قاضی سراج الدین سرہندی
آج جس شخصیت کا ذکر نوکِ قلم پر آرہا ہے وہ ہیں میرے والد گرامی قدر قاضی سر اج الدین سرہندی مرحوم و مغفور۔ میں آج جس مقام پر ہوں ، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے بعد اس کا ذریعہ میرے والد مرحوم ہی بنے اور میری زندگی پر سب سے زیادہ جس ہستی نے اپنے اثرات ثبت کئے وہ میرے والد مرحوم ہی ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ مجھ میں اگر کوئی وصف اور ہُنر ہے تو وہ میں نے اپنے والد سے حاصل کیا ہے اور میرے اندر جو خرابیاں اور نقائص ہیں وہ میری اپنی پیدا کردہ ہیں اور ان کا ذمہ دار بھی میں ہی ہوں۔ میرے والد سرہند شریف (مشرقی پنجاب ) کے ایک تاجر خاندان میں قاضی محمد اصغر سرہندی کے ہاں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دہلی چلے گئے جہاں سے انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ وہ میٹرک کا امتحان پاس کرنے والے سرہند کے پہلے طالب علم تھے ۔ دہلی میں قیام اور تعلیم نے ان کی شخصیت کو بہت نکھار دیا ۔ وہ جمعیت علمائے ہند کے رہنماؤں مولانا حفظ الرحمن سیوھاروی، حکیم محمد اجمل خان اور ڈاکٹر انصاری کی مجالس میں شریک رہے اور دہلی کی تہذیب میں اس طرح رچ بس گئے ۔ کہ وہ خود کہا کرتے تھے کہ اگر دہلی میں کسی گھر کے دروازے پر کال بیل بجائی جائے تو صاحبِ خانہ اس وقت تک گھر کی دہلیز پر تشریف نہیں لائیں گے اور دروازہ نہیں کھولیں گے جب تک وہ اپنی شیروانی پہن کر اس کے پُورے بٹن بند نہ کرچکے ہوں ۔ یہی وجہ تھی کہ عمر بھر جب بھی دہلی یا لکھنؤ کا کوئی شخص ان سے ملتا تو وہ ابتدائی گفتگو میں ہی یہ استفسار ضرور کرتا کہ کیا آپ دہلی کے رہنے والے ہیں یا یو پی کے ؟ والد صاحب جب تعلیم حاصل کرکے واپس سرہند آئے تو میرے دادا نے جو اس وقت ایک کاٹن جننگ فیکٹری کے مالک تھے ، والد صاحب کی ڈیوٹی فیکٹری میں سب سے کم تر کام آٹا چکی پر لگا دی۔ والد صاحب اچکن پہن کر گئے تھے اور شام تک آٹا تولتے تولتے ان کی اچکن کا رنگ بھی آٹے کی طرح ہی ہوگیا ، انہوں نے ہمارے خاندان کے ایک بزرگ حاجی محمد صدیق صاحب مرحوم سے شکایت کی کہ والد صاحب نے مجھے کس کام پر مامور کردیا ہے ۔ ہمارے دادا بہت ضدی مزاج کے تھے اور ان سے کوئی بات منوانا آسان نہیں تھا مگر ہمارے یہ بزرگ جو فیصلہ صادر کردیتے تھے میرے دادا اس پر سرِتسلیم ضرور خم کردیتے تھے ۔ سو آٹا چکی سے والد صاحب کی ڈیوٹی ختم ہوئی اور ہمارے بزرگ نے ایک دکان کی چابیاں والد صاحب کے حوالے کیں ، انہیں دکان کی جھاڑ پونچھ کرانے کو کہا اور خود ایک ہندو تاجر کی دکان پر گئے اور وہاں سے سُوجی اور میدے کی چند بوریاں دکان پر بھجوادیں۔ شب بارات قریب تھی ، انہوں نے والد صاحب سے کہا کہ جب یہ سُوجی میدہ بک جائے تو اتنی رقم فلاں لالہ جی کو دے آنا۔ یہ سُوجی میدہ چند روز ہی میں فروخت ہوگیا اور والد صاحب لالہ جی کو ان کی رقم بھی ادا کرآئے مگر سُوجی میدہ کا کام بھی ان کے معیار پر پُورا نہ اتر ا اور انہوں نے اپنی دکان کو منیاری کے کاروبار کے لئے وقف کردیا۔ انبالہ گئے ، وہاں سے جنرل مرچنٹس کا کچھ سامان خریدا اور دکان پر توجہ دینا شروع کی ۔ دکان کے دو حصے تھے ، ایک میں وہ خود بیٹھتے تھے اور دوسرے میں ذخیرہ کیا ہوا سامان رکھا جاتا تھا ۔ والد صاحب کی نگاہ شروع سے ہی بہت تیز تھی اور وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی نگاہ رکھتے تھے ۔ ایک بار انہوں نے ملازم کو گاہک کے لئے سامان لانے دوسرے حصہ میں بھیجا تو اس نے سامان لانے میں کچھ دیر کردی ، والد صاحب نے آواز دی تو وہ جلدی میں اپنی قمیص کے بٹن بند کرنا بھُول گیا، والد صاحب نے اس پر نگاہ دوڑائی تو محسوس کیا کہ اس نے قمیص کے اندر تین چار نئی بنیانیں پہنی ہوئی ہیں اور جلدی میں بٹن بند نہ کرنے کے باعث اس کی چوری پکڑی گئی ۔ اس طرح ایک دوسرا ملازم گھر سے کھانے کے لئے جو ٹفن کیرئیر لاتا تھا ، کھانے کے وقفے میں کھانا کھانے کے لئے کچھ زیادہ ہی وقت صرف کرتا تھا ، ایک روز دکان بند کرتے ہوئے والد صاحب نے اس کے ٹفن کیرئیر کی تلاشی لی تو اس میں نصف درجن بنیانیں اور اتنے ہی انڈر وئیر چھپائے گئے تھے ۔ والد صاحب نے اپنا کاروبار سنبھالتے ہی تعلیمی ، رفاہی اور سیاسی کاموں کی طرف توجہ دینا شروع کی ۔ وہ سرہند میں لاہور اور دہلی کے کئی اخبارات کے نامہ نگار بن گئے ۔ انہوں نے دوسرے لوگوں کی مدد سے سر ہند شہر میں مسلم سکول کے نام سے پہلے تعلیمی ادارے کی داغ بیل ڈالی ، پھر وہ پر جا منڈل کے نام سے ایک سیاسی جماعت سے وابستہ ہوگئے !، ممتاز صحافی جناب محمود شام کے والد حکیم صوفی شیر محمد ریاست پٹیالہ میں پر جا منڈل کے صدر اور والد صاحب اس کے جنرل سیکرٹری تھے۔ سر ہند منڈی جو ریلوے سٹیشن سرہند کے قریب واقع آبادی کا نام ہے ، میں ہمارا خاندان واحد مسلمان خاندان تھا ۔ ہمارے دادا نے پاکستان بننے سے کچھ ہی سال پہلے اپنی فیکٹری میں لوہے کی سلاخیں بنانے کا ایک پلانٹ بھی لگایا تھا۔ میرے تایا قاضی محمد صغیر الدین کریانے کی دکان کرتے تھے ، میرے دوسرے تایا قاضی نصیر الدین میرے والد کے کاروبار میں شریک ہوگئے تھے ۔ میرے ایک چچا قاضی علاء الدین لکڑی اور فرنیچر کا کاروبار کرتے تھے اور علامہ مشرقی کی خاکسار جماعت سے وابستہ تھے ۔ ایک اور چچا قاضی ظہور الدین کپڑے کی دکان کرتے تھے اور سرہند مسلم لیگ کے سیکرٹری تھے ۔ سب سے چھوٹے چچا قاضی عمر دین دادا مرحوم کی فیکٹری میں آٹا چکی پر وہ ذمہ داری ادا کرنے کے لئے مامور کئے گئے جسے والد صاحب نے اٹھانے سے معذرت چاہی تھی۔ ہمارا سارا خاندان امام ربانی حضرت مجدد الف ثانیؓ کی درگاہ کا خدمت گار رہا ۔ در گاہ کے جتنے بھی خلیفہ مقرر کئے گئے اُن مجلسوں میں والد صاحب فیصلہ کُن حیثیت سے شریک ہوتے رہے ۔ جب پاکستان بننے کا مرحلہ آیا تو والد صاحب نے میری والدہ اور ہم دو بھائیوں کو ہمارے ننھیال پٹیالہ بھیج دیا جہاں ہمارے نانا بابو مہر علی پٹیالہ پولیس میں سب انسپکٹر تھے۔ والد صاحب نے ہندو مسلم فسادات کے سائے گہرے ہوتے دیکھ کر یہ اقدام اس لئے کیا تھا کہ ہم اپنے نانا کے پاس زیادہ محفوظ ہوں گے مگر ہوا اس سے اُلٹ ! ہمارا سارا خاندان فسادات کی بُو سُونگھ کر حضرت مجدد الف ثانیؓ کی درگاہ میں منتقل ہوگیا اور سر ہند شہر، سر ہند بسی اور نواحی دیہات کے ہزاروں مسلمان پناہ لینے کے لئے روضہ شریف چلے آئے۔ ادھر ہم ایک ایسے شہر میں تھے جہاں کے سکھ مہاراجہ بھوپندر سنگھ نے اپنی فوج کو مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے کے لئے کھلی چھُوٹ دے دی تھی ۔ ہم اپنے نانا کے گھر کھلے صحن میں کھیل رہے تھے ، ہماری نانی آٹا گوندھنے میں مصروف تھیں کہ اچانک ہمارے نانا اور ہمارے ماموں شیخ غلام حسین جو پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل تھے ، خلافِ معمول گھر پہنچے اور انہوں نے ہمیں فی الفور یہاں سے باہر نکل آنے کا حکم دے دیا۔ نانی اماں کے ہاتھ آٹے سے لت پت تھے ، والدہ نے ہم تین بھائیوں کو اپنے ساتھ گھسیٹا اور ہم اپنے نانا کی حویلی سے باہر سڑک پر آگئے ۔ ہمیں کچھ معلوم نہ تھا کہ ہماری اگلی منزل کہاں ہے اور ایک چھ سات سالہ بچے کو آنے والے حوادث کا علم بھی کیسے ہوسکتا تھا ۔ ہم کچھ فاصلہ طے کرکے ایک اور حویلی میں پہنچے جہاں گولیاں چلنے کی آوازیں فضا میں ارتعاش پیدا کررہی تھیں۔ ہم نے تواسے کھیل تماشہ ہی تصور کیا مگر جلد ہی پتہ چلا کہ سکھ ایک قریبی محلے میں پہنچ گئے ہیں اور جلد ہی اس حویلی پر حملہ کرنے والے ہیں ۔ اچانک سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ایک گولی میری خالہ کو آن لگی اور وہ خون میں لت پت ہوگئیں، ان کی مرہم پٹی کی گئی ، اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ کوئی آپریشن ہوا نہ وہ گولی نکالی گئی اور ساری عمر خالہ نے اس گولی کے ساتھ ہی بسر کی ۔ خطرہ بھانپ کر ہمارے نانا اور ماموں نے اس حویلی سے کسی اور محفوظ جگہ چلے جانے کا فیصلہ کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہم ایک اور جگہ پہنچ گئے اور ابھی جا کر بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ پھر ایک شورو غوغا بلند ہوا اور یہ خبریں آنے لگیں کہ یہ جگہ بھی اب محفوظ نہیں رہی ۔ اس گھر میں بھی سیکڑوں عورتیں ، مرد ، بچے اور بوڑھے پناہ لئے ہوئے تھے۔ نواحی آبادیوں سے آگ کے شعلے بلند ہورہے تھے ۔ سکھ اپنی کرپانیں لہرارہے تھے اور مسلمانوں کو تہس نہس کرنے کے لئے للکار رہے تھے ۔ اب ہماری منزل کوئی اور محلہ تھا۔ اب مجھے ان گلی محلوں کے نام تو یاد نہیں ہیں لیکن دکھائی یہ دے رہا تھا کہ موت ہمارا پیچھا کررہی ہے ، ہم اس کے آگے ہیں اور وہ پیچھے ۔ ایک مکان میں قدرے سکون تھا لیکن حویلی کا مالک چیختا چلّا تا آیا اور اس نے کہا کہ سکھ تلواریں لئے اس گھر پر حملہ کرنے والے ہیں اور قبل اس کے کہ وہ آئیں اور عورتوں کو اغواء کرلیں، عورتیں صحن میں بجلی کی تار کو ہاتھ لگا کر اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردیں۔ ہماری والدہ بھی ہمیں لے کر صحن کی طرف جارہی تھیں کہ ان کی نظر پانی کے ایک نل پر پڑی انہوں نے سوچا کہ مرنے سے پہلے بچوں کو پانی تو پلادوں لیکن وہ ابھی نل کے قریب ہی پہنچ پائی تھیں کہ ہمارے ماموں کی نظر ہم پر پڑی اور وہ ہمیں گھسٹیتے اور کھینچتے ہوئے اس حویلی سے باہر لے گئے۔
میرے والد صاحب کا تعلق اگرچہ ایک ایسے خاندان سے تھا جس کی دلچسپی کا زیادہ تر مرکز کاروبار تھا مگر یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ میرے دادا اور ان کے بڑے بھائی اور ان کی اولاد صرف کاروبار سے ہی سروکار رکھتے تھے مگر میرے والد ، میرے تایا اور چچا اپنے اپنے کاروباری مشاغل میں مصروفیت کے باوجود کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے بھی تعلق استوار کئے ہوئے تھے البتہ پاکستان بننے کے بعد میرے والد اور ان کے دیگر بھائیوں نے سیاست سے تعلق توڑ لیا۔ صرف میرے تایا قاضی نصیر الدین سرہندی جماعت اسلامی سے وابستہ رہے ۔ میرے والد کو سرہند شریف سے ٹوبہ ٹیک سنگھ آنے کے بعد مہاجرین کی آباد کاری کے مسائل سے بہت دلچسپی رہی اور آباد کاری کے حکام نے لوٹ کھسوٹ کا جو بازار گرم کر رکھا تھا ، انہیں بہت ناگوار گزرتا تھا۔ ان کی پہلی غیر سیاسی سر گرمی یہ تھی کہ انہوں نے انجمن مہاجرین کے نام سے ایک غیر سیاسی جماعت تشکیل دی جس کا کام مہاجرین کی مشکلات دُور کرنا ، انہیں قانونی رہنمائی مہیا کرنا اور محکمہ آباد کاری کے حکام کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھنا تھا ۔ انجمن مہاجرین کی داغ بیل ڈالنے کا مہاجرین کو کوئی فائدہ ہوا یا نہیں لیکن والد صاحب کو یہ نقصان ضرور ہوا کہ انہیں سرہند میں چھوڑی ہوئی اپنی جائیداد کے عوض کوئی دکان الاٹ ہوئی اور نہ کوئی مکان ملا بلکہ میرے جن چچا صاحب کو مین بازار میں ایک دکان الاٹ بھی ہوگئی تھی انہیں بھی اس کی سزا ملی اور ڈپٹی ری ہیبلی ٹیشن آفیسر نے وہ دکان ہمارے دو اور عزیزوں کو الاٹ کردی جس کا نہ صرف چچا صاحب کو نقصان ہوا بلکہ ہمارے اور ہمارے قریبی عزیزوں کے درمیان نہ ختم ہونے والی دُوری بھی پیدا ہوگئی مگر والد صاحب نے نتائج کی کوئی پَروا نہ کی اور رشوت ستانی کے واقعات کے خلاف جدوجہد جاری رکھی ، اس مقصد کے لئے وہ لاہور کے روز نامہ ’’ مہاجر‘‘ لائل پور کے روز نامہ’’ انصاف‘‘ اور پھر لائل پور ہی کے روز نامہ ’’غریب ‘‘ کے ساتھ بطور نامہ نگار وابستہ ہوئے۔ ان اخبارات میں بھی ان کی تحریروں کا مقصدو محور مہاجرین کے مسائل ہی رہا ۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں چونکہ مہاجرین کی بڑی تعداد سرہند شریف سے آ کر آباد ہوئی تھی ، اس لئے ہمارے گھر میں ہر وقت مہاجر مردوں اور عورتوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ ہماری بیٹھک کے باہر سیکڑوں لوگوں کے جُوتے پڑے رہتے تھے جو والد صاحب سے ملاقات اور رہنمائی کے انتظار میں اپنے کئی کئی گھنٹے ہمارے گھر میں بسر کرتے تھے ۔ والد صاحب ٹوبہ ٹیک سنگھ میونسپل کمیٹی کے برسوں نامزد اور پھر منتخب کونسلر اور وائس پریذیڈنٹ بھی رہے ۔ وائس پریذیڈنٹ کی حیثیت سے انہوں نے شور کوٹ بازار کے نام سے ایک نیا بازار آباد کیا اور اس بازار میں ریلوے سٹیشن کو جانے والے راستہ پر کونے کی ایک دکان بھی خود حاصل کی مگر یہاں کوئی کاروبار کرنے کے بجائے انہوں نے ایک سبیل بنادی اور حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے نام پر اس کا نام رکھا۔ ’’ مجددیہ سبیل‘‘۔ یہ سبیل ان کے انتقال کے 36 سال بعد بھی سبیل کے طورپر ہی جاری ہے۔ اگر چہ والد صاحب کو اور ان کی رحلت کے بعد ہمیں بھی اس دکان کے عوض کافی مالی پیشکشیں ہوتی رہیں مگر ہم نے والد صاحب کی رُوح کو خوش کرنے کے لئے یہاں مسافروں کو پانی پلانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔ ہمارے خاندان بالخصوص میرے دادا اور والد صاحب رفاہی کاموں میں پانی پلانے کوبہت اہمیت دیتے تھے ، سرہند شریف میں بھی جب حضرت مجدد الف ثانیؓ کا عرس ہوتا تھا تو ہمارے خاندان کے افراد روضہ شریف کے صدر دروازے پر زائرین کو پانی پلانے کی خدمت انجام دیتے تھے ۔ انہوں نے سرہند ریلوے سٹیشن پر اور قیام پاکستان کے بعد ٹوبہ ٹیک سنگھ ریلوے سٹیشن پر پانی کی سبیلیں لگانے کا بھی اہتمام کیا ہوا تھا۔ والد صاحب نے بطور وائس پریذیڈنٹ ایک نئی بستی آباد کرنے کا بھی منصوبہ بنایا ۔ یہ منصوبہ ان لوگوں کے لئے تھا جو بے آباد رہے تھے اور جنہیں ہندوؤں کے چھوڑے ہوئے مکانات الاٹ نہیں ہوسکے تھے ۔ والد صاحب نے اس بستی کا نام’’ سرہند بستی‘‘ رکھا اور اسی طرح یہاں جو جامع مسجد تعمیر ہوئی اس کو ’’ مجددیہ مسجد‘‘ کا نام دیا ۔ یہ سرہند اور حضرت مجدد الف ثانیؓ سے ان کی لازوال وابستگی کی چھوٹی چھوٹی مثالیں ہیں۔ والد صاحب انجمن مہاجرین کے پلیٹ فارم سے مہاجرین کی مشکلات اجاگر کرنے کے لئے اکثر غلہ منڈی میں جلسے منعقد کرتے تھے ۔ میری عمر اگر چہ ابھی کم ہی تھی مگرسٹیج سیکرٹری کے فرائض میں انجام دیتا تھا ۔ والد صاحب کی یہ آرزو جو کبھی پُوری نہیں ہوسکی کہ میں ان جلسوں میں ترنم سے نظمیں بھی پڑھا کروں مگر مجھے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ ایک مقرر کی حیثیت سے میری تربیت ہوتی رہی۔ اس سلسلے کا آخری جلسہ جہاں تک میرا حافظہ کام دیتا ہے ، وہ تھا جہاں والد صاحب کے دوست محمد رمضان صاحب تقریر کررہے تھے کہ اچانک یہ آواز یں بلند ہونے لگیں کہ غلہ منڈی سے باہر ملک کریانہ سٹور کی دکان میں آگ لگ گئی ہے۔ یہ سنتے ہی اور کچھ ہی فاصلے پر آگ کے شعلے بلند ہوتے دیکھ کر اور دُھواں آسمان کی طرف بلند ہوتے ہوئے یہ جلسہ کسی اعلان کے بغیر ختم ہوگیا اور ہم سب ملک کر یانہ سٹور کی طرف چلے گئے۔ ہر شخص کی کوشش تھی کہ وہ آگ بجھانے کے لئے ہاتھ پاؤں مار سکے ۔ میں بھی ان رضا کاروں میں شامل تھا جو دکان کے اندر جاتے تھے اور کچھ نہ کچھ اٹھا کر باہر سڑک پر لاکر رکھ دیتے تھے ۔ میرے والد صاحب کے قریبی ساتھی محمد رمضان بڑی جانفشانی سے یہ فرض ادا کررہے تھے کہ اچانک مکان کی چھت منہدم ہوگئی اور ملبے تلے کئی لوگ دب گئے اور اس میں محمد رمضان صاحب نے جام شہادت نوش کرلیا۔
میرے والد صاحب نے کئی چھوٹے موٹے کاروبار کئے مگر کامیابی کم ہی ہوئی۔ میرے دادا کو تو گوجرہ میں ایک کاٹن جننگ فیکٹری الاٹ ہوگئی تھی اور ایک خالی پلاٹ شور کوٹ بازار میں مل گیا تھا جہاں انہوں نے خود مشینری خرید کر کاٹن فیکٹری لگائی۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی فیکٹری میں میرے چچا قاضی ظہور الدین اور قاضی عمر دین دادا جان کا ہاتھ بٹا رہے تھے، گوجرہ کی کاٹن فیکٹری میں ہمارے دادا خود جاتے تھے اور ہر جمعرات کی شام گوجرہ سے واپس ٹوبہ آجاتے تھے اور پھر ہفتے کے روز گاڑی سے گوجرہ چلے جاتے تھے۔ والد صاحب نے ابتدا میں کنفیکشنری کی ایک مشین لگائی جس پر وہ خود کاریگر کے طور پر بچوں کے لئے گولیاں ٹافیاں بناتے تھے ۔ پھر انہوں نے کپڑا بنانے کی دیسی کھڈیاں لگائیں جن پر خواتین کے ملبوسات کے لئے ریشمی کپڑا تیار ہوتا تھا ، پھر انہوں نے ایک ہوزری فیکٹری لگائی جس میں بنیانیں اور انڈر ویئر تیار ہوتے تھے۔ پھر سُوت گولہ کا ایک پلانٹ لگایا اور اتوار کی چُھٹی کے روز سُوت گولہ کے آرڈر بک کرنے کے لئے مجھے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے باہر بھیجنے لگے ۔ میں کبھی شورکوٹ روڈ جاتا ، کبھی شور کوٹ شہر، کبھی عبدالحکیم ، کبھی مخدوم پور پہوڑاں کبھی کمالیہ اور پیر محل اور کبھی تاندلیانوالہ، ماموں کانجن اور جڑانوالہ۔ میں بازاروں میں دکان دکان گھوم کر اپنی مصنوعات متعارف کراتا،آرڈر بک کرتا ، کچھ رقوم پیشگی لیتا اور پھر یہ سامان اگلے ہفتے ان دکانوں پر خود پہنچا تا۔ کپڑا بنانے کی دیسی کھڈیوں پر خام مال کے طورپر جو ریشمی دھاگہ استعمال ہوتا تھا، بعض اوقات وہ لائل پور مارکیٹ سے ملتا نہیں تھا ، اس مقصد کے لئے والد صاحب چھٹی کے روز مجھے اپنے ایک دوست سیٹھ محمد رشید کے پاس سکھر بھیج دیتے تھے ، میں وہاں سے وہ ریشمی دھاگہ لے کر اگلے روز واپس ٹوبہ ٹیک سنگھ پہنچتا۔ کبھی کبھی والد صاحب مجھے میرے پھوپھا شیخ ثناء اللہ صدیقی کے پاس لالہ موسیٰ بھیجتے، وہ مجھے وہاں سے ریشمی دھاگہ دلاتے جو لے کر میں واپس آتا۔ والد صاحب نے ایک دو اخبارات کی ایجنسیاں بھی لے لی تھیں ، ان میں روز نامہ ’’ غریب ‘‘ لائل پور بھی شامل تھا جو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس وقت سب سے زیادہ فروخت ہوتا تھا ۔ ہماری کاٹن فیکٹری کے باہر بابا شہاب الدین کو جو دن بھر راہ گیروں کو پانی پلانے کا فرض انجام دیتے تھے صبح کے وقت یہ اخبارات فروخت کرنے پر مامور کردیاگیا۔ ایک روز یہ اطلاع ملی کہ بابا شہاب الدین بیمار ہیں اور آج اخبار فروخت نہیں کرسکیں گے۔ والد صاحب نے مجھے طلب کیا اور کچھ لوگوں کی ایک فہرست میرے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ کل صبح تم ریلوے سٹیشن پر جاؤ گے ، وہاں سے اخبار کا بنڈل وصول کرو گے اور ان لوگوں کے گھروں میں اخبار ڈال کر آؤ گے ۔ میں نے کچھ پس و پیش سے کام لیا۔ میرے اباجی نے کہا تمہیں پتہ ہے وہ گاڑی سورج نکلنے سے پہلے آجاتی ہے ، تم جن گھروں میں اخبار دے کر آؤ گے وہاں کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کون اخبار ڈال گیا ہے۔ خیر میں نے اس کام کی حامی بھرلی۔ ریلو ے سٹیشن پر صبح لائل پور سے آنے والی پہلی گاڑی سے اخبار کا بنڈل حاصل کیا اور والد صاحب کی دی ہوئی فہرست کے مطابق اخبارات تقسیم کردیئے لیکن میری آزمائش ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کیونکہ بابا جی بدستور بیمار تھے ۔ ان کے بیٹے حامد نے یہ اطلاع دی کہ وہ کل بھی نہیںآئیں گے، تب والد صاحب نے مجھے کہا کہ آج بیس اخبار بچ گئے تھے ، کل لوگوں کے گھروں پر اخبار پہنچانے کے ساتھ ساتھ بازار میں آواز لگا کر یہ اخبار فروخت بھی کرنا ہیں۔ میں نے پھر کچھ تامل ظاہر کیا مگر والد صاحب کے اصرار پر ہتھیار ڈال دیئے اور شہر کے مرکزی چوک میں آواز لگائی۔۔۔ آگیا تازہ غریب اخبار۔۔۔ لوگ مجھ سے اخبار خریدنے لگے مگر اچانک ہی میں نے دیکھا کہ میرے والد صاحب کے دوست اور شہر کے ایک بڑے تاجر چوہدری فضل کریم نے مجھے دیکھ لیا ہے، وہ میرے قریب آئے، مجھ سے اخبار لیا اور پھر مجھ پر یہ فقرہ اُچھالا کہ کیا قاضی سراج کا دیوالیہ نکل گیا ہے کہ ان کا بیٹا اخبار بیچ رہا ہے۔ میں تو خاموش رہا مگر میں ان کے جاتے ہی اخبار بغل میں لپیٹ کر واپس اپنے گھر جا پہنچا جہاں والد صاحب نے مجھے دیکھتے ہی پوچھا کتنے اخبار بک گئے اور کتنے باقی ہیں ۔ میں نے ان کے سوال کا جواب دینے کے بجائے ا پنی بپتا سنائی کہ چوہدری فضل کریم نے میری بہت توہین کی ہے اور مجھے بُرا بھلا کہا ہے ، ابا جی نے کہا گھبرانے کی کوئی بات نہیں ایک دن آئے گا جب چوہدری فضل کریم کو تمہاری ضرورت پڑے گی، مجھے کچھ سمجھ نہ آیا چوہدری فضل کریم کو میری کیا ضرورت پڑے گی ۔ پھر والد صاحب نے پوچھا کتنے اخبار بچ گئے ہیں۔ میں نے کہا دس ، انہوں نے کہا دوبارہ بازار جاؤ اور یہ فروخت کرکے آؤ۔ ان کے حکم پر بازار چلا گیا اور اخبار بیچنے لگا، اس طرح اخبار کے بچوں کے صفحہ میں لکھنے لگا۔ پھر والد صاحب ڈاک خانہ میں ڈالنے کے لئے خبروں کا جو لفافہ میرے حوالے کرتے تھے میں اس میں کسی نہ کسی فٹ بال میچ کی خبر ڈال دیتا تھا ۔ جب میری بھیجی ہوئی اس طرح کی پہلی خبر شائع ہوئی تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا اور والد صاحب کو بھی میں نے فخر سے خبریں دکھانا شروع کیں۔ پھر میں خود اخبار کا نامہ نگار بن گیا ۔ بلدیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے انتخابات ہونے والے تھے ۔ ایک وارڈ میں چوہدری فضل کریم بھی امید وار تھے جنہوں نے مجھے اخبار بیچنے پر طنز کا نشانہ بنایا تھا ۔ میں نے ان کے حلقۂ انتخاب کے جائزہ میں یہ لکھا کہ چوہدری فضل کریم کے مد مقابل کی پوزیشن مضبوط ہے اور چوہدری صاحب کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ انہوں نے یہ اخبار پڑھا اور ہمارے گھر آن پہنچے اور والد صاحب سے شکایت کرنے لگے کہ آپ کے بیٹے نے میرے بارے میں یہ لکھا ہے ۔ والد صاحب نے یاد دلایا کہ در اصل میرا بیٹا آپ سے ناراض ہے ، آپ نے فلاں وقت اس پر ایک جُملہ کسا تھا ، وہ بار بار وضاحت کرنے لگے کہ مجھے ایسا کوئی واقعہ یادنہیں لیکن ساتھ ساتھ میرے گُھٹنے بھی چُھورہے تھے اور مجھے اپنا بھتیجا قرار دے کر معافی بھی مانگ رہے تھے ۔ والد صاحب نے مجھے کہا کہ چوہدری صاحب اب کیونکہ خود چل کر آئے ہیں اس لئے میں تم سے یہ تو نہیں کہتا کہ آج سے تم ان کی حمایت شروع کردو لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ آج کے بعد ان کے خلاف کوئی خبر نہ بھیجنا۔ چوہدری صاحب یہ سُن کر اطمینان سے چلے گئے مگر مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ ابا جی نے مجھے کیا کہا ہے ۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ ذراپھر سمجھائیں کہ آپ نے مجھے کیا ہدایت کی ہے ۔ والد صاحب نے کہا میں نے تمہیں یہ کہا ہے کہ میں یہ نہیں کہوں گا کہ آج سے تم ان کی حمایت کرنا شروع کردو، اس لئے کہ تم یہ لکھ چکے ہوکہ ان کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ۔ اگر تم ان کی حمایت میں کل یہ لکھ دو گے کہ ان کی کامیابی کا امکان پیدا ہوگیا ہے یا امکان بڑھ گیاہے تو تمہارے لکھے کا کوئی اعتبار نہیں کرے گا ۔ لوگ کہیں گے کہ کل اس نے یہ لکھا تھا اور آج یہ لکھ رہا ہے ، لازماً اس نے کوئی فائدہ اٹھالیا ہے ۔ میں نے تم سے یہ کہا ہے کہ ان کی مخالفت میں کوئی خبر نہ بھیجنا۔ اگر تم خاموش رہو گے ، ان کے خلاف کوئی خبر نہیں بھیجو گے تو تمہیں کوئی پوچھنے نہیں آئے گا کہ تم نے تو دس دن پہلے یہ خبر دی تھی ، اس دن کے بعد اس بارے میں کچھ نہیں لکھا ۔ اس طرح چوہدری فضل کریم مطمئن ہوجائیں گے اور تمہارے لکھے کا اعتبار بھی بر قرار رہے گا ۔ اخبار میں حکمت کس چیز کا نام ہوتا ہے ، یہ پہلا سبق تھا جو اخبار بیچنے کے بعد اخبار کا نمائندہ بن کر میں نے اپنے والد صاحب کی زبان سے سُنا اور سیکھا۔ انہوں نے مجھ سے اخبار فروخت کرائے اور اس اخبار فروشی کے باعث میں آج کئی اخبارات کا ایڈیٹر ہوں اور اخباری مدیروں کی جماعت (سی پی این ای )کا صدر ہوں۔ اگر میرے والد صاحب نے مجھ سے یہ کام نہ لیا ہوتا تو شاید میں آج بھی ان کی ہوزری فیکٹری اور سُوت دھاگے کے آرڈر ہی بُک کررہا ہوتا۔
