مریم نواز کی انٹری .. طاہر سرور میر
5 جولائی 1977کے دن کو ’’یوم ِسیاہ‘‘ کے طور پر یاد رکھا گیاہے۔ آج سے 40سال قبل اس دن منتخب وزیر اعظم بھٹو کا تختہ الٹ کر 4اپریل 1979کو انہیں عدالتی حکم پر پھانسی لٹکا دیاگیا۔ چاردہائیاں قبل اس قومی ظلم کی واردات میں ملوث سرغنہ کے خلاف ’’آسمانی فیصلہ ‘‘ 17اگست 1988کے دن آیا۔فیصلے کے نتیجہ میں ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق کا طیارہ بہاولپور کی فضائوں میں کریش ہوا اور بستی لال کمال کی مٹی میںفنا کے گھاٹ اتر گیا۔تاریخ کے غیر جانبدار مبصرین کہتے ہیں کہ اس وقت بھٹوصاحب کے خلاف جج جرنیل گٹھ جوڑ کیاگیااور اسلامی نفاذ کا جھوٹا نعرہ بلند کرکے’’ مذہبی فیکٹر‘‘ کو بھی بروئے کار لایا گیا۔ تمثیلی طور پر آج کی ’’حاضر سروس ‘‘ جمہوریت اسی ضیا الحق آمریت کی ’’کلوننگ‘‘ ہے جس کی بنیاد بھٹو کی منتخب اورجمہوری حکومت کو ختم کرکے رکھی گئی تھی۔ یہ حقیقت اس امر سے عیاں ہے کہ آج کی سیاست کے 95فیصد کردار ضیاالحق کے 1985کے غیرجماعتی انتخابات میں تخلیق کئے گئے تھے۔اب قراردیا جارہاہے کہ 5جولائی 2017کے دن بھی ایک اور تاریخی واقعہ رونما ہوا ہے۔اس دن کے حوالے سے بعض دوستوں نے لکھا ہے کہ JITمیں مریم نواز کی پیشی لانچنگ تھی۔ اس سیاسی انٹری کو دبنگ ثابت کرنے کیلئے کہاجارہاہے کہ شریف خاندان کے بدترین مخالف بھی ہکابکا رہ گئے اور وہ اب پریشان ہیں ان کامقابلہ کیسے کریں گے؟ عمران خان نے مریم نواز کی پیشی کے حوالے سے پریشانی ظاہر کئے بغیر کہاکہ یوں لگا جیسے مریم فائرنگ اسکواڈ کے سامنے پیش ہورہی ہیںاور نوازشریف اپنے آپ کو سپر مخلوق خیال کرتے ہیں۔
قارئین ! اس خیال کا دیانتداری سے تجزیہ کرتے ہیں کہ جے آئی ٹی میں مریم نواز کی پیشی ،فی البدیہہ تقریر اور صحافیوں کے کسی سوال کا جواب دئیے بغیر جوڈیشل اکیڈمی سے ان کی رخصتی کو تاریخی سیاسی واقعہ قرار دیا جانا چاہیے؟ یہ کہتے ہوئے مجھے رتی برابر توقف کرنا نہیں پڑرہا کہ شریف خاندان سمیت پانامہ پیپرز پر نون لیگ میڈیا الیون کی طرف سے جھاڑی جانیوالی تمام تقریروں اور خطبات سے مریم نواز کی تقریر بہترتھی۔خاص طور پر اسحاق ڈار کی اس تقریر سے سوفیصدبہتر تھی جس میںانہوں نے عمران خان کو ’’بستہ ب‘‘ کا لیڈر ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ۔میرے خیال میں مریم کی تقریر اپنے والدِگرامی میاں نوازشریف اور چچا شہباز شریف سے بھی دودانے اوپر تھی۔مریم نے سیاست کے ُپر خار میدان میں چونکہ قدم رکھ دیا ہے لہذا اب ان سے منسوب ایک ایک حرف اور ایک ایک قدم کی پوچھ پڑتال ہوگی۔جوڈیشل اکیڈمی کے احاطہ میں خطاب کے دوران صحافیوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات پر چار سے زائد مرتبہ مریم نے کہاکہ ’’مجھے میری بات مکمل کرلینے دیں‘‘۔میڈیا سے یہ رعایت اس وقت طلب کی جاتی ہے جب سوالوں کے جواب خطاب کے بعد دینے مقصود ہوں لیکن سبھی نے دیکھاکہ مریم نے خطاب کے بعد مسکراتے ہوئے ہاتھ لہرایا اور آنکھوں سے اوجھل ہوگئیں۔اس سے چند ساعتیں قبل تک مریم نواز اپنے والد کے سیاسی کارناموںاور سازشیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ جب انہوں نے جے آئی ٹی سے اپنے اوپر الزام کے بارے میں دریافت کیاتو اراکین چپ سادھ گئے۔مریم جب جوڈیشل اکیڈمی سے صحافیوںکے سوالوں کے جواب دئیے بغیر چلی گئیں توبھی وہ چپ سادھ گئے ہوں گے؟شاید ان کے سیاسی مخالفین بھی اسلئے ہکابکا رہ گئے ہوں کہ اگر وہ میڈیا سے بات کرتیں تو نجانے کیاراز افشا ہوتے؟
مادر ملت فاطمہ جناح اور محترمہ بے نظیر بھٹو خواتین کی مقبو ل ترین لیڈر تھیں ۔مادر ملت نے فیلڈ مارشل ایوب خان کی آمریت کے خلاف جدوجہد کی ۔اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے ریاستی مشینری کی مدد سے انہیں الیکشن تو ہرا دیالیکن اس طرح مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی راہ بھی ہموار ہوگئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ،ضیا الحق اور ان کی باقیات کے خلاف مثالی جدوجہد کرتے دومرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئیںاگر انہیں قتل نہ کیاجاتاتو تیسری مرتبہ بھی انہیں یہ اعزاز نصیب ہوتا ۔محترمہ کی موجودگی میںیہ کہنا خاصا مشکل ہوتا کہ کوئی دوسرا چوتھی اور پانچویں مرتبہ بھی وزیر اعظم بنے گا۔ اس ملک میں سیاسی ایلیٹ تخلیق کر نے والی ٹکسالیں اور فیکٹریوں کویہ یاد ہوگا کہ تیسری دنیا کے مقبول لیڈر بھٹو کی پھانسی کے بعد اس کے دونوں بیٹے شاہ نواز اور مرتضی جلاوطن تھے جبکہ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو عدالتوں میں پیشیاں بھی بھگت رہی تھیں اور پولیس کا وحشیانہ تشدد بھی جھیل رہی تھیں۔بے نظیر کے والد بھٹو مسلم امہ اور اسلامک بلاک کے ہیرواور پاکستانی عوام کے مقبول لیڈر تھے ۔انہیں ہائی کورٹ نے پھانسی کی سزا دی اور سپریم کورٹ نے اس کی توثیق کی اس دوران بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو پروٹوکول اور سیلوٹوں سے محروم رہیں۔لاہور میںخاتون اول بیگم نصرت بھٹو پر پنجاب پولیس نے وحشیانہ تشدد کرتے ہوئے لاٹھیاں برسائیں جس سے ان کے سر پر دومقامات پر 22ٹانکے لگے ۔ان چوٹوں سے ان کی یادداشت اور ذہنی توازن بھی متاثر ہوا ۔بہن بے نظیر کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھائی مرتضی بھٹو کے قتل نے اس بدنصیب ماں کو زندہ لاش بنا دیا تھا۔پروردگار مریم نواز اور ان کے بچوں کو اپنے حفظ وامان میں رکھے و ہ اس وقت سیاست میںقدم رنجافرمارہی ہیں جب ماشااللہ نانی اماں ہیں ۔بے نظیر بھٹو کوتو اس وقت گھر سے نکلنا پڑا تھا جب وہ بہت چھوٹی تھیں، ان کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی اور ان کے نام کے ساتھ ’’آنسہ ‘‘ لکھا جاتاتھا۔ بے نظیر بھٹو نے راولپنڈی جیل میں اپنے والد کے ساتھ پھانسی سے قبل آخری ملاقات بھی کی تھی۔خدا کسی بیٹی کویہ دن نہ دکھائے!!!
بینظیر بھٹو نے اپنے والدکی موت کے بعد سیاست میں انٹری دی تھی اسلئے وہ تھانے ،کچہریوں اور عدالتوں میں مہنگی امپورٹیڈگاڑیوں کے جلوس میں نہیں آیاکرتی تھیں۔ان کے ساتھ ان کے بھائی ،رشتہ دار اور تنخواہ دار ملازمین بھی نہیںہوتے تھے۔اسٹیبلشمنٹ اور اس کے انوکھے لاڈلوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے بعد وہ دومرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں ۔آصف زرداری سے شادی کے بعد ہم سب نے دیکھاکہ بے نظیر بھٹو بلاول اور بختاور کے ساتھ عدالتوں میں پیشیوں پر آتی رہیں۔وہ تصویر یاد کیجئے جس میں بے نظیر اپنے بچوں کے ساتھ لانڈھی جیل کے باہر ملبے پر بیٹھی ہوئی ہیںاور کوئی انہیں سیلوٹ کرنے والانہیں۔بھٹو کو عدالت سے پھانسی ہوئی لیکن عدالت پر حملہ کرنے والے جیالے نہیں کوئی اورتھے!!!بے نظیر نے کبھی ایسا بھی نہ کیاکہ وہ صحافیوں کو سوالوں کے جواب دئیے بغیر چلی گئی ہوں۔بھٹو نے ایوب خان کے غلط فیصلے کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرتے ہوئے سیاست میں انٹری دی تھی اور بے نظیر نے ضیاالحق کی آمریت کو للکارتے ہوئے سیاست میں قدم رکھا تھا۔ لاہور سے جدہ اور جدہ سے لند ن تک کی منی ٹریل ڈھونڈنے والے۔۔۔کاش۔۔۔ بھٹو سے لے کرضیاالحق اور ضیاالحق سے لے کرمیاں نواز شریف تک پھیلی ہوئی واقعات اور سانحات کی ٹریل بھی تلاش کریں!!!