نئے قائد ایوان (وزیراعظم) کے انتخابات کیلئے قومی اسمبلی کا اجلاس منگل کو ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے جس کے پاس ایوان میں واضح اکثریت بھی ہے اپنا امیدوار شاہد خاقان عباسی کو بنایا ہے۔ تحریک انصاف نے جلدی جلدی اپنا امیدوار شیخ رشید احمد کو بنا دیا ہے جو عوامی مسلم لیگ کے سب کچھ ہیں اور قومی اسمبلی میں ان کا اپنا ایک ووٹ ہے۔
کسی بھی انتخابی جمہوری عمل میں جس کا نتیجہ دیوار پر بھی لکھا ہوا نظر آتا ہو، سیاسی جماعتیں اس لئے بھی حصہ لیتی ہیں تاکہ اکثریت کو بل ڈوز یا کلین سویپ کا موقع نہ ملے، لیکن امیدوار کا انتخاب بہرحال سوچ بچارکرکے کیا جاتا ہے، اب جس انداز سے شیخ رشید احمد کو نامزد کیا گیا ہے۔ مخالفین کہہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف یا تو اس الیکشن میں سنجیدہ نہیں یا پھر شیخ رشید کو امیدوار اس لئے بنایا گیا ہے کہ وہ اگر منتخب وزیراعظم کے خلاف انتخابی عذر داری وغیرہ کرنا چاہیں تو کرتے رہیں۔ ویسے انہوں نے یہ اعلان پہلے ہی کردیا ہے کہ وہ متوقع طور پر منتخب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف ریفرنس دائر کریں گے جس کا جواب عباسی صاحب نے یہ دیا ہے کہ وہ ایک نہیں دس ریفرنس دائر کریں، تو قارئین محترم اگر مخالف جماعتیں شغل میلے کے موڈ میں ہیں تو عین ممکن ہے ان کی جانب سے کوئی امیدوار نہ آئے لیکن بلاول بھٹو کہہ چکے ہیں کہ ان کی جماعت وزارت عظمیٰ کا اپنا امیدوار لائے گی اور اسے لانا بھی چاہئے کیونکہ قائد حزب اختلاف کا تعلق بھی پیپلز پارٹی سے ہے اور مستحکم جمہوریتوں میں تو قائد حزب اختلاف کو منتظر وزیراعظم (پرائم منسٹر ان ویٹنگ) بھی کہا جاتا ہے۔ اس لئے اچھی بات تو یہ ہوگی کہ سید خورشید شاہ خودامیدوار بنیں، وہ نہیں بنتے، تو پیپلز پارٹی کوئی دوسرا ایسا امیدوار لے آئے جس سے اتنا تو پتہ چلے کہ الیکشن میں سنجیدگی سے حصہ لیا جا رہا ہے اور محض وقت گزاری کا اظہار نہیں کیا جا رہا۔ شیخ رشید کی حمایت کا مطلب غیر سنجیدگی ہوگا ایسی حرکت تحریک انصاف کرسکتی ہے پیپلز پارٹی کو نہیں کرنی چاہئے۔
قائد ایوان کا انتخاب قومی اسمبلی نے کرنا ہے، جس کے ارکان کی کل تعداد 342 ہے، اس تعداد کی سادہ اکثریت 172 ارکان بنتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس اتنی سادہ اکثریت (188 ارکان) ہے کہ وہ آسانی سے اپنا امیدوار منتخب کراسکتی ہے، ممکن ہے کچھ ارکان بیرون ملک ہوں یا دوسری وجوہ کی بنا پر غیر حاضر ہوں اور وہ نہ آسکیں اس کے باوجود شاہد خاقان عباسی کا انتخاب آسانی سے ہوسکتا ہے۔ ایوان میں مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعتوں میں مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی ہے جس کے ارکان تیرہ ہیں، محمود اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی، اعجازالحق کی مسلم لیگ، میر حاصل بزنجو، بہت سے آزاد ارکان بھی شاہد خاقان عباسی کو ووٹ دیں گے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق وہ 210 ارکان (یا اس سے بھی زیادہ) کے ووٹ لے کر قائد ایوان منتخب ہو جائیں گے۔ ایوان کے اندر مخالف پارٹیوں کی عددی پوزیشن کیا ہے ذرا اس کا تذکرہ بھی کرلیتے ہیں، مسلم لیگ (ن) کے بعد سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی ہے جس کے ارکان کی تعداد 47 ہے، تیسرے نمبر پر تحریک انصاف ہے جس کے ارکان 33 ہیں، ایم کیو ایم پاکستان کے ارکان 24 ہیں، اے این پی کے 5 ارکان ہیں، اس کے علاوہ چھوٹی پارٹیاں ہیں یا آزاد ارکان ہیں، ان میں سے بھی زیادہ تر ووٹ شاہد خاقان عباسی کو ملنے کا امکان ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنے والی ہے کہ وزیراعظم کے انتخاب میں ووٹ دیتے وقت ہر رکن کو اپنی جماعت کی پالیسی اور جماعت کے سربراہ کی ہدایت کے مطابق ووٹ دینا ہوگا، اگر کوئی رکن پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو پارٹی کا سربراہ اس کی رکنیت ختم کرانے کیلئے ریفرنس بھیج سکتا ہے، اس لئے وزیراعظم کے انتخاب میں ووٹ پارٹی کی ہدایت کے مطابق ہی دیئے جاتے ہیں الا یہ کہ کوئی رکن اپنی رکنیت کو داؤ پر لگا کر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈال دے۔ ووٹ بھی ڈویژن کے مطابق ہوں گے یعنی امیدواروں کے حامی الگ الگ لابی میں چلے جائیں گے اور ان کی گنتی ہو جائے گی، اس لئے بظاہر کسی جماعت کے رکن کی بغاوت کا کوئی خطرہ نہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ جب پانامہ کیس کی سماعت جاری تھی تو عدالت سے باہر تو عدالتیں لگتی ہی تھیں میڈیا میں ماما جی کی جو عدالتیں لگی ہوئی تھیں ان میں روز دعوے کئے جاتے تھے کہ اگر نوازشریف نااہل ہوگئے تو ان کی پارٹی تتر بتر ہو جائے گی اور اس کے بہت سے ٹکڑے ہو جائیں گے، کوئی یہاں گرے گا کوئی وہاں گرے گا۔ شیخ رشید نے تو دعویٰ کردیا تھا کہ 44 مسلم لیگی ارکان ان سے رابطے میں ہیں۔ اسی طرح سردار ذوالفقار کھوسہ کا دعویٰ تھا کہ 80 ارکان نے ان سے رابطہ کرلیا ہے۔ آپ ذرا اس تعداد کو جمع کریں تو مسلم لیگ میں باقی کچھ نہیں بچتا، لیکن کل جب قائد ایوان کا انتخاب ہوگا تو ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو جائے کہ کون کہاں کھڑاہے اور اگر مسلم لیگ (ن) میں کوئی بغاوت ہو رہی ہے تو وہ بھی سامنے آجائے گی۔ جو دعوے کئے جا رہے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے اس کا پتہ بھی چل جائے گا۔ اس لئے اے قارئین محترم کل کے نتائج کا انتظار کریں اور اس کے بعد ماضی قریب میں ہونے والے دعووں کو دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ان دعووں کا کیا مقصد تھا اور ان میں سچائی کا عنصر کتنا تھا؟