ناسخ سیفی از جمیل اطہر
تشکیلِ پاکستان کے بعد لائل پور سے چار روزانہ اخبارات نے امتیازی مقام حاصل کیا۔ ’’سعادت‘‘ قیامِ پاکستان سے پہلے ہی لائل پور سے ہفتہ وار شائع ہورہا تھا، یہ اخبار 1939ء میں ضلع لائل پور (اب فیصل آباد) کے ایک قدیم قصبہ کمالیہ سے شائع ہوتا تھا۔ ’’سعادت‘‘ ابتدا سے ہی مسلم لیگ کا حامی اور قائداعظم کا پرستار رہا تھا۔ اس کے مدیرومالک جناب ناسخ سیفی تھے جن کا اصل نام ملک امام بخش تھا لیکن اس دور کے رواج کے مطابق ان کا اصل نام تو پسِ پردہ چلا گیا اور قلمی یا اخباری نام ناسخ سیفی زبان زدِ عام ہوا۔
میں نے جناب ناسخ سیفی کو سب سے پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس وقت دیکھا جب 1951ء میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہورہے تھے اور مسلم لیگ نے جھنگ کے ایک صاحب شفیع منصور کو ٹوبہ ٹیک سنگھ سے انتخاب لڑنے کے لئے ٹکٹ دے دیا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے سیاسی رہنما، کارکن اور کاروباری لوگ اس نامزدگی کے سخت مخالف تھے اور انہوں نے ایک پنچایت بلا کر مسلم لیگی امیدوار کے مقابلے میں ٹوبہ کے ایک عالم دین اور سیاسی رہنما مفتی عبدالحمید لدھیانوی کو شفیع منصور کے مقابلے میںآزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے پر آمادہ کیا۔ شفیع منصور کا انتخابی دفتر ہمارے گھر کے سامنے تھا۔ میرے والد قاضی سراج الدین سرہندی چونکہ مفتی صاحب کے بہت گہرے دوست تھے اور ان لوگوں میں پیش پیش تھے جنہوں نے انہیں الیکشن لڑنے پر آمادہ کیا اس لئے والد صاحب نے ہمارے گھر کی بیٹھک کو مفتی صاحب کے الیکشن آفس میں تبدیل کردیا تھا۔ ایک روز میں نے ایک نہایت خوبصورت شخص کو جنہوں نے سیاہ رنگ کی پتلون اور سفید شرٹ پہنے ہوئی تھی شفیع منصور کے دفتر سے نکلتے دیکھا۔ یہ جناب ناسخ سیفی تھے جن کا اخبار ’’سعادت‘‘ شفیع منصور کی حمایت میں پیش پیش تھا۔ میرے والد صاحب نے بھی ان سے علیک سلیک کی اور مجھے بتایا کہ یہ ’’سعادت‘‘ کے ایڈیٹر صاحب تھے۔
جب روزنامہ ’’غریب‘‘ کا نامہ نگار بن کر میرا لائل پورآنا جانا ہوا تو میں مدیر ’’غریب‘‘ چوہدری ریاست علی آزاد کے علاوہ مدیر ’’سعادت‘‘ جناب ناسخ سیفی اور مدیر ’’عوام‘‘ جناب خلیق قریشی سے بھی ملنے لگا۔ ’’سعادت‘‘ میری نظروں سے گذرتا تھا۔ ایک روز میں نے سعادت میں خبر پڑھی کہ مسلم لیگی رہنما چوہدری عزیزالدین ممبر قومی اسمبلی ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے بعدچناب ایکسپریس میں کراچی سے لائل پور آرہے ہیں۔ میرا ارادہ اس روز کسی کام سے لائل پور جانے کا تھا، میں نے سوچا میں چناب ایکسپریس سے جاؤں تاکہ دوران سفر چوہدری عزیزالدین سے بھی ملاقات کرسکوں۔ چوہدری عزیزالدین درجہ اول کے ایک ’’کُوپے‘‘ میں سفر کررہے تھے، میرے پاس اگرچہ تھرڈ کلاس کا ٹکٹ تھا مگر میں ہمت کرکے ان کے ڈبے میں سوار ہوگیا اور انہیں بتایا کہ میں لائل پور کے ایک اخبار ’’غریب‘‘ کا نامہ نگار ہوں اور قومی اسمبلی کے اجلاس کے احوال پوچھنے کے لئے آپ کے ساتھ لائل پور تک سفر کروں گا۔ چوہدری صاحب کے ساتھ ایک اور صاحب بھی سفر کررہے تھے، انہوں نے فرمائش کی کہ میں چوہدری عزیزالدین کے ساتھ گفتگو کی جو خبر مرتب کروں وہ روزنامہ ’’سعادت‘‘ کو بھی مہیا کروں، کیونکہ مسلم لیگ کے حلقہ میں ’’سعادت‘‘ بہت دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے۔
چوہدری صاحب سے گفتگو ہوتی رہی اورلائل پور ریلوے سٹیشن آگیا۔ چوہدری صاحب نے ازراہ کرم مجھے اپنی گاڑی میں بٹھایا او ر اپنی رہائش گاہ جاتے ہوئے مجھے کچہری بازار کے باہر اتار دیا۔ میں کچہری بازار میں پہلے ’’غریب‘‘ کے دفتر گیا، رپورٹ مرتب کی، نیوز ایڈیٹر جناب لطیف آذر کے سپرد کی اور اس کی ایک نقل لے کر کچہری بازار کے اس حصے میں چلا گیا جہاں گھنٹہ گھر کے قریب جہانگیر مُرغ پلاؤ کے سامنے ایک دوکان کی بالائی منزل پر ’’سعادت‘‘ کا بورڈ دکھائی دے رہا تھا۔ میں سیڑھیاں چڑھ کر ’’سعادت‘‘ کے دفتر میں پہنچا جہاں ایک فرشی نشست پر سیفی صاحب تشریف فرما تھے، مجھے بعد میں پتہ چلا کہ سیفی صاحب خوشنویس بھی ہیں اور یہ نشست گاہ خوش نویسی میں اُن کے اُستاد صاحب کی ہے اور جب اُستاد دفتر میں موجود ہوں تو سیفی صاحب میز کُرسی استعمال نہیں کرتے بلکہ اپنے اُستاد کے احترام میں فرشی نشست پر اُن کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ میں نے سیفی صاحب سے اپنا تعارف کرایا اور چوہدری عزیزالدین کے ساتھ انٹرویو کی خبر اُن کے حوالے کی اور یہ بھی بتایا کہ چوہدری عزیزالدین کی خواہش ہے کہ یہ انٹر ویو ’’سعادت‘‘ میں بھی شائع ہو۔ جناب ناسخ سیفی نے انٹرویو پڑھا اور بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ ’’مجھے تم جیسے آدمی کی اپنے دفتر میں ضرورت ہے‘‘ یہ سیفی صاحب سے میرا باقاعدہ تعارف تھا۔
ناسخ سیفی جو اُس وقت بے ریش تھے اور قمیض پینٹ زیب تن کرتے تھے، 1965ء میں فریضۂ حج ادا کرنے کے بعد باریش ہوگئے اور قمیض شلوار، اچکن یا واسکٹ کے ساتھ پہننے لگے۔ مسلم لیگ کی طرف اُن کے اخبار کا جھکاؤ جاری رہا بعد میں وہ جمعیت علمائے پاکستان کی طرف بھی راغب ہوگئے اور ان کے اخبار میں مختلف شعراء کرام کا نعتیہ کلام بڑے اہتمام سے شائع ہونے لگا۔ ناسخ سیفی اپنے اخبار میں مختلف موضوعات پر مقالہ خصوصی شائع کرتے تھے یہ دو کالموں میں ہوتا تھا اور اس کے آخر میں سیفی صاحب کا نام لکھا ہوتا تھا۔ جمعیت علمائے پاکستان کی ہم نوائی کے دور میں اُنہوں نے جو مقالات سپردِ قلم کئے اُن میں اسلامی نظام یا نظامِ شریعت کے لئے نظامِ مصطفی کی اصطلاح استعمال کی جو اصطلاح بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف انتخابی بدعنوانیوں کی پاداش میں چلائی گئی، عوامی تحریک کا سرِ عنوان بن گئی اور یہ تحریک نظامِ مصطفی کہلائی۔
1958 ء میں جب میں ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لائل پور چلا آیا تو ناسخ سیفی صاحب سے کسی نہ کسی تقریب میں ملاقات ہوجاتی تھی وہ بہت بااخلاق، نرم خُو اور دینی رُجحان کے حامل صحافی تھے۔ 1965ء میں جب پاکستان (مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں) کے ایڈیٹروں کا ایک وفد سعودی عرب کے دورے پر گیا تو جناب ناسخ سیفی کے ساتھ مصطفی صادق بھی وفد میں شامل تھے۔ مصطفی صادق نے بتایا کہ جب مکہ مکرمہ میں بارانِ رحمت ہوتی تھی تو جناب ناسخ سیفی میزابِ رحمت کے نیچے چلے جاتے تھے بارش کا پانی ان کے گنجے سر پر پڑتا جس سے سیفی صاحب بہت لطف اندوز ہوتے۔
میں نے اگست 1980ء میں جب روزنامہ ’’وفاق‘‘ سے الگ ہوکر -14 ایبٹ روڈ سے ’’تجارت‘‘ کا اجراء کیا تو ان کے اخبار ’’سعادت‘‘ کا دفتر پہلے میکلوڈ روڈ اور پھر کُوپر روڈ پر رہا، ایک مرتبہ اُنہوں نے مجھے بہت دلچسپ فون کیا، فرمانے لگے، ’’جمیل ! بڑی پریشانی کی بات ہے آج ویج بورڈ کے چیئرمین کے سامنے میری پیشی تھی۔ اچانک چیئرمین صاحب نے فرمایا کہ میں کل گیارہ بجے ’’سعادت‘‘ کے دفتر آؤں گا۔ اب کیا کیا جائے میں نے تو دوباتیں سوچی ہیں، ایک یہ کہ اخبار میں اعلان تعطیل شائع کردوں تاکہ نہ کل دفتر میں سٹاف ہو اور نہ کوئی مسئلہ پیدا ہو، دوسرا حل یہ ہے کہ جب چیئرمین صاحب تشریف لائیں تو نماز کی نیت باندھ لوں اور جب تک وہ دفتر سے چلے نہ جائیں سلام نہ پھیروں‘‘ اس کے ساتھ ہی قہقہے لگاتے ہوئے اُنہوں نے ٹیلی فون بند کردیا۔
جب ’’تجارت‘‘ ’’وفاق‘‘ سے الگ ہوکر شائع ہونے لگا تو چند ماہ بعد اس کی ضخامت چار صفحات سے بڑھاکر چھ صفحات کردی گئی اور ہفتہ میں ایک روز بچوں کا صفحہ بھی شائع ہونے لگا اس صفحہ کا نام ’’بچوں کا تجارت‘‘ رکھا گیا۔ یہ صفحہ سیفی صاحب کی نظر سے گذرا، اُنہوں نے ایک خط کے ذریعے ’’تجارت‘‘ کے نئے دورپر مبارک باد دی اور بچوں کے صفحہ کی اشاعت پر خاص طور پر خوشی ظاہر کی اور خط کے آخر میں لکھا کہ اگر ’’بچوں کا تجارت‘‘ کی بجائے اس صفحہ کا نام ’’بچوں کی تجارت‘‘ کردیا جائے تو یہ مشرق وسطیٰ میں بھی دلچسپی سے پڑھا جائے گا۔
ناسخ سیفی لائل پور سے شائع ہونے والے روزانہ اخبارات میں سب سے پُرانے اخبار کے مدیر و مالک تھے، اُنہوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں قائد اعظم کا ساتھ دیا، بانئ پاکستان نے اُن کی خدمات کا اعتراف کیا۔ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ نے اُنہیں بعد ازمرگ گولڈ میڈل سے نوازا۔ وہ مدیروں کی جماعت ، کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) اور ناشروں کی جماعت آل پاکستان نیوز پیپرزسوسائٹی (اے پی این ایس) کی سرگرمیوں میں بھی فعال رہے، وفات کے بعد اُنہیں کمالیہ میں اُن کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