عدنان شاہد از جمیل اطہر
تسلیم و رضا کا پیکرِ جمیل عدنان شاہد اب ہمارے درمیان نہیں، عدنان نے اپنے عظیم المرتبت علیل والدین کی خدمت کا مقدس فریضہ انجام دیتے ہوئے اپنی وفا،اپنی جان نذر کردی، ہمارے دین نے والدین کی اطاعت و فرماں برداری کو جو مقام و مرتبہ عطا کیا ہے اس کو سامنے رکھیں تو عدنان نے اس راہ میں ایثار و قربانی کا ایک نہ مٹنے والا باب تاریخ کے صفحات پر رقم کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ عدنان کی جواں مرگ پر پورا پاکستان سوگ میں ڈوب گیا، کوئی گھرانہ ایسا نہیں ہوگا جس نے عدنان کی جُدائی کا دکھ اور کرب محسوس نہ کیا ہو، عدنان، ضیا شاہد کا سب سے بڑا بیٹا، ان کی امیدوں اور خوابوں کا مرکز، غیر معمولی انسانی اوصاف کا مالک تھا، معلوم نہیں اللہ پاک نے کس مٹی سے گُوندھ کر اس کا پیکر خاکی تخلیق کیا تھا کہ اس کے اوصاف حمیدہ کا تذکر کرتے چلے جائیں اور اس کی داستان حیات ادھوری ہی رہے، اس کے اخلاق و اطوار، اس کی سیرت و کردار، اس کی صلاحیت و لیاقت، اس کی محنت و جدوجہد، اس کی کس کس خوبی کا ذکر کیا جائے، میں اس کے ساتھی ’’نوجوان اور بزرگ صحافیوں‘‘ کے اس کے متعلق تاثرات و مشاہدات پڑھتا ہوں تو حیرت میں ڈوب جاتا ہوں کہ اللہ پاک نے قومی صحافت کو کس قدر پاکیزہ خیالات و نظریات کا مالک ایک سپوت عطا کیا تھا۔ وہ انسان دوست تھا، اسے شرفِ انسانی بہت عزیز رہا وہ اگرچہ عابدوزاہد نہ تھا مگر اسے حقوق العباد اداکرنا بہت محبوب تھا۔ ابھی تو اس کی صلاحیتیں نکھر رہی تھیں، اس کے جوہر کھل کر سامنے آرہے تھے، ابھی تو اس کلی کو پھول بننا تھا، ابھی تو اس چمکتے دمکتے ستارے کو چودھویں کا چاند بن کر افقِ صحافت پر چمکنا تھا، ماہِ کامل بننا تھا، لیکن قضا و قدر کا اپنا نظمِ اوقات ہے۔ اس نظم کے سامنے کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی اور کوئی چارہ گری کام نہیں آتی۔ دست گلچیں نے عدنان جیسے پھول کو ضیاء شاہد، یاسمین شاہد، امتنان شاہد، حمیرا اویس اور اس کے بچوں کے چمنستان سے اس طرح اچانک توڑ لیا کہ جس کسی نے سنا اور جس کسی نے پڑھا اسے یقین ہی نہیں آتا اور اب جبکہ وہ منوں مٹی تلے ہمیشگی کی نیند سورہا ہے اور ہم خود اپنے ہاتھوں سے اسے لحد میں اتار آئے ہیں ہماری یہ بے یقینی برقرار ہے۔
عدنان کا سانحہ ارتحال صرف ضیاء شاہد، اُن کے خاندان، خبریں گروپ اور دی پوسٹ کا ہی نقصان نہیں یہ قومی صحافت کے لئے بھی بہت بڑا صدمہ ہے، میں نے اسے آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی(اے پی این ایس) کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے اجلاسوں میں ضیاء شاہد کی نمائندگی کرتے اور پرنٹ میڈیا کے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے بارہا دیکھا اور سنا۔ اس کی گفتار و کردار میں بڑی سنجیدگی متانت اور گیرائی و گہرائی تھی۔ وہ ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر بولتا تھا اور اس کی گفتگو بڑی جچی تلی ہوتی تھی۔ وہ ضرورت سے ایک لفظ زیادہ بولتا تھا اور نہ ہی کم اور یہ محسوس ہوتا تھا کہ اس کی زبان سے پُھول جھڑ رہے ہیں۔ اس کی ان خوبیوں نے اس کی شخصیت کو بہت دل آویز اور سحر انگیز بنا دیا تھا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس کے جانے سے ایک روشن دماغ ہماری صفوں سے اٹھ گیا ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ بقولِ شاعر:
مائیں جنتی ہیں بچے ایسے خال خال
عدنان نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی تھی جس میں قرطاس و قلم کی خوشبو بکھری ہوئی تھی اور وہ اسی خوشبو سے بھرے معطر ماحول میں پروان چڑھا تھا لیکن اس نے عملی زندگی میں جو چلن اختیار کیا والدین کی تربیت کا ساتھ ساتھ اس میں شعور اور اختیار کا بھی دخل تھا۔ اس نے پاکستان کے نوجوان صحافیوں کے لئے یہ پیغام چھوڑا ہے کہ وہ صداقت و شجاعت کا دامن تھامیں، انتھک جدوجہد کی راہ پر گامزن رہیں، اپنے اندر صبر اور برداشت کا جوہر پیدا کریں اور عجز و انکسار کے پیکر بن کر زندگی بسرکریں۔ عدنان کی زندگی اقبال کے اس شعر کی آئینہ دار رہی:
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری
آئیے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں۔ اللہ تعالیٰ اس جوانِ رعنا کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، ہمارے بھائی ضیاء شاہد اور بھابھی یاسمین شاہد، عدنان کے بھائی امتنان اور عدنان کی اہلیہ حمیرا کو صبر کی ہمت اور توفیق دے، اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کی دستگیری کرے۔ آمین