میرے والد صاحب کو کھدر کا لباس پہننا بہت مرغوب رہا، پاکستان بننے کے بعد جب وہ مجھے ساتھ لے کر سرہند شریف گئے تو مجھے ’’کھدر بھنڈار‘‘ کے نام سے کانگریس کی کھولی ہوئی دُکان پر لے گئے اور قمیص شلوار کے لئے کھدر خریدا اور پاکستان واپس آکر مجھے سلوا کر دیا۔ میں ایک روز سخت گرمی میں کھدر کے کپڑے پہنے سکول سے گھر آیا تو وہاں میرے چچا قاضی علاؤ الدین سرہندی کے برادر نسبتی مسعود احمد جو لائل پور میں رہتے تھے ، والد صاحب کے پاس تشریف فرما تھے ، مجھے کھدر پہنے دیکھ کر والد صاحب سے مخاطب ہوئے ، بھائی جان یہ دولت آپ کے کس کام آئے گی، آپ نے بچے کو اتنے سخت گرم موسم میں کھدر کے کپڑے پہنا رکھے ہیں ۔ والد صاحب نے میری طرف دیکھے بغیر جو پسینے سے شرابور تھا، مسعود صاحب سے کہا مسعود ! میں انہیں ایک خاص مقصد سے یہ لباس پہناتا ہوں ، اگر انہیں آنے والی زندگی میں ریشمی کپڑے پہننے کو نہ ملے تو یہ چوری نہیں کریں گے اور دوسرے غلط کام نہیں کریں گے ، یہ کھدر پہنتے رہیں گے اور یہ انہیں چبھے گا نہیں اور تکلیف نہیں دے گا ۔ کھدر پہننے کے میلان کا ہی نتیجہ تھا کہ میں ابھی میٹرک کا طالب علم ہی تھا کہ میں نے خان عبدالغفارخان کی تحریک ’’ سرخ پوش‘‘ اور مولانا ظفر علی خان کی تحریک ’’ نیلی پوش کی طرز پر ’’ تحریک کھدر پوش‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کا مقصد عوام کو کھدر پہننے اور ملک میں تیار کردہ مصنوعات استعمال کرنے کے لئے آمادہ کرنا تھا ۔ اس تحریک کا پہلا جلسہ کمالیہ کے صدر بازار چوک میں منعقد کیا گیا جس کا اہتمام وہاں کے ایک سماجی کارکن اور ہمارے ہم خیال دوست صدیق احمد کمالوی نے کیا تھا جن کی صدر بازار میں کریانہ اور پنساری کی دکان تھی ۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر ضروری ہے کہ جب میں کمالیہ جانے کے لئے اپنے گھر سے نکلنے لگا تو میری والدہ نے جنہیں کچھ علم نہیں تھا کہ میں کس مقصد سے کمالیہ جارہا ہوں سردی کی شدت کے باعث اوڑھنے کے لئے ایک گرم چادر مجھے دے دی ۔ میرے ایک ہم سفر ساتھی نے بس میں بیٹھ کر مجھے بتایا کہ یہ گرم چادر جاپان کی بنی ہوئی ہے اس لئے جلسہ میں شرکت سے قبل اور بس سے اترتے ہوئے میں یہ چادر اس کے حوالے کردوں تاکہ تحریک کھدر پوش کے مقاصد کے حوالے سے سامعین میں سے کوئی اس پر اعتراض نہ کرسکے۔
والد صاحب کا کاروبار پاکستان آنے کے بعد کئی نشیب و فراز سے گزرا، انہوں نے دستی کھڈیاں لگائیں۔ ان پر سُوتی اور ریشمی کپڑا تیار کرا کر لائل پور میں فروخت کے لئے بھیجا۔ پھر ہوزری کا کام شروع کیا مگر یہ بھی نہ چلا ۔ پھر میرے دادا نے انہیں سمندر ی روڈ گوجرہ پر واقع اپنی کاٹن جننگ فیکٹری میں بھیج دیا جہاں وہ اپنے تایا زاد بھائی قاضی محمد صادق کے ساتھ مل کر کاٹن جننگ فیکٹری چلاتے رہے جس میں تین حصہ دار شیخ محمد افضل بانسانوالہ بازار لاہور میرے بڑے دادا حاجی محمد اکبر اور میرے دادا قاضی محمد اصغر مساوی حصہ دار تھے میرے دادا کے انتقال کے بعد میرے والد صاحب اس فیکٹری میں اپنے والد کی نمائندگی کرتے رہے مگر یہ کاروبار بھی زوال کا شکار ہوگیا ۔ والد صاحب نے کافی عرصہ اپنے گھر کی بیٹھک میں کپڑے کی دُکان کی ۔ پھر میرے تایا قاضی نصیر الدین صاحب جو ڈیرہ غازی خان چلے گئے تھے اور پھر ڈیرہ غازی خان سے کراچی جا کروہاں بند رروڈ پر نیو کلاتھ مارکیٹ میں کپڑے کا کاروبار شروع کیا تھا وہ واپس ٹوبہ ٹیک سنگھ آگئے۔ والد صاحب اور تایا جی سرہند شریف میں بھی جنرل مرچنٹس کی دُکان مشترکہ طور پر کرتے تھے ، جب تایا جی کراچی سے ٹوبہ آئے تووالد صاحب نے انہیں اپنے کپڑے اور ہوزری کے کاروبار میں شریک کرلیا، کئی سال کے بعد یہ کاروبار بھی خسارے کی لپیٹ میں آگیا۔ اس وجہ سے والد صاحب لائل پور چلے آئے۔ ہفت روزہ’’ وفاق ‘‘ اور روز نامہ’’ وفاق‘‘ کے اکاؤنٹس کا کام سنبھالا مگر وفاق کے مالی حالات بھی دگر گوں رہے، تب مولانا عبدالرحیم اشرف نے انہیں اشرف لیبارٹریز میں بُلا لیا ، اس دور ان میرا چھوٹا بھائی معراج ظفر بھی ان کے ساتھ رہا۔ پھر انہوں نے اشرف لیبارٹریز کو بھی خیر باد کہہ دیا۔ میرے چچا ( والد صاحب کے تایا زاد بھائی) قاضی محمد عبداللہ اور قاضی عبدالرحیم نے انہیں جڑانوالہ بُلا لیا، جہاں انہوں نے ایک فلور ملز ٹھیکے پر لے رکھی تھی۔ میرے چچا صاحبان نے ان کی بہت قدر و منزلت کی۔ وہ ہر بات میں ان سے مشورہ کرتے اور ان کی ہدایات اور مشوروں پر عمل بھی کرتے ،میری مرحومہ چچی صاحبہ بھی ان کا بہت خیال رکھتیں، وضو کے لئے سردی میں پانی گرم کرکے دیتیں ۔ والد صاحب کو ہمیشہ گرم چپاتی مرغوب رہی، میری چچی خاص طور پر اہتمام کرتیں کہ انہیں کھانے کے وقت توے سے تازہ گرم گرم روٹی ملتی رہے، میری والدہ محترمہ نے بھی ہمیشہ میرے والد صاحب کا ان پہلوؤں سے بہت خیال رکھا ، گرم روٹی کے ساتھ انہیں ٹھنڈا پانی بھی بہت پسند تھا۔
والد صاحب نے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں قیام کے دوران بلدیاتی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ وہ کئی بار میونسپل کمشنر اور کونسلر منتخب ہوئے ، وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میونسپل کمیٹی کے وائس پریذیڈنٹ بھی رہے، اس وقت چوہدری عبدالغفور( الہلال ویجی ٹیبل گھی ملز ملتان کے میاں عبدالستار سابق ممبر قومی اسمبلی کے بڑے بھائی) میونسپل کمیٹی کے پریذیڈنٹ تھے ۔ ایک دوباروہ الیکشن ہارے بھی جب ان کے اپنے ہی قریبی ساتھی ان کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے اور وہ ان کے حامی ووٹروں کا کچھ حصہ توڑ نے میں کامیاب رہے۔
جب ہم نے روز نامہ وفاق کا اجراء کیا تو مصطفی صادق صاحب اور میں نے اپنے احباب اور عزیز و اقارب سے کچھ رقوم قرض لیں مگر ابتدائی ماہ و سال میں ادارہ وفاق مالی مشکلات سے دوچار رہا اور جن لوگوں سے یہ رقوم لی گئیں تھیں وعدے کے مطابق وہ ادانہ ہوسکیں۔ والد صاحب نے بھی اپنے بھائیوں سے کچھ رقوم جلد ادائیگی کے وعدے پر لے کر دی تھیں جن کی وعدہ کے مطابق ادائیگی نہیں ہورہی تھی ۔ والدصاحب کو اسی وجہ سے مصطفی صادق صاحب اور مجھ سے شکایت رہتی تھی ۔ 1964ء میں عید الاضحی آرہی تھی اور مجھے یہ فکر لاحق تھی کہ بر وقت ادائیگی نہ ہونے کے باعث والد صاحب مجھ سے خفا ہوں گے۔ میرا معمول تھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے آنے کے بعد میں عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر اپنے والدین سے ملنے ضرور جاتا تھا لیکن قرض لی گئی رقم ادا نہ ہونے کے باعث میں شرمندگی سے دوچار تھا اس لئے میں ٹوبہ ٹیک سنگھ نہ گیا ۔ والد صاحب نے مجھے ایک خط لکھا جس میں وہ فرماتے ہیں ، بر خوردار ! طول عمرہ ، خط آپ کا ملا تحریر کردہ حالات معلوم ہوئے ہم سب کی ہر وقت یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے کاروبار میں دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے اور آپ اس قابل ہوجائیں کہ والدین اولاد کی طرف سے عائد شدہ فرائض سے سبکدوش ہو سکیں۔ والدین کو اولاد سے بہت کچھ تو قعات وابستہ رکھنی پڑتی ہیں خواہ وہ عمر بھر پُوری نہ ہوں آپ نے جب کسی مرحلہ پر کسی ضرورت کا اظہار کیا خدا کا شکر ہے کہ والدین کی ادنیٰ سے کوشش سے وہ ضرورت پُوری ہوتی رہی ۔ آپ کی والدہ نے بھی آپ کو اپنی ضروریات کے لئے کبھی مایوس نہیں کیا ۔ یہاں تک کہ اب آپ کے لئے قرض کا بوجھ بھی سر پر اٹھا یا محض اسی لئے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے کاروبار میں اطمینان عطا فرمادے اگر چہ گزشتہ حالات کا تقاضا واضح تھا کہ وعدہ پُورا کرنا آپ لوگوں کے بس کا روگ نہیں تھا کبھی بھی کوئی وعدہ ایفا نہ ہوا مگر یہ جان کر کہ مجبوری کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے ہمیشہ زبانی بھی اور تحریری بھی یہی تاکید کی کہ اپنے وعدے کی قدر کرو۔ لیکن جُوں جُوں وقت گزرتا گیا اندازہ ہو ا کہ اس بات کو کوئی وزن نہیں دیا گیا دوسروں کی رقوم میرے لئے پہاڑ جیسا بوجھ معلوم ہورہی ہیں ۔ میں ان لوگوں کے سامنے ہمیشہ کے لئے دب کر رہ گیا ہوں پھر وہ کتنے لوگوں کے پاس ہماری عہد شکنی کا تذکرہ کریں گے ۔ کتنے لوگوں کے ہاں ہماری بد نامی ہو گی اور پھر اس کے نتائج کیا ہوں گے، میری ساکھ کو اس قدر نقصان پہنچا ہے کہ اس کا ازالہ ناممکن ہوگیا ہے آپ نے لائل پور میں وعدہ کیا تھا کہ جاتے ہی دونوں قرض خواہوں کی رقم کا نصف نصف بھیج دوں گا افسوس یہ ہو اکہ کوئی خط لکھنا تو دُور کی بات ہے آپ عید پر گھربھی نہیںآئے، دوسری طرف آپ حضرات کے بے جا اخراجات کی نشاندہی کرنا زیادہ مناسب نہیں نہ مجھے یہ حق پہنچتا ہے کہ ایسے اخراجات شمار کراؤں جو میری نظر میں قطعی غیر ضروری معلوم ہوتے ہیں ، چونکہ اس کا فائدہ اور نقصان آپ لوگوں کا ہی ہے والدین تو ہر حالت میں ہمیشہ اولاد کی بھلائی کے طلب گار ہوتے ہیں اور انشاء اللہ ہماری طرف سے آئندہ بھی اس میں کوئی کمی نہیں آئے گی لیکن بر خوردار آپ کے لئے ہزاروں تمناؤں اور دعاؤں کے ساتھ اب بھی یہی عرض کروں گا کہ اخراجات اپنے بس میں ہوتے ہیں، آمدن بڑھانا اپنے بس کی بات نہیں۔ خواہ گھر کا معاملہ ہو یا کاروبارکا۔
ایک اور خط میں لکھتے ہیں ! بہت دیر سے تمہارا کوئی خط مجھے نہیں ملا ۔ غالباً جس روز سے مل کر ٹوبے سے گئے ہو تم نے کوئی خط نہیں لکھا بہتر اور اچھا طریقہ یہی ہے کہ گاہے بہ گاہے والدین کو خط لکھتے رہا کرو، زندگی میں والدین کی تمنا رہتی ہے کہ اولاد ان کو یاد کرتی رہے بعد از حیات تو سبھی یاد کرتے ہیں ماں باپ کے لئے اولاد بڑی نعمت ہے اور اولاد کے لئے ماں باپ کا سایہ بے حد رحمت ہے ۔ دکان کے مقدمے کے سلسلے میں خلاف فیصلہ ہوجانے سے مجھے جو صدمہ ہوا ہے اس کاذکر کرنا تو مناسب نہ تھا چونکہ مصطفی صادق صاحب کی زبانی پتہ چلا کہ آپ کو اس کا خود بھی احساس ہے یہ صدمہ بڑی حد تک ایک حادثہ ہے جو ساٹھ سالہ زندگی میں اس قدر نقصان کے ساتھ گزرا ہے ، لیکن سو ائے صبر کے کوئی چارہ ہے اور نہ کوئی علاج مگر صبر ہی ہے کہ آتا نہیں رات کو جس وقت آنکھ کھُل جاتی ہے تمام واقعات فلم کی طرح سامنے آنا شروع ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ بعض اوقات سخت پریشان ہوجاتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے آگے دست بد عا ہوتا ہوں کہ اے اللہ اس صدمے میں صبر کی توفیق دینے والا بھی تُو ہی ہے اور آئندہ اس کے ازالہ کی بھی توقع تجھی سے ہے ۔ ہر نماز میں اولاد کے لئے خوش حالی کی دعا کے ساتھ ساتھ آپ لوگوں کے اس کاروبار کی ترقی اور کامیابی کے لئے بھی دعائیں کرتا ہوں کہ اے اللہ مجھے کسی ایک کی طرف سے ہی مطمئن کردے کہ ہاں ان کا کاروبار خوش حالی سے چلنے لگا ہے ۔مقدمہ کے اس فیصلہ کے بعد ارادہ تھا کہ ٹوبہ میں ہی کوئی کاروبار کروں اور لائل پور چھوڑدوں مگر کوئی امید کی کرن دکھائی نہیں دیتی حاجی محمد صدیق صاحب سے کئی دفعہ گفتگو ہوئی وہ یہی کہتے ہیں کہ تم لائل پور چھوڑ کر واپس ٹوبہ آجاؤ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ۔ لیکن کسی سہارے اور آسرے کے بغیر کیسے چھوڑ کر بیٹھ جاؤں حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ اب مزید محنت اور جدوجہد سے اپنی جان کو دکھ دے کر بھی زیادہ کام کروں تاکہ اللہ تعالیٰ ہمارے دن بدل دے اگر ممکن ہو تو حاجی محمد صدیق صاحب کو خط لکھیں کہ وہ جس طرح بھی چاہیں ہم بھائیوں کے مابین کار خانے کا مسئلہ طے کردیں تاکہ میں وہاں کوئی کام کر سکوں اور زندگی کے باقی ایام کچھ آرام سے گزر جائیں۔
میں نے والد صاحب کے اس خط کی تعمیل میں 19 نومبر 1962ء کو اپنے بزرگ حاجی محمد صدیق صاحب کو والد صاحب کے خط کی روشنی میں حالات سے آگاہ کیا انہوں نے جواب میں لکھا تمہارا خط آنے سے قبل ہی میرا ارادہ تھا کہ تمہیں کچھ لکھوں مگر کوتاہ قلمی کے باعث نہ لکھ سکا بھائی صاحب کے متعلق جو خیال آپ نے ظاہر کیا ہے میری اپنی رائے یہ ہے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ متاثر ہیں۔ میں تم دونوں بھائیوں سے وعدہ لینا چاہتا ہوں کہ آپ دونوں اپنے گھر کے اخراجات کا بندو بست کریں تاکہ بھائی صاحب پر کسی قسم کا بوجھ نہ رہے ان سے کہہ دیں کہ آپ بس بے فکری سے زندگی گزاریں آپ کو معاش کی کوئی فکر نہیں کرنی چاہئے امید ہے کہ آپ میری اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے مجھے ہاں یا نہیں میں جواب دیں گے ۔ میں نے بھی بھائی صاحب کو مشورہ دیا ہے کہ آپ لائل پور سے ٹوبہ آجائیں کارخانے میں اپنی نشست گاہ رکھ کر شہر اور خاندان کی خدمت کریں بعد میں دیکھا جائے گا کہ معاش کا کیا بندو بست ہوتا ہے ۔ کار خانے کی زمین کے متعلق آپ اپنا مشورہ دیں کہ مجھے کیا کرنا چاہئے کیونکہ میں اپنی پوری طاقت صرف کرچکا ہوں عقل زیادہ رکھنے والے کسی دوسرے کی بات پر اعتماد نہیں کرتے ۔
