ناقدین کی خدمت میں … خورشید ندیم
ایک عزیزدوست نے مجھے چندتحریریں بھجوائی ہیں۔سوشل میڈیا پر اِن کی تشہیرِ عام کی جا رہی ہے۔انہیں کسی مہربان نے میرے کالموں کے اقتباسات کی مددسے مرتب کیا اور اپنے تئیں ثابت کیا ہے کہ میں تضاد بیانی کا مرتکب ہواہوں۔عمران خان کے لیے میرا معیار ایک ہے اور نوازشریف کے لیے دوسرا۔میرامقصودفکری بحث نہیں بلکہ نوازشریف کا دفاع ہے۔
یہ نہ ختم ہو نے والی ایک بحث ہے ۔ میں اگراس کے رد کی کوشش کروں گا تو مجھے معلوم ہے کہ کچھ نئی باتیں سامنے آ جائیں گی۔میرا شمار تو ہر طرح سے اصاغر میں ہو تا ہے،یہ بحثیں تو اکابر کے بارے میں نتیجہ خیز نہیں ہوئیں،اس لیے مناسب یہی ہو تا ہے کہ اپنے دفاع پر وقت ضائع کرنے کے بجائے، فیصلہ لوگوں پر چھوڑ دیا جائے۔تاہم بعض اوقات خیال ہوتا ہے کہ حالات میں شتابی کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کے باعث، لکھاری اور قاری کے مابین ایک نظری بُعد پیدا ہو جا تا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں تبدیلیوں سے ایک طرح کا اثر قبول نہیں کرتے۔ایک ذہن سرعت کے ساتھ آگے بڑھ جاتا ا وردوسرا پیچھے رہ جا تا ہے۔آگے نکلنے والا قاری ہوسکتا ہے اور لکھاری بھی۔اس لیے کبھی کبھی اس فاصلے کو ختم کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
میں نے ان تحریروں کو بغور پڑھا کہ اگر یہ امرِ واقعہ ہے تو مجھے اس تضاد کو دور کرنا چاہیے۔ تاہم مجھے یقین ہوا کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ معاملہ تفہیم کا ہے۔اگر یہ مہربان میری بات کو قدرے دقتِ نظر سے پڑھتے تو اس میں کہیں تضاد نہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ میں اپنی بات پوری طرح سمجھا نہیں سکا۔میں اپنا یہ موقف نکات کی صورت میں ایک مرتبہ پھر دہرا رہا ہوں تاکہ اگر مسئلہ تفہیم کا ہے تو حل ہو جائے:
1۔عمران خان نے ایک منتخب آئینی حکومت کو گرانے کے لیے ایک طرزِ عمل اختیار کیا جو میرے نزدیک شرعاً،اخلاقاً اور قانوناً غلط تھا۔اس کا آغاز دھرنے سے ہوااور اس کا نقطہ کمال اسلام آباد کے گھیراؤ یا حکومت کو غیر فعال کرنے کی ناکام کوشش تھی۔اس کی مخالفت میرے نزدیک ہر آئین پسند کی اخلاقی ذمہ داری تھی۔
2۔عمران خان صاحب اگرنوازشریف یا حکومت پر کرپشن یا کسی غیر قانونی اقدام کا کوئی الزام لگاتے ہیںتو انہیں یہ الزام عدالت میں ثابت کرنا چاہیے۔پھر عدالت کا حکم سب کو ماننا چاہیے۔
3۔ عمران خان اگر مثبت سیاست کرتے،کے پی کو ایک مثالی صوبہ بنانے کے ساتھ ، وہ پارلیمنٹ میں انتخابی اصلاحات اور دوسرے اہم امور پراپنا کردار ادا کرتے تو وہ اس قوم کو ایک متبادل قیادت فراہم کر سکتے تھے۔عمران خان کا اصل جرم یہ ہے کہ انہوں نے قوم کو متبادل قیادت سے محروم کر دیا۔
4۔ نوازشریف صاحب پر پاناما لیکس کا جو مقدمہ قائم ہے،اس پر عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے اور سب کو یہ فیصلہ قبول کرنا چاہیے۔
5۔ نوازشریف صاحب کے خلاف جے آئی ٹی کی تشکیل جس طرح ہوئی،اُس نے انصاف کا معاملہ مشتبہ کر دیا۔بطورِ خاص وٹس ایپ کے ذریعے ارکان کاانتخاب،اسے خفیہ رکھنے کی کوشش،معاملہ سامنے آنے پر پراسرا خاموشی اور اس میں آئی ایس آئی اورایم آئی کی شمولیت سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے۔اس عمل کو شفاف ہو نا چاہیے تھا۔
6۔ جے آئی ٹی کی تفتیش سے یہ تاثر بھی ملا کہ اس نے نوازشریف خاندان کومجرم ثابت کر نے کے لیے دلائل جمع کیے۔ہر اُس شہادت کودر خودا عتنا نہیں سمجھا جس سے انہیں فائدہ پہنچ سکتا تھا۔یہ بھی مناسب طرزِ عمل نہیں تھا۔جے آئی ٹی کا کام کسی کو مجرم ثابت کرنا نہیں بلکہ امرِواقعہ کی تحقیق تھا۔
