عمران خان کی منی ٹریل کا مسئلہ .. رئوف طاہر
O… ”17 سال کائونٹی کرکٹ کھیلی‘ آمدن کا ریکارڈ ہے‘ نہ کنٹریکٹ۔
لندن فلیٹ: عمران خان کا نامکمل منی ٹریل کا اعتراف‘‘
O… ”عمران لندن فلیٹ کی مکمل منی ٹریل دینے میں ناکام‘‘
O…” نااہلی کیس‘ عمران کی منی ٹریل بھی نامکمل‘ سپریم کورٹ میں اعتراف کر لیا‘‘۔
O… ”کرکٹ کائونٹی سے ریکارڈ نہیں ملا‘ عمران… نامکمل منی ٹریل کا اعتراف‘‘
O… ”عمران منی ٹریل دینے میں ناکام‘ کائونٹی کرکٹ 20 سال سے پرانا ریکارڈ نہیں رکھتی‘‘۔
اتوار کے اخبارات کی یہ شہ سرخیاں مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کی پریس کانفرنس کی نہیں بلکہ چوبیس صفحات پر مشتمل اس جواب کی ہیں جو عمران خان کے وکیل نے حنیف عباسی کی طرف سے خان کے خلاف نااہلی کیس میں سپریم کورٹ میں جمع کرایا۔
اتوار کی سہ پہر پریس کانفرنس میں خان کا غصہ دیدنی تھا (لیکن وہ غصے میں کب نہیں ہوتے؟) اس دعوے کے ساتھ کہ ”میری منی ٹریل سب کے سامنے ہے‘‘۔ خان نے خواجہ آصف پر چڑھائی کر دی۔ سیاسی مخالفین کیلئے بے شرم‘ بے حیا اور بے غیرت کے الفاظ تو خان کے ورد زبان رہتے ہیں‘ یہاں انہیں خواجہ آصف کو ”گھٹیا آدمی‘‘ قرار دینے میں بھی کوئی تامل نہ تھا۔ ”جو چار سال سے شوکت خانم ہسپتال پر الزام لگا رہا ہے‘‘۔
خان کا عذر تھا‘ کائونٹی کرکٹ 20 سال سے پرانا ریکارڈ نہیں رکھتی‘ لیکن پھر شریف فیملی سے عشروں پرانے ریکارڈ کا تقاضا کیوں؟ جبکہ اس دور کا دبئی‘ ابوظہبی اور قطر ایک بڑے سے قصبے سے زیادہ کیا تھے۔ تب ہر کام بینکوں کے ذریعے نہیں ہوتا تھا۔ اکثر و بیشتر ادائیگیاں نقد ہوتی تھیں۔ سعودی عرب تمام خلیجی ریاستوں سے زیادہ ترقی یافتہ تھا‘ لیکن ہمیں یاد ہے کہ ہم اکتوبر 1998ء میں جدہ میں ایک اخباری ادارے سے وابستہ ہوئے‘ تو ایک عرصے تک ہمیں ماہانہ تنخواہ نقد ملتی رہی‘ ہمارے دیگر رفقا کا معاملہ بھی یہی تھا۔ ہم پاکستان میں اپنے گھر والوں کو رقم بینک کی بجائے کسی آتے جاتے کے ہاتھ بھجوا دیا کرتے تھے۔ ہم دیکھتے کہ شعبان اور رمضان کے مہینوں میں پاکستان اور ہندوستان سمیت دنیا بھر سے دینی مدارس اور اسلامک سینٹرز کے ذمے داران سعودی عرب کا رخ کرتے اور شیوخ و امرا سے زکوٰۃ و صدقات کی مد میں حاصل ہونے والے لاکھوں ریال نقد لے جاتے۔ یہ تو نائن الیون کے بعد ہوا کہ منی ٹرانزیکشن بنکوں کے ذریعے لازم ہوئی اور اس کی ایک ایک پائی کا حساب رکھا جانے لگا۔ (یاد آیا‘ اگست 2014 والی دھرنا بغاوت کے دوران بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے خان کا ”فرمان امروز‘‘ تھا کہ وہ اپنے اہل خانہ کے لئے رقوم بینکوں کی بجائے ہنڈی کے ذریعے بھجوائیں۔
کائونٹی کرکٹ کا 20 سال سے زیادہ پرانا ریکارڈ دستیاب نہ ہونے کے عذر پر مسلم لیگ ن والوں کی بن آئی۔ شہباز صاحب کا ون لائن کمنٹ تھا ”لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا‘‘ خواجہ آصف کا ٹویٹ تھا‘ ابھی تو تلاشی شروع ہوئی ہے… حکومت پنجاب کے ترجمان کا کہنا تھا‘ کائونٹی ریکارڈ نہیں تو بنک ریکارڈ لے آئیں۔ ایک اور سنگدلانہ تبصرہ تھا‘ مطلقہ خاتون تو نان نفقے کا تقاضا کیا کرتی ہے‘ یہاں اس کی طرف سے کروڑوں کے گفٹ آ رہے ہیں۔ حساب کتاب کے ماہر ایک انویسٹی گیسٹو رپورٹر نے 1971ء سے (جب خان کا کرکٹ کیریئر شروع ہوا) 1983ء تک (جب خان نے فلیٹ خریدا) کائونٹی کرکٹ سے حاصل ہونے والی فیس اور پاکستان میں مختلف موضوعات کے اشتہارات میں ماڈلنگ سے حاصل ہونے والی رقم کا حساب کتاب کر کے بتایا کہ یہ تو فلیٹ کی خریداری کے لئے ادا کی گئی رقم کا تیس فیصد بھی نہیں بنتا۔ باقی ستر فیصد رقم کہاں سے آئی؟
ادھر نواز شریف کے حامی ہوں یا مخالف‘ سبھی کو فیصلے کا انتظار ہے‘ ہر ایک کی اپنی اپنی خواہشیں ہیں اور اپنی اپنی آرا۔ اس بات میں بھی وزن ہے کہ ساڑھے پانچ ہزار سے زائد الفاظ پر مشتمل 9 جلدوں کی جے آئی ٹی رپورٹ میں لندن فلیٹس کی خریداری میں نواز شریف کی انوالومنٹ کا کوئی ثبوت نہیں۔ خود فاضل بنچ نے یہ بات تسلیم کی۔ اس رپورٹ میں نواز شریف پر اپنی سرکاری حیثیت کے ناجائز استعمال کا کوئی الزام نہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ پر بحث کے آخری دنوں میں وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ کی پیش کردہ دستاویزات پر (جن میں مریم نواز کی بجائے حسین نواز کو نیلسن اور نیسکول کا بینی فیشیل اونر قرار دیا گیا تھا) عدالت عظمیٰ کی برہمی پر‘ سچ بات یہ ہے کہ خود ہم بھی چکرا گئے تھے‘ کہ ان دستاویزات پر ہفتے کے روز دستخط اور مہریں کہاں سے لگوا لائے؟ لیکن یہ عقدہ کھلنے میں دیر نہ لگی کہ لندن میں ہفتے کے دن ہی نہیں‘ اتوار کو بھی نوٹری کے تمام دفاتر کھلے ہوتے ہیں۔ اور اقامے والی بات کی حقیقت بھی گزشتہ روز سامنے آ گئی جس کے مطابق وزیر اعظم کے 2013 کے کاغذات نامزدگی میں اس کا ذکر موجود تھا۔
شوکت خانم ہسپتال کے حوالے سے خواجہ آصف کے سوالات کو ایک رفاہی ادارے کے خلاف شرمناک پروپیگنڈے قرار دیتے ہوئے خان نے احساس دلایا کہ کل انہیں بھی کینسر ہو سکتا ہے۔ ایک رفاہی ادارے کو سیاست میں گھسیٹنا بلاشبہ ایک ناروا کام ہے جس کی تائید نہیں کی جا سکتی۔ شوکت خانم‘ خان کا آئیڈیا تھا‘ ایک خواب جس کی تعبیر کے لئے خان نے بلاشبہ بہت محنت کی‘ لیکن اس میں اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی پاکستانیوں نے حسب توفیق اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ اس کی ڈونیشن کیمپین میں بالی ووڈ کی حسینائیں بھی شریک ہوئیں… سعودی شہزادوں نے بھی اس کارخیر میں حصہ لیا۔ نواز شریف نے اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت پندرہ ایکڑ اراضی مہیا کی (جس میں وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں (مرحوم) نے پانچ ایکڑ کا اضافہ کیا) مشینری کی درآمد میں ٹیکس کی چھوٹ سمیت متعدد مراعات اس کے علاوہ تھیں۔ شریف فیملی کی طرف سی جلا وطنی کے دنوں میں بھی اس کار خیر میں تعاون کا سلسلہ جاری رہا‘ شہباز شریف کی طرف سے ارسال کردہ 25 لاکھ روپے عطیے کا شکریہ ادا کرنے خود خان صاحب سرور پیلس جدہ تشریف لائے تھے۔ کچھ عرصہ قبل پشاور میں بھی شوکت خانم ہسپتال نے کام شروع کر دیا ہے اس کے لئے زمین خیر پختونخوا میں اے این پی اور پیپلز پارٹی کی گزشتہ مخلوط حکومت نے مہیا کی تھی۔ ہمیں یاد پڑتا ہے‘ نمل یونیورسٹی میانوالی کے لئے زمین بھی شہباز شریف کی گزشتہ حکومت نے عطیہ کی۔
رفاہی خدمات کے حوالے سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی کا ریکارڈ سب سے قدیم اور سب سے عظیم ہے۔ اب بھی ”الخدمت‘‘ جیسے اس کے ادارے ہزاروں نادار بچوں کی کفالت کے کار خیر میں مصروف ہیں لیکن اس نے نیکی کے اس کام کو کبھی اپنی سیاست اور انتخابی سیاست کے لئے استعمال نہیں کیا۔
شوکت خانم کے حوالے سے بھی سیاست نہیں ہونی چاہئے لیکن معاف کیجئے۔ اس کا آغاز تو خود خان نے کیا۔
14 اپریل 1996ء کو یہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت تھی‘ جب شوکت خانم ہسپتال لاہور میں بم دھماکے میں سات افراد جاں بحق اور ساٹھ زخمی ہو گئے۔ وزیر اعظم بے نظیر نے یہ خبر سنتے ہی پشاور سے لاہور کا رخ کیا اور سیدھی شوکت خانم پہنچیں۔ عمران خان ان کی آمد کی اطلاع پاتے ہی ہسپتال سے روانہ ہو گئے‘ ان کا کہنا تھا‘ میں منافق نہیں کہ ہسپتال میں اس کا خیر مقدم کرتا‘ وہ تو تصویر بنوانے آئی تھی۔
25 اپریل کو خان نے تحریک انصاف کے قیام کا اعلان کیا اور اس کے بعد جو پہلا کام کیا‘ وہ یہ کہ شوکت خانم ہسپتال جا کر نواز شریف کے نام والا سنگ بنیاد اکھاڑ پھینکا۔