مولانا ظفر علی خان
جناب مصطفی صادق نے ٹیلی فون پر مجھ سے پوچھا کہ کیا میں 27 نومبر کی صبح ساڑھے دس بجے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام حضرت مولانا ظفر علی خانؒ کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریب میں شریک ہورہا ہوں یا نہیں تو میں نے عرض کیا کہ مجھے شاہد رشید نے اس تقریب میں شمولیت اور اظہار خیال کی دعوت دی جس پر میں نے بغیر سوچے سمجھے ہاں کردی مگر اب میں پریشان ہوں کہ مولانا ظفر علی خانؒ جیسی ہمہ صفت شخصیت پر کچھ کہنے کے لئے میرے پاس کیا ہے۔ میں نے مولانا ظفر علی خانؒ کو دیکھا اور نہ ان سے ملنے کی سعادت نصیب ہوئی نہ میں اس دور سے گزرا جو مولانا ظفر علی خان اور ان کی زیر ادارت شائع ہونے والے شہرہ آفاق روزنامہ ’’زمیندار‘‘ کی مقبولیت اور عروج کا دور تھا۔ زیادہ سے زیادہ میرے حصے میں فخر و ناز کی ایک کڑی ہے جس نے مجھے بھی اس عظیم اخباری ادارہ سے وابستگی کی لڑی میں پرو رکھا ہے کہ میں ان نوجوانوں میں شامل تھا جنہیں ’’زمیندار‘‘ کے آخری دور میں اس اخبار کے لئے کام کرنے کا موقع ملا یہ وہ دور تھا جب دنیائے صحافت کی اصطلاح میں ’’زمیندار‘‘ کا سورج غروب ہورہا تھا اور اس شمع کو روشن رکھنے کے لئے شاید آخری کوششیں ہورہی تھیں۔ اس مقصد کے لئے آغا شورش کاشمیری مرحوم کو روزنامہ ’’زمیندار‘‘ کی ادارت کی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں، وہی شورش جن کے بارے میں مولانا مرحوم نے فرمایا تھا،
میں ہوں وقت کا رستم تُو ہے ثانئ سُہراب
مصطفی صادق صاحب سے میں نے یہی عرض کیا کہ شرکت کا وعدہ تومیں نے کرلیا مگر میرے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں ہے اس لئے میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید صاحب کو معذرت کا فون کردوں گا۔
میں اس سوچ میں غلطاں تھا کہ اگر میری طرح دوسرے اصحاب نے بھی ایک ایک کرکے اپنی اپنی وجوہ کے باعث اس تقریب میں شمولیت سے معذوری ظاہر کردی تو تقریب کے صدر جناب مجید نظامی کو جو دکھ اور ملال ہوگا وہ تو ہوگا ہی ہم مولانا ظفر علی خانؒ کی روح سے بھی شرمندہ ہوں گے۔
یہ خیال آنا تھا کہ چشم تصور میں میکلوڈ روڈ پر مرحوم ’’زمیندار‘‘ کے دفتر چلا گیا۔ یہ وہی جگہ ہے جسے مولانا ظفر علی خان کے وارثوں نے ’’زمیندار‘‘ کی بندش سے کچھ عرصہ قبل ہی فروخت کردیا تھا اور جہاں اب زمیندار ہوٹل کا بورڈ لگا ہوا ہے، اسی زمیندار ہوٹل کے سامنے وہ گیراج تھا جہاں دفتر کی اس عمارت کی فروخت کے بعد کافی عرصہ روزنامہ ’’زمیندار‘‘ کا بورڈ آویزاں رہا۔ عروج و زوال کی اس کہانی کا آخری باب اسی گیراج میں واقع دفتر ’’زمیندار‘‘ میں رقم ہوا تھا۔ اس گیراج کے سامنے سے گزرتے ہوئے پاکستان میں جدید صحافت کے بانی جناب عنایت اللہ اور ان کے دست راست جناب ابو صالح اصلاحی نے کانوں کو ہاتھ لگائے تھے اور دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ کسی اخباری ادارے کو زوال کی اس کیفیت سے آشنا نہ کرے جس سے ’’زمیندار‘‘ دوچار ہوا۔
