عمران خان اور نوازشریف کا موازنہ .. بلال غوری
ایک شخص کی شرمندگی دوسرے کے نزدیک احتساب ہے۔ امریکی معالج اور وزیر صحت ٹام پرائس
کوئی بھی شخص بہت دیر تک اپنے چہرے پر کوئی مصنوعی چہرہ نہیں سجا سکتا، جب وہ بے نقاب ہوتا ہے تو لوگ متذبذب ہو جاتے ہیں کہ اس کا کون سا چہرہ اصلی ہے۔ معروف ناول نگار اور مصنف نتھائیل ہاتھورن
کل کسی کام سے جاتے وقت ٹریفک وارڈن نے روک لیا اور ڈرائیونگ لائسنس دکھانے کو کہا۔ میں نے آگے والی نشست پر اپنے ساتھ بیٹھے دوست کا ڈرائیونگ لائسنس پیش کرتے ہوئے کہا ”میرا ڈرائیونگ لائسنس تو دستیاب نہیں، یہ مجھ سے کم درجے کا ڈرائیور ہے اس کے لائسنس سے کام چلا لیں‘‘۔ ٹریفک وارڈن نے چالان کرکے جرمانے کی رسید ہاتھ میں تھما دی۔ میں نے حیرت کا اظہار کیا تو پاس بیٹھے دوست نے کہا‘ چند ماہ قبل میں ایک ادارے میں نوکری کے لئے انٹرویو دینے گیا تو انہوں نے مجھ سے تعلیمی اسناد مانگیں۔ میں نے گھر میں بہت ڈھونڈا مگر تعلیمی اسناد نہ مل سکیں۔ آخرکار میں اپنے ایک کلاس فیلو کا رزلٹ کارڈ ساتھ لے گیا اور انٹرویو لینے والوں کو بتایا کہ میرا یہ بنچ فیلو میرے مقابلے میں کم ذہین تھا‘ مگر اس نے اتنے اچھے نمبر لئے ہیں تو آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ میں نے کتنے نمبر لئے ہوں گے۔ ساتھ ہی میں نے اپنے استاد کا ریفرنس لیٹر پیش کیا مگر انہوں نے تمام اصلی دستاویزات کے باوجود مجھے نااہل قرار دے دیا۔ سوچا تھا، ایسے ہی کچھ مزید تمثیلی واقعات بھی پیش کروں گا مگر پھر خیال آیا کہ ایسی بے ڈھب باتیں کرنے اور سوالات اٹھانے والوں کو تو ”پٹواری‘‘ اور ”لفافہ‘‘ کہا جاتا ہے اور پھر ریٹنگ بھی نہیں ملتی اور اب تو اپنی ہی کمین گاہ سے اس طرح کے تیر آنے لگے ہیں تو چلو مٹی پائو ان باتوں پر۔
بعض سیاسی جماعتوں نے جو ”کنوئیں کے مینڈک‘‘ پال رکھے ہیں ان کی طرف سے تنقید کرنے والے صحافیوں پر لفافہ لینے کے الزامات لگانا تو اچنبھے کی بات نہیں مگر ”بڑے صحافی‘‘ جو شاید مزید ”بڑا‘‘ بننے کی چاہ میں اچانک پانسہ پلٹ کر ”مقبول ترین موقف‘‘ اختیار کئے ہوئے ہیں‘ نے بھی فتویٰ جاری کر دیا ہے کہ جو لوگ عمران خان اور نواز شریف کی منی ٹریل میں فرق نہیں کرتے اور ان کی سپریم کورٹ میں پیش کی گئی دستاویزات میں سے ”قطری خط‘‘ برآمد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ انہوں نے پیسے پکڑ رکھے ہیں۔ مکرر عرض ہے کہ معاملہ خواہ نواز شریف کا ہو یا عمران خان کا، میرے نزدیک تو اس کا احتساب سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ یہ تمام اصولوں سے مبرا سیاسی ریسلنگ ہے جس میں حریف ایک دوسرے کو پٹخنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہماری حیثیت محض تماشائی کی ہے۔ عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ اس سیاسی دنگل میں ان کا ہر دائو آغاز میں تو بہت مہلک محسوس ہوتا ہے مگر انجام کار نہ صرف ناکام ہوتا ہے بلکہ ان کے اپنے گلے پڑ جاتا ہے۔ اسے قسمت کا ہیر پھیر کہیں یا پھر مکافاتِ عمل‘ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کی ہر تدبیر الٹی ہو جاتی ہے۔ پاناما کا معاملہ ہی دیکھ لیں، انہوں نے نہایت پُرخلوص تحریک چلائی اور قوم کو بتایا کہ آف شور کمپنیاں وہ بناتے ہیں‘ جنہوں نے ناجائز طریقے سے مال بنایا ہوتا ہے۔ ان کے چاہنے والے اس بات پر ایمان لے آئے‘ مگر چند روز بعد ”نیازی سروسز‘‘ نامی آف شور کمپنی برآمد ہو گئی۔ اپنے سیاسی مخالفین سے رسیدیں اور منی ٹریل مانگتے وہ خود اس گڑھے میں جا گرے۔ جب شریف خاندان کا ٹرائل ہو رہا تھا تو انہوں نے قائد اعظم کی کوئی پرانی رسید ڈھونڈ نکالی اور فرمایا ”اگر کمائی جائز اور آمدن حلال کی ہو تو سو سال بعد بھی حساب کتاب دیا جا سکتا ہے‘‘ مگر اب اپنی باری آئی تو ٹکا سا جواب دے دیا کہ جس ادارے کے لئے کائونٹی کرکٹ کھیلتا تھا، اس کے پاس 20 سال سے پرانا ریکارڈ دستیاب نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ادارے کے پاس ریکارڈ موجود نہیں مگر آپ کے پاس تو حساب کتاب ہونا چاہئے کہ آپ نے کب کتنا معاوضہ لیا؟ کسی اور کا احتساب ہو رہا ہو اور وہ اپنی آمدن کا حساب کتاب نہ دے سکے تو وہ چور اور کرپٹ ہے‘ لیکن آپ کی باری آئے تو میزان عدل ہی بدل جائے؟ شریف خاندان نے کہا، ہمارے پاس حساب کتاب تو نہیں مگر بطور ثبوت یہ قطری خط موجود ہے جس کے ساتھ ہماری کاروباری شراکت داری تھی۔ آپ نے کہا: 20 سال پرانا ریکارڈ دستیاب نہیں مگر جس کائونٹی کے لئے کرکٹ کھیلی اس کے ڈائریکٹر کا خط پانچ روپے کے پاکستانی ٹکٹ لگا کر پیش کر دیا۔ اب اگر کہا جائے کہ اس خط کو آپ نے اپنے دفاع میں پیش کیا اور جب تک خط لکھنے والا عدالت میں پیش ہو کر اس کے مندرجات کی تصدیق نہ کرے، اسے ردی کا ٹکڑا تصور کیا جائے گا، یا کوئی یہ تبصرہ کرے کہ خط لکھنے والا آپ کا گواہ ہے، اسے آپ پیش کریں، وہ نہ آیا تو آپ کا مقدمہ فارغ، تو ایسی باتیں کرنے والے یقینا ”پٹواری‘‘ اور”لفافے‘‘ کہلائیں گے۔
کپتان کے بہی خواہوں کا استدلال یہ ہے کہ نواز شریف متعدد مرتبہ عوامی عہدوں پر براجمان رہے جبکہ عمران خان پبلک آفس ہولڈر نہیں، اس لئے دونوں کا موازنہ مناسب نہیں۔ طفلانِ انقلاب کے الفاظ مستعار لئے جائیں تو ایک نے قومی خزانہ لوٹ کر اثاثے بنائے اور دوسرے نے اپنی کمائی سے جائیداد خریدی، دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ عمران خان اور نواز شریف میں فرق تو ہے لیکن اس کی نوعیت کچھ اور ہے۔ عمران خان کا معاملہ اس لئے مختلف ہے کہ وہ پاکبازی کا دعویدار اور احتساب کا علمبردار ہے۔ اگر عمران خان شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں کی طرف پتھر اچھالتا رہا ہے تو پھر اس کا احتساب دیگر افراد کے مقابلے میں کڑا ہونا چاہئے۔
اب آتے ہیں پبلک آفس ہولڈر والے اعتراض کی طرف۔ شریف خاندان کا موقف بھی یہی ہے کہ تمام اثاثہ جات ذاتی کاروبار سے بنائے گئے جو نواز شریف کے سیاست میں آنے سے پہلے کا ہے۔ان کا استدلال ہے کہ وہ اپنے ذاتی اور خاندانی کاروباری معاملات کا حساب کیوں دیں؟ بطور پبلک آفس ہولڈر کسی منصوبے میں رشوت لی گئی ہے، کرپشن کی گئی ہے تو اس کی نشاندہی کریں اور حساب لیں‘ لیکن آپ کا موقف یہ ہے کہ قیادت کے منصب پر فائز کسی بھی شخص کے ذرائع آمدن اور طرز زندگی میں مطابقت نہیں تو اسے اپنی اثاثہ جات کی منی ٹریل دینا چاہئے۔ عمران خان پبلک آفس ہولڈر نہیں اور نہ ماضی میں کبھی برسر اقتدار رہے ہیں‘ لیکن وہ ایک ایسی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں جس کے پاس ایک صوبے کی حکومت ہے۔ ان کے آس پاس ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں ان کے سیاسی مخالفین ”اے ٹی ایم‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ برسہا برس سے ان کا کوئی کاروبار نہیں تو یہ سوال کیسے نہ اٹھے کہ ان کے شاہانہ طرز زندگی کی منی ٹریل کیا ہے؟
عمران خان عدالت میں منی ٹریل نہ ہونے کا اعتراف کر چکے، اب نااہلی کی تلوار ان پر بھی لٹک رہی ہے۔ نواز شریف صاحب پاکستانی سیاست کے ہیری ہائوڈینی ہیں جن کا بچ نکلنے میں کوئی ثانی نہیں۔ قانونی تناظر میں دیکھا جائے تو وہ اس لئے نااہلی سے بچ جائیں گے کہ اثاثہ جات کا براہ راست ان سے تعلق نہیں۔ آف شور کمپنیاں ہوں یا لندن فلیٹ، سب بچوں کی ملکیت ہیں‘ لیکن عمران خان کا بچنا بہت مشکل دکھائی دے رہا ہے کیونکہ آف شور کمپنی اور دیگر اثاثہ جات پر براہ راست وہی جوابدہ ہیں۔