اُفقِ صحافت پر جگمگاتا ایک اور درخشندہ ستارہ غروب ہوگیا، عبدالکریم عابد کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی اس کے ساتھ ہی اسلام اور نظریۂ پاکستان کی حفاظت کی جنگ لڑنے والے ایک اور مجاہد نے مردانہ وار لڑتے ہوئے فنا کا جام پی لیا، عبدالکریم عابد کوئی معمولی انسان نہیں تھے اور نہ ہی وہ مشین کی طرح کام کرنے والے پیشہ ور صحافی تھے۔ انہوں نے ایک مقصد اور نصب العین کا دامن تھام رکھا تھا اور عمر بھراسے اپنی جان سے بڑھ کر عزیز رکھا۔
وہ بمبئی کے ایک کاروباری خاندان میں پیدا ہوئے مگر انہوں نے باپ دادا کی تجارت پر سانپ بن کر بیٹھے رہنے کے بجائے قلم سے اپنا رشتہ استوار کیا اور ابتدائی عمر میں ہی بمبئی اور حیدرآباد دکن کے جرائد و اخبارات میں مشق شروع کردی، پاکستان بننے پر انہوں نے اپنے خاندان کو خیرباد کہا اور پاکستان آگئے اور یہاں لاہور کے اخبارات میں خبروں کے ترجمہ کا فریضہ انجام دینے لگے، انہوں نے روزنامہ ’’تسنیم‘‘ لاہور، روزنامہ ’’رہبر‘‘ لاہور، روزنامہ ’’کوہستان‘‘ ملتان، ’’روزنامہ ’’مشرق‘‘ لاہور، ’’اخبارِ خواتین‘‘ کراچی، روزنامہ ’’جسارت‘‘ کراچی، ’’فیملی میگزین‘‘، ’’فرائیڈے سپیشل‘‘ کراچی اور روزنامہ ’’انصاف‘‘ لاہور میں کام کیا وہ ’’جسارت‘‘ کراچی کے مدیر رہے، ’’انصاف‘‘ لاہور میں سینئر ایڈیٹر تھے، ’’جسارت‘‘ کراچی میں دو مختلف وقفوں کے ساتھ مدیر اعلیٰ رہے۔
عبدالکریم عابد کی صحافتی زندگی کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے قلم کو قوم کی امانت سمجھا، وہ مولانا محمد علی جوہرؒ ، مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ ، مولانا ظفر علی خانؒ اور حمید نظامیؒ کی صحافتی روایات کے امین او رپیروکار تھے، انہوں نے نہایت سنجیدہ صحافت کی روزنامہ ’’حریت‘‘ کے سنڈے میگزین میں ایک طویل عرصہ تک سوشلزم کا طلسم توڑنے کے لئے معرکہ آراء مضامین لکھے، اس وقت پاکستان کے طول و عرض میں ذوالفقار علی بھٹو کا طُوطی بول رہا تھا اور وہ پاکستان کے عوام کے تمام امراض کے علاج کے لئے سوشلزم کو تیر بہدف نسخہ قرار دے رہے تھے، اس عالم میں عبدالکریم عابد نے اپنے قلم کو حرکت دی اور سوشلزم کی برکات و فضائل کا طلسم پاش پاش کرکے رکھ دیا، انہوں نے کھوکھلے نعروں اور کیچڑ اچھال صحافت کے عروج کے دور میں نہایت اعلیٰ پیمانہ کی علمی اور تعلیمی صحافت کا پرچم بلند کیا اور سوشلزم کی مخالفت میں پُرزور دلائل کے انبار لگادئیے، اس وقت تک عابد صاحب بھی عام اخبار نویسوں کی طرح صرف خبروں کے متن کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے اور خبروں پر اچھی سے اچھی سرخیاں جمانے کے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ان کے قریبی لوگ بھی ان کے مطالعہ کی گہرائی و گیرائی سے اس حد تک واقف نہیں تھے جس کا مظاہرہ سوشلزم کے خلاف عبدالکریم عابد کے استدلال سے ہورہا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ 1970-71ء میں ایک نیا عبدالکریم عابد تھا جس نے بھٹو کی ژولیدہ خیالی کے خلاف عِلم و عمل کا محاذ سنبھال لیا تھا۔ آج یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ اس محاذ پر عبدالکریم عابد نے اپنا فریضہ بہادری اور جرأت کے ساتھ انجام دیا انہوں نے اپنے افکار و نظریات اس محکم اور مستحکم انداز میں پیش کیے کہ قوم نے ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کے سحر کے باوجود اور سوشلزم کی پڑیا پر مساوات محمدی کا لیبل چسپاں کیے جانے کے باوصف بھٹو کے نظریات کو کامل یکسوئی کے ساتھ مسترد کردیا۔
عبدالکریم عابد کا اندازِ فکرو عمل اس قدر روشن اور واضح تھا کہ کوئی دُنیوی لالچ اور طمع انہیں اس راستہ سے نہیں ہٹا سکا جو انہوں نے شعوری طور پر قبول کیا تھا۔ وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی بصیرت و دانش سے بہت متاثر تھے لیکن ضیاء الحق کے مارشل لاء میں جب جماعت اسلامی شریکِ اقتدار تھی اور محمود اعظم فاروقی وفاقی کابینہ میں وزیرِ اطلاعات و نشریات تھے انہوں نے جماعت اسلامی کے ترجمان اخبار ’’جسارت‘‘ میں آئین کی بالادستی ، بااختیار پارلیمنٹ اور عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں زمام کار کی اہمیت پر تواتر سے مضامین لکھے پھر جب بھٹو کا زوال ہوگیا اور ضیاء الحق کا مارشل لاء عروج پر تھا، انہوں نے جماعت اسلامی میں پیپلز پارٹی کے خلاف جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے سلسلۂ مضامین کا آغاز کیا اور جمہوری قوتوں میں اتحاد و یک جہتی کے لئے آواز بلند کرتے رہے۔
روزنامہ ’’جرأت‘‘ لاہور بھی ان اخبارات میں شامل ہے جنہوں نے عبدالکریم عابد کی فہم و فراست سے استفادہ کیا اور عبدالکریم عابد کے مضامین باقاعدگی سے شائع کرتا رہا، حقیقت یہ ہے کہ مسلسل ساٹھ برس لکھتے رہنے کے باوجود ان کے افکار کی تازگی پُوری طرح برقرار رہی، وہ گزشتہ 31 برس سے گلے کے کینسر کے مریض تھے مگر ان کا قاری ان کی پُر مغز تحریریں پڑھ کر یہ اندازہ نہیں کرسکتا تھا کہ وہ بیمار ہیں اور اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان کا چشمۂ فیض ازلی و ابدی سچائیوں کا محور تھا۔ انہوں نے ساری عمر اسلام، نظریۂ پاکستان اور جمہوریت کا مقدمہ نہایت عمدگی سے پیش کیا۔ ان کی نگارشات بے مثل حب الوطنی کی آئینہ دار تھیں، وہ ذہنی طور پر جماعت اسلامی کے بہت قریب رہے اور جماعت نے بھی ان کی راست بازی اور دیانت داری کا پُورا احترام کیا اور انہیں زندگی کے آخری لمحے تک روزنامہ ’’جسارت‘‘، ہفت روزہ ’’فرائیڈے سپیشل‘‘ اور روزنامہ ’’انصاف‘‘ میں عزت و آبرو کے ساتھ اپنے تجزیے اور تبصرے اہلِ پاکستان تک پہنچانے کے مواقع مہیا کیے۔ عبدالکریم عابد کے جسد خاکی کو منوں مٹی کے نیچے دفن کرتے وقت واقعی یہ احساس ہورہا تھا کہ تاریکی کے سائے بڑھ رہے ہیں اور ظلمتِ شب میں سحر کی نوید دینے والی ایک توانا آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی ہے۔