محمد سلیم از جمیل اطہر
لاہور کے ایک اخبار نے اتوار کی اشاعت میں اپنے وقت کے ایک بہادر ایڈیٹر کے انتقال کی خبر صفحہ 2 پر سنگل کالم میں مندرجہ ذیل الفاظ میں شائع کی:
لاہور (پ ر) پروفیسر محمد ناظر مرحوم کے صاحب زادے محمد سلیم انتقال کرگئے ہیں، ان کی نماز جنازہ آج دوپہر 52 ۔ شاہ جمال لاہور میں ادا کی جائے گی‘‘۔
خبر پڑھنے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مرنے والے کی اپنی کوئی شناخت نہیں تھی کیونکہ آج کے صحافی اس حقیقت سے واقف ہی نہیں کہ جناب محمد سلیم پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں لاہور سے شائع ہونے والے ایک مؤثر اردو اخبار ’’ہلال پاکستان‘‘ کے ایڈیٹر اور مالک تھے، ’’ہلال پاکستان‘‘ غالباً 55-56 میں مطلع صحافت پر جلوہ گر ہوا، اخبار کی پیشانی پر ایڈیٹر کی حیثیت سے محمد سلیم ایم اے ایل ایل بی کا نام شائع ہوتا تھا۔ یہ اس دور کا ایک باوقار اور معیاری اخبار تھا جس کا امتیازی وصف اس کی جرأت اور بے باکی تھا۔ جناب محمد سلیم محض نام کے ایڈیٹر اور مالک نہیں تھے بلکہ پورا اخبار ان کی بہادری اور جرأت کا آئینہ دار تھا، جناب محمد سلیم نے اخبار کے لئے صحافیوں کی ایک بڑی جماعت اکٹھا کرلی تھی لیکن وہ اداریہ خود لکھتے تھے، ادارتی مقالہ ان کی انقلابی سوچ، فکر اور عوامی مسائل و مشکلات کے بے خوف اظہار سے عبارت ہوتا تھا۔ جمہوری حکومتیں ہوں یا ایوب خان کی آمریت، جناب محمد سلیم اپنے قلم سے تلوار کا کام لیتے رہے، وہ صحافت میں کسی مصلحت اور مصالحت کے قائل نہیں تھے، انہوں نے ایوبی آمریت کے خلاف ڈٹ کر لکھا ان کا قلم شمشیرِ برہنہ کی حیثیت رکھتا تھا اور بالآخر انہیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی، مارشل لاء کے ایک حکم کے تحت ’’ہلال پاکستان‘‘ شائع کرنے والا پریس ضبط کرلیا گیا اور جناب محمد سلیم کو ان کی حق گوئی کی پاداش میں فوجی عدالت سے چھ ماہ قید بامشقت کی سزاسنا دی گئی، ابتلاء اور آزمائش کے اس دور سے گزر کر ’’ہلال پاکستان‘‘ جبری بندش کا شکار ہوگیا، جناب محمد سلیم نے اپنے اخبار کے سرکاری اشتہارات خود ہی حرام کرلئے تھے اور ان کے ادارتی مقالہ کے ساتھ طویل عرصہ تک یہ اعلان بھی شائع ہوتا رہا کہ ’’ہلال پاکستان‘‘ بطور احتجاج سرکاری اشتہارات شائع نہیں کرے گا۔
’’ہلال پاکستان‘‘ کے اعلیٰ معیار کے لئے یہ بتادینا کافی ہوگا کہ جب ایوب خان کے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد احمد ندیم قاسمی کو جیل بھیج دیا گیا اور وہ ’’امروز‘‘ سے مستعفی ہونے پر مجبور کردئیے گئے تو رہائی کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے ’’ہلال پاکستان‘‘ میں ’’موج در موج‘‘ کے عنوان سے اپنا فکاہی اور طنزیہ کالم لکھنا شروع کیا اور اس طرح قاسمی صاحب کو ’’امروز‘‘ سے علیحدگی کا جو چرکہ برداشت کرنا پڑا تھا اس زخم کو مندمل کرنے کا ذریعہ جناب محمد سلیم بنے جنہوں نے قاسمی صاحب کو اپنے خیالات کے اظہار کی پُوری آزادی دی، جناب محمد سلیم ان مالکانِ اخبارات میں تھے جنہوں نے اس زمانے میں جبکہ تمام بڑے اخبارات چھ صفحات پر شائع ہوتے تھے ’’ہلال پاکستان‘‘ آٹھ صفحات پر شائع کیا اور اس کی قیمت دوسرے اخبارات کے مقابلے میں کم رکھی اور دنوں میںیہ اخبار عوام کے دلوں کی دھڑکن بن گیا مگر جناب محمد سلیم کی جرأت و بے باکی اسے راس نہ آئی اور یہ اخبار ایوب خان کے مارشل لاء کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر گیا۔
جناب محمد سلیم نے روزنامہ ’’ہلال پاکستان‘‘ کے دوبارہ اجراء کی کئی بار کوشش کی۔ انڈس ہوٹل کے قریب شاہراہ قائد اعظم پر ایک عمارت کی بالائی منزل پر روزنامہ ’’ہلال پاکستان‘‘ کا ایک سیاہ رنگ کا چھوٹا سا بورڈ اب بھی اس اخبار کی یاد دلاتاہے جو پاکستان کے پہلے فوجی آمر ایوب خان کے جبر کے خلاف مسلسل صدائے احتجاج بلند کرتا رہا۔ جڑانوالہ میں جب ایوب خان کے ایک جلوس کے دوران ایک بچہ جسے اس کی والدہ ایک بس میں علاج کے لئے ہسپتال لے جارہی تھی، ہسپتال پہنچنے سے پہلے بس میں ہی دم توڑ گیا تو جناب محمد سلیم نے ’’اس بچے کے قاتل آپ ہیں‘‘ کے عنوان سے ایک اداریہ سپردِ قلم کیا۔ جس میں صدر ایوب خان کو اس معصوم اور بے گناہ بچے کے قتل کا ذمہ دار قرار دیا گیا جن کے طول طویل جلوس کے باعث وہ بس عوام کے ہجوم میں پھنس کر رہ گئی تھی۔ قمر یورش نے حال ہی میں ہفت روزہ ’’جدوجہد‘‘ میں لکھا ہے کہ ایوبی مارشل لاء میں ایک فوجی آمر نے محمد سلیم کو بلاکر پوچھا تھا کہ تم کس قلم سے لکھتے ہو، جب انہوں نے جیب سے اپنا قلم نکال کر دکھایا تو اس فوجی آمر نے یہ قلم ان سے چھین کر اپنے بوٹ کی ایڑی تلے رکھ کر کچل دیا تھا۔
روزنامہ ’’ہلال پاکستان‘‘ مسلسل حکومتوں کے عتاب کا شکار رہا۔ محمد سلیم اسے اپنے خونِ جگر سے سینچتے رہے مگر بالآخر یہ اخبار جان کی بازی ہار گیا لیکن ان کی جرأت و بہادری کا ایک انمٹ نقش قائم کرگیا۔
سچ یہ ہے کہ اس زمانے کے اخبارات میں جناب محمد سلیم قلم کی آبرو سمجھے جاتے تھے اور کوئی لالچ اور طمع انہیں اپنے الفاظ اور حروف کا سوداکرنے پر راغب نہ کرسکا۔
افسوس کہ جناب محمد سلیم جیسا بہادر اور جری صحافی لاہور جیسے شہرِ دانش میں گمنامی کی موت چل بسا اور ایک بڑے اخبار نے ان کے نام کے ساتھ ایڈیٹر ’’ہلال پاکستان‘‘ لکھنا بھی مناسب نہ سمجھا اور ان کی اس حیثیت کو بری طرح نظرانداز کردیا گیا۔ زمانہ اپنے مایۂ ناز سپوتوں سے شایدایسا ہی سلوک کرتا ہے حالانکہ وہ پاکستان کی آزاد صحافت کا ایک ایسا کردار تھے جس پر تاریخِ صحافت کو ہمیشہ ناز رہے گا۔ کاش پنجاب یونیورسٹی کا شعبہ صحافت جناب محمد سلیم کے اداریوں پر تحقیق کا اہتمام کرسکے جو ہماری قومی صحافت میں واقعی خاصے کی چیز تھے۔
اللہ تعالی جناب محمدسلیم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ہم جیسے بزدلوں کو ان کی قائم کردہ روایات کی پیروی کا حوصلہ اور ہمت عطا فرمائے۔(آمین)