مولانا کوثر نیازی از جمیل اطہر
جناب کوثر نیازی سے جو ابھی ’’مولانا‘‘ نہیں بنے تھے روزنامہ ’’تسنیم‘‘ کے دفتر میں آمد و رفت کے دوران رسمی سا تعارف تو تھا ہی مگر زیادہ قریبی تعلق اس وقت ہوا جب مصطفی صادق اور راقم نے لائل پور میں سعید سہگل اور یوسف سہگل کے زیر ملکیت شائع ہونے والے روزنامہ ’’آفاق‘‘ سے الگ ہوکر اپنا اخبار روزنامہ ’’وفاق‘‘ شائع کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کئے۔ حکومت نے جماعت اسلامی سے مصطفی صادق صاحب کی وابستگی کے پس منظر کے باعث روزنامہ کے بجائے ہفت روزہ کا ڈیکلریشن دیا۔ وہ بھی ایوب خان کے قائم کردہ قومی تعمیر نو بیورو کے ڈائریکٹر بریگیڈئیر(ر) گلزار احمد سے رابطوں اور ان کی پُرزور سفارش کے بعد۔ کوثر نیازی اس وقت جناب نعیم صدیقی کے اشتراک کے ساتھ لاہور سے ہفت روزہ ’’شہاب‘‘ شائع کرنے لگے تھے۔ نعیم صدیقی ماہنامہ ’’چراغ راہ‘‘ کی ادارت اور اس کے ضخیم خصوصی شماروں کے باعث جماعت اسلامی میں قارئین کا ایک وسیع حلقہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔ کوثر نیازی کا اپنا جریدہ شائع کرنے کا یہ پہلا تجربہ تھا، ہم نے پاک نیوز سروس اور ہفت روزہ ’’وفاق‘‘ کے ساتھ ساتھ پاک ایڈورٹائزرز کے نام سے ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی بھی قائم کرلی تھی۔ ہمارا پہلا کلائنٹ تو اشرف لیبارٹریز تھا مگر بعد میں حمید سنز لیبارٹریز، نشاط ٹیکسٹائل ملز، کریسنٹ ٹیکسٹائل ملز، زینت ٹیکسٹائل ملز اور رحمانیہ ٹیکسٹائل ملز لمیٹڈ جیسے معتبر صنعتی ادارے بھی ہماری ایجنسی کے ذریعے اشتہارات جاری کرنے لگے، صرف کوہ نور ٹیکسٹائل ملز ہمارے کلائنٹس میں شامل نہیں تھی کیونکہ یوسف سہگل کو ہمارا ’’آفاق‘‘ چھوڑ کر اپنا اخبار ’’وفاق‘‘ شائع کرنا اچھا نہیں لگا تھا اور وہ اپنے ملاقاتیوں سے بات چیت میں اس طرح کے تبصرے کرتے، ’’بارہ روپے رِم اخباری کاغذ خرید کر یہ لوگ کس طرح اپنا اخبار نکال سکیں گے اور یہ کہ مصطفی صادق نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک نوجوان کے ساتھ مل کر اخبار نکال لیا ہے، ہم اپنے وسیع سرمایہ سے تو اخبار کو زندہ نہیں رکھ سکے یہ لوگ کیونکر اخبار کی اشاعت برقرار رکھ سکیں گے‘‘۔
ہم اپنی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے ذریعے ’’نوائے وقت‘‘، ’’چٹان‘‘، ’’عوام‘‘، ’’غریب‘‘، ’’سعادت‘‘ اور ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ کو تو اشتہارات بھیج ہی رہے تھے مگر پشاور کا روزنامہ ’’بانگِ حرم‘‘ ہماری خصوصی توجہ کا باعث بنا۔ اس کے ایڈیٹر مشہور عوامی لیگی رہنما ماسٹر خان گُل اور اس کے اردو حصہ کے ایڈیٹر پروفیسر محمد سرور جامعی اور پشتو حصہ کے ایڈیٹر جناب اجمل خٹک تھے۔ ’’شہاب‘‘ کو بھی ہم اشتہارات اشاعت کے لئے بھیجتے رہتے تھے اور جب مصطفی صادق اور میں لائل پور (اب فیصل آباد) سے لاہور آئے تو اور لوگوں کے علاوہ ہم شاہ عالم مارکیٹ میں کوثر نیازی سے ملاقات کے لئے ’’شہاب‘‘ کے دفتر بھی ضرور جاتے۔ کچھ عرصہ بعد جناب نعیم صدیقی اور جناب کوثر نیازی کے راستے جُدا ہوگئے اور اس کے ساتھ ہی جماعت اسلامی سے بھی کوثر صاحب کی دوری کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ میں اس وقت گورنمنٹ کالج لائل پور میں سیکنڈ ائیر کا طالب علم تھا۔ جب ہم کوثر نیازی صاحب سے ملاقات کے لئے ’’شہاب‘‘ کے دفتر میں آئے تو انہوں نے مجھے ایک طرف لے جاکر کہا، ’’یار میں ایف اے کا امتحان دینا چاہتا ہوں اور میں نے اپنا امتحانی مرکز کوشش کرکے گلبرگ کے ایک سکول میں رکھوایا ہے، مجھے کچھ گائیڈ تو کردو‘‘۔ اسی طرح ایک بار ہم ان کے دفتر میں اِدھر اُدھر کی باتوں میں مصروف تھے کہ کوثر صاحب نے پوچھا، ’’بھئی وہ سرکاری اشتہارات کے لئے جب اخبار کو حکومت سے منظور کراتے ہیں تو کس محکمہ کے نام خط لکھتے ہیں اور اس خط میں کیا کچھ لکھنا ہوتا ہے؟‘‘ میں نے جب انہیں بتایا کہ اس محکمہ کا نام ڈیپارٹمنٹ آف فلمز اینڈ پبلی کیشنز (DFP) ہے تو انہوں نے ’’شہاب‘‘ کے لیٹر فارم کا ایک کاغذ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا یہ نام تو مجھے یاد نہیں رہے گا، آپ اس کاغذ پر درخواست لکھ دیں اس طرح ’’شہاب‘‘ کو سنٹرل میڈیا لسٹ میں شامل کرنے کی درخواست میں نے لکھ دی اور کچھ عرصہ بعد ’’شہاب‘‘ کو سرکاری اشتہارات ملنے لگے۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ کوثر صاحب کو جس وزارت کے ایک شعبے کا نام یاد نہیں تھا وہ اُس پوری وزارت کے پہلے مشیر اور پھر وزیر مقرر ہوئے۔
1963ء میں روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ لاہور میں کوثر نیازی صاحب کا ایک بیان شائع ہوا جس میں ان کے نام کے ساتھ ’’مولانا‘‘ کا لاحقہ بھی تھا۔ یہ بات میرے علم میں تھی کہ جناب حمید نظامی کوثر نیازی صاحب کے نام کے ساتھ لفظ ’’مولانا‘‘ شائع نہیں کرتے تھے جبکہ روزنامہ ’’کوہستان‘‘ جس کے مدیر منتظم جناب عنایت اللہ اور مدیر ابو صالح اصلاحی (مولانا امین احسن اصلاحی کے بڑے صاحبزادے) تھے کوثرنیازی کو ’’مولانا کوثر نیازی‘‘ بنانے میں پیش پیش تھے۔ میں اس وقت روزنامہ ’’وفاق‘‘ سرگودھا میں کام کرتا تھا جس کا دفتر کچہری بازار میں مقصود میڈیکل ھال کے سامنے واقع تھا، یہاں ’’وفاق‘‘ کے ڈپٹی ایڈیٹر جناب آباد شاہ پوری تھے جو ایک ثقہ صحافی اور جماعت اسلامی کے باقاعدہ رکن تھے اور روزنامہ ’’تسنیم‘‘ میں ملک نصراللہ خان عزیز اور جناب سعید ملک کے ادوار ادارت میں بحیثیت مدیر معاون فرائض انجام دے چکے تھے۔ ’’وفاق‘‘ کا ماحول ایک اعتبار سے ’’اینٹی کوثر نیازی‘‘ تھا، مصطفی صادق صاحب کو بھی یہ شکایت رہتی تھی کہ کوثر نیازی سیرت کانفرنسوں میں شرکت کے لئے کرایہ اور معاوضہ وصول کرنے لگے ہیں اور یہ کہ انہوں نے کسی علمی درس گاہ سے دین کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی اور وہ بزعمِ خود ’’خطیبِ اسلام مولانا کوثر نیازی‘‘ بننے نکلے ہوئے ہیں۔ میں نے غصے میں ایک خط جناب مجید نظامی کے نام لکھ دیا کہ جناب حمید نظامی مرحوم تو کوثر نیازی کے نام کے ساتھ ’’مولانا‘‘ نہیں لکھتے تھے لیکن آپ نے آخری صفحہ پر شائع ہونے والی ایک خبر میں انہیں مولانا کوثر نیازی لکھ دیا ہے، حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ کوثر صاحب اس طرح کی خبریں اپنے ہاتھ سے لکھ کر اخبارات کو بھیجتے ہیں، اس خط کے نیچے مراسلہ نگار کا نام شیخ تاج الدین۔ بلاک نمبر 8، سرگودھا، لکھا ہوا تھا، یہ خط اشاعت کے لئے تو نہیں تھا ایک طرح کی شکایت تھی یا گِلہ لیکن یہ خط ایڈیٹر کی ڈاک میں شائع ہوگیا جس پر کوثر صاحب غصہ میں آگئے اور رہی سہی کسر ہمارے ایک محرمِ راز نے نکال دی جو کسی بات پر ناراض ہو کر سرگودھا سے لاہور چلے گئے تھے اور انہوں نے کوثر صاحب کو فون کرکے یہ بتادیا کہ یہ خط دراصل میرا لکھا ہوا ہے اور اس میں جو نام لکھا ہوا ہے وہ میرا حقیقی نام ہے۔ کوثر نیازی صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ’’شہاب‘‘ کے اگلے شمارے میں ایک شذرہ میرے خلاف سپرد قلم کردیا جس میں لکھا گیا کہ وہ پردۂ زنگاری میں چُھپے ہوئے اس شخص کو اچھی طرح جانتے ہیں اور اس کی تاریں ہلانے والے بھی ان کے علم میں ہیں اور وہ ان سب کے چہروں سے نقاب اتار کر ہی دم لیں گے۔ ’’شہاب‘‘ میں اس شذرہ کا شائع ہونا تھا کہ ہمارے حلقۂ احباب میں ہلچل مچ گئی۔ مصطفی صادق صاحب نے کوثر نیازی صاحب کو ایک تیز و تند خط لکھا جس میں اس شذرہ کے مندرجات پر سخت ناراضی کا اظہار کیا گیا تھا جس کے جواب میں جناب کوثر نیازی نے یہ لکھ کر معذرت طلب کرلی کہ یہ شذرہ ان کی غیر حاضری میں شائع ہوگیا تھا اور انہیں اس کی اشاعت پر افسوس ہے۔
کوثرنیازی صاحب کی دوسری ناراضی اس وقت ہوئی جب ’’وفاق‘‘ مارچ 1965ء میں لاہور سے شائع ہونے لگا اور اس میں جناب رفیع الدین ہاشمی (اب ممتازماہر اقبالیات) کالم لکھنے لگے، جناب رفیع الدین ہاشمی ضلع سرگودھا کی جماعت اسلامی کے امیر مولانا حکیم عبدالرحمٰن ہاشمی کے بھتیجے اور جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے پرستار سید محبوب شاہ ہاشمی کے صاحبزادے ہیں۔ کوثر نیازی جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کرنے اور مولانا مودودی پر ناروا تنقید کے باعث جماعت کے حلقوں میں ایک ناپسندیدہ شخصیت شمار ہونے لگے تھے۔ رفیع الدین ہاشمی کے ایک دو کالموں پر اپنا اختلاف اور احتجاج ریکارڈ کرنے کے لئے جناب کوثر نیازی میکلوڈ روڈ پر چٹان بلڈنگ کی پہلی منزل میں روزنامہ ’’وفاق‘‘ کے دفتر تشریف لائے۔ وہ سخت ناراض تھے اور مصطفی صادق صاحب اور کوثر نیازی صاحب کے مشترکہ دوست حاجی برکت علی صاحب بار بار ان کے مابین کشیدہ ماحول کو ٹھنڈا کرنے او رٹھنڈا رکھنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے رہے مگر کوثر نیازی صاحب یہ کہتے ہوئے اٹھ کر چلے گئے کہ میں مولانا احتشام الحق تھانوی کے ساتھ سیرت کانفرنسوں سے خطاب کرتا ہوں، پوسٹروں میں مجھے ’’خطیب اسلام‘‘ لکھا جاتا ہے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ’’وفاق‘‘ میں میرے نام کے ساتھ ’’مولانا‘‘ نہیں لکھا جاتا۔ حاجی برکت علی صاحب نے بھی انہیں ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی مگر کوثر صاحب رُوٹھ کر چلے گئے۔ پھر ’’شہاب‘‘ کا وہ زمانہ آگیا جب وہ ہفت روزوں کے معروف سائز سے اخباری سائز پر آگیا اور اس کے مدیروں میں جناب نذیر ناجی اور کئی دوسرے ترقی پسند اہل قلم شامل ہوئے اور یہ جارحیت اس وقت اپنی انتہا کو پہنچ گئی جب مولانا مودودی کی ایسی تصویر شائع کی گئی جس میں ان کے دھڑ پر ایک فلمی اداکارہ کا چہرہ لگایا گیا تھا اور اس طرح جماعت اسلامی کے بانی کی تضحیک کی گئی۔ کوثر نیازی صاحب کا مؤقف یہ تھا کہ وہ اس حرکت سے لا علم تھے اور اخبار کی ادارت چونکہ عملاً ناجی صاحب کے ہاتھ میں تھی اس لئے وہی اس کارنامہ کے واحد ذمہ دار تھے، ’’شہاب‘‘ کی اس دیدہ دلیری سے دینی حلقوں میں کوثر نیازی صاحب کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔ مصطفی صادق صاحب اور راقم بھی ان کی اس روش کو ناپسند کرنے والوں میں شامل تھے اور دفتر ’’وفاق‘‘ سے ان کے ناراض ہوکر چلے جانے کے بعد سے ہمارے درمیان کوئی رابطہ بھی نہیں تھا۔
1970ء کے عام انتخابات میں کوثر نیازی بھی (اگرچہ وہ بہاول پور جیل میں نظر بند تھے) سیالکوٹ کے ایک حلقہ سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے اوربھٹو صاحب نے انہیں اطلاعات و نشریات کے لئے اپنا مشیر مقرر کردیا، انہوں نے اپنی اس نئی حیثیت میں لاہور کے ایڈیٹروں کو پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ، فین روڈ (جو ہائی کورٹ کے عقب میں ممتاز قانون دان اور بھٹو صاحب کی کابینہ کے وزیرِ قانون میاں محمود علی قصوری کی کوٹھی میں واقع