تجزیہ:قدرت اللہ چودھری
پیپلز پارٹی نے ساری امیدیں نواز شریف ا ور عمران خان کی نااہلی سے وابستہ کر لی ہیں۔یعنی گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے۔
جس طرح عمران خان کو یقین ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی وزارت عظمیٰ اب دو دن کی مہمان ہے، اسی طرح خورشید شاہ کو بھی حق الیقین ہے کہ نواز شریف گئے تو پیچھے پیچھے عمران خان بھی جائیں گے۔ غالباً ان کا خیال ہے کہ دونوں کے خلاف عدالت میں جو مقدمات چل رہے ہیں، ان کی نوعیت ایک جیسی ہے، اگر وزیراعظم کو لندن کے فلیٹوں کی منی ٹریل پیش کرنی ہے تو عمران خان کو بھی بنی گالہ کے محل اور لندن کے فلیٹ کی پہلے خرید اور پھر اس کی فروخت کی تفصیلات سے آگاہ کرنا ہے۔ اس لئے خورشید شاہ کا خیال ہے کہ پہلے نواز شریف جائیں گے اور ان کے بعد عمران خان۔ یہ اگر خوش فہمی بھی ہے تو اس کی بنیاد بہرحال وہ مقدمات ہیں جو اس وقت عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ عمران خان کے خلاف بیرون ملک سے پارٹی فنڈ حاصل کرنے کا الزام بھی ہے جو ان کے خلاف کسی دشمن نے نہیں لگایا بلکہ ان کی پارٹی کے ایک بانی رکن اکبر ایس بابر نے لگایا ہے جو یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ دھرنے کے دنوں میں نوٹوں کی بھری ہوئی بوریاں بینک میں جمع کرائی جاتی تھیں، لیکن ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کے خلاف الزام لگاتے ہوئے تو ہر حد سے گزر جاتے ہیں لیکن جب ایسے ہی کسی الزام کا ملبہ اپنے اوپر گرتا ہے تو آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ الزام تراشی کی یہ مہم بہرحال جاری ہے اگرچہ فیصلہ تو عدالت نے کرنا ہے لیکن فیصلے کی گھڑی کے لئے دن بڑی بے چینی سے گنے جا رہے ہیں۔ عدالتوں کے باہر جو عدالتیں لگی ہیں، ان میں گفتگو کرنے والے اس یقین اور اعتماد سے بات کرتے ہیں جیسا کہ فیصلہ ان کے سامنے لکھا ہوا رکھا ہے۔
سید خورشید شاہ کو نواز شریف اور عمران خان کی نااہلی کا جتنا پختہ یقین ہے اس سے اور کچھ ثابت ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو، یہ ضرور یقین ہو جاتا ہے کہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان اتحاد کا کوئی امکان نہیں اور اس وقت اگر دونوں پارٹیوں کے رہنما کہیں کسی جگہ اکٹھے بیٹھ جاتے ہیں تو وہ صرف نظر کا دھوکا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کی سیاست یہی ہے کہ نواز شریف اور عمران خان کی نااہلی کے بعد اس کے لئے میدان ہموار ہو جائے گا تو پارٹی کے رہنماؤں کو کسی باؤلے کتے نے نہیں کاٹا کہ وہ خواہ مخواہ عمران خان کے ساتھ اتحاد کرتے پھریں، وہ تو اس انتظار میں ہیں کہ کس وقت دونوں سیاسی منظر سے اوجھل ہوں اور پیپلز پارٹی ہائی جمپ لگا کر میدان میں کود پڑے جس کے بڑے بڑے جیالے پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف جائن کر رہے ہیں، جب فردوس عاشق اعوان نے پارٹی چھوڑی تو کہا گیا وہ تو جیالی تھیں ہی نہیں، پارٹی چھوڑ گئیں تو کیا ہوا۔ ڈاکٹر بابر اعوان کے جانے پر بھی کچھ ایسے ہی تبصرے کئے گئے کہ پیپلز پارٹی انہیں مدت ہوئی چھوڑ چکی تھی۔ اس لئے اب اگر وہ تحریک انصاف میں چلے گئے ہیں تو جاتے رہیں۔ نذر گوندل پر بھی کچھ ایسا ہی تبصرہ کیا گیا، اب اطلاع آئی ہے کہ مخدوم شہاب الدین بھی پارٹی چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں اگر یہ اطلاع مصدقہ ہے تو مخدوم شہاب الدین کو کون جیالا نہیں مانے گا۔ اس کا ایک حل تو پیپلز پارٹی نے یہ نکالا کہ جوابی حملے کے طور پر تحریک انصاف کے لوگوں کو بھی اپنے دامن عافیت میں پناہ دینا شروع کر دی۔ ناز بلوچ اس کی تازہ مثال ہے، لیکن ایک بات نوٹ کی گئی کہ جو بھی کوئی ایک یا دوسری پارٹی چھوڑتا ہے اس پارٹی والے جھنجھلا کر ایسے بیانات دینا شروع کر دیتے ہیں کہ بنیادی سیاسی اخلاقیات کے بھی منافی ہوتے ہیں۔ اس ماحول میں جن لوگوں کا خیال ہے کہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کسی اتحاد میں اکٹھی ہو سکتی ہیں، اس کی کوئی سیاسی بنیاد نہیں۔ پیپلز پارٹی کو نہ صرف نواز شریف کے جانے کا یقین ہے بلکہ وہ ساتھ ہی ساتھ عمران خان کو بھی جاتا ہوا دیکھ رہی ہے تو وہ اتھاد کی راہ پر کیوں چلے گی، اس لئے اگر ان دونوں جماعتوں کے رہنما کسی اتحاد کی بات کر رہے ہیں، تو اس کی کوئی بنیاد نہیں۔
پنجاب اسمبلی میں اس وقت عمران خان کی جماعت حزب اختلاف کا کردار ادا کر رہی ہے۔ صوبے میں پیپلز پارٹی کی نمائندگی برائے نام ہے، پھر پارٹی کے بڑے لیڈر اور متوقع طور پر منتخب ہونے کی صلاحیت رکھنے والے بھی پارٹی چھوڑ رہے ہیں، تو سوال پیدا ہوتا ہے اگلے انتخابات میں پارٹی پنجاب میں کیا معرکہ سر کرلے گی۔ اس وقت تک پارٹی نہ صرف دوبارہ ٹیک آف کی پوزیشن میں نہیں آئی بلکہ حالت پہلے سے بھی خراب ہوگئی ہے، تو بلاول کا یہ دعویٰ کسی بنیاد کے بغیر نظر آتا ہے کہ اگلے انتخابات میں وفاق اور چاروں صوبوں کی حکومت بھی پیپلز پارٹی بنائے گی۔
آنے والے الیکشن میں مقابلے کا اصل میدان پنجاب ہی ہوگا، جو پنجاب میں جیتے گا وہی وفاق میں حکومت بنائے گا، عمران خان بھی اس صوبے پر انحصار کر رہے ہیں، اگر مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف پنجاب میں براہ راست انتخابی معرکہ لڑتی ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کہاں کھڑی ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کی موجودگی میں تو اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن نہیں ہیں، اس لئے خورشید شاہ نے اپنی ساری امیدیں پہلے نواز شریف اور پھر عمران خان کی نااہلیت سے وابستہ کرلی ہیں،گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے، جس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ نواز شریف اور عمران خان نااہل نہیں ہوتے تو پنجاب میں پیپلزپارٹی کی سیاست کا خاتمہ ہی سمجھیں، اس وقت پارٹی کی جو پوزیشن ہے، آنے والے دنوں میں خراب ہی ہونے کا امکان ہے، بہتری کا امکان کم ہی ہے۔ اس لئے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کا کوئی اتحاد نہیں ہوگا، کیونکہ دونوں کی سیاسی سمت مختلف اور سیاسی تقاصے بھی یکساں نہیں ہیں۔