مولانا گلزار احمد مظاہری از جمیل اطہر
مولانا گلزار احمد مظاہری علمائے دین کے اس قافلہ کے سالار رہے جنہوں نے دینی علوم کی درس گاہوں سے قرآن و سنت کا علم حاصل کرکے اسے محض اپنے سینوں میں نہیں چھپائے رکھا بلکہ اپنی استطاعت و بساط سے بڑھ کر اللہ کی مخلوق تک پہنچایا ۔مولانا گلزار احمد کا تعلق بھیرہ (ضلع سرگودھا) کے معروف پراچہ خاندان سے تھا جو زیادہ تر تجارت اور کاروبار سے وابستہ تھا۔ مولانا گلزار احمد عنفوان شباب میں ہی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی فکر اور فلسفہ سے متاثر ہوئے اور پھر عمر بھر پیچھے مڑکر نہ دیکھا اور نہ ہی ان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش آئی۔ ممتاز دانش ور اور ماہر تعلیم اور سر گودھا یونیورسٹی کے شعبہ تعلقات عامہ کے موجودہ سر براہ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ ان کے بڑے بیٹے اور جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ان کے چھوٹے بیٹے ہیں اور ان کی زندگیوں میں بھی وہی رنگ ڈھنگ نمایا ں ہے جو مولانا گلزار احمد مظاہری کا شیوہ تھا۔
مولانا سے میرا تعارف سر گودھا میں اس وقت ہوا جب ہم نے 1962ء میں روز نامہ ’’وفاق‘‘ لائل پور سے منتقل کرکے سر گودھا سے شائع کرنا شروع کیا۔ مولانا گلزار احمد اس وقت سرگودھا میں نہر کے کنارے واقع دینی تعلیم کا ایک بڑا ادارہ چلا رہے تھے۔ ا س سے پہلے وہ جماعت اسلامی میانوالی کے ضلعی امیر بھی رہے۔ مولانا سے ملاقاتوں کا سلسلہ یو ں تو تقریباً ہفتہ دس روز کا معمول بن گیا تھا مگر جب مولانا سیٹلائٹ ٹاؤن سرگودھا میں اپنا مکان تعمیر کررہے تھے، وفاق کا دفتر بھی کچہری بازار سے منتقل ہو کر سیٹلائٹ ٹاؤن میں آگیا تھا ۔ مکان میں ابھی فرش بھی نہیں ڈالے گئے تھے کہ مولانا نے اس گھر میں رہائش اختیار کرلی ،ہماری بھی کئی ملاقاتیں ان کے گھر کی اس بیٹھک میں ہوتی رہیں جہاں کاغیر ہموار فرش ان کے ملاقاتیوں کے لئے بڑی پریشانی کا باعث بنتاتھا ایک مرتبہ ہم انہیں ملنے گئے تو ان کے بیٹے حسین یا فرید پراچہ چائے بنانے لگے مگر ناہموار فرش کے باعث ان کا توازن برقرار نہ رہا اور چائے کی پوری کیتلی مولانا گلزار احمد پر گرپڑی۔ مولانا نے یہ تکلیف بڑے صبر سے برداشت کی۔ جب وفاق کا ایک ملازم دو ہزار روپے کی وہ رقم لے کر فرار ہوگیا جو مصطفی صادق صاحب اپنے ایک دوست سے ادھار لے کر لاہور سے سرگودھا آئے تھے۔ یہ ملازم بظاہر بہت ہی نمازیں پڑھنے والا تھا لیکن جب یہ رقم سٹینڈرڈ بنک میں جمع کرانے کے لئے اس کے حوالے کی گئی تو اس کی نیت خراب ہوگئی۔ ہم نے سٹینڈرڈ بنک سے دو ہزار روپے اوور ڈرافٹ لے رکھا تھااور بنک کا کہنا تھا آپ تیس جو ن تک یہ اوور ڈرافٹ ادا کردیں تو ہم یکم جولائی کو یہ رقم آپ کو دوبارہ دے دیں گے۔ اس رقم سے ہمیں اپنے سٹاف کو تنخواہیں ادا کرنی تھیں ۔دو ہزار روپے کا یہ دھوکہ ہو جانے پر ہم در اصل 6 ہزار روپے کے مقروض ہوگئے تھے ۔ اوّل تو دو ہزار روپے لاہور کے اس دوست کو ادا کرنے تھے جن سے یہ رقم قرض لی گئی تھی ، پھر دو ہزار روپے سٹینڈرڈ بنک کو ادا کرنے تھے اور سٹینڈرڈ بنک سے لے کر تنخواہیں ادا کی جانی تھیں۔ جس روز یہ واقع ہوا ہمارے گھر اور دفتر میں سوگ کا سماں تھا اور ہم نے دوپہر اور رات کو کھانا بھی نہ کھایا تھا اس عالم میں مولانا گلزار احمد اپنے کسی معاون کے ساتھ سائیکل پر بیٹھ کر ’’وفاق‘‘ کے دفتر آئے وہ ہمارے لئے کھانا گھر سے پکا کر لے آئے تھے۔ انہوں نے ہمیں بڑی تسلی دی دلاسہ دیا اور جاتے ہوئے ایک سو روپے بھی عنایت کر گئے مدیران وفاق سے یہ ان کی بہی خواہی کا ایک زندہ ثبوت تھا حالانکہ ان دنوں وہ خود بھی سخت سفید پوشی کا بھرم بر قرار رکھے ہوئے تھے ۔ مولانا گلزار احمد کاتعلق مصطفی صادق صاحب سے تو پہلے سے ہی تھا مگر میں ان کی نظر کرم کا خاص طور پر مستحق ٹھہرا ۔جب میں 1965ء میں سر گودھا سے لا ہور آگیا تو مولانا نے مجھے جماعت اسلامی اور جمعیت اتحاد العلماء، جس کے وہ سر براہ تھے کی تربیت گاہوں اور علمی مجالس میں مدعو کیا جو ان کی دریا دلی اورفیاضی کا مظہر تھا۔
مولانا گلزار احمد مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور کے پڑھے ہوئے تھے ۔ لیکن شروع میں وہ اپنا نام گلزار احمد پراچہ ہی لکھتے رہے اور دینی اور سیاسی کام کے 20-15 برس بعد انہوں نے اپنے نام کے ساتھ مظاہری کا لاحقہ لگا لیا جس طرح مسلم یورنیوسٹی علی گڑھ سے کسبِ فیض کرنے والے علیگ کہلا تے ہیں اسی طرح مدرسہ مظاہر العلوم کے چشمہ فیض سے سیراب ہونے والے اپنے نام کے ساتھ مظاہری لکھتے ہیں۔ میں مولانا کے ساتھ کبھی کبھی غیر سنجیدہ گفتگو بھی کرلیتا تھا ایک بار میں نے یہ گستاخی کی کہ مولانا آپ غالباً مظاہری اس وجہ سے ہیں کہ آپ نے جماعت اسلامی کے کسی مظاہرے میں شرکت کی ہوگی۔ مولانا نے اس بات کا بالکل بُرا نہیں منایا اور تاباں اور فرحاں چہرے پر مسکراہٹ کی کرنیں بکھر گئیں۔ مولانا کے اندر حسِ مزاح بھی کچھ کم نہ تھی ایک بار وہ لاہور ہوٹل کے سامنے واقع ’’وفاق‘‘ کے دفتر تشریف لائے، ہم نے رحیم یار خاں کے چوہدری نظیر احمد سے ہفت روزہ زندگی کا ڈیکلریشن کچھ ہی ہفتے پہلے حاصل کیا تھا اور وفاق کے بورڈ کے نیچے ہفت روزہ زندگی کا بورڈ بھی لگا دیا تھا ۔ مولانا دفتر کے اندر تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ زندگی تو چند روزہ تھی آپ لوگوں نے اسے بھی ہفت روزہ کردیا۔
مولانا گلزار احمد نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور 1953 ء کی تحریک تحفظ ختم نبوت سے لے کر بھٹو کی سول آمریت کے خلاف برپا ہونے والی تحریک نظام مصطفی تک جیلوں میں ان کی آمد و رفت جاری رہی۔ مولانا ایک گرم جوش اور پر تپاک شخصیت کے مالک تھے انہیں روپے پیسے کی کبھی کوئی تمنا نہ رہی ۔ اقامت دین کے لئے شب و روز جدوجہد انہیں بہت عزیز اور محبوب رہی افسوس کہ اتحاد امت کا یہ نگینہ ہزاروں مداحین کو سوگ وار چھوڑ کر اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگیا۔ مولانا کے بیٹے ماشاء اللہ ان کے نصب العین پر کار بند ہیں اور اپنے عظیم والد کا نام روشن کررہے ہیں۔