میاں صاحب قسمت کے دھنی .. سعید اظہر
5؍ جولائی 1977اور نواز شریف کا ’’اُم الجرائم‘‘ پر گفتگو کی تکمیل کرتے ہیں۔ گزرے ہفتے کے ’’چیلنج‘‘ میں اس عنوان سے بات یہاں پر ادھوری چھوڑی گئی تھی۔
اس کالم میں برادر عزیز نے ایسے اعتراضات اٹھائے جن کے ’’اعصابی خلیے‘‘ دلیل کے استرداد کا شکار ہیں۔ آپ نے اپنی اس تحریر کے آغاز میں لکھا:’’میاں صاحب! قسمت کے دھنی ہیں۔ یہ معجزے سے کم نہ تھا کہ ایک منتخب وزیراعظم فوج کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہونے کے بعد زندہ بچ نکلے، وہ نہ صرف بچ نکلے بلکہ پھر واپس سیاست میں بھی آئے کیا یہ اس وقوعے پر پچھتاوے کا بیانیہ ہے؟ کیا وقت کے ترازو میں 1999ء کے ’’آئینی شب خون‘‘ کی تصدیق کے بعد ’’یہ معجزے سے کم نہ تھا کہ ایک منتخب وزیراعظم فوج کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہونے کے بعد زندہ بچ نکلے‘‘ جیسے ’’احسان‘‘ بیان کرنا ملکی آئین کی بالادستی اور پاکستانی شہریوں کے ووٹ کی توہین نہیں؟ وہ جنرل (ر) پرویز مشرف جو پریس کانفرنسوں میں میز ٹھونک کر بی بی شہید اور نواز شریف کی وطن واپسی کے صحافیانہ سوالوں پر “On My Dead Body”سے کم مکالمہ ہی نہیں بولا کرتے تھے آج ایک مکمل ذہنی بیمار کے طور پر گفتگو کرتے دکھائی نہیں دیتے؟ آئین اور پاکستانی ووٹ کی بالادستی کے انمٹ آئینی اصول نے ان کی زبان میں ہی مستقل لڑکھڑاہٹ پیدا نہیں کر دی، انہیں وطن کی دھرتی پر قدم رکھنے کی سعادت حاصل کرنے میں خوف کے مارے ہوئے پرندے نے ناتمام حسرتوں کے یرقان میں مبتلا کر دیا ہے۔ پرویز مشرف سے لے کر کمال جیسی ’’ہیٹوں‘‘ کی تاریخ کو طاقت و بصیرت جیسے انمول خزانوں کا رتبہ دینا کیا کسی ایسے قلمکار کو زیب دیتا ہے جس کی وطن دوستی اور عوام پرستی پر شاید کوئی دشمن بھی انگشت نمائی نہیں کر سکتا؟ کیا 1958سے لے کر نواز شریف سے پہلے تک منتخب وزرائے اعظم اور منتخب حکومتوں کو کمال جیسی ’’ہیٹوں‘‘ کے موجدوں اور کار پردازوں نے جس جس سلوک سے گزارا، وہ سلوک آج پاکستان کی تاریخ لکھنے والے دور حاضر کے مورخوں نے ان موجدوں اور کارپردازوں کے لئے ماتھے کا جھومر بنا کرپیش کیا یا واقعہ اس کے بالکل الٹ سامنے آیا ہے؟ کیا آج جب آپ منتخب وزیراعظم کی ’’جاں بخشی‘‘ کو کسی کا احسان قرار دیتے ہیں، ایک عام آدمی آپ کو وقار و تحسین کی نظر سے دیکھنے میں خود کو ناممکن حد تک مشکل میں پائے گا!
اس کالم میں مزید کہا گیا ’’ایک اور شدید نقصان جو میاں صاحب کے دور میں ملک کو پہنچا، وہ ریاستی اداروں کی خرابی ہے، ان کے دور میں عدلیہ اپنا وہ مقام کھو چکی جو وکلاء تحریک کے نتیجے میں اسے حاصل ہوا تھا، اسی طرح ان کے دور میں میڈیا کا ادارہ تباہ ہو کر رہ گیا؟ وہ بے وقعت بھی ہو گیا اور تقسیم بھی، یہ وہ نقصان ہے جس کی تلافی شاید اب عشروں میں بھی نہ ہو سکے‘‘۔ تاریخ کی زمین پر موجود حقائق کے باوجود واقعات کا ایسا اطلاق آپ کو جھنجھلاہٹ آمیز صدمے سے دوچار کر دیتا ہے۔ کیا عدل کے محافظ و پاسباں کسی ایک فرد کے اشارہ ابرو کے محتاج ہیں؟ کیا ایک فرد عدلیہ کی عظمت کو کے گلے میں جب چاہے اور جس طرح چاہے اپنی غلامی کا طوق ڈالنے کی قوت رکھتا ہے؟ کیا وہ ایسا تصور بھی کر سکتا ہے؟ کیا عدلیہ کے وقار کی تاریخ کا پہلا قلمکار جسٹس منیر تھا یا نواز شریف؟ کیا ملک کے فوجداری قانون کی تاریخ کے اس فیصلے کا لکھاری نواز شریف ہے جس کا آج کسی فوجداری مقدمے میں حوالہ تک دینے کی پابندی اور ممانعت ہے؟ کیا پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کی برأت کے لئے سواریاں نواز شریف نے بھجوائی تھیں ؟