حاجی محمد صدیق کے خط کی روشنی میں میں نے والد صاحب کو پھر ایک خط لکھا اس کے جواب میں وہ لکھتے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو اس کی جزا عطاء فرمائے کہ آپ نے صدمات سے زخمی والد کی اپنے خط کے الفاظ سے ڈھارس بندھانے کی کوشش کی ہے ۔ اللہ تبار ک و تعالیٰ ان چیزوں سے راضی ہوتا ہے ۔ میری حالت یہ ہے کہ زندگی کے دن کم ہوتے جارہے ہیں اور تفکرات ہیں کہ روز بروز بڑھتے جارہے ہیں ۔ کوئی بھی کام پایہ تکمیل کو پہنچنے میں نہیں آتا۔ زندگی کے قیمتی پانچ سال دکان کے مقدمہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش میں گزرگئے ہیں خداہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے اس آزمائش کے لئے مجھے کیوں موزوں جانا اب صبر و شکر کی تو فیق بھی یہی دینے والا ہے میری طبیعت بے حد کمزور ہوگئی ہے کوئی بھی نا خوش گوار بات برداشت نہیں ہوتی ہر وقت اس فکر میں مبتلا ہوں کہ خدا وندقدوس جلد کوئی سبب بنادے تاکہ لائل پور چھوڑدوں کیونکہ یہ کسی طرح بھی مجھے راس نہیں آرہا میری طبیعت اب یہاں نہیں لگتی۔ جی چاہتا ہے کہ جلد کوئی اسباب ایسے ہو جائیں جس سے میں گھر چلا جاؤں جس امید میں یہ پانچ سالہ طویل وقت یہاں گزار آخر کار یہ ختم ہوگیا اب کوئی منزل نہیں ہے جس کے سہارے یہاں بیٹھا رہوں۔ اخبار کے ڈیکلریشن کے بارے میں اطلاع ملی کہ اب حافظ صاحب سے مصطفی صادق صاحب کو منتقل ہوگیا ہے مبارک ہو ۔ اللہ مزید کامیابیوں سے نوازے ۔ اب تک کی کامیابیاں مصطفی صادق صاحب کی محنتوں اور کوششوں کا نتیجہ ہیں قرض خواہوں کا تقاضا میری طبیعت پر بے حد بوجھ کا باعث بن رہا ہے اس لئے اس معاملے کو سر سری خیال نہ کریں ۔ میری کوشش تھی کہ ان تقاضوں پر کچھ دن اور گزر جائیں اس لئے اس خط کے ذریعے پھر یاد دہانی کرانی پڑ رہی ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو یہ رقم بھیج دیں کیونکہ تقاضے برداشت کرنے کی طاقت اب مجھ میں نہیں ہے اور نہ تمہاری والدہ اسے برداشت کرسکتی ہے اس لئے فکر کرکے اس ادائیگی کا قصہ اب ختم کردو اپنے کام کی طرف پوری طرح متوجہ رہو انشاء اللہ کامیاب ہو گے تمہاری والدہ اور میری دعائیں شامل حال رہیں گی۔ مصطفی صادق صاحب کا ہر حالت میں احترام کرنا ضروری خیال کرو۔ اس میں فائدہ ہے اور یہی کامیابی کی راہ ہے کاروبار میں برکت بھی اسی میں مضمر ہے برداشت ضرورت سے زیادہ کرو۔ اخلاق کو جس قدر بھی وزن دو گے زندگی کی منزلیں سر کرنے میں بے حد معاون ثابت ہو گا۔ مہمان نوازی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ کامیابی اور کامرانی کے لئے گزرنے والے لوگوں سے جس قدر بھی خوبیاں حاصل کرسکو کرو۔ ان کا نہ صرف سر سری مطالعہ کرو بلکہ دل میں جگہ دے کر اپنا نے کی سعی کرو غریبوں اور مسکینوں سے محبت اور اخلاص سے پیش آنا بھی بہتر راہ عمل ہے بہر حال کچھ الفاظ یونہی لکھ گیا ہوں ورنہ آپ جیسے فہم و فراست کے حامل کے لئے ان کی ضرورت نہیں تھی اگر ممکن ہو تو اپنی والدہ کی دل جوئی کے لئے ہر ماہ کچھ نہ کچھ ضرور بھجوادیا کرو۔
ایک اور خط میں لکھتے ہیں کل تمہارا ایک قرض خواہ میرے پاس آیا ۔ مجھے جو ندامت اٹھا نا پڑی وہ میں ہی جانتا ہوں ابھی تو مقام شکر ہے کہ ایسے آدمی نہیں جو مجھے گردن سے پکڑ لیں میں نے ان سے ایک ماہ کا وعدہ کرلیا ہے۔ بر خوردار ،میری اس تحریر کو معمولی بات نہ خیال کرنا میری عزت آبرو اورساکھ کا سوال ہے۔ میں نے یہ بُرے دن کبھی نہ دیکھے تھے ۔ اس لئے مجبوری کی وجہ سے یہ الفاظ لکھ رہا ہوں۔ میرے ان الفاظ کو پورا کرنا تمہاری ذمہ داری ہے دوسرے مجھے اپنے صحیح صحیح حالات لکھو تاکہ میں آپ کی پریشانی میں کمی کے لئے کچھ سوچوں ایک ماہ میں ایک مرتبہ والدین کو ملنے ضرور آجایا کرو ۔ خواہ ایک رات کے لئے آؤ ماں باپ کی طبیعت اور شفقت کچھ ایسی چیز ہے کہ کچھ نہ بھی بتاؤ تو صبر نہیں آتا ۔ اس لئے ضرور آ کر مل جایا کرو ۔ اگر زیادہ وقت نہیں تو ایک گھنٹہ کے لئے ہی آجایا کرو ۔ اپنے اخراجات پر کڑی نظر رکھو۔ امید پر اخراجات بڑھا لینا ہر گز دانش مندی نہیں آپ لوگوں کے حالات کا اگر چہ مجھے پورا علم نہیں تو اندازاضرور ہوتا رہتا ہے مگر آپ نے اخفارکھنا ہی مصلحت جانا یا والدین کو اپنے حالات کی پریشانی سے بچانا مناسب خیال کیا میری دعا ہے خدا وند قدوس مجھے اپنی بار گاہ سے اتنا دے کہ میں یہ سارے حوادث برداشت کرسکوں ۔ میرے دماغ پر ان باتوں کا اس قدر بھاری وزن پڑ گیا ہے کہ الفاظ میں بیان کرنا آپ لوگوں کے لئے مزید پریشانی کا باعث ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ قرض خواہوں کی پریشانی سے مجھے جلد نجات دلا دو گے ابھی بے شمار ذمہ داریاں مجھے آپ کے اوپر ڈالنا ہیں۔
والد صاحب نے اپنی رحلت سے کچھ عرصہ پہلے ایک روز مجھے اپنے پاس بیٹھنے کے لئے کہا اور میرے بیٹھتے ہی کسی تمہید کے بغیر فرمانے لگے میں نے اپنی زندگی میں دولت کا آنا بھی دیکھا ہے اور اس کا جانا بھی، جب اللہ تعالیٰ نے مجھے دولت عطا کی تو مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں اسے خرچ کہاں کروں اور جب اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ دولت واپس لے لی تو مجھے کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا کہ میں اسے دوبارہ کیسے حاصل کروں۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو دولت عطا کرے تو اس کے استعمال کے سلسلے میں کچھ باتیں تمہیں کہنا چاہتا ہوں۔ اگر تمہارے علم میں اپنے محلے ، اپنے رشتے داروں اور اپنے جاننے والوں میں کوئی ایسا یتیم بچہ ہو جو تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہو مگر اسے وسائل میسر نہ ہوں تو اسے تعلیم دلانا۔ اسی طرح اگر تمہیں اپنے محلے اور اپنے رشتے داروں اور اپنے جاننے والوں میں کسی ایسی خاتون کا علم ہو جو بیوہ ہو اور زندگی گزارنے کے وسائل سے محروم ہو تو تم اس کی خدمت کرنا اور اگر اپنے محلے ،اپنے رشتے داروں اور اپنے جاننے والوں میں کوئی بے آباد بچی تمہارے علم میں آئے تو اس کی خدمت کرنا ۔