7۔جے آئی ٹی نے مختصر وقت میں جتنا کام کیا، جتنی معلومات جمع کیں، جتنا وقت ٹی وی دیکھنے اور اخبارات پڑھنے میں صرف کیا اور اسے مرتب صورت میں دس جلدوں میں پیش کر دیا،یہ ممکن نہیں کہ اسے چھ افراد کی محنت کا حاصل سمجھا جا ئے۔میرے لیے یہ قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ یہ کام ایک یا کئی اداروں کی برسوں کی ریاضت کا نتیجہ ہے۔افراد کی محدودیت کے باعث ، ابتدامیں یہ کہا گیا کہ چھ افراد کے لیے اس مختصروقت میں تحقیق کا حق ادا کرناممکن نہیں ہو گا۔جب دس جلدوں کا انبار سامنے آیا تواس کے حجم نے، میرے نزدیک، ابتدائی تاثر کی تصدیق کر دی۔
8۔ قطع نظر اس بات کے کہ یہ معلومات کیسے جمع ہوئیں، اب سب کے سامنے ہیں۔اب ان کی صحت پر بات ہوگی۔جے آئی ٹی کی رپورٹ پر حتمی رائے سپریم کورٹ دے گی۔اس کی روشنی میں پاناما لیکس کا جو فیصلہ ہوگا وہ نافذ ہو جائے گاا ور سب فریق اس کو ماننے کے پابند ہیں۔اختلاف کا حق قانوناً باقی رہتا ہے۔
9۔ سیاسی عمل ،عدالتی فیصلے کے تابع نہیں ہو تا۔اس کا اپنا فطری بہاؤ ہے۔سماجیات اور دین کا سماجی شعور رکھنے والے جانتے ہیں کہ جب کسی فرد کو معاشرے میں سیاسی عصبیت حاصل ہو جاتی ہے تواس کے خلاف قانون اس طرح متحرک نہیں ہو سکتا جس طرح عام حالات میں یا کسی ایسے فرد کے خلاف ہوتا ہے جسے کوئی عصبیت حاصل نہیں۔ ایسا کوئی فیصلہ اگر نافذ ہو جائے تو بھی نہ صرف مطلوبہ نتائج کا حامل نہیں ہوتابلکہ اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ وہ مزید خرابی کا باعث بنے۔تاریخ میں اس کے شواہد مو جود ہیں۔ میں نے بہت سی ایسی تاریخی شہادتوں کا ذکر بھی کیا۔اگر یہ فیصلہ کسی اور منصوبے کی دھند میں لپٹا ہوا ہو تویہ ملک وقوم کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔
10۔نوازشریف صاحب کو یہ حق ہے کہ وہ اپنا مقدمہ عدالت کے ساتھ،عوام اور میڈیا کے سامنے بھی رکھیں۔سیاسی فیصلہ عوامی عدالت کرے گی جو انتخابات کی صورت میں لگے گی۔میں یہ بات عمران خان کے بارے میں بھی مسلسل لکھتا رہا ہوں کہ ان کو یہ حق ہے کہ وہ اپنا مقدمہ پارلیمنٹ اور میڈیا میں پیش کریں۔وہ اس کے لیے جلسے بھی کر سکتے ہیں۔ابلاغ کے آئینی ذرائع کی موجود گی میں احتجاج یا نظام کو تلپٹ کرنا مناسب نہیں۔
11۔ سیاست،سماج کی عمومی اخلاقی حالت کا پرتو ہوتی ہے۔یہ مقدمہ درست نہیں کہ اہلِ اقتدار کی تبدیلی سے سماج تبدیل ہو جاتے ہیں۔یہ تدریجی عمل ہے اور صرف جمہوری نظام کا تسلسل ہی اس تدریج کی ضمانت ہے۔
12۔ پاکستان میں عملاً ایک ہی جماعت ہے جو تین دھڑوں میں متقسم ہے:ن لیگ، پیپلزپارٹی اور تحریک ِانصاف۔انتخاب محض ترجیح کا ہے۔ اگر اختلاف ا ور بحث اس دائرے میں ہو تو سماج میں انتہاپسندی پیدا نہیں ہو تی۔ہیجان کی فضا میں رومان پروری ہوتی ہے جو معاشرے کو فرشتوں اور شیطانوںمیں منقسم کر دیتی ہے۔چونکہ یہ ایک غیر حقیقی تقسیم ہے،اس لیے اس بنیاد پر استوار حکمتِ عملی کے نتائج بھی حسبِ خواہش نہیں نکلتے۔اس سے مایوسی پیدا ہوتی ہے۔
میں نے مو جودہ سیاسی حالات پر اپنے کالموں میں جو کچھ لکھا ،وہ انہی نکات کے گرد گھومتا ہے۔میں نہیں سمجھ سکا کہ اس میں تضاد کہاں ہے؟ اس سے کہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ مقصود فکری بحث نہیں بلکہ نوازشریف کو بچا نا ہے۔موقف میں تضاد اگر دانستہ ہے تو اخلاقی اور نا دانستہ ہے تو نظری کمزوری کا اظہار ہے۔پہلی صورت میں دیانت مشتبہ ہوجاتی ہے اور دسری میں بصیرت۔دونوں باتوں سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔
یہ معاملہ چونکہ دلیل اور استدلال کا ہے،اس لیے میں نے اپنا موقف بیان کر دیا۔میں نے صرف یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس موقف میں تضاد نہیں ہے۔موقف کی صحت کے بارے میں البتہ دو آرا ہو سکتی ہیں۔ کچھ باتیں لوگ گمان کی بنیاد پر کرتے ہیںجن کا تعلق اخلاقیات سے ہے۔گمان کا رد دلیل سے نہیںہو سکتا،اس لیے میں ایسے معاملات میں خاموشی اختیار کر تاہوں۔کوئی دعویٰ نہیں کرتا۔اپنے پروردگار کے سامنے حاضر ی پریقین رکھتا اور اس سے درگزر، مغفرت اوررحم کا طلب گار رہتا ہوں۔