میں انہی تصورات اور خیالات کے ہجوم میں مولانا ظفر علی خانؒ کے کمرے میں چلا گیا جہاں وہ حُقّے کی نَے ہاتھ میں لئے سوزو سازِ رومی اور پیچ و تابِ رازی کی تصویر بنے ہوئے تھے، میں نے دیکھا کہ ان کی میز کے سامنے مولانا عبدالمجید سالک، مولانا غلام رسول مہر، ملک نصراللہ خان عزیز، حاجی لق لق، علامہ خدا بخش اظہر ابو سعید بزمی اور کیپٹن(ر) ممتاز ملک تشریف فرما ہیں، ان کے درمیان موضوع بحث تھا صدر پرویز مشرف کا گذشتہ شب ٹی وی پر نشر کیا جانے والا انٹرویو جس میں انہوں نے اس مختصر اقلیت کا ’’مکو ٹھپنے‘‘ کا ارادہ ظاہر کیا ہے جو ان کی کولیشن پارٹنر شپ پالیسی سے اختلاف کے گناہ کی مرتکب ہوئی ہے۔ یہ اصحاب رخصت ہورہے تھے اور میں اپنے خیالات میں غلطاں و پیچاں تھا۔ میں مولانا کی شخصیت سے پہلے ہی بہت مرعوب تھا جن کے بارے میں میں نے یہ سن رکھا تھا کہ اخبار کی کاپی دیکھتے ہوئے ان کی نظر ہی غلطی پر پڑتی ہے اور ایک روز جب انہوں نے کاپی میں کسی صاحب کے انتقال کی خبر پر انتقال کی بجائے ’’فوتیدگی‘‘ کا لفظ پڑھا تو انہوں نے یہ سرخی لکھنے والے سب ایڈیٹر کو طلب کیا، یہ سب ایڈیٹر ان کے بھانجے مہدی علی خان تھے جو بعد میں راجہ مہدی علی خان کہلائے اور طنزومزاح نگار کی حیثیت سے بڑے نامور ہوئے، کئی فلموں کی کہانیاں لکھیں مولانا نے مہدی علی خان کو کان سے پکڑا اور دفتر ’’زمیندار‘‘ کی سیڑھیوں پر لے گئے اور حکم دیا کہ آئندہ کبھی یہ سیڑھیاں نہ چڑھنا۔
مولانا کے ساتھ عملۂ ادارت کی گفتگو ختم ہوئی تو میں نے نہایت عاجزی کے ساتھ مولانا محترم سے اپنا تعارف کرایا مولانا نے تعارفی کلمات سنتے ہی کہا، ’’تم وہی تو نہیں جو ’شورش پاکستانی‘ کے نام سے میرے پوتے منصور علی خان سے ملنے آئے تھے اور ’’زمیندار‘‘ کے نامہ نگار بن گئے تھے، تم نے بہت اچھا کیا کہ ’’شورش‘‘ کا لقب اور تخلص ترک کردیا کیونکہ وہ جرأت و بے باکی جو شورش کاشمیری کا خاصہ تھی تمہارے بس کی بات نہ تھی۔ مگر جمیل میاں! تم نے یہ پاکستانی کی نسبت کیوں چھوڑدی، تم پاکستان کے بیٹے ہو، یہاں پلے بڑھے، اس پاکستان نے تمہیں صحافی بنادیا جبکہ متحدہ ہندوستان ہوتا تو تم یہیں کہیں کسی ہندو کے اخبار میں چپراسی ہوتے، تم پاکستان سے اپنی نسبت کبھی ترک نہ کرنا، یہ پاکستان زندہ ہے تو تم سب پاکستانی ہو اور تم سب پاکستانی صحیح معنوں میں اپنے آپ کو پاکستانی سمجھو گے اور سمجھتے رہوگے تو یہ پاکستان تاابد زندہ رہے گا۔‘‘
’’مولانا‘‘۔۔۔ میں نے نہایت ادب سے عرض کیا، ’’زمیندار‘‘ آپ کی نصف صدی کی قابلِ فخر جدوجہد، قربانیوں اور معرکہ آرائیوں کا مظہر اخبار، یہ زوال آشنا کیوں ہوگیا؟‘‘
مولانا نے پہلو بدلا اور یوں گویا ہوئے،
’’اخبار سنگ و خشت کی عمارتوں میں زندہ نہیں رہتے، اخبار کی اصل روح اس میں چھپنے والے الفاظ اور حروف ہوتے ہیں جب تک یہ دیوارِ حروف مضبوط و مستحکم رہتی ہے اخبار، اخبار کہلاتا ہے اور جب چھپے ہوئے الفاظ کی توقیر ختم ہوجاتی ہے تو یہ اخبار بڑی بڑی عمارتوں سے نکل کر اس کے گیراجوں کی تاریکیوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ میرے بیٹے! کیا تمہیں نہیں معلوم کہ جب ’’زمیندار‘‘ کا چراغ ٹمٹما رہا تھا تو اختر علی خان نے یکم اپریل کو شائع ہونے والے اخبار میں یہ شہہ سرخی جمادی تھی، ’’میاں افتخار الدین کی رہائش گاہ پر چھاپہ، روسی اسلحہ و گولہ بارود اور ہتھیار برآمد‘ پولیس میاں افتخارالدین کو گرفتار کرکے لے گئی، روس کے ساتھ ساز باز اور سازش کا انکشاف‘‘، یہ خبر بظاہر اپریل فول کی انگریز روایت کی پیروی میں شائع کی گئی تھی مگر حکام نے اختر علی خان کو جھوٹی خبر شائع کرنے پر گرفتار کرلیا۔ اگلے روز رہائی عمل میں آئی، اسی شام وزیراعلیٰ پنجاب نے اخبارات کے ایڈیٹروں کو ایک عشائیہ میں مدعو کر رکھا تھا جہاں اختر علی خان نے وزیر اعلیٰ سے شکایت کی کہ انہیں اپریل فول کے حوالے سے خبر شائع کرنے پر پولیس نے جیل میں بند کردیا، وزیر اعلیٰ نے یہ کہہ کر بات مذاق میں اڑادی، ’’مولانا آپ نے میاں افتخارالدین سے مذاق کیا اور ان کے متعلق من گھڑت سنسنی خیز خبر شائع کردی، ہم نے آپ سے مذاق کیا کہ یہ خبر شائع کرنے پر آپ کو گرفتار کرکے لے گئے‘‘۔ میاں! یہ تفصیل تمہیں اس لئے بتائی کہ جب کوئی اخبار لفظ اور حرف کی توقیرو حُرمت برقرار رکھنے میں ناکام رہتا ہے تو اس کا قاری اس کے ساتھ اپنی وابستگی برقرار نہیں رکھ پاتا، یہ وہی ’’زمیندار‘‘ توتھا جو لفظ ’’اخبار‘‘ کے ہم معنی تھا۔ لوگ اخبار فروش سے ’’اخبار‘‘ مانگتے تھے تو اس کا یہ مطلب ہوتا تھا کہ وہ ’’زمیندار‘‘ مانگ رہے ہیں اور پھر یہ عالم ہوا کہ جس اخبار کی پیشانی کے لئے میں نے یہ شعر کہا تھا جو آخری شمارے تک اس کی لوح کی زینت بنا رہا۔۔۔
نُورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پُھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
وہ اپنوں کی کار فرمائیوں کی نذر ہوگیا،مولانا نے جن دشمنوں اور حاسدوں کے لئے مخصوص انداز میں کاسہ لیسانِ سرمدی کے الفاظ استعمال کئے ان کی سازشیں او رریشہ دوانیاں ’’زمیندار‘‘ کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، مجھے جیلوں میں ڈالا گیا، ’’زمیندار‘‘ کے پریس ضبط کئے گئے، بار بار ضماتیں طلب کی گئیں، جس شخص کا نام ’’زمیندار‘‘ پر ایڈیٹر کے طور پر شائع ہوتا اسے گرفتار کرلیا جاتا میں تو ایک بار تنگ آکر اپنے دفتر کے باہر پان سگریٹ بیچنے والے کا نام بحیثیت ایڈیٹر شائع کرنے لگا صرف یہ دیکھنے کے لئے کہ پولیس اسے بھی گرفتار کرکے لے جاتی ہے یا نہیں۔ میرے جانشینوں نے اس روایت کا کوئی بھرم نہ رکھا جو میرے رفقاء نے قائم کی تھی۔ مولانا حُقّے کے کش پہ کش لگا رہے تھے اور مجھے کچھ سُوجھ نہیں رہا تھا کہ اب ان سے کیا پوچھوں ان کی مصروفیت کا دھڑکا بھی لگا ہوا تھا، سوچا اجازت لینے سے پہلے یہ تو عرض کردوں کہ مولانا پاکستان اب جس گرداب میں پھنسا ہوا ہے کیا اس سے نکل بھی سکے گا؟ آپ تو اس دنیا میں نہیں، ’’زمیندار‘‘ بھی اب یاد ایامِ رفتہ ہوچکا، اہل پاکستان کریں تو کیا کریں؟ مولانا کی بے چین آنکھوں میں امید کے دئیے روشن ہورہے تھے، انہوں نے ایک لمحہ کے بعد فرمایا، ’’قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات بھی آتے جاتے ہیں جن سے پاکستان اب گذر رہا ہے۔ مگر تمہارے ہی ایک شاعر کا مصرع ہے
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے
سنو تم اہل پاکستان، اہل اسلامستان۔۔۔ میں پاکستان کو صرف نام کا پاکستان نہیں سمجھتا یہ میرے نزدیک، میرے قلب و روح میں اس وقت اسلامستان تھا جب ہم قائد اعظم کی قیادت میں ’’لے کررہیں گے پاکستان‘‘ کے نعرے بلند کررہے تھے، اس پاکستان کو ہمیشہ اسلامستان بنائے رکھنا، ہر کسی کو وہ ادراک نہیں ہوسکتا جو اہل صحافت کو ہوتا ہے۔ برصغیر کے مسلمان انگریز سے آزادی حاصل کرنے اور ہندو کے تسلط اور غلامی سے نجات پانے میں کس طرح کامیاب ہوئے۔۔۔ کچھ نہ پوچھو۔۔۔ قوموں کی تقدیر بنانے والے اُس قوم کے سیاسی قائد اور حکمران ہی نہیں ہوتے دراصل یہ فریضہ تو صحیفہ نگار انجام دیتے ہیں۔ وہی صحافی جن کے بارے میں کہتے ہیں، تندئ بادِ مخالف کا مقابلہ کرتے ہیں، ہوا کتنی ہی تیز و تند کیوں نہ ہو یہ چراغ اپنا روشن رکھتے ہیں۔ اپنے ملی و قومی فرائض دیانت داری سے ادا کرتے چلے جائیں، حق و صداقت کا پرچم بلند رکھیں اور حق و سچ حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربیان کرتے چلے جائیں تو ایسے گرداب اور بحران قوم کو حیات نو بخشنے کا ذریعہ بنیں گے۔ ملتِ اسلامیہ کو اتحاد کی لڑی میں پرودیں گے۔ یہ اہلِ صحافت، یہ اہلِ حق و انصاف بیدار رہیں تو خوابیدہ قوم میں بیداری کی روح پُھونک دیں گے۔ مولانا کی گفتگو جاری تھی اور ادھر مجھے نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن کی تقریب میں شریک ہونا تھا، دامنِ وقت میں گنجائش نہ تھی، لہٰذا میں نے گستاخی کرتے ہوئے اجازت چاہی، مجھے تاخیر ہوگئی توجناب مجید نظامی ناراض اور خفا ہوں گے۔ مولانا دفعتاً اٹھ کھڑے ہوئے اور انگشت شہادت بلندکی اور یوں گویا ہوئے، ’’کون کہتا ہے کہ ظفر علی خان مر گیا، کون کہتا ہے کہ ’’زمیندار‘‘ بند ہوگیا، کون کہتا ہے کہ نُورِ خدابجھ گیا، کون کہتا ہے کہ کفر خندہ زن ہے، تم ’’نوائے وقت‘‘ نہیں پڑھتے؟ تم مجید نظامی کو نہیں جانتے، تمہارا میرا پاکستان جب بھی گرداب میں پھنستا اور کسی بھی بحران سے دوچار ہوتا ہے تو پاکستان کی آوازسنتے ہونا، قائد اعظم کی آواز سنتے ہونا، مجید نظامی کی آواز سنتے ہونا ، یہ آواز ’’نوائے وقت‘‘ کے اداریوں اور کالموں سے بلند ہوتی ہے، اس آواز میں میری آواز بھی شامل ہوتی ہے۔ حکمرانوں کی پیشانیوں پر لاکھ بل پڑتے رہیں، میرا یہ عزیز، میرا یہ بیٹا مجید نظامی۔۔۔ اپنے بھائی کا صحیح جانشین ہے، اس کی آواز آزاد پاکستان کی آواز ہے اب تم جاؤ اور ہاں وہاں لوگوں سے یہ کہنا کہ یہ آواز ہمیشہ توجہ سے سنو، اس آواز پر کان دھرو، یہ پاکستان کی آواز ہے، یہ اسلام کی آواز ہے، یہ اسلامستان کی آواز ہے۔۔۔ مجید نظامی کو میرا سلام کہنا۔۔۔ سلام کہنا اور یہ پیغام بھی دینا جب تک جان میں جان ہے کلمۂ حق کہتے چلے جاؤ، یہ صرف مجید نظامی کی ہی نہیں بلکہ ظفر علی خان کی بھی آواز ہے اور یہی آوازِ حق دوسرے صحافیوں، مصطفی صادق، مجیب الرحمن شامی اور ضیاء شاہد تک بھی پہنچاؤ، ان سے کہو کہ مجید نظامی کے قلم کی روشنائی کو اپنی آنکھوں کا سُرمہ بنائیں، لوح و قلم کی حرمت کا پرچم بلند سے بلند تر رکھیں اور جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں لکھتے رہیں۔ طرابلس کے شہیدوں کے خون سے لے کر مزارشریف میں بہنے والے خونِ ناحق تک۔۔۔ خونِ دل میں ڈوبی ہوئی حکایتیں۔۔۔
یہ شہادت گہہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا