میر خلیل الرحمن کا نام ذہن میں آتے ہی ایک ایسی شخصیت کا دل آویز پیکر سامنے آ جاتا ہے جس نے اس ملک میں نہ صرف اُردو صحافت کو بین الاقوامی معیار پر لانے کے لئے شب و روز جدوجہد کی بلکہ انگریزی صحافت کو بھی جدت اور ندرت سے آشنا کیا، میر صاحب اگرچہ شہید ضیاء الحق کے بقول پاکستان کی اخباری صنعت کے شہنشاہ تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس شہنشاہی میں بھی انہوں نے اپنی درویش طبع برقرار رکھی۔ میر خلیل الرحمن کے نام سے تو میں اس دن سے آشنا تھا جب اخبار کا لفظ پہلی بار میرے کانوں میں پڑا تھا لیکن اُن سے ذاتی سطح کے مراسم اور تعلقات کا آغاز اس وقت ہوا جب میں نے 1980ء میں کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز اور آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کی رکنیت اختیار کی۔ میں نے دیکھا وہ ایک متحرک اور فعال شخصیت کے حامل انسان ہیں۔ انہیں جاننے والے اس امر کی شہادت دیں گے کہ وہ اپنے ادارہ کی تعمیر و ترقی کے لئے شب و روز سرگرم رہے۔ مطبوعات ’’جنگ‘‘میں سب سے زیادہ کام کرنے والے کارکن کا اعزاز میر صاحب کو ہی حاصل رہا۔ وہ اگر دن بھر انتظامی اور مالیاتی معاملات کی نگرانی کرتے اور آنے جانے والوں کا خندہ پیشانی سے خیر مقدم کرتے تو رات گئے تک اخبار کے شعبہ مخابرات سے قریبی رابطہ رکھتے اور بسا اوقات خود نیوز روم میں کام کرتے۔ مجھے ’’جنگ‘‘ کراچی کے دفتر میں کئی بار ان کے پاس بیٹھنے کا موقع ملا۔ وہ اخبار کے رپورٹروں، چیف نیوز ایڈیٹر اور اداریہ نویس سے مسلسل رابطہ رکھتے۔ راولپنڈی، لاہور، لندن اور کوئٹہ سے موصول ہونے والے ’’جنگ‘‘ کے مختلف ایڈیشنوں کو تنقیدی نظر سے دیکھتے اور ان کی اغلاط اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے اور جہاں کسی کی حوصلہ افزائی کا موقع ہوتا شاباش دیتے۔ میر صاحب کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ان کا بے پناہ عجرو انکسار تھا، انہوں نے اپنے دفتر میں اپنی میز کے بالکل سامنے ’’جنگ‘‘ دہلی کا ایک ابتدائی شمارہ جو بہت ہی چھوٹے سائز میں ’’جنگ‘‘ کی پیشانی، ایک دو مختصر اشتہارات اور عالمی ’’جنگ‘‘ کے متعلق چند سطری خبر سے آراستہ تھا آویزاں کر رکھا تھا، وہ فرماتے تھے کہ دہلی سے ’’جنگ‘‘ کی ابتداء کا یہ سفر مجھے اپنی حقیقت سے آگاہ کرتا رہتا ہے۔
میر صاحب نے اپنے اخبارات میں لکھنے والوں کو جتنی آزادی دی پاکستان کا کوئی دوسرا اخبار اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتا۔ میر صاحب نے اپنے زمانہ کے بے شمار ادیبوں، افسانہ نگاروں اور شاعروں کو صحافت کے میدان میں لا کھڑا کیا، یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ کس کس کا نام لیا جائے لیکن سید محمد تقی، رئیس امروہوی، شوکت تھانوی، مجید لاہوری، شفیع عقیل، ابراہیم جلیس، یوسف صدیقی، ابن انشاء، جمیل الدین عالی، ارشاد احمد حقانی اور احمد ندیم قاسمی ان بے شمار ناموں میں نمایاں نظر آتے ہیں۔
جہاں تک خبر کی تلاش و جستجو کا تعلق ہے اس میں تو میر صاحب کا کوئی ثانی نہیں تھا جن ایڈیٹروں کو مختلف بیرونی دوروں میں میر صاحب کے ساتھ سفر کا اتفاق ہوا وہ کہتے ہیں کہ صدر مملکت اور وزیراعظم کے ساتھ جانے والے ایڈیٹروں اور صحافیوں میں خبروں اور تصاویر کی ترسیل کے لئے سب سے زیادہ کام میر صاحب کرتے تھے۔ وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے لئے اپنا آرام قربان کرتے، راتوں کو جاگتے مگر اُن پر یہ دھن سوار رہتی کہ کاپی پریس میں جانے سے پہلے پہلے خبر اور تصویر دفتر ’’جنگ‘‘ میں ضرور پہنچ جائے۔ جن پریس کانفرنسوں اور بریفنگز میں میر صاحب شریک ہوتے ان کی سب سے اچھی اور تفصیلی رپورٹ میر صاحب کے قلم سے مرتب ہوتی تھی۔ بعض اصحاب یہ خیال کرتے رہے ہیں کہ میر صاحب تو صرف مالک اخبار ہیں اخبار نویس نہیں لیکن مجھ سمیت بے شمار حضرات اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میر صاحب کو قلم کی دولت سے بھی اسی طرح نوازا تھا جس طرح روپیہ پیسہ انہیں وافر عطا کیا تھا مختلف سیاسی بحرانوں کے مواقع پر ’’جنگ‘‘ میں جو مدلل اداریئے شائع ہوئے وہ میر خلیل الرحمن کے اپنے قلم سے ہوتے تھے۔
وہ سیاسی مسائل پر ممتاز اہل قلم کے مضامین کی خود اصلاح کرتے تھے، خبروں کے شعبے کے لئے شہ سرخی اور اس سے متعلقہ خبریں اکثر وبیشتر وہ خود لکھتے تھے۔ خبروں میں اصلاح کا ان کا وصف بھی مجھے دیکھنے کا موقع ملا، اے پی این ایس کے انتخابات کے موقع پر جب دو دھڑوں میں زبردست مقابلہ ہوا اور میر صاحب کے گروپ کے ایک ساتھی کے دوسرے گروپ میں چلے جانے سے یہ گروپ ایک ووٹ کے فرق سے الیکشن ہار گیا تو میر صاحب نے یہ خبر مرتب کرنے کا کام مجھے سونپا، میں یہ ذمہ داری ادا کرنے سے ہچکچا رہا تھا۔ میر صاحب کے اصرار پر جب میں نے خبر لکھ کر ان کے سامنے رکھی تو انہوں نے اس میں سے دو فقرے حذف کر دیئے، ان کی یہ اصلاح اس قدر برمحل تھی کہ میر صاحب کی ذات کا اخبار نویس اپنی مثالی صورت میں میرے سامنے تھا۔ میر صاحب کی ادارتی اور انتظامی صلاحیتوں کا ہی اعجاز تھا کہ ’’جنگ‘‘ اشاعتی دنیا کی ایک ایمپائر بن گیا میر صاحب اس ایمپائر کے شہنشاہ تو تھے لیکن ’’جنگ‘‘ کی ترقی اور عروج کے ساتھ ساتھ ان کے عجز و انکسار میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وہ اپنے نصب العین سے عشق کرنے والے شخص تھے ان کا نصب العین اور عشق دونوں ’’جنگ‘‘ تھے۔ وہ اپنی آخری بیماری سے پہلے ایک صحت مند اور تندرست شخص کی طرح ’’جنگ‘‘ کے لئے شب و روز کام کرتے رہے اور رحلت سے ایک سال قبل انگریزی اخبار ’’دی نیوز‘‘ کا آغاز کیا، ان کی صحت کا راز بھی شاید یہی تھا کہ وہ اپنے کام سے کام رکھنے والے انسان تھے، انہوں نے اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو بے کار مشاغل کی نذر کرنے سے گریز کیا۔
میر صاحب کی زندگی کا ایک اور پہلو ان کی کفایت شعاری ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے کا مالک ہوتے ہوئے وہ اپنے ادارے کے کارکنوں اور ذیلی دفاتر کے ساتھ خط و کتابت میں وہ کاغذ استعمال کرتے جس پر خبریں موصول ہوتی تھیں اور جس کا ایک صفحہ سادہ ہوتا، اسی طرح وہ اپنے نام موصول ہونے والے لفافوں کو بھی ’’جنگ‘‘ کے ذیلی دفاتر کے ساتھ خط و کتابت میں دوبارہ پتہ لکھ کر کام میں لاتے، سیڑھیاں چڑھتے اور ادارہ کی عمارت کے مختلف کمروں میں چلتے ہوئے فرش پر ایک کامن پن پر بھی ان کی نظر پڑ جاتی تو وہ کسی تامل کے بغیر اسے اٹھا لیتے اور استعمال میں لاتے، اس طرح وہ اگرچہ ایک خوش لباس انسان تھے لیکن میں نے برسوں موسم سرما میں انہیں کوٹ کے نیچے سرخ رنگ کا ایک ہی سویٹر پہنے دیکھا، اس سویٹر سے انہیں کوئی خصوصی لگاؤ تھا یا کوئی اور وجہ، مجھے ان کے پیکر میں اس سرخ سویٹر سے ان کی کفایت شعاری اور سادگی کی خوشبو محسوس ہوتی تھی۔
میر صاحب میں برداشت اور تحمل بلا کے تھے اے پی این ایس کے اجلاسوں میں انہیں بعض ارکان کی طرف سے نہایت تیز و ترش تنقید کا سامنا کرنا پڑتا لیکن وہ سب کو اظہار رائے کا پُورا موقع دیتے، ان کے بعض ساتھی بعد میں ان پر معترض بھی ہوتے کہ آپ نے فلاں صاحب کو اتنی طویل تقریر کی اجازت کیوں دی لیکن میر صاحب نے اپنی یہ وضع ہمیشہ برقرار رکھی، یہ ان کی شخصیت کا ایک بہت اہم پہلو ہے کہ وہ اپنے ساتھ اختلاف رکھنے والوں کو اپنا مافی الضمیربیان کرنے کا پُورا پُورا موقع دیتے اور کسی مرحلہ پر چڑ چڑے پن کا مظاہرہ نہ کرتے۔
میر صاحب نے اپنی زندگی میں صرف اپنے ادارہ کی مطبوعات ہی کو بام عروج پر نہ پہنچایا بلکہ انہوں نے اپنے ہم عصر بعض ایڈیٹروں کو ان کے اخبارات کی مالی مشکلات میں مقدور بھر مدد بھی دی۔ کراچی کے ایک روزنامہ کے ایڈیٹر نے مجھے بتایا کہ ان کے والد مرحوم نے جب ایک بڑا اخبار بند ہونے کے بعد اپنا اخبار نکالا تو میر صاحب نے انہیں ایک معقول رقم بطور اعانت دی۔ میر صاحب نے اپنی رحلت سے کچھ عرصہ پہلے اس جواں سال ایڈیٹر کو اپنے پاس بلایا اور ان کے والد مرحوم کی لکھی ہوئی رسید ان کے حوالے کی یہ نوجوان ایڈیٹر اگلے روز اتنی ہی رقم کا چیک لے کر میر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ آپ نے کل جو رسید دی تھی یہ اس رقم کا چیک ہے۔ میر صاحب نے یہ چیک لے کر پھاڑ دیا اور کہا بیٹے میں نے یہ رسید تمہیں صرف اس لئے دی تھی کہ یہ معاملہ میرے مرنے کے بعد کسی اور کے علم میں نہ آئے۔
آئینی اور دستوری معاملات پر بھی میر صاحب کی گہری نظر تھی، وہ اے پی این ایس اور سی پی این ای کے اجلاسوں میں شریک ہوتے تو ایک فائل عام طور پر ان کے ساتھ ہوتی تھی اور اس فائل میں ان دونوں جماعتوں کے آئین ہوتے تھے۔ چند سال قبل جب کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کے سالانہ انتخابات ہو رہے تھے تو اکثریتی گروپ نے اس وقت کے عہدیداروں کے اسماء گرمی ہی دوبارہ انتخاب کے لئے پیش کر دیئے۔ بظاہر کسی مخالفت کا کوئی امکان نہیں تھا لیکن میر صاحب اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور سی پی این ای کے آئین کی ایک دفعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ عہدیدار دوبارہ صرف اس صورت میں منتخب کئے جا سکتے ہیں جب ان کا انتخاب اتفاق رائے سے عمل میں آئے اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ میں کسی بھی عہدیدار کو دوبارہ منتخب کرنے کی مخالفت کرتا ہوں۔ آپ میں اچھے اچھے لوگ موجود ہیں، آپ موجودہ عہدیدار دوبارہ منتخب کرنے کی بجائے دوسرے لوگوں کو ان مناصب پر منتخب کریں، میر صاحب کے اس آئینی نکتہ اور اختلاف نے اکثریتی گروپ کی ساری حکمت عملی بکھیر کر رکھ دی۔ اجلاس ملتوی کرنا پڑا اور میر صاحب کا ’’اتفاق رائے‘‘ حاصل کرنے کے لئے انتخاب کا نیا فارمولا وضع کیا گیا میر صاحب نے اس طرح کے معاملات میں اپنی آئینی اور دستوری بصیرت کا بارہا مظاہرہ کیا۔ 1984-85ء میں اخبارات کے مالکوں کی باہمی آویزش کے باعث اے پی این ایس کی مجلس عاملہ کے انتخابات میں روزنامہ ’’جنگ‘‘ کو کراچی، کے ایک اور اردو روزنامہ کے مقابلے میں شکست دی گئی۔ میر صاحب نے جو مالکان اخبارات کی اس تنظیم کو تشکیل دینے والوں میں شامل تھے، یہ چرکا بڑے صبر و تحمل سے برداشت کیا جس کا صلہ انہیں یہ ملا کہ 1986-87ء کے انتخابات میں ان کے ساتھیوں نے انتخاب میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور میر صاحب کو جو ووٹ ڈالنے کے بعد اپنے گھر چلے گئے تھے۔ گھر سے بلا کر اے پی این ایس کی صدارت کے منصب پر فائز کیا گیا۔ اپنی اس حیثیت میں انہوں نے علاقائی اخبارات، چھوٹے اخبارات اور جرائد کی بڑی تعداد کو اے پی این ایس کی رکنیت کا اعزاز بخشا۔
میر خلیل الرحمن عجز و انکساری کا پیکر تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی صحافتی بادشاہت کا دائرہ وسیع کیا تو ان کی عاجزی اور انکسار میں اور اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ایک بار وہ دورۂ چین سے واپسی پر لاہور رُکے اور مجھے فون کر کے میرے دفتر آنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے عرض کیا اگر آپ ’’جنگ‘‘ کے دفتر میں ہیں تو میں خود حاضر ہو جاتا ہوں، انہوں نے فرمایا کہ میں دفتر سے ہی بول رہا ہوں ان کی اجازت سے میں ان کے ساتھ ملاقات کے لئے ’’جنگ‘‘ کے دفتر چلا گیا وہ میر عبدالرب ساجد (اب مرحوم) کے کمرے میں تشریف فرما تھے، میں کمرے میں داخل ہوا تو انہوں نے اپنی نشست سے اٹھ کر میری پذیرائی کی۔ چند منٹ ہمارے مابین باہمی دلچسپی کی گفتگو ہوئی اس کے بعد میں نے اجازت چاہی میر صاحب ایک بار پھر کھڑے ہوئے، میں نے اسے اپنی غیر معمولی عزت افزائی جانا اور میر صاحب سے مصافحہ کرنا چاہا۔ میر صاحب میرا ہاتھ تھامے دروازے کی طرف بڑھے، میں ایک مرتبہ پھر اجازت کا طلب گار ہوا مگر وہ میرے اصرار کے باوجود لفٹ تک گئے۔ یہاں بھی میں نے ان سے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا مگر انہوں نے بہت ہی اپنائیت سے کہا جمیل صاحب! مجھے آپ سے ضروری بات کرنا ہے وہ لفٹ میں گراؤنڈ فلور پر آئے، اب لفٹ کو واپس جانا تھا، میں نے پھر اجازت چاہی مگر میر صاحب لفٹ اور عمارت سے باہر نکل کر صدر دروازے سے باہر آئے اور فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر مجھ سے پوچھا، آپ کی موٹر کہاں ہے میں نے انہیں بتایا کہ میری گاڑی سڑک کے دوسری طرف کھڑی ہے اور میرے ڈرائیور نے مجھے دیکھ لیا ہے اور وہ گاڑی دفتر ’’جنگ‘‘ کے سامنے لا رہا ہے، چند ساعتوں بعد گاڑی آ پہنچی، میر صاحب نے مصافحہ کیا اور جب میں گاڑی میں بیٹھ گیا تو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے رخصت کیا اور واپس دفتر میں چلے گئے۔ یقین جانیں میر صاحب نے مجھے جس عزت و تکریم کے لائق سمجھا میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا اور آج بھی جب میں میر صاحب کی اس شفقت کا تصور کرتا ہوں تو ان کے لئے قدرومنزلت میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے۔
اسی طرح کراچی میں اے پی این ایس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ایک اجلاس کے بعد میر صاحب نے مجھے اور ممتاز طاہر سے یہ دریافت کیا کہ ہم لاہور واپس کب جا رہے ہیں ممتاز صاحب نے انہیں بتایا کہ میں دو تین روز کراچی میں ہی قیام کروں گا میں نے گزارش کی کہ مجھے آج شام کی پرواز سے لاہور واپس جانا ہے میر صاحب نے پیشکش کہ میں گاڑی ہوٹل بھیج دوں گا اور ڈرائیور آپ کو ہوائی اڈے چھوڑ آئے گا۔ میں وقت مقررہ پر ہوٹل کے استقبالیہ میں آیا مگر ڈرائیور نہیں آیا تھا میں نے دس پندرہ منٹ انتظار کیا اور ممتاز طاہر کو یہ بتانے کے بعد کہ گاڑی نہیں آئی ہے ٹیکسی میں بیٹھ کر ایئر پورٹ روانہ ہو گیا، مجھے اگلے ہی روز میر صاحب کا خط موصول ہوا جس میں انہوں نے لکھا کہ
برادرم جمیل اطہر صاحب
السلام علیکم
ممتاز طاہر صاحب نے کوئی پونے چھ بجے ٹیلی فون کیا کہ جمیل اطہر ہوٹل کے استقبالیہ میں کھڑے موٹر کا انتظار کر رہے ہیں۔ میں نے سر پیٹ لیا اور شرم سے پسینہ آ گیا۔ جب آپ سے طے ہو گیا تھا کہ میں گاڑی بھیج دوں گا آپ فکر نہ کریں تو میرا فرض تھا کہ میں اس کا خیال رکھتا لیکن جمیل صاحب یقین کیجئے میں لنچ کے بعد سیدھا دفتر آ گیا۔ معمول کے مطابق گھر بھی نہیں گیا اور دفتر آ کر کام میں لگ گیا، مجھے بالکل خیال نہ رہا کہ آپ کو پانچ بجے گاڑی بھیجنا ہے۔ اپنی اس کوتاہی پر نادم ہوں اور آپ سے خلوص دل کے ساتھ معذرت خواہ ہوں۔ امید ہے کہ آپ میری معذرت قبول فرمائیں گے۔ آپ کا میر خلیل الرحمن
جب 1991ء میں ادارہ ’’جنگ‘‘ کے زیر اہتمام انگریزی روزنامہ “THE NEWS INTERNATIONAL” کا اجرا ہوا تو میں نے ہدیہ تبریک کے لئے میر صاحب کے نام تار بھیجا جس کے جواب میں انہوں نے 18 فروری کو ایک چھپا چھپایا خط اپنے دستخطوں سے مجھے بھیجا اور اس کے آخر میں اپنے ہاتھ سے اردو میں یہ تین سطریں تحریر کیں۔
محترمی جمیل اطہر صاحب
السلام علیکم
آپ کا تہنیتی تار ملا۔ بہت بہت شکریہ
مجھے آپ کی محبت اور دعاؤں کی ہمیشہ ضرورت رہے گی۔ شکریہ
مخلص میر خلیل الرحمن 19 فروری 1991ء
میر خلیل الرحمن کو اللہ تعالیٰ نے صحافت میں جس اعلیٰ وارفع مقام سے نوازا تھا اُس میں ان کی بے شمار صفات اور اوصاف کے علاوہ ان کی انسانوں کے لئے قدرو محبت کو بھی بہت دخل رہا، میں آج تشکر و امتنان کے بھرپور احساس کے ساتھ ان کی یہ یادیں صفحہ قرطاس پر منتقل کر رہا ہوں۔
باتیں تو بہت سی ہیں، اپنی ذات کے حوالے سے میر صاحب کے مشفقانہ سلوک کی، لیکن انہیں پھر کسی موقع کے لئے اٹھائے رکھتا ہوں۔ میر خلیل الرحمن کی سیاسی بصیرت کے ضمن میں یہ عرض کروں گا کہ انہوں نے چند سال قبل موجودہ وزیراعظم نواز شریف کے پاکستان کا وزیراعظم بننے کی پیشگوئی میرے اور بعض دوسرے ایڈیٹروں کی موجودگی میں اس وقت کی تھی جب شاید جناب نواز شریف نے بھی اس منصب کا تصور نہ کیا ہوگا۔
اس وقت ’’جنگ‘‘ لاہور کے دفتر میں وہ جس یقین سے اپنا یہ اندازہ بیان کر رہے تھے اس پر ہمارے حیرت و استعجاب کو دیکھتے ہوئے انہوں نے ایک بار پھر پورے وثوق سے کہا تھا، ’’آپ حیران نہ ہوں، نواز شریف ایک دن پاکستان کے وزیراعظم بنیں گے‘‘ ان کی یہ پیش قیاسی کچھ ہی عرصہ بعد بالکل درست ثابت ہوئی۔
میر صاحب کے سانحہ ارتحال کی خبر مجھے اس وقت ملی جب میں مدینہ منورہ میں اپنی نشست کنفرم کرانے کے لئے پی آئی اے کے دفتر گیا، میرے پاسپورٹ پر پیشہ کے خانہ میں صحافی پڑھ کر کاؤنٹر پر کھڑے شخص نے مجھے یہ المناک خبر سنائی تو زبان پر انا للہ و انا الیہ راجعون کے الفاظ جاری ہو گئے۔ پی آئی اے کے دفتر سے مسجد نبوی گیا اور اللہ کے حضور جھک کر ان کی مغفرت اور ان کے لئے رسول اکرم ؐ کی شفاعت کی خاطر عاجزانہ دعا کر کے پاکستان کی صحافت کے اس مہہ کامل کے حضور اپنی عقیدت و محبت نچھاور کی۔
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں