سپریم کورٹ میں پانامہ کیس فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا۔ اپنے آغاز ہی میں اعتراضات‘ تحفظات اور نوع بہ نوع شکوک و شبہات سے دوچار ہو جانے والی جے آئی ٹی نے دس جولائی کو اپنی رپورٹ پیش کر دی تھی۔ سترہ جولائی کو اس پر بحث کا آغاز ہوا تو فاضل بنچ کا کہنا تھا کہ وہ اس رپورٹ کے پابند نہیں اور یہ کہ فیصلہ ٹھوس ثبوت و شواہد کی بنیاد پر ہو گا۔ اس کیس میں بنیادی نکتہ ”منی ٹریل‘‘ تھا جس میں اہم ترین کردار قطری شہزادے کا تھا‘ یہ بادشاہوں کے قصّے کہانیوں والا ‘روایتی شہزادہ‘‘ یانازونعم میں پلا ہوا لاابالی سا نوجوان نہیں تھا‘ بلکہ قطر کے سابق وزیراعظم حماد بن جاسم تھے۔ وہ اپنے دو خطوط میں ”منی ٹریل‘‘ کے حوالے سے شریف فیملی کے دعویٰ کی تائید کر چکے تھے ور اب ”گواہ‘‘ پر ”جرح‘‘ کا معاملہ تھا۔ ”قطری شہزادے‘‘ کا کہنا تھا‘ جے آئی ٹی کے معزز ارکان اپنی سہولت کے مطابق کوئی بھی تاریخ بتا دیں‘ میں ان کے خیرمقدم کے لئے دوحہ میں اپنے محل کے دروازے پر موجود ہوں گا۔ وہ اس کے لئے اپنے جہازوں کے فلیٹ میں سے بہترین جہاز بھجوانے کی پیشکش بھی کر چکا تھا۔ اس میں ویزوں کا بھی کوئی مسئلہ نہ تھا کہ یہ دوحہ ائرپورٹ پرہی سٹمپ ہو جاتے‘ ہم تو یہ پڑھتے سنتے آئے تھے کہ اپنے فرض کے حوالے سے حساس اور ذمہ دار تفتیشی اہلکار ہر مشکل سے گزرنے کو تیار ہوتے ہیں لیکن یہاں ہماری جے آئی ٹی کے لئے تو سہولتیں ہی سہولتیں تھیں۔ اللہ تعالیٰ بدگمانی سے بچائے لیکن صاف نظر آ رہا تھا کہ اس حوالے سے جے آئی ٹی کی دلچسپی منفی ہے۔ اپنی پوزیشن بچانے کے لئے وہ دوحہ جانے پر تو آمادہ ہو گئی لیکن ساتھ ہی بعض شرائط عائد کر دیں مثلاً یہ کہ شہزادے کی پیشی پاکستانی سفارتخانے میں ہو گی‘ انوسٹی گیشن انگریزی زبان میں ہو گی۔ شہزادے کو کوئی سوالنامہ پیشگی مہیا نہیں کیا جائے گا (کہ وہ اس کے مطابق تیاری کر کے آ سکے) اسے اپنے ساتھ اکائونٹنٹ یا وکیل لانے کی اجازت بھی نہ ہو گی (اور اسی طرح کی کچھ اور ناقابل فہم اور ناقابل قبول شرائط)
اور اب پانامہ کیس کی سماعت کے آخری مرحلے میں شہزادے نے اتمام حجت کے طور پر تیسرا خط بھی ارسال کر دیا ہے۔ 17 جولائی کو قطر کی وزارت عدل کے لیٹر پیڈ پر لکھا گیا یہ خط قطری وزارت خارجہ سے باقاعدہ تصدیق شدہ ہے‘ جس میں گزشتہ دونوں خطوں کی توثیق و تائید کے ساتھ جے آئی ٹی کو آئندہ دوحہ آنے کی دعوت کا اعادہ کیا گیا ہے۔
اِدھر ”بدقسمتی‘‘ نے جے آئی ٹی کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ یہ نیوز کافی دن پہلے بریک ہوچکی تھی کہ شریف فیملی کے اثاثوں کی جانچ پرکھ کے لئے لندن کی جس فرم کی خدمات حاصل کی گئیں‘ وہ جے آئی ٹی کے سربراہ جناب واجد ضیاء کے کزن اختر راجا کی تھی۔ اب جبیب اکرم نے لاہور میں بیٹھے بیٹھے سات سمندر پار سے مزید تفصیلات حاصل کر لیں‘ مثلاً یہ کہ کوئسٹ سولیسٹرز نامی یہ فرم صرف دو افراد پر مشتمل ہے۔ ایک جناب اختر راجا اور دوسری ان کے ساتھ کام کرنے والی ایک خاتون (یہ شاید ان کی سیکرٹری یا اسسٹنٹ ہوں گی) یہ عظیم الشان فرم جس آفس سے آپریٹ کرتی ہے‘ انچاس دیگر کمپنیاں بھی یہی پتا استعمال کرتی ہیں۔ ”پتا‘‘ سے سلیم کوثر کا ایک شعر یاد آیا ؎
تمہاری طرح جینے کا ہُنر آتا تو پھر ہم بھی
مکاں اپنا وہی رکھتے‘ پتا تبدیل کر لیتے
اپنے اکائونٹ میں سات ہزار ایک سو ستر پائونڈ کی خطیر رقم رکھنے والی یہ فرم آٹھ ہزار پائونڈ سے زیادہ کی مقروض تھی۔ اب جے آئی ٹی نے اس کی خدمات انچاس ہزار پائونڈ کے عوض حاصل کیں۔ (پاکستانی کرنسی میں یہ رقم صرف 66 چھپاسٹھ لاکھ روپے بنتی ہے) سچ بات یہ ہے کہ اختر راجا کی فرم کے بارے میں یہ تفصیلات جان کر ہمیں جہاں اس سے ہمدردی پیدا ہوئی وہاں جناب واجد ضیاء کی قدر و منزلت اور ان کی جے آئی ٹی کے عزت و وقار میں بھی اضافہ ہو گیا۔ ہم نے سکول کے دنوں میں انگریزی میں یہ مقولہ پڑھا تھا Charity begins at Home خیرات گھر سے شروع ہوتی ہے یعنی اول خویش بعد درویش۔ خود ہمارے پیارے دین اسلام کا حکم بھی یہی ہے کہ زکوۃٰ‘ خیرات‘ صدقات وغیرہ کے لئے پہلا حق آپ کے عزیز و اقارب میں مستحق افراد کا ہے اور مستحق افراد میں وہ بھی آتے ہیں جو مقروض ہوں۔ کوئسٹ سالیسٹر زوالے راجا صاحب‘ جے آئی ٹی کے سربراہ کے کزن بھی تھے (کزن قریب ترین عزیز و اقارب میں آتے ہیں) اور مقروض بھی‘ چنانچہ اسی بہانے سے ان کی مدد بھی ہو گئی اور ان کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہوئی یہاں ہمیں جناب واجد ضیاء کی وضاحت بھی یاد آئی کہ راجا صاحب کی فرم کی ان خدمات کا اصل معاوضہ تو زیادہ بنتا تھا‘ لیکن انہوں نے مروت اور لحاظ سے کام لیا‘ انچاس ہزار پائونڈ کی یہ رقم 35 فیصد ڈسکائونٹ کے بعد ہے۔ واقعی ہم کیسی بے فکری قوم ہیں (ہمیں گاڈ فادر کا کوئی مکالمہ یاد آ رہا ہے‘ نہ خلیل جبران کا کوئی فقرہ) گزشتہ روز ڈاکٹر محمد شریف نظامی سے بات ہو رہی تھی۔موصوف 1970ء کی دہائی سے ہمارے ”ہم دم دیرینہ‘‘ ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی کیمسٹری کر کے وہ پی سی ایس آئی آر میں چلے گئے۔ اسی دوران جاپان سے گلاس اینڈ سرامکس میں پی ایچ ڈی کر آئے ہم نے یونٹورسٹی لاء کالج سے ایل ایل بی کے بعد وکالت کی بجائے صحافت کا رخ کیا۔ نظامی صاحب ہومیوپیتھک کالج سے فارغ التحصیل ہو کر ”ڈبل ڈاکٹر‘‘ ہو گئے۔ گزشتہ شام وہ کہہ رہے تھے کہ ہم ضعفِ حافظہ کا شکار ہو رہے ہیں جس کے لئے وہ ہومیوپیتھک کا مجرب نسخہ بتائیں گے۔ اللہ تعالی توفیق دے تو وہ ہمیں ہومیوپتھک کے وہ قطرے یا گولیاں بھجوا ہی دیں‘ آخر نصف صدی کی دوستی کا اتنا سا حق تو بنتا ہے۔
قطری شہزادے کے تیسرے خط کے ساتھ‘ کچھ اور اہم دستاویزات بھی پانامہ کیس کے عملدرآمد بنچ کو پیش کر دی گئیں مریم نواز کی بجائے حسین نواز کو نیلسن اور نیسکول کا بینی فیشل قرار دینے والی ان دستاویزات کے ساتھ امارات کی گلف سٹیل ملز کا ریکارڈ بھی ہے‘ جو وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ بیرون ملک سے لائے اور جمعرات کی صبح پیش کر دیا۔ الیکٹرانک میڈیا پر یہ دستاویزات گزشتہ شب ہی آن ایئر ہو گئی تھیں۔ جمعرات کو صبح یہ اخبارات کی شہ سرخیاں بھی بن گئیں۔ جناب جسٹس اعجاز افضل نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ یہ دستاویزات آپ نے گزشتہ شب ہی میڈیا کو جاری کر دی تھیں تو اب دلائل بھی باہر ٹی وی کیمروں پر بیان کر آتے۔ جناب سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ میڈیا کے لئے یہ دستاویزات انہوں نے جاری نہیں کیں۔
جناب جسٹس کا یہ اظہار برہمی بجا‘ لیکن می لارڈ! یہ تماشا تو کئی ہفتوں سے جاری ہے۔ فاضل عدالت اس پر نرمی سے توجہ دلانے کے ساتھ ہلک پھلکے انداز میں اظہار ناپسندیدگی بھی کرتی رہی ہے۔ عدالت میں زیرسماعت (سب جیوڈس) معاملات پر عدالت سے باہر تبصرہ آرائی پر سختی سے گریز کی روایت دم توڑ چکی۔ اب تو عدالت سے باہر ان ”عدالتوں‘‘ میں تو باقاعدہ فیصلے کی تاریخ اور فیصلہ بھی سنایا جانے لگا ہے۔ گزشتہ روز پی ٹی آئی کے ترجمان فرما رہے تھے‘ جمعہ کو فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ 14 سال قید اور 10 سال کی ڈس کوالیفکیشن ہو جائے گی۔
گزشتہ شب ایک چینل نے ان کے ساتھ دلچسپ واردات کی ایک ٹاک شو کا پرانا کلپ‘ جس میں وہ بنی گالہ میں کپتان کے محل کو تیسرے درجے کی منشیات کے کاروبار کا اڈہ قرار دے رہے تھے۔ تب یہ مشرف کی ترجمانی فرمایا کرتے تھے۔