آہستہ آہستہ ہوش جوش پر غالب آرہا ہے۔ اور بالآخر میاں نواز شریف نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ محاذ آرائی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ورنہ اس سے قبل حیران کن بات یہی تھی کہ وہ سیاسی خودکشی کیوں کر رہے ہیں۔ بلا شبہ حکومت آج جس صورتحال کا شکار ہے اس کی ساری ذمے داری اس پر خود ہی عائد ہوتی ہے۔ اس نے معاملہ کو قانونی اور سیاسی طور پر مس ہینڈل کیا ہے۔
جہاں تک میاں نواز شریف کے استعفیٰ کا تعلق ہے یہ مرحلہ اب گزر گیا ہے۔وہ استعفیٰ دیں یا نہ دیں یہ معاملہ اب کوئی اہم نہیں۔ اسی لیے استعفیٰ مانگنے والوں نے بھی استعفیٰ مانگنا بند کر دیا ہے۔ اب وہ عدلیہ کے رحم و کرم پر ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی آپشن نہیں۔ حکومت نے بلاشبہ اپنے لیے باقی تمام آپشن کے دروازے بند کر لیے ہیں۔ وہ بند گلی میں ہے لیکن اس نے اس صورتحال کا خود انتخاب کیا ہے۔ ورنہ وزیر اعظم کے قریبی لوگ ان کو دوسرے آپشنز کا مشورہ دیتے رہے ہیں جو انھوں نے مسترد کیے۔
ایک طرف میاں نواز شریف پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے لیکن دوسری طرف میاں شہباز شریف کے خلاف نا اہلی کا کیس لاہور ہائی کورٹ نے ابتدائی سماعت کے بعد ہی مسترد کر دیا ہے۔ شاید عمران خان نے یہ کیس اس لیے دائر کیا تھا کہ شریف خاندان کے خلاف ایک ماحول بنا ہوا ہے۔ اس لیے وہ اسی خاص ماحول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شہباز شریف کو سیاسی میدان سے صاف کر دیں۔ عمران خان شہباز شریف کو اپنی وزارت عظمیٰ کی راہ میں رکاوٹ سمجھ رہے ہیں۔ اسی لیے وہ شہباز شریف کو بھی اس موقع پر عدالتی راستے سے ہی صاف کرنا چاہتے ہیں ۔شاید سیاسی میدان میں شہباز شریف کو شکست دینا عمران خان کے لیے نہایت مشکل ہو گا۔
بالفرض میاں نواز شریف نا اہل ہو جاتے ہیں تو مسلم لیگ (ن) کی قیادت کس کے پاس جائے گی۔ اس ضمن میں بہت سی قیاس آرائیاں سامنے آرہی ہیں۔ محاذ آرائی کے حامی تو کلثوم نواز کا نام لے رہے ہیں۔ ایسے اشارے سامنے آئے ہیں کہ اس بات کی تیاری کی جا رہی ہے کہ اگر میاں نواز شریف نااہل ہوتے ہیں تو فوری طور پر خصوصی نشست پر کلثوم نواز کو قومی اسمبلی کا ممبر بنوایا جائے گا اور اس کے بعد انھیںوزیر اعظم بنا لیا جائے گا۔ لیکن دوسری طرف یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا کلثوم نواز کو سامنے لانے سے بحران میں اضافہ ہو گا یا کمی۔ اس سے پہلے کلثوم نواز مارشل لا دور میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کر چکی ہیں لیکن وہ محاذ آرائی کا دور تھا، سب جیل میں تھے۔ سب کچھ لٹ چکا تھا۔ ایسے میں ٹکراؤ اور محاذ آرائی ہی واحد آپشن تھا۔
لیکن آج کی صورتحال مختلف ہے۔ آج اقتدار مسلم لیگ (ن) کے پاس ہے۔ اور اگر میاں نواز شریف نا اہل ہو بھی جائیں تب بھی مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ جماعت کے اندر سے نیا وزیر اعظم بھی آسکتا ہے۔ اسمبلیاں اپنی مدت بھی پوری کر سکتی ہیں۔ لیکن یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ نیا وزیر اعظم کون ہو گا۔ اس کی پالیسی کیا ہو گی۔ یہ درست ہے کہ میاں نواز شریف کی جانب سے یہ اعلان کہ وہ محاذ آرائی نہیں کریں گے۔ پالیسی میں بڑی تبدیلی کا اعلان ہے اور اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ میاں نواز شریف اب سیاسی فیصلے سیاسی انداز میں کرنے کے موڈ میں آگئے ہیں۔
یہ درست ہے کہ شہباز شریف صرف میاں نواز شریف کے بھائی ہونے کی وجہ سے بطور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے طور پر سامنے نہیں آرہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ شاید میاں نواز شریف کے قریبی مشیران کی فہرست میں تو شہباز شریف کا نام سر فہرست نہیں ہے۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کے اراکین اسمبلی، پارلیمانی قوت اور ووٹر شہباز شریف کے حق میں ہے۔ پارٹی کے اندر سے شہباز شریف کے لیے آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ شہباز شریف کے نام کو جتنا دبایا جا رہا ہے آواز خلق اور نقارہ خدا کے مصداق کے طور پرشہباز شریف کا نام اتنا ہی سامنے آرہا ہے۔ ان کو جتنا پیچھے دھکیلا جا رہا ہے وہ اتنا ہی ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔
اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح پانامہ کے منطقی انجام کو نہیں روکا جا سکا۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی قیادت کو شہباز شریف کے پاس جانے سے روکنا مشکل ہو گا۔مسلم لیگ (ن) کے وہ رہنما جو اپنے چانس کے چکر میں شہباز شریف کی مخالفت کر رہے ہیں جو شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کی آڑ میں اپنا چانس بنا رہے ہیں، انھیںیہ سمجھنا ہو گا کہ 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا تاج اسی کو ملے گا جس کو مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی طاقت اور ووٹر کی قبولیت حاصل ہو گی۔ اس وقت مسلم لیگ (ن)کے اندر دھڑے بندی اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ وہ اسی دھڑے بندی کی بنا پر تقسیم ہو جائے ۔کسی کو کوئی دوسرا لیڈر قبول نہیں ۔ دھڑے بندی اتنی شدید ہے کہ پارٹی کو متحد رکھنے کے لیے شہباز شریف کو آگے لانا ہو گا۔
یہ بات عمران خان کے علم میں ہے کہ نواز شریف کے بعد شہباز شریف ہی ان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ ویسے تو عمران خان کے اوپر بھی نااہلی کی تلوار اسی طرح لٹک رہی ہے جیسے میاں نواز شریف پر لٹک رہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ نواز شریف پر واضح ہو گئی ہے اور عمران خان پر ابھی واضح ہو رہی ہے۔ لیکن عمران خان کو اندازہ ہے کہ اگر وہ بچ بھی گئے تو 2018 کے انتخابات میں شہباز شریف سے سخت مقابلہ ہو گا۔ لیکن اگر وہ شہباز شریف کو بھی راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کے لیے راستہ صاف ہو سکتا ہے۔ ورنہ عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کے اندر تو اور کسی کے خلاف ریفرنس فائل نہیں کیا۔ صرف شہباز شریف کی نا اہلی کی کوشش ظاہر کرتی ہے کہ وہ شہباز شریف کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
دوست پوچھتے ہیں کہ یہ کب واضح ہو جائے گا کہ شہباز شریف قیادت کے واحد امیدوار ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جیسے ہی پانامہ کا بحران اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا نیا وزیر اعظم آجائے گا۔ اس کے بعد ملک کا نظام ایک مرتبہ پھر نارمل ہو جائے گا اور دس ماہ کے لیے ملک میں یہی جمہوری نظام چلے گا۔ یہ وہ وقت ہو گا جب میاں شہباز شریف قیادت کھل کر سامنے آئے گی۔ بے شک مرکز میں ایک وزیر اعظم ہو گا لیکن مرکز نگاہ شہباز شریف ہو نگے۔ اس کی ایک وجہ ان کا وزیر اعلیٰ پنجاب ہونا بھی ہو گا لیکن دوسری وجہ یہ بھی ہو گی کہ وہ سب دھڑوں کے درمیان پل بھی ہونگے۔
جہاں تک اس تھیوری کا تعلق ہے کہ میاں نواز شریف کے خاندان کو شہباز شریف قابل قبول نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات تب تک تھی جب تک نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی یہ حکمت عملی تھی کہ وہ یہ واضح کرناچاہتے تھے کہ مائنس نواز شریف کسی بھی صورت قبول نہیں ہو گا۔ چند ماہ قبل جب پانامہ کا بحران پورے جوبن پر تھا تو اس سوال کے بعد اگر میاں نواز شریف نااہل ہو گئے تو کیا ہو گا تو جواب میں یہ کہا جاتا تھا کہ صرف نواز شریف اور نواز شریف ۔ نہ اس سے پہلے کچھ اور نہ اس کے بعد کچھ۔ یہ حکمت عملی اس لیے تھی کہ یہ اشارہ دیا جائے کہ مائنس نواز شریف کرنے سے بحران آجائے گا۔ لیکن اب یہ حکمت عملی ناکام ہو گئی ہے۔ اس تھریٹ نے کام نہیں کیا ہے۔ اس لیے یہ تھریٹ بھی کامیاب نہیں ہو گا کہ شہباز شریف قبول نہیں ہو نگے۔ بلکہ حقیقت حال تو یہی ہے کہ صرف شہباز شریف ہی قابل قبول ہو نگے۔ جس طرح جی کا جانا ٹھہر چکا ہے۔ اسی طرح شہباز کو قبول کرنا بھی ٹھہر چکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس اپنی بقا کا یہی واحد آپشن ہے۔