وکلاء کی تحریک کے بعد وکلاء نے عدلیہ کی جیسی پذیرائی کی اور عدالتوں میں واقعات کی جیسی تاریخ مرتب ہو ئی ہے ہو سکتا ہے کل کلاں آپ کا قلم لہو میں ڈوب کر بھی اس المیے کی تصویر سامنے نہ لا سکے، وقت دبے قدموں نہایت تیز رفتاری سے اس تحریک کی برکتیں سامنے لا رہا ہے، اس لمحے کے سراپا سوالیہ وجود کے لئے تیار رہئے، جواب ممکن نہیں ہو گا۔ رہ گئی ’’میڈیا تقسیم اور نواز شریف‘‘ خدا کے بندو! یہ تقسیم 1970کی دہائی بلکہ 1960کی دہائی سے شروع ہوئی، 1970کی دہائی میں اپنی انتہا کو پہنچی، 1977میں جب ضیاء الحق کی آمد اور حکمرانی کے طویل دور میں اس کی وسعت، طوالت اور گہرائی ناقابل گرفت سائز میں ڈھلتی چلی گئی، اس میں ’’نواز شریف ذمہ دار ہیں‘‘ کا غیر واقعاتی اصول آپ کہاں سے لے آئے؟ میڈیا کی تقسیم تو نظریاتی اور مفاداتی دائروں میں 1980سے 20برس قبل ابھر گئی تھی، نواز شریف تو اس وقت ایم ایس روڈ کے دفتر میں اپنے والد مرحوم کی زیر نگرانی زیر تربیت تھے یا کام کرتے تھے؟ مخالفت ضرور کریں مگر تاریخ کے ساتھ ہاتھ کرنے کی عادت سے بچیں خصوصاً وہ لکھاری جن کی شخصیت کا مجموعی ڈھانچہ ایسی عادتوں سے کوسوں دور رہا ہو اور لوگ بھی ان کی اس خوبی کو تسلیم کرتے ہوں۔
5؍ جولائی 2017کے اس کالم کا ایک طرح سے ’’ٹیپ کا بند‘‘ قسم کا پیرا گراف قاری کو فی الواقعی نہ صرف رنجیدہ بلکہ تشنج کی زد میں لے آتا ہے۔ لکھا گیا! ’’لیکن ایک سنگین ترین جرم جسے ان کے ’’اُم الجرائم‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے، میاں صاحب سے سرزد ہوا، وہ فوج کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں سرزد ہوا‘‘۔ آپ خود سوچیں منتخب سول حکومتوں اور منتخب سول حکمرانوں کے عوامی مقدر پر اولیں حملہ آوروں بتاریخ 7؍ اکتوبر 1958کی بنیاد نواز شریف نے رکھی تھی؟ ملک کو دو لخت کرنے کے مرکزی ذمہ دار یحییٰ خاں کو اقتدار نواز شریف نے سپرد کیا تھا؟ 5؍جولائی 1977کی شب ضیاء الحق کی آمد کے موقع پر اس کی انگلی نواز شریف نے پکڑی ہوئی تھی؟ 12؍ اکتوبر 1999ء سے پہلے جو منتخب حکومتیں غلام اسحاق خاں اور فاروق لغاری نے برطرف کیں کیا اس کے پس پردہ نواز شریف تشریف رکھتے تھے؟ اور کیا ملکی آئین کوئی ’’بارہ صفحے کی دستاویز ہے جب چاہوں پھاڑ دوں‘‘ جیسا آخری حد تک قومی توہین کا ناقابل معافی جملہ نواز شریف نے کہلوایا تھا؟ کیا کسی غیر آئینی شب خون، جن کے باعث پہلے ملک دو لخت ہو چکا ہو کے ذمہ دار کو موقع ملنے پر آئین کے کٹہرے میں لانا آئین و قانون کی محافظت ہے، جرم کی آبیاری یا اداروں میں تصادم کی ’’سازش؟‘‘
’’ٹیپ کے بند‘‘ نوعیت کے اس پیرا گراف میں برادر عزیز نے چند اور نکات بھی اٹھائے مثلاً فوج کے ساتھ بطور ادارہ تعلقات، پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ، مناسب تیاری کے بغیر اس ’’قصور‘‘ میں میاں صاحب کا دھرنوں اور لاک ڈائون جیسے ’’کارناموں‘‘ کے منہ میں پڑنا ، خارجہ پالیسی میں تعطل، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ ہونا، یہاںپنجاب میں ایک اداکار سلطان راہی مرحوم تھے وہ ایک فلم میں بھتہ لیتے ہیں، ایک شخص کا مہینہ ختم ہونے سے پہلے اس سے مطالبہ کرتے ہیں، وہ کہتا ہے پہلوان جی! ابھی مہینے میں دس دن باقی ہیں! ’’سلطان راہی جواب دیتا ہے ’’اس دفعہ مہینہ بیس دنوں کا سمجھو‘‘ میرے عزیز! پاکستان میں ’’طاقتور اور اعلیٰ لوگوں‘‘ کی سوچوں اور معاملات کو عوامی ووٹ سے منتخب شدہ حکمرانوں کی نفی، تنقیص، تردید اور توہین کے لئے استعمال میں لانا بہرحال زیادتی ہے! سلطان راہی کو یاد رکھنے سے آپ ایسی غلطی سے محفوظ رہیں گے!