تھا)، دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔ کوثر نیازی صاحب سے بدمزگی کے پس منظر میں مصطفی صادق صاحب اس کھانے میں شریک ہونے پر آمادہ نہ ہوئے، میں نے نہ صرف اس میں رضاکارانہ طور پر ’’وفاق‘‘ کی نمائندگی کے لئے خود کو پیش کیا بلکہ یہ تجویز بھی دی کہ اب ہمیں کوثر نیازی کی بطور مشیر تقرری کا احترام کرتے ہوئے انہیں ’’وفاق‘‘ میں صرف کوثر نیازی لکھنے کے بجائے ’’مولانا کوثر نیازی‘‘ لکھنا چاہئے تاکہ ہمارے مابین کشیدگی ختم ہوجائے۔ بہرحال میں مشیرِ اطلاعات کے ظہرانہ میں شریک ہونے کے لئے فین روڈ گیا۔ کوثر نیازی پہلے ہی تشریف فرما تھے اور اگلی کرسیاں پُر ہوچکی تھیں۔ میں پچھلی نشستوں پر ایک خالی کُرسی دیکھ کر وہیں بیٹھ گیا۔ اسی اثناء میں کوثر نیازی صاحب کی نظر مجھ پر پڑی، مجھے دیکھتے ہی انہوں نے بلند آواز سے کہا، ’’جمیل اطہر صاحب آپ آگے آجائیں‘‘ میں نے اصرار کیا کہ میں یہاں ٹھیک بیٹھا ہوں، کوثر نیازی صاحب نے پھر زور دے کر کہا کہ آپ میرے قریب آجائیں اور ایک صاحب کو یہ کہتے ہوئے ان کی نشست سے اٹھا کر کسی دوسری جگہ بیٹھنے کے لئے کہا، ’’بھئی یہ تو ’’مساوات‘‘ کے آدمی ہیں یہ کہیں بھی بیٹھ جائیں‘‘۔ کوثر نیازی صاحب کی گفتگو ختم ہوئی، ہم کھانے کی طرف بڑھے اور کوثر صاحب نے میرے قریب آکر سرگوشی کی۔
’’بھئی وہ ہمارے مصطفی صادق کیسے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا، ’’جی۔۔۔ان کی طبیعت قدرے ناساز تھی اس لئے میں ان کی نمائندگی کررہا ہوں‘‘۔ کوثر صاحب نے فرمایا، ’’بھئی ! میرا سلام کہیں ان سے، میں ان سے ملنے آؤں گا‘‘۔
دفتر پہنچ کر میں نے جناب مصطفی صادق کوجو اپنے اور ’’تسنیم‘‘ کے دوستوں، جناب ارشاد احمد حقانی اور محی الدین سلفی کے ساتھ خوش گپی میں مصروف تھے، کوثر نیازی صاحب سے اپنی ملاقات اور مکالمہ کی تفصیلی رپورٹ دی، ارشاد حقانی صاحب نے کہا ’’صادق صاحب اب آپ کو اسلام آباد جاکر کوثر صاحب سے ملاقات کرلینی چاہئے، ‘‘مصطفی صادق صاحب کسی خاص پس وپیش کے بغیر اس پر آمادہ ہوگئے اور اغلباً ان کی کوثر نیازی صاحب کے ساتھ اسلام آباد ان کے دفتر میں ملاقات میں ارشاد احمد حقانی صاحب بھی شریک تھے۔
مولانا کوثر نیازی کو اطلاعات و نشریات کا مشیر اور بعدازاں وزیر بنتے ہی بائیں بازو کے وزراء اور رہنماؤں کی طرف سے سخت دشواریوں، مخالفتوں اور سازشوں کا سامنا کرنا پڑا، ان ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے انہیں بائیں بازو میں اپنے پُرانے رفقاء سے بھی رجوع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور دونوں اطراف کی ضروریات نے انہیں ایک دوسرے کے قریب لانے میں مدد کی۔
میں نے 1971ء میں گوجرانوالہ سے ہفت روزہ ’’خدمت‘‘ کا ڈیکلریشن حاصل کیا اور 1973ء میں اس کا نام بدل کر روزنامہ ’’تجارت‘‘ کرنے کے لئے ڈیکلریشن داخل کیا۔ یہ پیپلز پارٹی کا دورِ حکومت تھا۔ نئے اخبارات نکالنا سخت مشکل بنادیا گیا تھا۔ صوبے سے جب تک گورنر اور وزیراعلیٰ سفارش نہ کرے صوبائی حکام مرکزی حکومت کو درخواست بھجواتے ہی نہیں تھے، جب میں نے روزنامہ ’’تجارت‘‘ کے ڈیکلریشن کی درخواست دی تو جناب مصطفی صادق کی کوششوں سے صوبائی حکومت کی سفارش کا مرحلہ تو آسانی سے حل ہوگیا مگر مرکزی حکومت میں جانے کے بعد اس معاملہ کا کوئی سُراغ نہیں ملتا تھا۔ ہم روزنامہ ’’تجارت‘‘ کی فائل کا سُراغ لگانے کی کوشش کرتے تھے اور جواب یہی ملتا کہ اس نام کی کوئی فائل پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ اور وزارت اطلاعات و نشریات کی متعلقہ برانچ میں سرے سے موجود ہی نہیں۔ بہرحال کئی ماہ کی جدوجہد رنگ لائی اور یہ معمہ اس طرح حل ہوا کہ ’’تجارت‘‘ کے نام کی واقعی کوئی فائل نہیں تھی اور یہ چونکہ ’’خدمت‘‘ کا نام ’’تجارت‘‘ رکھنے کا مسئلہ تھا اس لئے ریکارڈ میں ’’خدمت‘‘ کے نام کی فائل تھی۔ فائل کا دستیاب ہونا تھا کہ ناامیدی اور مایوسی، امید اور روشنی کی کرن میں تبدیل ہوگئی۔ ایک روز ہمیں پتہ چلا کہ کوثرنیازی آج رات لاہور آنے والے ہیں اور ان کا قیام لاہور ریلوے سٹیشن پر ان کے سیلون میں ہی ہوگا۔ مصطفی صادق اور میں گیارہ بجے شب لاہور ریلوے سٹیشن پر گئے جہاں پلیٹ فارم نمبر2 کی واہگہ جانے والی سائیڈ پر ان کا سیلون لگا ہوا تھا اور سینکڑوں کی تعداد میں پیپلز پارٹی کے کارکن پلیٹ فارم پر اور سیلون کے گرد موجود تھے۔ ہمیں جلد ہی سیلون میں داخل ہونے کا موقع مل گیا۔ کوثر نیازی صاحب بڑے خوش گوار موڈ میں تھے، ہمارے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہی میری طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا،
’’جمیل صاحب! آپ کو مبارک ہو، وزیراعظم نے روزنامہ ’’تجارت‘‘ شائع کرنے کی منظوری دے دی ہے‘‘۔
میں نے اس عنایت پر شکر گذاری کا اظہار کیا تو قدرے توقف سے ارشاد فرمانے لگے، ’’جمیل صاحب! بس یہ سمجھ لیں ہم نے آپ کو دو مربع زمین دے دی ہے‘‘۔
میں نے عرض کیا، ’’آپ کی مہربانی کا شکریہ اگر ممکن ہو تو آپ ڈیکلریشن واپس لے لیں اور دو کی بجائے ایک مربع اراضی دے دیں‘‘۔ کوثر نیازی اور مصطفی صادق دونوں نے قہقہہ لگایا اور میری بات ہوا میں اڑ گئی اور ہم روزنامہ ’’تجارت‘‘ کا ڈیکلریشن ملنے کی خوش خبری لے کر شاداں و فرحاں سمن آباد میں اپنے گھر واپس لوٹے۔
روزنامہ ’’تجارت‘‘ کاپہلا شمارہ 25 فروری 1974ء کو اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کے دن منظرعام پر آیا، وزارت اطلاعات و نشریات نے اس موقع پر ملک بھر کے اخبارات و جرائد کو بیس پچیس اشتہارات جاری کئے۔ روزنامہ ’’تجارت‘‘ ابھی میڈیا لسٹ میں شامل نہیں ہوا تھا اور نہ ہی اس کے سرکاری ریٹس مقرر ہوئے تھے مگر ’’تجارت‘‘ کو بھی کم و بیش یہ سارے اشتہارات مل گئے۔ بعد ازاں کوثر نیازی صاحب نے پنجاب کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز شیخ حفیظ الرحمن سے ریٹ مقرر کرنے کے لئے ان کی تجویز مانگ کر ریٹ بھی مقرر کردیئے۔ میں نے چند ماہ پہلے ہی سمن آباد میں 14 مرلہ کا دو بیڈ روم کا گھر 90 ہزار روپے میں خریدا تھا جس کے لئے نصف کے لگ بھگ رقم مصطفی صادق صاحب نے عنایت فرمائی اور باقی رقم میرے چچا قاضی علاؤالدین، قاضی عبد الرحمن اور قاضی عبداللہ نے بطور قرض دی تھی اور بیعانہ کی رقم حاجی برکت علی صاحب نے اپنی جیب سے ادا کردی تھی۔ کوثر نیازی صاحب کی اس کرم فرمائی سے ان اشتہارات کی رقم جب مجھے وصول ہوئی تو سب سے پہلے میں نے اپنے چچا صاحبان کو قرض لی گئی یہ رقوم ادا کیں۔
دسمبر 1974ء میں مجھے فریضہ حج اداکرنے کی سعادت حاصل ہوئی، یہ سفر ایک عام عازمِ حج کی حیثیت سے تھا، میرے دوست محمد اسلم بٹ جو شکل ، صورت، داڑھی اور لباس میں کوثر نیازی صاحب سے بڑی مشابہت رکھتے تھے، حج کے لئے جارہے تھے اور شاہ عالم مارکیٹ میں اُن کے ایک تاجر دوست شیح عبدالرشید نے بھی یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ حج کے لئے جانا چاہتے ہیں، اسلم بٹ صاحب نے حج درخواست کا فارم حاصل کرنے کے لئے مجھے دفتر میں فون کیا تب میں نے بھی ان سے عرض کیا کہ میری درخواست بھی دے دیں وہ فوراً ہی شاہ دین بلڈنگ میں دفتر ’’وفاق‘‘ چلے آئے اور مجھ سے قومی شناختی کارڈ اور تصاویر کا تقاضا کیا، میں نے قومی شناختی کارڈ تو ان کے حوالے کردیا مگر تصاویر میرے پاس نہیں تھیں۔ اسلم بٹ نے کہا کہ میں آپ کے شناختی کارڈ سے ہی نئی تصاویر بنوالوں گا، میں نے ان سے حج کے اخراجات کی بابت پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ 17486 روپے جمع کرانا ہوں گے، میں نے حاجی برکت علی صاحب کے نام ایک رقعہ لکھ کر انہیں دے دیا اور ساتھ ہی کہا کہ حاجی صاحب کو یہ نہ بتائیں کہ میں حج کے لئے درخواست دے رہا ہوں کیونکہ وہ مصطفی صادق صاحب کو بتادیں گے جنہیں میں یہ خبر درخواست منظور ہوجانے کے بعد سُنانا چاہتا ہوں۔ قصہ مختصر میری درخواست منظور ہوگئی اور میں نے مصطفی صادق صاحب کو اس سے آگاہ کر دیا جنہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کی اہلیہ بھی حج کے لئے جانا چاہتے ہیں اور میرے جانے سے دفتر کا کام متاثر ہوگا۔ میں نے گذارش کی کہ میری درخواست تو منظور ہوچکی ہے اور آپ ابھی ارادہ ہی باندھ رہے ہیں۔ میں تو اب جا رہا ہوں، دفتر کا کام کیسے چلے گا یہ آپ جانیں۔ اسی روز قصور سے ارشاد احمد حقانی صاحب آگئے۔ انہیں جب اس صُورت حال کا علم ہوا تو انہوں نے خوشی خوشی یہ ذمہ داری اٹھائی کہ میرے حج پر چلے جانے سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا اور وہ روزانہ قصور سے لاہور آکر تمام امور کی دیکھ بھال کرتے رہیں گے۔ کئی دن بعد لاہور سے ٹوبہ ٹیک سنگھ جاکر والد صاحب اور والدہ صاحبہ سے ملا، ان سے اجازت چاہی اور کراچی سے روانگی کی مقررہ تاریخ سے کئی دن پہلے ہی کراچی چلا گیا۔ کراچی پہنچ کر جبیس ہوٹل میں ٹھہرا جس کا کرایہ اس وقت ایک سو روپے یومیہ تھا اور میں زندگی میں پہلی بار اتنے زیادہ کرایہ کے ہوٹل میں قیام کررہا تھا، کراچی پہنچتے ہی مصطفی صادق کا فون آگیا کہ وہ آخری حج پرواز میں سرکاری وفد کے رُکن کی حیثیت سے عازمِ حجاز ہوں گے اور وفد کی قیادت مذہبی امور کے وفاقی وزیر جناب کوثر نیازی کریں گے، انہوں نے مشورہ دیا کہ میں اپنی، اسلم بٹ اور شیخ عبدالرشید کی سیٹیں بھی اسی پرواز سے کرا لوں۔ ہم تینوں فون سنتے ہی حاجی کیمپ چلے گئے اور اپنی سیٹیں آخری پرواز کے لئے تبدیل کرالیں۔
حج کے سفر کی اس روداد کا کوثر نیازی صاحب کے تذکرے سے آخر کیا تعلق ہے اس کی تفصیل آئندہ سطور میں آئے گی اور اس تذکرے کے لئے ہی یہ تمہید باندھنا پڑی۔ آخر جہاز کی روانگی کی گھڑی آگئی۔ ہوائی جہاز کا یہ میرا پہلا سفر تھا، طیارہ فضا میں اڑا اور کوئی نصف گھنٹے کا سفر طے ہوا تھا کہ کوثر نیازی صاحب نظر آئے جو ایک ایک مسافر کے پاس جاکر اس سے مصافحہ کررہے تھے۔ جب وہ ہمارے پاس تشریف لائے تو حج کے سفر کی مبارک دی اور یہ بھی فرمایا ’’جمیل صاحب آپ ہمارے مہمان ہوں گے‘‘، میں نے عرض کیا ’’آپ کی پیشکش کا شکریہ مگر میں اکیلا نہیں ہوں، ہم تو تین افراد ہیں‘‘۔ کوثر نیازی صاحب نے کمال فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے فرمایا کہ آپ کے ساتھ دو آدمی ہیں یا دس، یہ سب ہمارے ساتھ ہی قیام کریں گے۔ اس طرح کوثر نیازی صاحب کی میزبانی سے استفادہ کرتے ہوئے ہم تینوں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے پاکستان ہاؤس میں قیام کیا۔ مدینہ منورہ کا پاکستان ہاؤس اس دور میں حضورؐ کے روضۂ اطہر اور مسجد نبوی کے باب جبریل کے بالکل سامنے ہی واقع تھا اور ہم پاکستان ہاؤس سے باہر آتے تھے اور سڑک عبور کرکے مسجد نبوی میں داخل ہونے کی سعادت حاصل کرتے تھے۔ ہمیں یہ سہولت اللہ تعالیٰ نے مولانا کوثر نیازی کے ذریعے عطا کی تھی اور سفر میں شیخ محمد اشرف تاجر کتب کی رفاقت نے اسے اور بھی پُر لطف بنادیا تھا