پھر مجھ سے دریافت کیا کہ بے آباد بچی سے کیا مراد ہے کیا تم سمجھتے ہو؟میں نے نفی میں جواب دیا تو فرمانے لگے کہ بے آباد بچیاں وہ ہوتی ہیں جن کے خاوند لاتعلقی اختیار کرلیتے ہیں اور وہ والدین اور بہن بھائیوں کے پاس واپس آجاتی ہیں اور پھر وہ بھی ایسی بچیوں کو بوجھ تصور کرنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد میری ایک قریبی عزیزہ کا نام لے کر کہنے لگے کہ اس کے متعلق میں خاص طورپر کہنا چاہتا ہوں۔ ان کی بات سُن کر میں نے فوراً ہی کہا کیا میں اسے تین سو روپے ماہوار بھیج دیا کروں۔ والد صاحب نے کہا مجھے تم سے ایسی ہی بے و قوفی کی توقع تھی ۔انسان کسی کی باتیں سنتا ہے اور بغیر سوچے سمجھے اپنی استطاعت سے بڑھ کر وعدے کرلیتا ہے۔ ایک دو مہینے پیسے بھیجتا ہے اس کے بعد پیشانی پر بل آنا شروع ہوجاتے ہیں کہ میں کس مصیبت میں پھنس گیاہوں ۔ ایسے تین سو روپے دینے سے جو دل کی ناخوشی کے ساتھ دیئے جائیں ،سو روپے دینا بہتر ہے کہ آدمی باقاعدگی سے بھیجتا بھی رہے اور اس پر کسی طرح کی پریشانی بھی لاحق نہ ہو۔
والد صاحب عمر کے آخری سالوں میں میرے پاس رہے۔ روز نامہ تجارت کے لئے اداریہ وہی لکھتے تھے پھر جب ہم نے 43 ریٹی گن روڈ پر خواجہ محمد طفیل( مرحوم) ایس پی کرائمزبرانچ کی کوٹھی میں تجارت پرنٹرز کے نام سے اپنا پریس لگایا تو انہوں نے ہی پریس کا کام سنبھالا مگر وہ اس کام سے خوش نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ کوشش کے باوجود وعدے کے مطابق کام دینے سے قاصر رہتے ہیں باوجود اس کے کہ میں پارٹی سے کام دینے کا وعدہ متعلقہ عملے کے مشورے سے کرتا ہوں لیکن اس کے باوجود کوئی نہ کوئی مشکل آن پڑتی ہے اور وعدہ پورا نہیں ہوتا ۔ پھر ان کا یہ بھی خیال تھا کہ مجھے پریس لگانے کے بجائے پریس کے لئے کوئی جگہ پہلے تعمیر کرنی چاہئے تھی کیونکہ پُورا مہینہ کام کرنے سے پریس میں جو منافع ہوتا ہے وہ عمارت کے کرائے میں چلا جاتا ہے۔ والد صاحب اپنی زندگی کی ابتدا سے ہی صبح اور شام کی سیر کے عادی تھے۔ وہ مجھے بھی اس کی نصیحت کرتے رہتے تھے مگر میں ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں کرسکا جس کی سزا مختلف عوارض کی صورت میں اب بھگت بھی رہا ہوں۔ جون 1978 ء میں وہ صبح سیر کے لئے گھر کے قریب ہی واقع پارک میں گئے ہوئے تھے جہاں انہیں دل کا عارضہ لاحق ہوا پہلے تو وہ کسی واقف شخص کا انتظار کرتے رہے جو انہیں گھر چھوڑ جائے مگر جب کوئی ایسا شخص دکھائی نہ دیا توہ وہ خود چل کر گھر آئے۔ میں ان کے کمرے سے ملحقہ باتھ روم میں نہا رہا تھا کہ میں نے ان کے درد سے کراہنے کی آواز سنی۔ میں باتھ روم سے باہر آیا اور ان سے دریافت کیا ،جس پر انہوں نے بتایا کہ انہیں ناقابل برداشت درد ہے اور میں کسی ڈاکٹر کو لے کر آؤں، زندگی میں شاید یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے خود ڈاکٹر کو بلانے کا کہا ورنہ وہ عام طورپر ڈاکٹروں اور ایلو پیتھی ادویات سے گریز ہی کرتے رہے۔ میں دو تین ڈاکٹروں کے پاس گیا مگر صبح کا وقت ہونے کے باعث کوئی ڈاکٹر ہاتھ نہ آیا،گیارہ بجے کے قریب شاہ ابو المعالی روڈ پر کلینک کرنے والے ڈاکٹر شفیق الرحمان خان، جو شادمان میں رہتے تھے دستیاب ہوئے۔ وہ والد صاحب کی علالت کا سنتے ہی فوراً سمن آباد میں ہمارے گھر پہنچے۔ والد صاحب کا معائنہ کیا اوریہ رائے دی کہ انہیں دل کا شدید دورہ پڑا ہے اور ہم انہیں بلا تاخیر ایمپریس روڈ پر کنعان ٹرسٹ ہسپتال میں ڈاکٹررؤف یوسف کے پاس لے جائیں۔ ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں وہ خود چل کر گئے تھے مگر واپسی پر انہیں ویل چیئر پر لایا گیا اور ڈاکٹر صاحب نے انہیں اپنے ہسپتال میں داخل کرلیا والد صاحب تین چار روز علیل رہے وہ انجکشن لگوانے پر تیار نہیں تھے مگر میرے بزرگ دوست حاجی برکت علی نے بمشکل انہیں اس پر آمادہ کیا۔ ان کے دل کی کئی شریانیں بند ہوچکی تھیں اور خون کا انجماد ہوگیا تھا۔ علالت کے تین چار ایام میں، میں دن رات ان کے ساتھ رہا ایک روز مجھ سے کہنے لگے کہ اگر ایک آدھ دن میں میری طبیعت ٹھیک نہ ہوئی تو مجھے گھرلے جانا۔ میں نے پوچھا گھر سے مرادسمن آبادہے یا ٹوبہ ٹیک سنگھ والا گھر، کہنے لگے سمن آباد۔ میری والدہ کوجو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں تھیں دوسرے روز والد صاحب کی علالت کی اطلاع دی گئی وہ ریل کے ذریعے لاہور ریلوے سٹیشن آئیں وہاں سے ویگن میں بیٹھیں انہیں سمن آباد آنا تھا کہ راستے میں ویگن کو آگ لگ گئی جس سے میری والدہ کا برقع جل گیا الحمد للہ وہ خود محفوظ رہیں والدہ کو اپنے برقع کاجلنا ایک بُرا شگون محسوس ہوا اور وہ والد صاحب کے بارے میں اور بھی زیادہ متفکر ہوگئیں۔ علالت کے چوتھے روز مصطفی صادق صاحب اور ارشاد احمد حقانی والد صاحب کی عیادت کے لئے ہسپتال آئے تو مجھے کہا کہ میں چند گھنٹوں کے لئے گھر چلا جاؤں اور کچھ آرام کرلوں ۔میں نے ان کی بات مان لی اور گھر چلا آیا میرے دو دوست حافظ بشیر سہیل اور حاجی محمد اسلم بٹ والد صاحب کے پاس ہی رہے اور میری منجھلی بہن انیسہ بھی وہیں رہیں۔ حافظ صاحب اخبار پڑھ کر اہم خبریں والد صاحب کو سنا رہے تھے ان میں جنرل محمد ضیاء الحق کا ایک خطاب شامل تھا ۔خبریں سنتے سنتے والد صاحب کی آنکھ لگ گئی چند منٹ بعد وہ ہڑ بڑا کر اٹھے اور کہا کہ مجھے سخت گرمی لگ رہی ہے۔ ان کو بتایا گیا کہ کمرے کا اے سی چل رہا ہے مگر والد صاحب نے کہا کہ میری قمیض اتاردیں لیکن جب قمیض اتارنے پر بھی انہیں قرار نہ آیا تو انہوں نے بنیان بھی اتار نے کے لئے کہا۔ اس دوران ایک دوست ڈاکٹر رؤف یوسف کو لینے چلے گئے مگر ڈاکٹر صاحب کے آنے سے پہلے ہی والد صاحب کی روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ ہم ان کی میت لے کر سمن آباد پہنچے اور اسی رات ایمبولینس میں ان کے جسد خاکی کو ٹوبہ ٹیک سنگھ لے گئے اور اگلی صبح ٹوبہ ٹیک سنگھ کے مرکزی قبرستان میں ان کے والد قاضی محمد اصغر سر ہندی مرحوم کے پہلو میں انہیں سپرد خاک کردیا گیا ۔