل میں ہیں۔ ان سیاسی ڈائریوں میں بڑے تہلکہ خیز انکشافات کئے گئے ہیں۔ عبداللہ ملک صاحب کی زندگی میں ان کی اشاعت مشکل تھی لیکن بہرحال ان کی آخری خواہش یہی تھی کہ روزنامچے شائع ہونے چاہییں۔
سوویت یونین کے زوال کے بعد عالمی منظر پر امریکہ کے واحد سپر پاور کے طور پر اُبھرنے کی فلاسفی سے ملک صاحب نے کبھی بھی اتفاق نہیں کیا تھا۔ ان کی زندگی کے آخری ایام میں امریکہ نے طالبان حکومت کو ملیا میٹ کیا اور بعد ازاں عراق کو سبق سکھا دیا تھا لیکن ملک صاحب دنیا پر جارہ داری کی امریکی فلاسفی ’’یونی پولر ورلڈ‘‘ کی تھیوری کا مذاق اڑاتے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ خلا کبھی بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ قانون فطرت کے خلاف ہے۔ اس لئے امریکہ اپنی جارہ داری برقرار نہیں رکھ سکے گا اور مشرق وسطیٰ کے بحران سے نئے حوادث جنم لیں گے۔
1965ء میں روزنامہ امروز میں میری ان سے جان پہچان ہوئی اور بہت جلد ایک کبھی نہ ٹوٹنے والے تعلق میں بدل گئی۔ ٹریڈ یونین الیکشنوں کے معرکوں اور ہڑتالوں کے ہنگاموں میں قدم قدم پر میں ان کے ساتھ رہا۔ یحییٰ دور میں پی پی ایل کی ہڑتال ناکام ہونے پر عبداللہ ملک، آئی اے رحمن، اے ٹی چودھری مرحوم، منہاج برنا، حمید اختر، محمود بٹ اور میرے علاوہ 6 پریس ورکر برطرف ہوئے تھے۔ وہ دن اس وقت بڑے اذیت ناک لگتے تھے اور اب دلچسپ یادوں میں بدل گئے ہیں۔ رحمن صاحب ، ملک صاحب اور میں دن میں اپنے بیروزگار ساتھیوں کیلئے چندہ جمع کرتے تھے اور رات گئے تک اپنے وکیل کے دفتر میں گھنٹوں ڈیوٹی بھی دیتے تھے۔ وکیل صاحب ہمیں چائے تک نہیں پوچھتے تھے اور ہم مسلسل پانی پلا پلا کر بھوک سے بے حال جاتے تھے۔ 1970ء کا روزنامہ ’’آزاد‘‘ حمید اختر صاحب،عبداللہ ملک صاحب، آئی اے رحمٰن صاحب اور میں نے مل کر نکالا تھا۔ ملک صاحب پراُمید تھے کہ ملک دو ٹکڑے نہیں ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں ان کی خواہش تھی کہ ایسا نہ ہو۔ لیکن میرا خیال بلکہ اصرار تھا کہ پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ ’’اُدھر تم۔ اِدھر ہم‘‘ والی سرخی پر مرحوم مجھ سے بہت ناراض ہوئے اور میں معروضی حقائق اور واقعات کو گواہ بنانے کے باوجود انہیں اپنے دلائل سے قائل نہیں کر سکا کہ پاکستان دو حصوں میں بٹ جائے۔
میری یہ سرخی نہ صرف ملک کی صحافتی تاریخ کا حصہ بنی بلکہ بھٹو صاحب کیلئے اس طعنے کی بنیاد بن گئی کہ انہوں نے ’’ادھر تم، ادھر ہم‘‘ کہہ کر ملک کو دو ٹکڑے کروا دیا۔ یہ سرخی میں نے نشتر پارک کراچی کے جلسہ میں بھٹو صاحب کی ایک تقریر کے چند جملوں کی تشریح اور تاثر میں سے اخذ کی تھی۔ اس میں میرا اپنا یہ تجزیہ بھی شامل تھا کہ پاکستان دو حصوں میں بٹ جائے گا۔ ملک ٹوٹنے کے بعد میری یہ سرخی بھٹو صاحب پر فرد جرم بن گئی۔ الشمس اور البدر جیسی تنظیموں کی سرپرستی کرنے والی جماعت اسلامی کے لیڈروں سمیت پیپلز پارٹی کی تمام مخالف جماعتوں نے ایوب خان کی ناانصافیوں سے پیدا ہونے والی محرومیوں اور آخر میں نہتے مشرقی پاکستانی شہریوں پر ٹینکوں اور توپوں سے فوج کشی، قتل عام اور نسلیں بدلنے جیسے جرائم سمیت اس سانحہ کے اصل محرکات ایک طرف رکھ دئیے اور میرے جوڑے ہوئے چار الفاظ کو ملک ٹوٹنے کا سبب بنا دیا۔ یہ لفظ بھٹو صاحب نے کہے ہی نہیں تھے۔ اس سرخی کا پس منظر یہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمن سرحد اور بلوچستان کی قوم پرست پارٹیوں کے ساتھ مل کر اپنے 6نکات پر مبنی آئین بنانا چاہتے تھے جس کا مطلب پاکستان کو 5ٹکڑوں میں تقسیم کرنا تھا۔ میں اس قصے کو آئندہ کبھی پوری تفصیل سے لکھوں گا لیکن فی الحال میں پیپلز پارٹی میں بھٹو صاحب کے سیاسی وارثوں کو جو میری سرخی کا طعنہ سن کر چپ ہو جاتے ہیں یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ مجیب الرحمٰن کے 6نکات اور 70ء کے عام انتخابات سے لیکر شکست مشرقی پاکستان تک کے اخبار پڑھ لیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ بھٹو صاحب نے ملک کے دو ٹکڑے نہیں کروائے اسے 5ٹکڑوں میں بٹنے سے بچا لیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں فوجی شکست کے بعد اندرا گاندھی مغربی حصہ کو بھی ٹکڑوں میں بانٹنے پر تلی ہوئی تھیں لیکن پاکستان روانگی سے پہلے بھٹو صاحب نے صدر نکسن کو اس باقی ماندہ پاکستان کے وجود کی اہمیت کا قائل کیا اور امریکہ نے سخت ترین کارروائی کی دھمکی دیکر بھارتی فوج کو جنگ بندی پر مجبور کردیا۔ بھٹو صاحب ہماری تاریخ کے مقبول ترین اور مظلوم ترین لیڈر تھے۔ شورش کشمیری مرحوم نے اپنے رسالے میں ان کا ایک فرضی شجرہ نسب چھاپا جس میں ان کی والدہ کو ہندو کہا تھا اور بھٹو کو مرحومہ کے پہلے شوہر کی اولاد قرار دے کر یہ بھی لکھا تھا کہ ان کا پیدائشی نام گھاسی رام تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو صاحب نے شورش کاشمیری مرحوم سے یہ ’’انتقام‘‘ لیا کہ انہیں غیر معمولی مالی فائدے دئیے۔ دوسرے لفظوں میں شورش صاحب نے جو مانگا، دے دیا اس کے باوجود بھٹو صاحب کو منتقم مزاج کہا جاتا ہے۔
پچھلے دنوں میرے شاعر اور نقاد دوست افتخار جالب کا اچانک انتقال ہوا تھا۔ وہ بھی ملک صاحب کی طرح میری زندگی کا قیمتی حصہ تھے۔ کوشش کے باوجود میں ان پر کچھ نہیں لکھ سکا سمجھ ہی نہیں آئی شروع کہاں سے کروں اور ختم کہاں پر۔ ملک صاحب کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ تدفین کے بعد جب ہم لوگ ملک صاحب کے گھر واپس آئے تو آئی اے رحمن صاحب کہنے لگے ’’ملک صاحب نے پوچھنے کیلئے کچھ چھوڑا ہی نہیں وہ باتیں بھی لکھ گئے ہیں جو نہیں لکھنا چاہئیں تھیں‘‘۔ (12اپریل 2003ء)